تجاوزات کا علاج کیا

کسی بھی چیز کو ایک حد تک تو درست کہا جاسکتا ہے مگر جب وہ حد سے تجاوز کر جائے۔

usmandamohi@yahoo.com

صدر میں سیکڑوں دکانوں کی مسماری کے بعد ایمپریس مارکیٹ کی اصل شکل و صورت کی بحالی پر میئر کراچی وسیم اختر نے نہایت اطمینان سے کہا تھا کہ ''اب ایمپریس مارکیٹ کی تاریخی حیثیت بحال ہوگئی ہے، اب ہم یہاں ایک خوبصورت باغ لگائیں گے۔''

اس میں شک نہیں کہ یہ ایک تاریخی عمارت ہے مگر یاد رہے کہ یہی جگہ 1857 ء کی جنگ آزادی کے مجاہدوں کا مقتل بھی تھی۔ اسی مقام پر انگریز سامراج نے کئی مجاہدین آزادی کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کی جدوجہد کی پاداش میں توپ کے گولوں سے اڑا دیا تھا۔ روایت کے مطابق اسی مقام پر بعض مجاہدین کی لاشوں کو ایک بڑا گڑھا کھود کر بے گورو کفن ڈال دیا گیا تھا۔

جب کچھ دنوں کے بعد مقامی لوگ اپنے مجاہدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہاں آکر دیے جلانے اور پھول نچھاور کرنے لگے تو انگریز سامراج کو خوف لاحق ہوا کہ کہیں میرٹھ کے بعد اب کراچی سے ان کے خلاف نئی جنگ آزادی کا آغاز نہ ہوجائے، چنانچہ انھوں نے اس جگہ کو شہدا کی یادگار بننے سے روکنے کے لیے ایک وسیع عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور ضرورت کے مطابق اسے ایک مارکیٹ کی شکل دے دی۔ اس کی تعمیر کے بعد اس کا نام پوری دنیا پر قبضہ جمانے کی ہوس رکھنے والی اپنی ملکہ وکٹوریہ کے نام کی مناسبت سے ایمپریس مارکیٹ رکھ دیا۔

مقامی لوگوں سے انگریزوں کی منافرت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا تھا یہاں صرف انگریزوں اور اینگلو انڈین کو ہی سودا سلف خریدنے کی اجازت تھی۔ یہ عمارت جو سامراجیت اور استعماریت کی جیتی جاگتی نشانی ہے، اس پر بھلا کوئی پاکستانی کیسے فخر کرسکتا ہے۔ میئر کراچی اپنی مرضی کے مطابق اس کے اردگرد باغ ضرور لگوائیں مگر جنگ آزادی کے شہدا کی یادگار بھی تعمیر کرائیں ساتھ ہی اب ان شہدا کی لاشیں جنھیں یہاں گڑھے میں ڈال دیا گیا تھا بے شک اب وہ ہڈیوں کی شکل اختیارکرگئی ہوں گی مگر انھیں تلاش کرکے عزت و احترام کے ساتھ دفن کرنا بھی ہم سب پر قرض ہے۔

جہاں تک تجاوزات کا تعلق ہے کسی بھی چیز کو ایک حد تک تو درست کہا جاسکتا ہے مگر جب وہ حد سے تجاوز کر جائے تو پھر اسے اصلیت کے دائرے میں لانا ضروری ہوجاتا ہے۔ تجاوزات کو قانون کے دائرے میں لانے کا کام آج کل ہمارے شہر میں ہی کیا پورے ملک میں زور و شور سے جاری ہے۔ وہ لوگ جو پہلے شہر میں تجاوزات سے پریشان تھے اور انھیں فوراً صاف کرنے کے حامی تھے اب وہ بھی آپریشن سے بدظن نظر آرہے ہیں۔

کراچی میں سڑکیں گلیاں کیا فٹ پاتھوں پر تجاوزات کی بھرمار تھی، اگر سڑکوں اور گلیوں سے گاڑیوں وغیرہ کا گزرنا مشکل تھا تو فٹ پاتھوں پر راہگیروں کا چلنا دوبھر تھا۔کراچی کی سڑکوں کی بات ہی کیا یہاں تو نالوں اور پارکوں پر بھی تجاوزات موجود تھیں۔ نالوں پر میلوں دکانیں ہی نہیں باقاعدہ مارکیٹیں قائم تھیں۔ ان کے نیچے بہنے والے گندے پانی کی نکاسی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ ان کی صفائی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا اس لیے کہ دکانوں کے نیچے نالوں سے گندگی نکالنا بھنگیوں کے لیے کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بس برسات کے دنوں میں ان کی بارش کے پانی کے ریلے سے صفائی ضرور ہوجاتی تھی۔


بدقسمتی سے کراچی میں ہر سال تو بارش ہوتی نہیں لہٰذا جب کسی سال بارش ہوجاتی تو ان نالوں کی ضرور صفائی ہوجاتی ورنہ بقیہ عرصے میں یہ پورے علاقے کو بدبو سے مہکاتے رہتے جہاں تک پارکوں اور پلے گراؤنڈز کا تعلق ہے ان پر اوروں کے علاوہ سیاسی اور سماجی تنظیموں نے باقاعدہ اپنے بڑے بڑے عالی شان دفاتر قائم کر رکھے تھے، بعض جگہ باڈی بلڈنگ اور پرائیویٹ اسپورٹس کمپلیکس بنے ہوئے تھے پھر اور تو اور کئی پارکوں اور رفاعی پلاٹوں پر شاندار شادی ہال باقاعدگی سے چل رہے تھے۔ اب ان تمام لوازمات کے ہوتے ہوئے بھلا لوگ کہاں تفریح کے لیے جاتے اور بچے کہاں کھیلتے کودتے۔

بدقسمتی سے جتنا کراچی میں قبضہ مافیا متحرک ہے شاید ہی کسی دوسرے شہر میں ایسا ہو مگر سوال یہ ہے کہ آج تجاوزات کے خلاف کھل کر آپریشن تو ضرور ہو رہا ہے سڑکوں اور گلیوں کو آزاد کرایا جا رہا ہے نالوں اور پارکوں پر قائم تجاوزات کو ختم کیا جا رہا ہے پر یہ تجاوزات کوئی ایک یا دو سال میں تو قائم نہیں ہوئے یہ سلسلہ تو گزشتہ ستر برسوں سے چلا آرہا ہے۔ شہر میں اینٹی انکروچمنٹ کا ادارہ بھی قائم ہے دیگر بلدیاتی ادارے بھی تجاوزات کے خلاف کام کرنے کے لیے موجود ہیں۔

صوبائی حکومت اور عدلیہ بھی موجود تھی مگر سب کی آنکھوں کے سامنے یہ بھیانک عوام دشمن اور غیر قانونی کام ہوتے رہے۔ اب تجاوزات کو ہٹانے کا کام تیزی سے جاری تو ضرور ہے مگر اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ آیندہ تجاوزات کو پنپنے نہیں دیا جائے گا؟ اب تو یہ ہونا چاہیے کہ خود عدالت عظمیٰ بلدیہ سے ہٹ کر تجاوزات کے تدارک کے لیے ایک ایسا خود مختار ادارہ قائم کرے جو شہر میں کسی بھی جگہ کسی بھی قسم کی تجاوزات کو نہ ہونے دے اور اگر کوئی شخص زبردستی یا کسی کا سفارش کی بنیاد پر ایسا کرنا چاہے تو تجاوزات کرنے والے کے ساتھ ساتھ سہولت کارکے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے۔

اس وقت تجاوزات کے خلاف آپریشن کے طریقہ کارکے خلاف شہرکی تمام ہی سیاسی پارٹیاں یکسو ہوکر آواز بلند کر رہی ہیں خود ایم کیو ایم والے جن کے میئر کے سر تجاوزات ہٹانے کا سہرا باندھا گیا ہے اس کے خلاف ہیں۔ دوسری سیاسی پارٹیاں بھی آپریشن کے طریقہ کار سے اختلاف کرکے احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپریشن پر فوری عمل درآمد سے پہلے لوگوں کے بے روزگار ہونے اور کاروبار کے خراب ہونے کے سنگین مسئلے کو سامنے رکھ کر متاثرین کی بحالی کا پروگرام بنانا چاہیے تھا۔

ایم کیو ایم کے ایک اہم لیڈر فاروق ستار نے کھل کر آپریشن کی وجہ سے لوگوں کے بے روزگار ہونے اور معیشت کو نقصان پہنچنے کا میئرکراچی کو ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ انھوں نے آپریشن کے خلاف ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تجاوزات کی صفائی کی آڑ میں شہر کے پانچ لاکھ لوگوں کو بے روزگارکردیا گیا ہے۔ انھوں نے میئر کراچی کو باقاعدہ چیلنج کیا ہے کہ اب وہ آیندہ الیکشن لڑ کر دیکھیں تو انھیں اپنی مقبولیت کا پتا چل جائے گا۔

ادھر ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ دکانداروں نے آپریشن کے خلاف کیس سندھ ہائی کورٹ میں داخل کردیا ہے ان کا موقف ہے کہ مسمار کی جانے والی دکانیں الاٹیڈ تھیں اور باقاعدگی سے کے ایم سی کو کرایہ ادا کر رہے تھے لہٰذا میئر کراچی کے اقدام کو غیر قانونی قرار دے کر مارکیٹ دوبارہ تعمیر کرائی جائے اور ان کی دکانوں کو بحال کیا جائے۔ جماعت اسلامی آپریشن کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہی ہے۔ پی ٹی آئی بھی میئر کراچی کے اقدام کی سخت مخالفت کر رہی ہے اور اسے اپنے ووٹرز کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے۔

پی ایس پی کا موقف ہے کہ بغیر پلاننگ کے کیے جانے والے عوام دشمن آپریشن کو فوراً روکا جائے اور متاثرین کو معاوضہ دینے کے علاوہ ان کے کاروبارکو بحال کیا جائے۔ البتہ پیپلز پارٹی کی اس سلسلے میں پالیسی واضح نہیں ہے وہ کبھی میئر کراچی کی سپورٹ کرتے ہیں توکبھی ان کے خلاف بولتے ہیں۔ میئر کراچی اب چاروں جانب سے ان پر ہونے والی تنقید کا نشانہ بننے سے بچنے کے لیے آپریشن کو سوچ سمجھ کر آگے بڑھائیں اور اب آپریشن کا دائرہ کار اسکیم 33 کی سوسائٹیز پر برسوں سے قائم تجاوزات تک دراز کرکے یہاں کے مظلوم الاٹیزکی دعائیں لیں۔
Load Next Story