بھٹو سے منسلک میری یادیں
باہر روڈ پر کھڑے ہم لوگ ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں سے بنے ہوئے ہار تھامے کھڑے تھے۔
انسان کی یہ فطرت ہے کہ بچپن سے لے کر جوان ہونے تک ماں باپ، بہن بھائی، ٹیچرز اور اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور پھر اپنی طبیعت اور مزاج میں کسی شخصیت کو بٹھا دیتا ہے اور اس شخصیت کو فالوکرتا ہے جس میں اسے اپنی پسند کی خصوصیات نظر آتی ہیں۔ میں بھی لاڑکانہ میں رہتا تھا اور اب بھی اس شہر سے کئی یادیں وابستہ ہیں جس میں مجھے ایک سیاسی شخصیت سے عقیدت اور لگاؤ ہوگیا کہ وہ آج بھی میرے دل و دماغ میں اس کی یادیں اور کام رچا بسا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنھیں میں نے پہلی مرتبہ دیکھا جب وہ ایوب خان کی کیبنیٹ سے وزیر خارجہ کے عہدے سے استعفیٰ دے کر لاڑکانہ آئے تھے۔
ایک شام کو ہم لوگوں کو لاڑکانہ دڑی محلہ میں واقعہ لال بنگلے کے مالک شفیع محمد شاہ نے بلوایا کہ ان کے پاس ذوالفقار علی بھٹو دعوت پر آرہے ہیں اور تمہیں ان کا استقبال کرنا ہے۔ یہ بات سن کر میں بہت خوش تھا۔ باہر روڈ پر کھڑے ہم لوگ ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں سے بنے ہوئے ہار تھامے کھڑے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم نے دیکھا کہ ایک خوبرو قدآور شخصیت شلوار قمیض میں ملبوس گاڑی سے مسکراتے ہوئے اترے تو ہمارے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس سے پہلے کہ وہ ہماری طرف آتے ہم ان کی طرف لپکے۔ بھٹو صاحب نے جھک کر مجھے اور میرے ساتھ باقی بچوں کو پیار کیا اور سر کو نیچے جھکایا تاکہ ہم لوگ پھولوں کے ہار انھیں پہناسکیں۔ اس موقع پر شہر اور محلے کے کافی لوگ اور شخصیات شامل تھیں۔ انھوں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور سب سے الگ الگ گلے ملے اور مصافحہ کیا۔
اس موقع پر شفیع محمد شاہ جو میزبان تھے انھوں نے گلوکار مہدی حسن کو بھی مدعو کیا تھا کیونکہ بھٹو صاحب صاحب موسیقی کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے اور اس میں انھیں طلعت محمود اور دوسرے گلوکاروں کی غزلیں بے حد پسند تھیں جس میں مہدی حسن بھی شامل تھے۔ میری نظر صرف بھٹو صاحب کی بات کرنے کا انداز، کھانے کا اسٹائل اور گفتگو اور اس میں استعمال ہونے والے لفظوں ہی کی طرف رہی۔ کھانے کا انتظام بھی تھا۔ بھٹو صاحب نے صرف خشک دو قتلے گرلڈ گوشت کے اٹھائے اور انھیں پلیٹ میں رکھ کر کھانے لگے جب کہاس سے پہلے چائے کے ساتھ ان کے آگے ڈرائی فروٹ رکھا گیا تھا جس میں سے انھوں نے صرف کاجو کے چند ٹکڑے اٹھا کر کھائے اور چائے پی۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ ہم لاڑکانہ شہر سے 30 میل دور ایک گاؤں دڑا میں گئے جہاں ہر تقریر کے دوران ایک بوڑھا شخص بھٹو صاحب کو ایک کاغذ بار بار دکھا رہے تھے۔ بھٹو صاحب کی عادت تھی کہ وہ تقریر کے دوران بھی چاروں طرف دیکھتے تھے، بھٹو صاحب نے اس بزرگ کو اپنے پاس بلایا اور اور کہا کہ بابا کیا مسئلہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ میری زمین پر کچھ بااثر لوگوں نے قبضہ کیا ہے اسے خالی کروا دو۔ بھٹو صاحب نے اس بزرگ سے وعدہ کیا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو ان کے پاس ضرور آنا۔ جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے اور ملک کے صدر بنے تو سرکٹ ہاؤس میں وہی بوڑھا شخص وہی درخواست دور دور سے ہلا رہے تھے تو بھٹو صاحب کی اس پر نظر ٹھہر گئی۔ انھوں نے مائیک پر اس بزرگ کو اس کے نام سے پکارا اور کہا کہ تمہاری زمین پر قبضے کا مسئلہ میں ابھی حل کرتا ہوں اور پولیس کو کہا کہ اس شخص کو باعزت طریقے سے اسٹیج پر لے آؤ اور ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ اس کا کام آج، ابھی کرکے مجھے اطلاع دو۔
ہم جب المرتضیٰ ہاؤس میں الیکشن کے کام سے جاتے تھے تو اکثر بھٹو صاحب کو دیکھتے اور ملتے تھے مگر وہ اتنے مصروف ہوتے تھے کہ ہم بولتے تھے کہ یار! بھٹو صاحب تو ہمیں پہچان ہی نہیں رہے ہیں مگر جب کام پڑتا تھا تو بھٹو صاحب ہر ایک کو نام سے بلاکر کام کہتے تھے۔ وہ ایمان داری کے معاملے میں بہت سخت اور محتاط تھے اور جب بھی المرتضیٰ ہاؤس آتے تھے تو سب سے پہلے منشی کو بلاکر کہتے تھے کہ وہ انھیں بل دکھائے کہ تم نے پیسے پے کیے یا نہیں۔ ایک مرتبہ کوئی بجلی کا بل ان سے رہ گیا تھا تو بھٹو صاحب نے اسی وقت پیسے دے کر پیمنٹ کروائی اور بل کو فائل کردیا۔
بھٹو صاحب جب بھی لاڑکانہ آتے تو کسی نہ کسی ترقیاتی اسکیم کا افتتاح کرتے تھے اور جب انھیں کہا جاتا تھا کہ اس کام کو شروع کرنے میں کچھ وقت لگے گا تو بھٹو صاحب کہتے تھے کہ کام آج ہی سے شروع ہوگا پیسے کل مل جائیں گے اور باقی کارروائی چلتی رہے گی۔ وہ ترقیاتی کام کروا کے بھول نہیں جاتے اس کو دیکھنے کے لیے اچانک آجاتے تھے اور اس کا معیار چیک کرنے کے لیے خود سامنے کھڑے ہوکر دیکھتے تھے۔ عوام کی محبت یہ ہے کہ جب بھٹو صاحب اسلام آباد میں اسمبلی کے سیشن میں موجود تھے تو انھیں پتہ چلا کہ لاڑکانہ کی جھگیوں والی بستی میں آگ لگ گئی ہے جس سے لوگوں کی بستی جل کر راکھ ہوگئی ہے تو وہ وہاں سے لاڑکانہ پہنچ گئے، لوگوں سے ملے انھیں تسلی دی اور حکم دیا کہ وہاں پر کل سے پکی بستی حکومت کی طرف سے بنائی جائے اور تب تک لوگوں کے رہنے، کھانے اور دوسری سہولتوں کا انتظام کیا جائے۔
جب کام چل رہا تھا اور لوگوں کو کھانا مہیا کیا جارہا تھا کہ اچانک بھٹو صاحب آگئے اور کہا کہ لوگوں کو کیا کھلایا جارہا ہے تو وہاں پر کام پر مامور پارٹی کے لوگوں اور افسران نے کہا کہ گوشت کا پلاؤ ہے تو بھٹو صاحب نے کہا ویری گڈ، مگر دو قدم چل کر انھوں نے واپس آکر دیگ کا ڈھکنا اٹھایا تو اس میں گڑ میں پکے ہوئے چاول دیکھے جس پر سب کی بڑی بے عزتی کی اور کہا کہ اگر آیندہ اس قسم کی نااہلی اور جھوٹ دیکھا تو پھر کوئی بھی سزا سے بچ نہیں پائے گا۔ اس لیے بھٹو صاحب کے لیے مشہور تھا کہ وہ اپنے وعدے کے پکے ہیں اور کسی کام کو کرکے چھوڑ نہیں دیتے اس لیے سب چوکس رہتے تھے۔
میں نے آخری بار بھٹو صاحب کو اس وقت لاڑکانہ میں دیکھا جب انھیں گرفتار کرنے سے ایک دن پہلے وہ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرکے اچانک لاڑکانہ شہر کا چکر لگانے نکلے تھے۔ وہ کالی رات بھی ہم نہیں بھولے جب بھٹو صاحب کو گرفتار کرکے اس کی حکومت کو ضیاء الحق نے ختم کرکے قبضہ کیا اور پھر جھوٹے قتل کے کیس میں پھانسی چڑھا دیا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بھٹو تو امر ہوگیا وہ ڈکٹیٹر ختم ہوگیا ، بھٹو صاحب کے مزار پر روزانہ ہزاروں لوگ قل پڑھتے رہتے ہیں جس کا ثواب انھیں تاقیامت ملتا رہے گا۔ میں آج تک اس صحافی کو بھی نہیں بھولا جو بھٹو صاحب کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹتا پھرتا تھا۔ ہم لوگ تو بھٹو صاحب کی جدائی میں کئی دن تک روتے رہے، کھانا بھی نہیں کھایا مگر پھر خیال آیا کہ شہید زندہ ہوتے ہیں ان کے لیے نہیں روتے۔ یہ صحیح ہے وہ آج بھی ہر گھر، ہر دل میں رہتا ہے۔
ایک شام کو ہم لوگوں کو لاڑکانہ دڑی محلہ میں واقعہ لال بنگلے کے مالک شفیع محمد شاہ نے بلوایا کہ ان کے پاس ذوالفقار علی بھٹو دعوت پر آرہے ہیں اور تمہیں ان کا استقبال کرنا ہے۔ یہ بات سن کر میں بہت خوش تھا۔ باہر روڈ پر کھڑے ہم لوگ ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں سے بنے ہوئے ہار تھامے کھڑے تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم نے دیکھا کہ ایک خوبرو قدآور شخصیت شلوار قمیض میں ملبوس گاڑی سے مسکراتے ہوئے اترے تو ہمارے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس سے پہلے کہ وہ ہماری طرف آتے ہم ان کی طرف لپکے۔ بھٹو صاحب نے جھک کر مجھے اور میرے ساتھ باقی بچوں کو پیار کیا اور سر کو نیچے جھکایا تاکہ ہم لوگ پھولوں کے ہار انھیں پہناسکیں۔ اس موقع پر شہر اور محلے کے کافی لوگ اور شخصیات شامل تھیں۔ انھوں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور سب سے الگ الگ گلے ملے اور مصافحہ کیا۔
اس موقع پر شفیع محمد شاہ جو میزبان تھے انھوں نے گلوکار مہدی حسن کو بھی مدعو کیا تھا کیونکہ بھٹو صاحب صاحب موسیقی کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے اور اس میں انھیں طلعت محمود اور دوسرے گلوکاروں کی غزلیں بے حد پسند تھیں جس میں مہدی حسن بھی شامل تھے۔ میری نظر صرف بھٹو صاحب کی بات کرنے کا انداز، کھانے کا اسٹائل اور گفتگو اور اس میں استعمال ہونے والے لفظوں ہی کی طرف رہی۔ کھانے کا انتظام بھی تھا۔ بھٹو صاحب نے صرف خشک دو قتلے گرلڈ گوشت کے اٹھائے اور انھیں پلیٹ میں رکھ کر کھانے لگے جب کہاس سے پہلے چائے کے ساتھ ان کے آگے ڈرائی فروٹ رکھا گیا تھا جس میں سے انھوں نے صرف کاجو کے چند ٹکڑے اٹھا کر کھائے اور چائے پی۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ ہم لاڑکانہ شہر سے 30 میل دور ایک گاؤں دڑا میں گئے جہاں ہر تقریر کے دوران ایک بوڑھا شخص بھٹو صاحب کو ایک کاغذ بار بار دکھا رہے تھے۔ بھٹو صاحب کی عادت تھی کہ وہ تقریر کے دوران بھی چاروں طرف دیکھتے تھے، بھٹو صاحب نے اس بزرگ کو اپنے پاس بلایا اور اور کہا کہ بابا کیا مسئلہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ میری زمین پر کچھ بااثر لوگوں نے قبضہ کیا ہے اسے خالی کروا دو۔ بھٹو صاحب نے اس بزرگ سے وعدہ کیا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو ان کے پاس ضرور آنا۔ جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے اور ملک کے صدر بنے تو سرکٹ ہاؤس میں وہی بوڑھا شخص وہی درخواست دور دور سے ہلا رہے تھے تو بھٹو صاحب کی اس پر نظر ٹھہر گئی۔ انھوں نے مائیک پر اس بزرگ کو اس کے نام سے پکارا اور کہا کہ تمہاری زمین پر قبضے کا مسئلہ میں ابھی حل کرتا ہوں اور پولیس کو کہا کہ اس شخص کو باعزت طریقے سے اسٹیج پر لے آؤ اور ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ اس کا کام آج، ابھی کرکے مجھے اطلاع دو۔
ہم جب المرتضیٰ ہاؤس میں الیکشن کے کام سے جاتے تھے تو اکثر بھٹو صاحب کو دیکھتے اور ملتے تھے مگر وہ اتنے مصروف ہوتے تھے کہ ہم بولتے تھے کہ یار! بھٹو صاحب تو ہمیں پہچان ہی نہیں رہے ہیں مگر جب کام پڑتا تھا تو بھٹو صاحب ہر ایک کو نام سے بلاکر کام کہتے تھے۔ وہ ایمان داری کے معاملے میں بہت سخت اور محتاط تھے اور جب بھی المرتضیٰ ہاؤس آتے تھے تو سب سے پہلے منشی کو بلاکر کہتے تھے کہ وہ انھیں بل دکھائے کہ تم نے پیسے پے کیے یا نہیں۔ ایک مرتبہ کوئی بجلی کا بل ان سے رہ گیا تھا تو بھٹو صاحب نے اسی وقت پیسے دے کر پیمنٹ کروائی اور بل کو فائل کردیا۔
بھٹو صاحب جب بھی لاڑکانہ آتے تو کسی نہ کسی ترقیاتی اسکیم کا افتتاح کرتے تھے اور جب انھیں کہا جاتا تھا کہ اس کام کو شروع کرنے میں کچھ وقت لگے گا تو بھٹو صاحب کہتے تھے کہ کام آج ہی سے شروع ہوگا پیسے کل مل جائیں گے اور باقی کارروائی چلتی رہے گی۔ وہ ترقیاتی کام کروا کے بھول نہیں جاتے اس کو دیکھنے کے لیے اچانک آجاتے تھے اور اس کا معیار چیک کرنے کے لیے خود سامنے کھڑے ہوکر دیکھتے تھے۔ عوام کی محبت یہ ہے کہ جب بھٹو صاحب اسلام آباد میں اسمبلی کے سیشن میں موجود تھے تو انھیں پتہ چلا کہ لاڑکانہ کی جھگیوں والی بستی میں آگ لگ گئی ہے جس سے لوگوں کی بستی جل کر راکھ ہوگئی ہے تو وہ وہاں سے لاڑکانہ پہنچ گئے، لوگوں سے ملے انھیں تسلی دی اور حکم دیا کہ وہاں پر کل سے پکی بستی حکومت کی طرف سے بنائی جائے اور تب تک لوگوں کے رہنے، کھانے اور دوسری سہولتوں کا انتظام کیا جائے۔
جب کام چل رہا تھا اور لوگوں کو کھانا مہیا کیا جارہا تھا کہ اچانک بھٹو صاحب آگئے اور کہا کہ لوگوں کو کیا کھلایا جارہا ہے تو وہاں پر کام پر مامور پارٹی کے لوگوں اور افسران نے کہا کہ گوشت کا پلاؤ ہے تو بھٹو صاحب نے کہا ویری گڈ، مگر دو قدم چل کر انھوں نے واپس آکر دیگ کا ڈھکنا اٹھایا تو اس میں گڑ میں پکے ہوئے چاول دیکھے جس پر سب کی بڑی بے عزتی کی اور کہا کہ اگر آیندہ اس قسم کی نااہلی اور جھوٹ دیکھا تو پھر کوئی بھی سزا سے بچ نہیں پائے گا۔ اس لیے بھٹو صاحب کے لیے مشہور تھا کہ وہ اپنے وعدے کے پکے ہیں اور کسی کام کو کرکے چھوڑ نہیں دیتے اس لیے سب چوکس رہتے تھے۔
میں نے آخری بار بھٹو صاحب کو اس وقت لاڑکانہ میں دیکھا جب انھیں گرفتار کرنے سے ایک دن پہلے وہ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرکے اچانک لاڑکانہ شہر کا چکر لگانے نکلے تھے۔ وہ کالی رات بھی ہم نہیں بھولے جب بھٹو صاحب کو گرفتار کرکے اس کی حکومت کو ضیاء الحق نے ختم کرکے قبضہ کیا اور پھر جھوٹے قتل کے کیس میں پھانسی چڑھا دیا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ بھٹو تو امر ہوگیا وہ ڈکٹیٹر ختم ہوگیا ، بھٹو صاحب کے مزار پر روزانہ ہزاروں لوگ قل پڑھتے رہتے ہیں جس کا ثواب انھیں تاقیامت ملتا رہے گا۔ میں آج تک اس صحافی کو بھی نہیں بھولا جو بھٹو صاحب کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹتا پھرتا تھا۔ ہم لوگ تو بھٹو صاحب کی جدائی میں کئی دن تک روتے رہے، کھانا بھی نہیں کھایا مگر پھر خیال آیا کہ شہید زندہ ہوتے ہیں ان کے لیے نہیں روتے۔ یہ صحیح ہے وہ آج بھی ہر گھر، ہر دل میں رہتا ہے۔