نجی اسکولوں میں فیسوں کا مسئلہ

اصولی طور پر ریگولیٹری اتھارٹی کو نجی شعبہ میں کام کرنے والے اسکولوں کی تین سے چار سطحوں کی درجہ بندی کرنا ہوگی۔

salmanabidpk@gmail.com

بنیادی طور پر1973ء کے دستور کی شق25Aکے تحت یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو اس کے بنیادی حق تعلیم کو یقینی بنائے۔ اگر ریاست اس امر کو یقینی نہیں بناتی تو وہ عملی طور پر وہ شہریوں کے بنیادی حق کی نفی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کو ایک ذمے دار ریاست کہلوانے کا کوئی حق نہیں ہوتا اور پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جس کی ترجیحات کی درجہ بندی میں تعلیم بہت پیچھے ہے۔ اس کی ایک واضح مثال تعلیمی بجٹ یا وسائل یعنی جی ڈی پی میں شرمناک حد تک کمی ہے۔

عملی طور پر ریاست شہریوں کے تناظر میں اپنے بنیادی حق تعلیم سے دست برداری کی جانب بڑھ رہی ہے اور اس نے یہ کام نجی شعبہ کو دے دیا ہے ۔یعنی تعلیم کو منافع کی بنیاد پر چلانے کی اس روش نے تعلیم کے پورے نظام کو طبقوں کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے۔اس سوچ کی بنیاد کی وجہ سے دو پہلو سامنے آئے۔اول سرکاری تعلیمی اداروں کی بجائے نجی شعبہ میں تعلیم کا پھیلاو اوردوئم پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں کی بندش یا اسے بھی نجی شعبہ میں دینے کی حکمت عملی نظر آتی ہے ۔سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیمی معیار کو ایک خاص مقصد کے تحت محدود یا غیر اہم بنا کر نجی شعبہ کی ضرورت اوراہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا۔

نجی شعبہ کا تعلیم کے میدان میں کام کرنا بری بات نہیں لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ خود عملا ریاست یا حکومت اپنی ذمے داری سے دست بردار ہوجائے۔ اگر نجی شعبہ کی مدد سے بھی ریاست یا حکومت نے تعلیم کا بندوبست کرنا ہے تو اسے کسی بے لگام گھوڑے کی طرح چھوڑا نہیں جاتا بلکہ اسے ریگولیٹری اتھارٹی یا قانون کے تحت چلا کر اسے ریاستی یا حکومتی نظام کے ماتحت چلایا جاتا ہے۔تاکہ کوئی بھی تعلیم سے جڑا نجی شعبہ ریاستی یا حکومتی دائرہ کار سے تجاوز نہ کرے۔لیکن پاکستان میں نجی تعلیم کے شعبہ میں موجود خرابیوں نے بچوں اور بچیوں سمیت والدین کو مہنگی تعلیم کے مسئلہ پر ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ والدین کو یہ گلہ ہے کہ تعلیمی فیسوں میں بے جا اوربلاوجہ کی بنیادوں پر اضافہ اور دیگر سہولتوں کے نام پر فنڈزکی جبر کی بنیاد پر وصولی خلاف قانون ہے ۔

اسی بنیاد پر سپریم کورٹ کی جانب اسکولوں میں دی جانے والی مہنگی تعلیم کے تناظر میں چند حتمی فیصلوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ جن میں اول تمام نجی شعبوں میں کام کرنے والے اسکولوں کو جن کی ماہانہ فیس پانچ ہزار سے زیادہ ہے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 20فیصد فیسوں میں کمی کردیں۔دوئم موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران لی گئی آدھی فیس بھی واپس کی جائے۔ سوئم نجی اسکول سالانہ بنیادوں پر پانچ فیصد سے زیادہ فیس وصول نہیں کرسکیں گے اوراگر اس میں اضافہ کرنا مقصود ہوا تو ریگولٹری باڈی سے منظوری لینی ہوگی جو آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکے گی۔چہارم نجی اسکولز مالکان اور ڈائریکٹرزکے انکم ٹیکس گوشواروں کی چھان بین اور بائیس نجی اسکولوں کے اکاونٹس قبضہ میں لینے کا حکم دیا ہے اور سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر ان فیسوں میں کمی نہیں کی گئی یا اسکولوں کو بند کیا گیا تو مالکان کی جانب سے اسے عدالت کی حکم عدولی کے طور پر دیکھا جائے گا۔


یہاں نجی شعبے میں کام کرنے والے بڑے ا سکولوں کے والدین کافی عرصہ سے اسکولوں میں تواتر کے ساتھ فیسوں میں اضافہ پر نہ صرف پریشان تھے، بلکہ اجتجاج بھی کررہے تھے۔ لیکن حکومتی سطح پر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی تھی اوراسی بنیاد پر عدالتوں کا رخ کیاگیا اور حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔اگرچہ اس عدالتی فیصلے کا اطلاق پانچ ہزار سے زیادہ فیس کو وصول کرنے والے تعلیمی اداروں پر ہوگا، مگر پانچ ہزار سے کم فیس لینے والے تعلیمی اداروں کو کیوں چھوٹ دی گئی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ فیصلہ ہر سطح کے نجی شعبہ میں کام کرنے والے تعلیمی اداروں تک ہونا چاہیے تھا۔ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر نجی شعبہ میں کام کرنے والے کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی اس کا دائرہ کار بڑھنا چاہیے۔

اسکولوں اورکالجوں کی سطح پر فیسوں میں کمی کا معاملہ محض ڈنڈے کے زور پر نہیں ہونا چاہیے اورنہ ہی محض عدالتی حکم کے بعد سب کچھ فورا بدل جائے گا۔اصل مسئلہ تعلیم کے میدان میں نجی شعبہ میں ریگولٹری اتھاڑتی کو مضبوط، مربوط اورفعال سمیت شفاف اندا ز میں بنانا اور چلانا ہے،اس کام کے لیے یقینی طور پر موثر اور شفاف قانون سازی کرنی ہوگی اوراس میں نجی شعبہ کے ذمے داران سمیت ماہرین تعلیم کو بھی مشاورت کا حصہ دار بنانا ہوگا۔یہ سوچ نہیں ابھرنی چاہیے کہ ان پر زور کی بنیاد پر فیصلے مسلط کیے جا رہے ہیں۔نجی شعبہ کے بھی اگر جائز مسائل یا تحفظات یا مطالبات ہیں تو ان کو بھی ہمدردانہ طور پر سنا اور عملدر آمدکیا جائے۔ کیونکہ نجی شعبہ کی تعلیمی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور جو بھی فیصلے ہوں اس میں مشاورت کا عمل لازمی ہو۔

اصولی طور پر ریگولیٹری اتھارٹی کو نجی شعبہ میں کام کرنے والے اسکولوں کی تین سے چار سطحوں کی درجہ بندی کرنا ہوگی اور کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ فیس کا تعین کرنا ہوگا۔یہ حق کسی بھی نجی شعبہ کے اسکول کی انتظامیہ یا مالکان کو نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق فیسوں میں خود ہی اضافہ کریں۔ اسی طرح اسکول فیس کے علاوہ ہر طرح کے فنڈز کی وصولی ختم کرنی چاہیے اوراگر کوئی فنڈز ہیں تو وہ بھی سالانہ بنیادوں پر ریگولیٹر ی اتھارٹی ہی اس کا تعین کرے۔کیونکہ بدقسمتی سے نجی ا سکولز جس تواتر سے فیسوں میں ازخود اضافہ کرتے ہیں اور بے جا فنڈزوصول کرتے ہیں اس نے والدین کو زیادہ مشکل میں ڈال دیا ہے۔اسی طرح بچوں اوربچیوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ درسی کتب،کاپیاں، اسٹیشنری اور یونیفارم اسکولز سے ہی خریدیں جو بند ہونا چاہیے۔

ایک امکان یہ تھا کہ ملک میں 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبائی سطح پر تعلیم میں موجود مسائل کم ہونگے مگر مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ وجہ صاف ہے کہ وفاقی اور بالخصوص صوبائی حکومتوں کی جانب سے تعلیم سے جڑے مسائل پر توجہ نہ دینا ہے۔اس غفلت کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ بعض نجی شعبہ میں کام کرنے والے تعلیمی ادارے بے لگام ہوگئے ہیں اوران کو ریاستی و حکومتی دائرہ کار اور قانون میں لانا وقت کی ضرورت ہے۔سپریم کورٹ اوربالخصوص چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کو داد دینی چاہیے کہ انھوں نے اس مسئلہ پر والدین کو نہ صرف ریلیف دیا ہے بلکہ مستقل کے تناظر میں ایک فرئم ورک بھی دے دیا ہے ۔اب یہ کام حکومتوں کا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نجی شعبہ میں تعلیم کے حوالے سے موثر قانون سازی، پالیسی اور عملدرآمد سمیت نگرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنائے۔ حکومتوں کو سمجھنا چاہیے کہ جو کام عدالتوں نے کیا ہے وہ ان کا کام تھا۔

نجی شعبہ کے ساتھ ساتھ ریاست او رحکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار پر بھی کچھ غور کریں۔
Load Next Story