کوچۂ سخن
غزل
سب سے یہی کہتا ہوں کہ ہاں ہے مری جاگیر
یہ شوکتِ الفاظ و بیاں ہے مری جاگیر
ڈرتا ہوں کسی موڑ پہ چھن جائے نہ مجھ سے
بچپن سے جو احساسِ زیاں ہے مری جاگیر
بجھتی ہوئی شاموں کے اثاثے ہیں مرے پاس
افسردہ چراغوں کا دھواں ہے مری جاگیر
میں تیری اجازت سے یہ ثابت بھی کروں گا
اے دوست ترا جسمِ جواں ہے مری جاگیر
سمجھاتے ہی گزری ہے دلِ نفع طلب کو
لاحاصلیِ عمرِ رواں ہے مری جاگیر
میں اپنے تصرّف میں اسے کیوں نہیں لاتا؟
لگتا ہے کہ یہ کون و مکاں ہے مری جاگیر
پہلے مری سوچوں کا عجب رنگ تھا یاورؔ
اب نذرِ ستم ہائے خزاں ہے مری جاگیر
(یاور عظیم، خان پور)
۔۔۔
غزل
پاسِ عہدِ وفا رہا برسوں
درد کو پالتا رہا برسوں
آج شاید وہ لوٹ ہی آئے
مجھ کو یہ آسرا رہا برسوں
میرے دل میں تری محبت کا
ایک گلشن کھلا رہا برسوں
موت کے ہاتھ میں تھا ہاتھ مرا
میں اسیرِ قضا رہا برسوں
جو مجھے ایک پَل میں بھول گیا
میں اسے سوچتا رہا برسوں
آج بھی اجنبی ہیں گو کہ شفیؔ
آمنا سامنا رہا برسوں
(ملک شفقت اللہ شفی، جھنگ)
۔۔۔
غزل
ہوا کے شہر میں اِک دیپ جلنے والا ہے
سو اب کے شہر کا منظر بدلنے والا ہے
الٰہی خیر! سفینۂ قلب و جاں کی خیر
کہ آنسوؤں کا سمندر مچلنے والا ہے
ہزار بار اسے دل نے دھمکیاں دی ہیں
خیالِ یار کہاں پھر بھی ٹلنے والا ہے
امیرِ شہر کے سارے چراغ خائف ہیں
غریبِ شہر کا سورج نکلنے والا ہے
دلِ صنم نہیں صاحب یہ سنگِ قسمت ہے
ہمارے صبر سے یہ کب پگھلنے والا ہے
قلم قبیلہ ہے اپنا اسی لیے ہمدم
کسی کی طرز میں احسن نہ ڈھلنے والا ہے
(عمران احسن، شور کوٹ۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
اب سوچ رہے ہیں یہاں کیا کیا نہیں دیکھا؟
نکلے جو تری سمت تو رستہ نہیں دیکھا
تُو نے کبھی آنکھوں سے بہائے نہیں آنسو
تُو نے کبھی دریاؤں کو بہتا نہیں دیکھا
پھر یوں ہے کہ سورج کو نہیں جانتا وہ شخص
جس نے مرے آنگن کا اندھیرا نہیں دیکھا
کرتے ہیں بہت بات یہ ویرانیِ دل کی
ان لوگوں نے شاید مرا حلیہ نہیں دیکھا
گو گردشِ دوراں میں ہیں دن رات مگر یاں
ہے ایسی سیاہی کہ سویرا نہیں دیکھا
اس شخص کو آیا نہیں ملنے کا سلیقہ
اس شخص نے اس سال بھی میلہ نہیں دیکھا
(مستحسن جامی، خوشاب)
۔۔۔
غزل
عکسِ قدرت کو سبوتاژ نہیں کرسکتی
آنکھ حیرت کو سبوتاژ نہیں کرسکتی
مل بھی جائے مجھے دنیا کی محبت لیکن
اس محبت کو سبوتاژ نہیں کرسکتی
گھر کے آنگن میں اگائی ہوئی آوارہ ہنسی
ساری وحشت کو سبوتاژ نہیں کرسکتی
آگہی باعثِ دیوانگی کب ہے مجھ پر
روشنی چھت کو سبوتاژ نہیں کرسکتی
آخرش آن پڑی رُت یہ بچھڑنے والی
اب تُو ہجرت کو سبوتاژ نہیں کرسکتی
(دانش حیات، کراچی)
۔۔۔
غزل
دیپ سے دوستی بناؤں گی
اس طرح روشنی بنائوں گی
منہ پہ سنجیدگی سی اوڑھوں گی
آنکھ میں اک ہنسی بنائوں گی
قافیے دن سے ڈھونڈ لوں گی اور
شام سے شاعری بنائوں گی
کچھ بنانے کی گر ملی فرصت
تیری بے چہرگی بنائوں گی
میں زمینیں بنائوں گی دوچار
آسماں ایک ہی بنائوں گی
گیلی مٹی ہے، چاک ہے، دَم ہے
دیکھنا، آدمی بنائوں گی
(نیل احمد، کراچی)
۔۔۔
غزل
پھر اس کی خوش بو پکارے کسی کتاب میں بند
وہ ایک پھول کھلا تھا جو میرے خواب میں بند
میں کر رہا ہوں بدن سے ترے کشید مہک
میں کر رہا ہوں ترے حسن کو گلاب میں بند
میں اس کو چھیڑ کے خود بھی بہت پشیماں تھا
عجیب کیف تھا اس سازِ بے رباب میں بند
بس ایک لمحۂ گزراں تھا سائبانِ سماں
مرے بہار و خزاں تھے کسی غیاب میں بند
نہ جانے کتنے زمانے مہکتے پھول میں تھے
نہ جانے کتنے ترانے تھے صوتِ آب میں بند
اسی خرابے سے پھوٹے گا جا بہ جا سبزہ
ندائے آب چہکتی ہے اس سراب میں بند
(رضوان فاخر، تربت)
۔۔۔
''سوکھا گجرا''
سوکھے گجرے میں زندہ ہیں
یادیں اس کی۔۔۔
اس کا چہرہ بُن لیتے ہیں
پھول سبھی کمھلائے ہوئے
یاد ہیں اب بھی
مجھ کو اس کی
چہرہ پڑھتی
نشیلی آنکھیں۔۔۔
جن آنکھوں سے اس نے کی تھیں
مجھ سے جانے کتنی باتیں
اُس کی پھولوں جیسی باتیں
سوکھے گجرے میں زندہ ہیں
اور اسی سوکھے گجرے نے
مجھ کو زندہ رکھا ہوا ہے
(نادیہ حسین، کراچی)
۔۔۔
غزل
یہ کتنا سنگین مسئلہ ہے
تو مجھ سے کٹ کے بھی جی رہا ہے
یہ پیڑ کٹنے سے تھوڑا پہلے
نہ جانے کیسے ہرا ہُوا ہے
ہمارے خوابوں کا سارا ملبہ
ہماری نیندوں پہ آ گرا ہے
تمہارے چھونے سے سبز ہوں گے
یہ بھید پیڑوں پہ کھل چکا ہے
ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دے دو
تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے
محبتوں میں سکوں نہیں ہے
یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے
جسے فراموش کر چکے تھے
وہ مسئلہ سَر اٹھا رہا ہے
(محمد طلال فاضل، باغ آزاد کشمیر)
۔۔۔
''اداس سورج''
مسافتوں کا اداس سورج
قدم قدم پر یہ سوچتا ہے
کہ کتنی صبحوں کو
تیرگی سے نکالنا ہے؟
اندھیرے رستوں پہ
روشنی کو اتارنا ہے
کتنی صبحوں کے کورے پنوں پہ
موسموں کو ابھارنا ہے؟
مسافتوں کا اداس سورج
قدم قدم پر یہ سوچتا ہے
جمود اچھا نہیں ہے پھر بھی
ذرا تھکن سے آرام آئے۔۔۔
کبھی جو اذنِ قیام آئے
مسافتوں کا اداس سورج
یہ سوچتا ہے!!
(محمد احمد لنگاہ، عارف والا پنجاب)
۔۔۔
''جھلّی لڑکی''
تجھ سے کتنی بار کہا تھا
ایسے پکّے خواب نہ بننا
جن کی سڑکیں کچّی ہوں
جن کے جھوٹے پہناوے میں
زرد سی راتیں سچّی ہوں
جھلی لڑکی
تجھ سے کتنی بار کہا تھا
رات کو نیند میں چلتے رہنا
پاؤں میں چھالے پڑوا دے گا
جاڑے کا یہ چاند اکیلا
تجھ سے پیچھا چھڑوا دے گا
تُو نے میری بات نہ مانی
لہجوں کی بس ذات نہ جانی
تو نے سوچا
کل کا چاند اگے گا جب تو
اس میں عکسِ سوانح ہوگا
جو بھی غیر ملا ہے تجھ کو
تیری بات میں ڈھل جائے گا
تیری خاطر آنکھیں مل کر
اپنی ذات بدل جائے گا
تو نے سچ مچ
اک لمحے کو یہ نہ سوچا؟
کوئی بادل
کوئی ساون
کوئی چھم چھم جھولتا آنگن
خاک میں اپنی ڈھل جائے گا؟
اف نادان سی جھلی لڑکی
غیر بھی اپنے کب ہوتے ہیں؟
اپنے غیر سے سب ہوتے ہیں!
تجھ سے کتنی بار کہا تھا
ایسے پکّے خواب نہ بننا
جن کی سڑکیں کچّی ہوں
جن کے جھوٹے پہناوے میں
زرد سی راتیں سچّی ہوں!!
(مسلم انصاری، کراچی)
۔۔۔
غزل
ہو کٹھن یا ہو سہانی زندگی
ساتھ تیرے ہی بِتانی زندگی
ہجر میں تیرے بہے جائے ہے اب
آنکھ سے بن کے یہ پانی زندگی
کیا خبر ہے ساتھ چھوڑے گی کہاں
ہے یہ آخر کو جو فانی زندگی
جی رہا گھٹ گھٹ کے میں دنیا میں جو
ہے تمھاری مہربانی زندگی
میں نہ جی پاؤں گا بن تیرے اسد ؔ
کب ہے مجھ کو راس آنی زندگی
(زین اسد ساغر، شیخو پورہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچیarif.hussain@express.com.pk