نظام کی تبدیلی کیسے
یو این او کی رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں بھوک سے یومیہ 50 ہزار انسان مر جاتے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری کی لوٹ مارکی وجہ سے دنیا بھر میں اربوں کارکنان بیروزگاری، بھوک اورافلاس کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ اب اس استحصال اور بے دریغ جبر کے خلاف دنیا بھر میں سراپا احتجاج بن چکے ہیں۔ آج اس احتجاج کا طوفان یورپ، عرب، امریکا، بھارت اور چین سمیت ہر جگہ نمایاں نظر آرہا تھا۔ اور عوام اس سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے بار بار سڑکوں پر امنڈ آتے ہیں۔ لیکن ابھی تک وہ منظم، فعال اور فکری ہم آہنگی کو مربوط نہیں کرپائے ہیں۔ اس لیے وہ اب تک انقلاب برپا نہیں کرپائے۔
ہاں مگر 1886 میں شکاگو، امریکا میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کروانے کی عالمی کامیاب تحریک کی طرح 2011 میں دنیا کے 88 ملکوں کے 900 شہروں میں ناکام وال اسٹریٹ قبضہ تحریک چلانے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں۔ (جوکہ نیویارک سے شروع ہوئی تھی) لاطینی امریکا کے بیشتر ملکوں میں سست روی کے ساتھ ہی کیوں نہیں انقلاب جاری ہے۔ پہلے تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کیوں کر ہوئی اور حقیقی تبدیلی کی کیا شکل ہوگی۔دور وحشت میں امداد باہمی یا قدیم پنچائتی نظام یا نسل انسانی کی برادری کا نظام قائم تھا۔ مل کر غذا حاصل کرتے تھے اور مل کر برابری کی بنیاد پر بانٹ لیتے تھے۔
بعدازاں بلوانوں نے زمین کے کسی ٹکڑے پر قبضہ کرکے غلامانہ نظام رائج کیا پھر اس نظام کے خلاف تاریخی بغاوتیں ہوئیں اور جاگیرداری نظام قائم ہوا۔جاگیرداروں کا سربراہ بادشاہ کا خطاب اس نے خود ہی حاصل کرلیا۔ پھر اس نظام کے خلاف فرانس اور جرمنی سے بغاوتیں شروع ہوئیں اور دنیا بھر میں بادشاہت یا قدیم جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں جو جاگیرداری ہے یہ قدیم نہیں بلکہ جاگیرداری کی باقیات ہے۔ اور عالمی طور پر سرمایہ داری نے اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ جس کے سرغنے آئی ایم ایف، ڈبلیوبی، ڈبلیوٹی او، کنسورشیم اور اے ڈی بی وغیرہ ہیں۔
دنیا کے 10 بڑے سرمایہ داروں کا امریکا، روس، جرمنی، جاپان، ہندوستان، فرانس اور میکسیکو سے تعلق ہے۔ دنیا کے 3 امیر ترین انسان 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں۔ سب سے بڑا سرمایہ دار میکسیکو کا سلیم حلوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 10 بڑے سرمایہ داروں میں ایک بھی یہودی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ناعاقبت اندیش لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہودی لابی اور یہودی کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ بات قطعی غلط ہے۔ سرمایہ داروں کا کام ہے اپنے منافع میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا خواہ وہ عیسائی ہو، ہندو ہو، کافر ہو، مسلمان ہو، یہودی ہو، سکھ ہو یا بدھ۔
یو این او کی رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں بھوک سے یومیہ 50 ہزار انسان مر جاتے ہیں۔ ان مرنے والوں میں ہر مذہب، ہر زبان، ہر نسل اور ہر علاقے کے کارکنان ہوتے ہیں۔ چونکہ اب سرمایہ داری بانجھ اور متروک ہوچکی ہے اس لیے اسے دفنانا ہمارا فریضہ بن جاتا ہے۔ مگر ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے بچے کی پرورش اور مناسب دیکھ بھال بھی ضروری ہے۔ سرمایہ داری کے خاتمے کے بعد جو نظام رائج ہوگا وہ ہوگا امداد باہمی کا معاشرہ۔ یہ معاشرہ اسٹیٹ لیس سوسائٹی یعنی بے ریاستی سماج ہوگا۔ ریاست، اسمبلی، فوج، عدالت، تھانے، میڈیا، کرنسی، وکیل یعنی ہر قسم کی نجی ملکیت، اختیار و اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب سوال یہ اٹھ سکتا ہے کہ ریاست کے بغیر ملک کیسے چلے گا؟ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ہے اور دولت مندوں کا محافظ۔ مثال کے طور پر گزشتہ برسوں کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں زلزلہ آیا۔
حکومت نے اعلان کردیا کہ ہم ان نقصانات کا ازالہ نہیں کرسکتے۔ مگر ملک اور دنیا بھر کے شہریوںاور کارکنوں نے بے تحاشہ امداد بھیجی جب کہریاستی کارندے ان امدادی سامان کو بازار میں فروخت کرتے ہوئے نظر آئے۔ اکابرین اور نوکر شاہی ان امدادی سامانوں سے مالا مال ہوگئے۔ جب کہزلزلہ زدگان آج بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اب بتائیے کہ ریاست شہریوں کے لیے کیسے مددگار بنی رہی ہے۔ اسمبلی کو لے لیں۔ اسمبلی ارکان اقتدار میں جانے سے قبل ان کے اثاثے کس حد تک کم ہوتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچ کر کتنے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ عوام کی کمائی ہوئی دولت پر ڈاکے تو ڈال سکتے ہیں، مددگار نہیں بن سکتے۔
ہمارے ملک کے صحت کا بجٹ 0.4 فیصد ہے ۔ جس ملک میں صرف زچگی کے دوران ہر سال 30 ہزار مائیں لقمہ اجل بن جاتی ہوں وہاں کیوں کر عوام کی خدمت ہوسکتی ہے۔ دولت مندوں کے مقدمات کی سماعت ہو سکتی ہے لیکن غریبوں کے نہیں۔ اس لیے کہ ایک غریب کے پاس موقعے پر بس کا کرایہ بھی نہیں ہوتا اور خطیر رقم خرچ کرکے وکیل ہائر بھی نہیں کرسکتا ۔ اس لیے بھی کہ اس کی کل تنخواہ 6/7 ہزار روپے ہوتی ہے۔ انقلاب کے بعد ہر گلی، محلے اور گاؤں میں مسائل پر وقتی پنچایتی یا صلح کمیٹیاں قائم کرکے عوام کو بلاخرچ انصاف مہیا کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک تھانوں کا تعلق ہے تو یہ رشوتیں، خوف و ہراس پیدا کرنے اور محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی کو لوٹنے کے سوا انھیں اور کوئی کام نہیں، اس لیے تھانے کی چھٹی کرکے ہر محلے کے چند لوگوں کی ماہانہ کمیٹیاں بناکر کام چلایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو انقلاب فرانس میں کون سا میڈیا تھا؟ انقلاب روس برپا ہونے کے 7 دن بعد دہلی میں خبر پہنچی۔ میڈیا کو ہٹا دیں قتل و غارت گری بھی بند ہوجائے گی۔ کرنسی نوٹ ایک جوا ہے۔ دور قدیم میں مال کے بدلے مال کی تجارت ہوتی تھی جو اب بھی ہوسکتی ہے۔ اس سے پیٹرو ڈالر کا غلبہ بھی ختم ہوجائے گا۔ جب محلے والے خود فیصلے کیا کریں گے تو لاکھوں وکیل جو عوام سے اربوں روپے بٹورتے ہیں، یہ لوٹ بھی ختم ہوجائے گی۔ ہر گلی، محلہ اور گاؤں میں اجتماعی باورچی خانہ، مطب، مڈوائف،ہاؤس اور دھوبی گھاٹ قائم ہوگا۔
ان کے تمام اخراجات محلے والے ادا کریں گے۔ اس سے خواتین کو کچن اور لانڈری سے نجات ملے گی، پھر وہ تخلیقی صلاحیتوں میں مصروف ہوجائیں گی۔ نجی ملکیت کا وجود ختم ہوجائے گا۔ ہر چیز ہر ایک کی ہوگی۔ اختیار اور اقتدار ایسی چیزیں ہیں جو اچھی طبیعت والے انسان کو بھی اگر مل جائے تو مغرور، اپنے مفاد سے وابستہ اور دوسروں کے مفاد سے لاپرواہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے جو بھی کمیٹیاں بنیں گی وہ اس مقررہ کام کو انجام دینے کے بعد ختم ہوجائیں گی۔
ہندوستان کے آندھرا پردیش میں 35 لاکھ ایکڑ زمین دیسی کھاد سے کاشت ہورہی ہے جب کہحکومت کیمیائی کھاد استعمال کرنیوالوں کو رقوم فراہم کرتی ہے، اس یے کہ انھیں ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کمیشن ملتے ہیں۔ جب کہدیسی کھاد کے استعمال سے کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں میں کمی آئی ہے۔ یعنی کہ ریاست کی مدد کے بغیر زراعت میں زیادہ اور اچھی ترقی ہوسکتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ملک پر حملہ کردے تو اپنا دفاع کیسے کریں گے۔ دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ہلہ بول فوج نے ہمیشہ باقاعدہ فوج کو شکست دی ہے۔ اس کی مثال جنوبی افریقہ، ویتنام، فرانس، کیوبا، چین اور شمالی کوریا ہے۔ پھر آئیے اس محبت بھرے اور خوشحال معاشرے کے قیام کے لیے دنیا بھر کے عوام ایک جان ہوکر لڑیں اور سرمایہ داری کو شکست دے کر ایک نسل انسانی کی امداد باہمی کا سماج قائم کریں۔
ہاں مگر 1886 میں شکاگو، امریکا میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کروانے کی عالمی کامیاب تحریک کی طرح 2011 میں دنیا کے 88 ملکوں کے 900 شہروں میں ناکام وال اسٹریٹ قبضہ تحریک چلانے میں کامیاب ضرور ہوئے ہیں۔ (جوکہ نیویارک سے شروع ہوئی تھی) لاطینی امریکا کے بیشتر ملکوں میں سست روی کے ساتھ ہی کیوں نہیں انقلاب جاری ہے۔ پہلے تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کیوں کر ہوئی اور حقیقی تبدیلی کی کیا شکل ہوگی۔دور وحشت میں امداد باہمی یا قدیم پنچائتی نظام یا نسل انسانی کی برادری کا نظام قائم تھا۔ مل کر غذا حاصل کرتے تھے اور مل کر برابری کی بنیاد پر بانٹ لیتے تھے۔
بعدازاں بلوانوں نے زمین کے کسی ٹکڑے پر قبضہ کرکے غلامانہ نظام رائج کیا پھر اس نظام کے خلاف تاریخی بغاوتیں ہوئیں اور جاگیرداری نظام قائم ہوا۔جاگیرداروں کا سربراہ بادشاہ کا خطاب اس نے خود ہی حاصل کرلیا۔ پھر اس نظام کے خلاف فرانس اور جرمنی سے بغاوتیں شروع ہوئیں اور دنیا بھر میں بادشاہت یا قدیم جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں جو جاگیرداری ہے یہ قدیم نہیں بلکہ جاگیرداری کی باقیات ہے۔ اور عالمی طور پر سرمایہ داری نے اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ جس کے سرغنے آئی ایم ایف، ڈبلیوبی، ڈبلیوٹی او، کنسورشیم اور اے ڈی بی وغیرہ ہیں۔
دنیا کے 10 بڑے سرمایہ داروں کا امریکا، روس، جرمنی، جاپان، ہندوستان، فرانس اور میکسیکو سے تعلق ہے۔ دنیا کے 3 امیر ترین انسان 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں۔ سب سے بڑا سرمایہ دار میکسیکو کا سلیم حلوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 10 بڑے سرمایہ داروں میں ایک بھی یہودی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کچھ ناعاقبت اندیش لوگ اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہودی لابی اور یہودی کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ بات قطعی غلط ہے۔ سرمایہ داروں کا کام ہے اپنے منافع میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا خواہ وہ عیسائی ہو، ہندو ہو، کافر ہو، مسلمان ہو، یہودی ہو، سکھ ہو یا بدھ۔
یو این او کی رپورٹ کے مطابق اس دنیا میں بھوک سے یومیہ 50 ہزار انسان مر جاتے ہیں۔ ان مرنے والوں میں ہر مذہب، ہر زبان، ہر نسل اور ہر علاقے کے کارکنان ہوتے ہیں۔ چونکہ اب سرمایہ داری بانجھ اور متروک ہوچکی ہے اس لیے اسے دفنانا ہمارا فریضہ بن جاتا ہے۔ مگر ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے بچے کی پرورش اور مناسب دیکھ بھال بھی ضروری ہے۔ سرمایہ داری کے خاتمے کے بعد جو نظام رائج ہوگا وہ ہوگا امداد باہمی کا معاشرہ۔ یہ معاشرہ اسٹیٹ لیس سوسائٹی یعنی بے ریاستی سماج ہوگا۔ ریاست، اسمبلی، فوج، عدالت، تھانے، میڈیا، کرنسی، وکیل یعنی ہر قسم کی نجی ملکیت، اختیار و اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب سوال یہ اٹھ سکتا ہے کہ ریاست کے بغیر ملک کیسے چلے گا؟ ریاست بنیادی طور پر جبر کا ادارہ ہے اور دولت مندوں کا محافظ۔ مثال کے طور پر گزشتہ برسوں کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں زلزلہ آیا۔
حکومت نے اعلان کردیا کہ ہم ان نقصانات کا ازالہ نہیں کرسکتے۔ مگر ملک اور دنیا بھر کے شہریوںاور کارکنوں نے بے تحاشہ امداد بھیجی جب کہریاستی کارندے ان امدادی سامان کو بازار میں فروخت کرتے ہوئے نظر آئے۔ اکابرین اور نوکر شاہی ان امدادی سامانوں سے مالا مال ہوگئے۔ جب کہزلزلہ زدگان آج بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اب بتائیے کہ ریاست شہریوں کے لیے کیسے مددگار بنی رہی ہے۔ اسمبلی کو لے لیں۔ اسمبلی ارکان اقتدار میں جانے سے قبل ان کے اثاثے کس حد تک کم ہوتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچ کر کتنے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ عوام کی کمائی ہوئی دولت پر ڈاکے تو ڈال سکتے ہیں، مددگار نہیں بن سکتے۔
ہمارے ملک کے صحت کا بجٹ 0.4 فیصد ہے ۔ جس ملک میں صرف زچگی کے دوران ہر سال 30 ہزار مائیں لقمہ اجل بن جاتی ہوں وہاں کیوں کر عوام کی خدمت ہوسکتی ہے۔ دولت مندوں کے مقدمات کی سماعت ہو سکتی ہے لیکن غریبوں کے نہیں۔ اس لیے کہ ایک غریب کے پاس موقعے پر بس کا کرایہ بھی نہیں ہوتا اور خطیر رقم خرچ کرکے وکیل ہائر بھی نہیں کرسکتا ۔ اس لیے بھی کہ اس کی کل تنخواہ 6/7 ہزار روپے ہوتی ہے۔ انقلاب کے بعد ہر گلی، محلے اور گاؤں میں مسائل پر وقتی پنچایتی یا صلح کمیٹیاں قائم کرکے عوام کو بلاخرچ انصاف مہیا کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک تھانوں کا تعلق ہے تو یہ رشوتیں، خوف و ہراس پیدا کرنے اور محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی کو لوٹنے کے سوا انھیں اور کوئی کام نہیں، اس لیے تھانے کی چھٹی کرکے ہر محلے کے چند لوگوں کی ماہانہ کمیٹیاں بناکر کام چلایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو انقلاب فرانس میں کون سا میڈیا تھا؟ انقلاب روس برپا ہونے کے 7 دن بعد دہلی میں خبر پہنچی۔ میڈیا کو ہٹا دیں قتل و غارت گری بھی بند ہوجائے گی۔ کرنسی نوٹ ایک جوا ہے۔ دور قدیم میں مال کے بدلے مال کی تجارت ہوتی تھی جو اب بھی ہوسکتی ہے۔ اس سے پیٹرو ڈالر کا غلبہ بھی ختم ہوجائے گا۔ جب محلے والے خود فیصلے کیا کریں گے تو لاکھوں وکیل جو عوام سے اربوں روپے بٹورتے ہیں، یہ لوٹ بھی ختم ہوجائے گی۔ ہر گلی، محلہ اور گاؤں میں اجتماعی باورچی خانہ، مطب، مڈوائف،ہاؤس اور دھوبی گھاٹ قائم ہوگا۔
ان کے تمام اخراجات محلے والے ادا کریں گے۔ اس سے خواتین کو کچن اور لانڈری سے نجات ملے گی، پھر وہ تخلیقی صلاحیتوں میں مصروف ہوجائیں گی۔ نجی ملکیت کا وجود ختم ہوجائے گا۔ ہر چیز ہر ایک کی ہوگی۔ اختیار اور اقتدار ایسی چیزیں ہیں جو اچھی طبیعت والے انسان کو بھی اگر مل جائے تو مغرور، اپنے مفاد سے وابستہ اور دوسروں کے مفاد سے لاپرواہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے جو بھی کمیٹیاں بنیں گی وہ اس مقررہ کام کو انجام دینے کے بعد ختم ہوجائیں گی۔
ہندوستان کے آندھرا پردیش میں 35 لاکھ ایکڑ زمین دیسی کھاد سے کاشت ہورہی ہے جب کہحکومت کیمیائی کھاد استعمال کرنیوالوں کو رقوم فراہم کرتی ہے، اس یے کہ انھیں ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کمیشن ملتے ہیں۔ جب کہدیسی کھاد کے استعمال سے کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں میں کمی آئی ہے۔ یعنی کہ ریاست کی مدد کے بغیر زراعت میں زیادہ اور اچھی ترقی ہوسکتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ملک پر حملہ کردے تو اپنا دفاع کیسے کریں گے۔ دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ہلہ بول فوج نے ہمیشہ باقاعدہ فوج کو شکست دی ہے۔ اس کی مثال جنوبی افریقہ، ویتنام، فرانس، کیوبا، چین اور شمالی کوریا ہے۔ پھر آئیے اس محبت بھرے اور خوشحال معاشرے کے قیام کے لیے دنیا بھر کے عوام ایک جان ہوکر لڑیں اور سرمایہ داری کو شکست دے کر ایک نسل انسانی کی امداد باہمی کا سماج قائم کریں۔