پاکستان زندہ باد
کون نہیں جانتا کہ امریکا ہماری حکومتوں کو بناتا اور بگاڑتا رہا۔ ہماری تقدیر کے فیصلے واشنگٹن اور لندن میں ہوتے رہے۔
مجھے ان لوگوں کی اس بات پر ہمیشہ غصہ آتا ہے کہ یوں نہ ہوا تو خدانخواستہ پاکستان ختم ہو جائے گا۔ یہ ملک تو ہماری نوے برس کی جدوجہد آزادی کا ثمر ہے کوئی ریت کی دیوار تو نہیں کہ جو چاہے اسے ٹھوکر مار کر گرا دے ۔ جن لوگوں نے ہندوستان پر سے مسلمان حکومت کے خاتمے اور برطانوی اقتدار کو دیکھا یا اس کا حال پڑھا وہ ایسی کسی بات کو زبان پر لانا بھی گناہ سمجھتے ہیں ۔
ہندوستان پر مسلمانوں کی بھلی بری جیسی بھی حکومت تھی کسی باہر کی قوم کو یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ اس کی جگہ لے لے۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا لیکن مسلمانوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ 1857ء میں دینی رہنماؤں نے انگریزوں کے خلاف تحریک شروع کی جو قدم بقدم چلتی ہوئی 1947ء میں پاکستان کی صورت میں کامیاب ہوئی۔ اس دوران تحریک کے قائدین بدلتے گئے ان کے نئے نئے پیرو کار نسل در نسل سامنے آتے رہے لیکن آزادی کی تحریک وہی رہی جس کا آغاز1857 ء میں کیا گیا تھا ۔
عجیب بدقسمتی ہے کہ ہماری تقدیر آزادی کے بعد بگڑنی شروع ہوئی جب اس کے سنورنے کا زمانہ تھا تب یہ بگڑنے لگی ۔ برصغیر کے مسلمانوں نے یہ ملک غلام محمدوں، سکندر مرزوں ، یحیٰ خانوں، بھٹوؤں، نواز شریفوں اور اس قماش کے حکمرانوں کے لیے حاصل نہیں کیا تھا، انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی حیات نو اور نشاۃ ثانیہ کے لیے آزاد ملک حاصل کیا تھا مگر تماشہ یہ ہوا کہ انگریزوں کے پروردوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا۔ بانی پاکستان کی آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ اس ملک کی آزادی ختم ہو گئی۔ برطانوی سامراج امریکی سامراج کی صورت میں دوبارہ اس ملک پر قابض ہو گیا ۔
کون نہیں جانتا کہ امریکا ہماری حکومتوں کو بناتا اور بگاڑتا رہا ۔ہماری تقدیر کے فیصلے واشنگٹن اور لندن میں ہوتے رہے ۔ انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان میں برطانوی تاج کے نمایندے کو وائسرائے کہا جاتا تھا پاکستان کی آزادی کے بعد امریکی سفیر کے لیے یہ لقب مخصوص ہو گیا اور اس نئے وائسرائے کی خوشنودی میں ایک مخصوص طبقہ سرگرم ہو گیا اور وہی لوگ آج تک چلے آرہے ہیں جو ہمیشہ ہمیں ڈراتے رہتے ہیں کہ اگر امریکا کی خوشنودی نہ رہی تو خدانخواستہ یہ ملک نہیں رہے گا۔
بڑی مدت کے بعد ایک ایسا حکمران آیا ہے جس نے عوام کی بات کرنا شروع کی ہے وہ امریکا کو پاکستانی عوام کی بات بتا رہا ہے کہ وہ کرائے کے سپاہی نہیں اوراب وہی کچھ ہو گا جو پاکستانی عوام چاہئیں گے۔ دراصل ماضی میں پاکستانیوں کو امریکی جنگ میں جھونک کر اس کے عوض جس طرح ڈالروںکی وصولی کی گئی اور ان ڈالروں سے اپنے ذاتی اکاؤنٹ جس طرح بھرے گئے اس کی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں اور یہ ڈالر وصولی والے لوگ ہم میں سے ہی ہیں اور ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ عمران خان وہی کر رہے ہیں جو پاکستانی قوم کی سوچ اور خواہش ہے بس تھوڑی سی ہمت چاہیے، عمران خان کو میں نے کہیں یہ کہتے سنا تھا کہ وہ ان مغربی ملکوں اور ان کے حکمرانوں کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لیے وہ ان کی زبان میں ہی ان سے بات کر رہے ہیں ۔ خدا کرے کہ ہمارے وزیر اعظم کی باتیں ان کی سمجھ میں آجائیں ۔
اس محاورے کی صداقت میں سچ نہیں کہ '' الناس علی دین ملوکہم ''کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے دین کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ اس دین کے معنی ان کے مزاج افتاد طبع اور پالیسی کے ہیں ۔ وہ عوام جنہوں نے 1947 ء میں اس ملک کو ایک مسجد سمجھا تھا ، رشوت اور بدعنوانی سے توبہ کر لی تھی ۔ جس ملک کے بارے میں اس کے دشمن کہا کرتے تھے کہ یہ چل نہیں سکے گا اس بات کو انھوں نے غلط ثابت کر دیا اور یہ چھوٹا سا ملک اپنے سے بہت بڑے ہندوستان کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہو گیا کیونکہ یہ ہندوستان کے کل کے حکمرانوں کا ملک تھا ۔
لال قلعہ کے وارثوں کا ملک ۔ دلوں میںجو جذبہ موجزن تھا اور سینوںمیں جو ایمان بھڑک رہا تھا یہ اس کی آواز تھی کہ پاکستان کا پرچم دور دور تک لہرائے گا لیکن تحریک آزادی کے آخری چراغ گل ہونا شروع ہو گئے ، اندھیرے پھیلنے لگے اور ان تاریکیوں میں کئی نئے ڈراؤنے چہرے سامنے آنے لگے ۔
انگریزوں کے پروردہ لوگوں کے چہرے ، انگریزوں کے ذہنی غلاموں کے چہرے ، پست ہمت نامردوں کے چہرے ۔جب یہ سب لوگ اقتدار پر مسلط ہو گئے تو وہ عوام جو آزادی کی پیداوار تھے اور جن کی سوچوں اور ذہنوں میں تحریک آزادی کے قائدین کی آوازیں گونج رہی تھیں ، برے لوگوں کی حکومت میں بدلنے شروع ہو گئے ۔ دیانت دار ، فرض شناس اور محب وطن لوگوںکا ملک رفتہ رفتہ بددیانت ،خود غرض اور ملک سے لاتعلق لوگوں کا ملک بن گیا ۔ شرم کے مارے سر جھک جاتا ہے جب ہر آنے والی حکومت جانے والے حکمرانوں کی بدعنوانیوںکی داستانیں بیان کرنا شروع کر دیتی ہے ۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ملک چند لوگوں کی بدعنوانیوں کے لیے بنایا گیا تھا ۔ بظاہر کسی اچھے قومی تعمیر کے منصوبے کی بات ہوتی ہے تو اس میں سے بھی کسی بدعنوانی کی بد بو آنے لگتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اس کی تعمیر میں سے اتنا روپیہ کھا لیا گیا تھا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جو تاجر نہیں خریدار ہیں ، جوصنعتکار نہیں مزدور اور صارف ہیں ۔ جو بڑے زمیندار نہیں مزارع ہیں اور بے حیثیت عوام ہیں ، باقی کے سب بے ایمان ہیں ۔ ان بڑے لوگوں میں سے کچھ اچھے بھی ہوں گے لیکن ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔ بے ایمانی کے اس عروج میں ایمانداری شدید زوال میں ہے اور یہ زوال جاری ہے۔
ایک سیلاب بلا ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا ۔ مگر ان بااثر اور نام آور بے ایمانوں اور بدعنوانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ اس طرح کہ جس وقت کوئی بہادر ، ایماندار اقتدار کی مسند پر بیٹھا اور جس دور میں بے ایمانی مشکل اور ایمانداری آسان بنا دی گئی تو پاکستان کی دنیا کو بدلتے دیر نہیں لگے گی اور لوگ اچھے حکمرانوں کے دین کی پیروی کرنے لگیں گے۔اس لیے کہ افراد تو غلط ہو سکتے ہیں کوئی قوم غلط نہیں ہو سکتی اور اس قوم کے ملک کے بارے میں کوئی بھول کر بھی یہ نہ کہے کہ اس کی زندگی اتنی باقی ہے اور اتنی نہیں ہے۔ اس قوم نے سینہ تان کر ملک بنایا اور یہ اسے برقرار اور کامیاب بھی رکھے گی۔
ہندوستان پر مسلمانوں کی بھلی بری جیسی بھی حکومت تھی کسی باہر کی قوم کو یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ اس کی جگہ لے لے۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا لیکن مسلمانوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ 1857ء میں دینی رہنماؤں نے انگریزوں کے خلاف تحریک شروع کی جو قدم بقدم چلتی ہوئی 1947ء میں پاکستان کی صورت میں کامیاب ہوئی۔ اس دوران تحریک کے قائدین بدلتے گئے ان کے نئے نئے پیرو کار نسل در نسل سامنے آتے رہے لیکن آزادی کی تحریک وہی رہی جس کا آغاز1857 ء میں کیا گیا تھا ۔
عجیب بدقسمتی ہے کہ ہماری تقدیر آزادی کے بعد بگڑنی شروع ہوئی جب اس کے سنورنے کا زمانہ تھا تب یہ بگڑنے لگی ۔ برصغیر کے مسلمانوں نے یہ ملک غلام محمدوں، سکندر مرزوں ، یحیٰ خانوں، بھٹوؤں، نواز شریفوں اور اس قماش کے حکمرانوں کے لیے حاصل نہیں کیا تھا، انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی حیات نو اور نشاۃ ثانیہ کے لیے آزاد ملک حاصل کیا تھا مگر تماشہ یہ ہوا کہ انگریزوں کے پروردوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا۔ بانی پاکستان کی آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ اس ملک کی آزادی ختم ہو گئی۔ برطانوی سامراج امریکی سامراج کی صورت میں دوبارہ اس ملک پر قابض ہو گیا ۔
کون نہیں جانتا کہ امریکا ہماری حکومتوں کو بناتا اور بگاڑتا رہا ۔ہماری تقدیر کے فیصلے واشنگٹن اور لندن میں ہوتے رہے ۔ انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان میں برطانوی تاج کے نمایندے کو وائسرائے کہا جاتا تھا پاکستان کی آزادی کے بعد امریکی سفیر کے لیے یہ لقب مخصوص ہو گیا اور اس نئے وائسرائے کی خوشنودی میں ایک مخصوص طبقہ سرگرم ہو گیا اور وہی لوگ آج تک چلے آرہے ہیں جو ہمیشہ ہمیں ڈراتے رہتے ہیں کہ اگر امریکا کی خوشنودی نہ رہی تو خدانخواستہ یہ ملک نہیں رہے گا۔
بڑی مدت کے بعد ایک ایسا حکمران آیا ہے جس نے عوام کی بات کرنا شروع کی ہے وہ امریکا کو پاکستانی عوام کی بات بتا رہا ہے کہ وہ کرائے کے سپاہی نہیں اوراب وہی کچھ ہو گا جو پاکستانی عوام چاہئیں گے۔ دراصل ماضی میں پاکستانیوں کو امریکی جنگ میں جھونک کر اس کے عوض جس طرح ڈالروںکی وصولی کی گئی اور ان ڈالروں سے اپنے ذاتی اکاؤنٹ جس طرح بھرے گئے اس کی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں اور یہ ڈالر وصولی والے لوگ ہم میں سے ہی ہیں اور ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ عمران خان وہی کر رہے ہیں جو پاکستانی قوم کی سوچ اور خواہش ہے بس تھوڑی سی ہمت چاہیے، عمران خان کو میں نے کہیں یہ کہتے سنا تھا کہ وہ ان مغربی ملکوں اور ان کے حکمرانوں کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لیے وہ ان کی زبان میں ہی ان سے بات کر رہے ہیں ۔ خدا کرے کہ ہمارے وزیر اعظم کی باتیں ان کی سمجھ میں آجائیں ۔
اس محاورے کی صداقت میں سچ نہیں کہ '' الناس علی دین ملوکہم ''کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے دین کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ اس دین کے معنی ان کے مزاج افتاد طبع اور پالیسی کے ہیں ۔ وہ عوام جنہوں نے 1947 ء میں اس ملک کو ایک مسجد سمجھا تھا ، رشوت اور بدعنوانی سے توبہ کر لی تھی ۔ جس ملک کے بارے میں اس کے دشمن کہا کرتے تھے کہ یہ چل نہیں سکے گا اس بات کو انھوں نے غلط ثابت کر دیا اور یہ چھوٹا سا ملک اپنے سے بہت بڑے ہندوستان کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑا ہو گیا کیونکہ یہ ہندوستان کے کل کے حکمرانوں کا ملک تھا ۔
لال قلعہ کے وارثوں کا ملک ۔ دلوں میںجو جذبہ موجزن تھا اور سینوںمیں جو ایمان بھڑک رہا تھا یہ اس کی آواز تھی کہ پاکستان کا پرچم دور دور تک لہرائے گا لیکن تحریک آزادی کے آخری چراغ گل ہونا شروع ہو گئے ، اندھیرے پھیلنے لگے اور ان تاریکیوں میں کئی نئے ڈراؤنے چہرے سامنے آنے لگے ۔
انگریزوں کے پروردہ لوگوں کے چہرے ، انگریزوں کے ذہنی غلاموں کے چہرے ، پست ہمت نامردوں کے چہرے ۔جب یہ سب لوگ اقتدار پر مسلط ہو گئے تو وہ عوام جو آزادی کی پیداوار تھے اور جن کی سوچوں اور ذہنوں میں تحریک آزادی کے قائدین کی آوازیں گونج رہی تھیں ، برے لوگوں کی حکومت میں بدلنے شروع ہو گئے ۔ دیانت دار ، فرض شناس اور محب وطن لوگوںکا ملک رفتہ رفتہ بددیانت ،خود غرض اور ملک سے لاتعلق لوگوں کا ملک بن گیا ۔ شرم کے مارے سر جھک جاتا ہے جب ہر آنے والی حکومت جانے والے حکمرانوں کی بدعنوانیوںکی داستانیں بیان کرنا شروع کر دیتی ہے ۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ملک چند لوگوں کی بدعنوانیوں کے لیے بنایا گیا تھا ۔ بظاہر کسی اچھے قومی تعمیر کے منصوبے کی بات ہوتی ہے تو اس میں سے بھی کسی بدعنوانی کی بد بو آنے لگتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اس کی تعمیر میں سے اتنا روپیہ کھا لیا گیا تھا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جو تاجر نہیں خریدار ہیں ، جوصنعتکار نہیں مزدور اور صارف ہیں ۔ جو بڑے زمیندار نہیں مزارع ہیں اور بے حیثیت عوام ہیں ، باقی کے سب بے ایمان ہیں ۔ ان بڑے لوگوں میں سے کچھ اچھے بھی ہوں گے لیکن ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی ہے۔ بے ایمانی کے اس عروج میں ایمانداری شدید زوال میں ہے اور یہ زوال جاری ہے۔
ایک سیلاب بلا ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا ۔ مگر ان بااثر اور نام آور بے ایمانوں اور بدعنوانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ اس طرح کہ جس وقت کوئی بہادر ، ایماندار اقتدار کی مسند پر بیٹھا اور جس دور میں بے ایمانی مشکل اور ایمانداری آسان بنا دی گئی تو پاکستان کی دنیا کو بدلتے دیر نہیں لگے گی اور لوگ اچھے حکمرانوں کے دین کی پیروی کرنے لگیں گے۔اس لیے کہ افراد تو غلط ہو سکتے ہیں کوئی قوم غلط نہیں ہو سکتی اور اس قوم کے ملک کے بارے میں کوئی بھول کر بھی یہ نہ کہے کہ اس کی زندگی اتنی باقی ہے اور اتنی نہیں ہے۔ اس قوم نے سینہ تان کر ملک بنایا اور یہ اسے برقرار اور کامیاب بھی رکھے گی۔