بلوچستان پھر دہشت گردوں کے نشانہ پر
دہشت گردی کے اس واقعہ کی مماثلت اس سے قبل ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھی موجود ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک اور ہولناک واردات ہوئی ہے جس نے سیکیورٹی میکنزم میں مزید بہتری کی ضرورت اور صوبہ میں شورش پسندوں کے مکروہ عزائم بے نقاب کردیے ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق تربت میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران 6 سیکیورٹی اہلکار شہید، فورسز کی کارروائی میں چار دہشت گرد مارے گئے۔ صوبائی وزیرداخلہ نے واقعہ میں سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اگلے روز تربت کے علاقہ بلیدہ میں سیکیورٹی فورسز خفیہ اطلاع پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھیں، فورسز کی ایک گاڑی دہشت گردوں کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجہ میں 6 سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے جب کہ فورسز کی کارروائی میں 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
دہشت گردی کے اس واقعہ کی مماثلت اس سے قبل ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھی موجود ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ شورش پسندوں کو اسلحہ کی فراہمی اور ایکٹیوٹی زون کی تخصیص میں بعض ماسٹر مائنڈز کی کمک بھی درپردہ ملتی رہتی ہے، اس تناظر میں بھارتی مداخلت اور ''را'' کی سرگرمیوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
بلوچستان کی تزویراتی صورتحال کے حساس پہلو سے گہری واقفیت رکھنے والے واقفان راز کا کہنا ہے کہ یہی علاقے ڈاکٹر اللہ نذر کے زیر تصرف ہیں جہاں ان کے کارندے اور ''سرمچار '' سرگرم ہیں اور پاک فوج کے جوانوں کو شہید کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں، سیکیورٹی نقطہ نظر سے لازم ہے کہ بلیدہ کے ایکٹی وٹی زون کا محاصرہ پوری قوت سے کیا جائے، موثر سرچ آپریشن کے ذریعہ دہشت گردوں کا کھوج لگایا جائے اور پورے شورش زدہ علاقے میں سیکیورٹی کے اقدامات نئے سرے سے نتیجہ خیز بنائے جائیں، یہ الم ناک واقعہ ہے۔
دہشت گردوں نے ہماری سیکیورٹی فورسز اور قوم کی حمیت کو للکارا ہے ، وہ بلوچستان کو پتھرکے دور میں لے جانے کی کوشش کررہے ہیں اس کام میں انہیں عبرتناک شکست دینا اب ناگزیر ہوگیا ہے،دشمن عناصر کی اس وقفہ وقفہ کی ریاست مخالف اسٹرٹیجی کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، بلوچستان کے وسیع رقبہ کو دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں ایک گوریلا ایڈوانٹیج کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، ان کی ساری تدابیر کو منظم اور مربوط کاؤنٹر ٹیررازم حکمت عملی کے تحت خاک میں ملانے کا وقت آگیا ہے۔
شہدا نے اپنے خون سے اس شورش اور دہشت گردی کے خاتمہ کا سیکیورٹی فورسز کو نیا عزم بخشا ہے، صوبہ میں علیحدگی پسندوں کا خاتمہ اور غیر ملکی کمک اور اسلحہ و فنڈ کی فراہمی کے نیٹ ورک کو بلڈوز کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے، بلوچستان حکومت کے لیے اس سانحہ میں ہوشمندی ،سنجیدگی اور اپنی صفوں کو متحد رکھنے کا سبق موجود ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں محاذ صرف دشمن کو شکست دینا ہے، اس لیے سیاسی مسائل ، سی پیک اور دوسرے داخلی تنازعات کے لیے کافی وقت پڑا ہے۔
ضرورت دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے یقین،عزم مسلسل اور سیاسی و عسکری مستعدی اور دور اندیشی کی ہے، دشمن چالاک اور فعال ہے، اسے بھارت سمیت ان طاقتوں کی معاونت حاصل ہوسکتی ہے جو پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار بنا کر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں، ایک تجزیہ کے مطابق پاکستان کے سیاسی و سماجی استحکام اور نئی حکومت کی قیادت میں ترقی و خوشحالی کے سفر کو ناکام بنانے کے لیے دشمن افغان کارڈ استعمال کررہا ہے، وہ افغانستان میں امن کی قیمت پر بلوچستان کے عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی عیاریوں میں مصروف ہے اور صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے۔
بلوچستان میں ہونے والا واقعہ ہر لحاظ سے چشم کشا ہے، ارباب اختیار اس بحث میں نہ الجھیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی تفہیم اور سیاسی بریک تھرو کی فوری ضرورت ہے لہذا دہشت گردی کے اہم ایشو کو صوبہ کے سیاسی حل سے مشروط ہونا چاہیے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے اور علاقے میں شورش اور پر آشوب تزویراتی منظر نامہ کی ہولناکی کو بڑھاوا دینے کے لیے دہشت گرد عناصر اپنی شکست ماننے پر تیار نہیں ، لہذا صوبہ میں امن وامان کو یقینی بنانے اور پاک فوج کے جوانوں پر بزدلانہ حملہ کرنے والوں کے خلاف جوابی کارروائی عبرت ناک ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی دہشت گرد اپنے مکروہ اہداف کی تکمیل میں کامیاب نہ ہو۔ سیکیورٹی فورسز کا اصل ہدف دہشت گردوں کو ٹارگٹ کرنا ہے اور وہ بھی دائمی طور پر۔
دریں اثناء بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن وامان کے قیام کے لیے فورسز نے ناقابل فراموش قربانیاںدی ہیں، حالیہ واقعہ میں اہلکاروں کی شہادت رائیگا ں نہیں جائے گی۔وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے اس واقعہ کو ارباب اختیار اپنے لیے ٹیسٹ کیس کے طور پر سامنے رکھیں اور بدامنی کی قوتوں کو خاک بسر کردیں۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اگلے روز تربت کے علاقہ بلیدہ میں سیکیورٹی فورسز خفیہ اطلاع پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھیں، فورسز کی ایک گاڑی دہشت گردوں کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجہ میں 6 سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے جب کہ فورسز کی کارروائی میں 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔
دہشت گردی کے اس واقعہ کی مماثلت اس سے قبل ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھی موجود ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ شورش پسندوں کو اسلحہ کی فراہمی اور ایکٹیوٹی زون کی تخصیص میں بعض ماسٹر مائنڈز کی کمک بھی درپردہ ملتی رہتی ہے، اس تناظر میں بھارتی مداخلت اور ''را'' کی سرگرمیوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
بلوچستان کی تزویراتی صورتحال کے حساس پہلو سے گہری واقفیت رکھنے والے واقفان راز کا کہنا ہے کہ یہی علاقے ڈاکٹر اللہ نذر کے زیر تصرف ہیں جہاں ان کے کارندے اور ''سرمچار '' سرگرم ہیں اور پاک فوج کے جوانوں کو شہید کرنے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں، سیکیورٹی نقطہ نظر سے لازم ہے کہ بلیدہ کے ایکٹی وٹی زون کا محاصرہ پوری قوت سے کیا جائے، موثر سرچ آپریشن کے ذریعہ دہشت گردوں کا کھوج لگایا جائے اور پورے شورش زدہ علاقے میں سیکیورٹی کے اقدامات نئے سرے سے نتیجہ خیز بنائے جائیں، یہ الم ناک واقعہ ہے۔
دہشت گردوں نے ہماری سیکیورٹی فورسز اور قوم کی حمیت کو للکارا ہے ، وہ بلوچستان کو پتھرکے دور میں لے جانے کی کوشش کررہے ہیں اس کام میں انہیں عبرتناک شکست دینا اب ناگزیر ہوگیا ہے،دشمن عناصر کی اس وقفہ وقفہ کی ریاست مخالف اسٹرٹیجی کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، بلوچستان کے وسیع رقبہ کو دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں ایک گوریلا ایڈوانٹیج کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، ان کی ساری تدابیر کو منظم اور مربوط کاؤنٹر ٹیررازم حکمت عملی کے تحت خاک میں ملانے کا وقت آگیا ہے۔
شہدا نے اپنے خون سے اس شورش اور دہشت گردی کے خاتمہ کا سیکیورٹی فورسز کو نیا عزم بخشا ہے، صوبہ میں علیحدگی پسندوں کا خاتمہ اور غیر ملکی کمک اور اسلحہ و فنڈ کی فراہمی کے نیٹ ورک کو بلڈوز کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے، بلوچستان حکومت کے لیے اس سانحہ میں ہوشمندی ،سنجیدگی اور اپنی صفوں کو متحد رکھنے کا سبق موجود ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں محاذ صرف دشمن کو شکست دینا ہے، اس لیے سیاسی مسائل ، سی پیک اور دوسرے داخلی تنازعات کے لیے کافی وقت پڑا ہے۔
ضرورت دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے یقین،عزم مسلسل اور سیاسی و عسکری مستعدی اور دور اندیشی کی ہے، دشمن چالاک اور فعال ہے، اسے بھارت سمیت ان طاقتوں کی معاونت حاصل ہوسکتی ہے جو پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار بنا کر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں، ایک تجزیہ کے مطابق پاکستان کے سیاسی و سماجی استحکام اور نئی حکومت کی قیادت میں ترقی و خوشحالی کے سفر کو ناکام بنانے کے لیے دشمن افغان کارڈ استعمال کررہا ہے، وہ افغانستان میں امن کی قیمت پر بلوچستان کے عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑنے کی عیاریوں میں مصروف ہے اور صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے۔
بلوچستان میں ہونے والا واقعہ ہر لحاظ سے چشم کشا ہے، ارباب اختیار اس بحث میں نہ الجھیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی تفہیم اور سیاسی بریک تھرو کی فوری ضرورت ہے لہذا دہشت گردی کے اہم ایشو کو صوبہ کے سیاسی حل سے مشروط ہونا چاہیے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے اور علاقے میں شورش اور پر آشوب تزویراتی منظر نامہ کی ہولناکی کو بڑھاوا دینے کے لیے دہشت گرد عناصر اپنی شکست ماننے پر تیار نہیں ، لہذا صوبہ میں امن وامان کو یقینی بنانے اور پاک فوج کے جوانوں پر بزدلانہ حملہ کرنے والوں کے خلاف جوابی کارروائی عبرت ناک ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی دہشت گرد اپنے مکروہ اہداف کی تکمیل میں کامیاب نہ ہو۔ سیکیورٹی فورسز کا اصل ہدف دہشت گردوں کو ٹارگٹ کرنا ہے اور وہ بھی دائمی طور پر۔
دریں اثناء بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن وامان کے قیام کے لیے فورسز نے ناقابل فراموش قربانیاںدی ہیں، حالیہ واقعہ میں اہلکاروں کی شہادت رائیگا ں نہیں جائے گی۔وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے اس واقعہ کو ارباب اختیار اپنے لیے ٹیسٹ کیس کے طور پر سامنے رکھیں اور بدامنی کی قوتوں کو خاک بسر کردیں۔