پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے چیف جسٹس
ہم ایک کام کہتے ہیں وہ بھی پنجاب حکومت سے نہیں ہوتا، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے اور ہم ایک کام کہتے ہیں وہ بھی پنجاب حکومت سے نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ اسپتال کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر ڈاکٹر سعید اختر نے عدالت کو بتایا کہ میں نے پی کے ایل آئی سے کوئی تنخواہ نہیں لی، ہم نے 21 کڈنی ٹرانسپلانٹ کئے ہیں اور کینسر کے علاج بھی کئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گردوں کے آپریشن تو دوسری جگہوں پر بھی ہو رہے ہیں، بنیادی طور پر یہ لیور کا ٹرانسپلانٹ تھا، آپریشن تھیٹر فعال نہیں ہے، 34 ارب روپے میں 5 اسپتال بن جاتے ہیں، یہاں 22 ارب روپے لگا دیئے لیکن لیور ٹرنسپلانٹ کا ایک آپریشن نہیں ہوا۔ ایک بچے کا آپریشن نہیں ہوا جبکہ ڈونر بھی موجود تھا۔ کام ایک نہیں ہوا اور اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں چلے گئے۔ 22 ارب روپے کا جوابدہ کون ہے؟
جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ ہمیں یہ سمجھائیں کہ پی کے ایل آئی کے لئے ٹرسٹ کی ضرورت کیا ہے، ٹرسٹ تو ایک خاص تعلق کی وجہ سے سابق وزیر اعلی نے بنایا تھا،کیا ٹرسٹ نے کبھی اپنا مالی حصہ ڈالا ہے؟، جس پر ممبر بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ ٹرسٹ نے 165 ملین فنڈز کا حصہ ڈالا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پرپوچھا تھا ٹرسٹ کا کیا کرنا ہے،22 ارب روپے خرچ کر دیئے ساری رقم ایک ٹرسٹ کو دے دی، دو مرتبہ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا یہ قانون تبدیل کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کو رہنا چاہیے یا نہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ کو مکمل پروپوزل بنا کر بھیجی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے پنجاب حکومت پراظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے، ہم ایک کام کہتے ہیں وہ بھی پنجاب حکومت سے نہیں ہوتا،پنجاب میں ہیلتھ کیئر کے سارے کام رکے ہوئے ہیں، ابھی تک ہیلتھ کیئر بورڈ نہیں بنا اور بات کرو تو سرخیاں لگ جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی کی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ اسپتال کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر ڈاکٹر سعید اختر نے عدالت کو بتایا کہ میں نے پی کے ایل آئی سے کوئی تنخواہ نہیں لی، ہم نے 21 کڈنی ٹرانسپلانٹ کئے ہیں اور کینسر کے علاج بھی کئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گردوں کے آپریشن تو دوسری جگہوں پر بھی ہو رہے ہیں، بنیادی طور پر یہ لیور کا ٹرانسپلانٹ تھا، آپریشن تھیٹر فعال نہیں ہے، 34 ارب روپے میں 5 اسپتال بن جاتے ہیں، یہاں 22 ارب روپے لگا دیئے لیکن لیور ٹرنسپلانٹ کا ایک آپریشن نہیں ہوا۔ ایک بچے کا آپریشن نہیں ہوا جبکہ ڈونر بھی موجود تھا۔ کام ایک نہیں ہوا اور اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں چلے گئے۔ 22 ارب روپے کا جوابدہ کون ہے؟
جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ ہمیں یہ سمجھائیں کہ پی کے ایل آئی کے لئے ٹرسٹ کی ضرورت کیا ہے، ٹرسٹ تو ایک خاص تعلق کی وجہ سے سابق وزیر اعلی نے بنایا تھا،کیا ٹرسٹ نے کبھی اپنا مالی حصہ ڈالا ہے؟، جس پر ممبر بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ ٹرسٹ نے 165 ملین فنڈز کا حصہ ڈالا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پرپوچھا تھا ٹرسٹ کا کیا کرنا ہے،22 ارب روپے خرچ کر دیئے ساری رقم ایک ٹرسٹ کو دے دی، دو مرتبہ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا یہ قانون تبدیل کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کو رہنا چاہیے یا نہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ کو مکمل پروپوزل بنا کر بھیجی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے پنجاب حکومت پراظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے، ہم ایک کام کہتے ہیں وہ بھی پنجاب حکومت سے نہیں ہوتا،پنجاب میں ہیلتھ کیئر کے سارے کام رکے ہوئے ہیں، ابھی تک ہیلتھ کیئر بورڈ نہیں بنا اور بات کرو تو سرخیاں لگ جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے پی کے ایل آئی کی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے کا حکم دے دیا۔