سکھر بیراج سے مے فیئر تک

خان بہادر کا پہلا کارنامہ سکھر بیراج تھا جو اب پاکستان میں ہے۔

h.sethi@hotmail.com

میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث رہے گی کہ اسکول کے دنوں سے لے کر گزشتہ ہفتے تک میرے عزیز ترین دوست سلیم مرزا نے کبھی اپنے نامور سول انجینئر اور قائداعظم محمد علی جناح سے قریبی تعلق رکھنے والے والد خان بہادر مرزا محمد دین کا ذکر تک نہ کیا اور بات کھلی تو اس نے نہ صرف میرے ساتھ لاہور جمخانہ کلب میں دو نشستوں کے دوران خان بہادر کے کارناموں کا ذکر کیا، قائداعظم کے ساتھ ان کی خط وکتابت کی نقول دیں بلکہ اپنے بڑے بھائی اختر مرزا کی 608 صفحوں کی کتاب جس میں کئی ہزار تصاویر ہیں، پیش کر دی۔ اس کتاب میں خان بہادر کا اختر مرزا کے نام 4 نومبر 1950 کے روز لکھے ہوئے خط کا نقش بھی ہے۔

خان بہادر مرزا محمد دین سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں 1887 میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے انجینئرنگ اور فن تعمیر سے رغبت تھی۔ بہت چھوٹی عمر میں انھوں نے ایک ماہر انجینئر کی حیثیت سے نام پیدا کر لیا۔ آپ کی شہرت اردگرد سے لے کر پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ ہم تونسہ، کوٹری، گدو، چشمہ بیراجز سے واقف ہیں۔ سکھر بیراج کی تعمیر 1923 میں شروع ہوئی۔ یہ منصوبہ سندھ کی خشک زمینوں کو چھ نہروں کے ذریعے زرخیز و شاداب بنانے کے لیے شروع ہو کر 1932میں مکمل ہوا۔

محمد دین بحیثیت XEN اس کی تعمیر میں شامل ہو کر چیف انجینئر کے عہدے تک پہنچے۔ اپنی نوعیت اور اہمیت کے لحاظ سے سکھر بیراج پورے ہندوستان میں یادگار اور شاہکار منصوبہ تھا۔ پہلے انھیں خان صاحب کا خطاب ملا پھر حکومت برطانیہ نے 1932میں خان بہادر کے اعزاز سے نوازا۔ سیالکوٹ کے چھوٹے سے گاؤں بڈھاگورائیہ میں پیدا ہونے والے اور پھر ڈسکہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کر کے انجینئرنگ میں کمال حاصل کرنے والے اس شخص نے شہر اقبال کا نام روشن یوں کیا کہ انگریز حکمرانوں کی نظر انتخاب اس پر پڑی اور اس نے ہندوستان کے کئی مشکل پروجیکٹس بھی مکمل کیے۔

انگریز کی عملداری شروع ہوئی تو سیالکوٹ علم وفن کا گہوارہ تھا۔ اس بات سے متاثر ہو کر انگریزی حکومت نے ہندوستان میں سب سے پہلے جو پانچ کالج تعمیر کیے ان میں ایک اس شہر کا موجودہ مرے کالج بھی ہے۔ سیالکوٹ نے ملا کمال کاشمیری جیسے جید عالم دین سے نور ہدایت پھیلایا۔ مجدد الف ثانی نے سیالکوٹ ہی میں ملا کاشمیری سے اکتساب علم کیا۔ اسی شہر میں علامہ مہر حسن درس فیض دیتے تھے۔ سیالکوٹ ہی میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے جنم لیا۔ فیض احمد فیضؔ کا تعلق بھی شہر اقبال سے تھا۔ یہیں مولانا ظفر علی خان نے آنکھیں کھولیں۔

سکھر بیراج کی تعمیر کوئی معمولی کام نہ تھا۔ یہ اس وقت کے ہندوستان کا ایک اہم ترین اور شاہکار منصوبہ تھا جس پر محمد دین نے بطور ایکسین کام کیا اور پھر چیف انجینئر کے عہدہ پر ایک انگریز کی جگہ تعینات ہوئے۔ ان ہی دنوں ان کی شاندار کارکردگی پر ان کو خان بہادر کا اعزاز ملا۔ ان دنوں قائداعظم ایک مشہور مقدمہ قتل کی پیروی کے لیے سکھر آئے ہوئے تھے۔ ان کی دعوت پر جناح صاحب اور سر محمد شفیع نے سکھر بیراج کا منصوبہ دیکھا۔ اسی روز خان بہادر محمد دین نے قائداعظم اور سر شفیع کے اعزاز میں رات کھانے کی دعوت دی۔

جب 1940میں خان بہادر ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو انھوں نے بمبئی میں انڈیا واٹر پروفنگ کمپنی کے نام سے ادارہ قائم کر کے پرائیویٹ تعمیراتی کام شروع کر دیا۔ اپنی نمایاں کارکردگی کی وجہ سے ان کی کمپنی کچھ ہی عرصہ میں چوٹی کے اداروں میں شمار ہونے لگی۔ قائداعظم انھیں جانتے تھے اس لیے انھوں نے اپنی پراپرٹی کی نگرانی اور تعمیر ومرمت کا کام بھی خان بہادر کو سونپ دیا۔ اس کے ساتھ اپنے احترام والے تعلق کی وجہ سے انھوں نے ''مے فیئر'' نامی پراپرٹی کی مرمت کے لیے قائداعظم کو لکھ کر دس بوری سیمنٹ اور واٹر پروفنگ مسالہ منگوایا۔


راج مزدور کا خرچ ان پر ڈالا لیکن اپنی نگرانی کا معاوضہ لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد بھی اگر قائداعظم نے انھیں کوئی کام سونپا تو خان بہادر نے صاف کہہ دیا کہ میٹریل اور راج مزدور کا خرچہ آپ کے ذمے، نگرانی کا کوئی پیسہ نہیں لوں گا۔ ایک بار مولانا ظفر علی خاں کی خواہش پر وہ انھیں قائداعظم سے ملوانے بھی لے گئے۔ ان کی قائداعظم سے خط وکتابت کا ریکارڈ ملتا ہے۔ قائداعظم کا صرف ایک خط ملاحظہ ہو۔ یہ خط 20 جولائی 1941ء کا ہے:

''My dear Mohammed Din, I am in receipt of your letter of 21st instant and I will attend to the matter immediately after my return which will be on or about the 16th of August 1941, M.A. Jinah''

ایک بار جب بمبئی کے امیر ترین سیٹھ کی سمندر کنارے کوٹھی آہستہ آہستہ سمندر کی طرف سرکنے لگی تو بہت سے ماہرین کی ناکامی کے بعد سیٹھ نے خان بہادر سے رجوع کیا۔ انھوں نے کچھ عرصہ کوٹھی کے سرکنے کا جائزہ لیا اور پھر سیٹھ سے بھاری تعداد میں پتھریلے کھنگر منگوانے کے لیے کہا۔ سیٹھ نے ان کا انتظام کر لیا تو خان بہادر نے مزدوروں سے وہ کھنگر کوٹھی کے سمندر کی جانب دیواروں کے آگے رکھوانے شروع کیے یہاں تک کہ وہ سطح سمندر سے اٹھ کر کوٹھی کے سمندر سمت دیواروں تک اوپر آ گئے۔ یہ کام کئی ماہ ہوتا رہا۔ تب خان بہادر نے سیٹھ کو ماہ بہ ماہ رپورٹ کرنے کے لیے کہا۔ کھنگروں نے کوٹھی کا سرکنا روک دیا تھا۔

مدت سے آگرہ کے تاج محل کے مقبرے میں ایک نقص چلا آ رہا تھا کہ برسات کے موسم میں اس کے ایک گنبد سے پانی ٹپکنے لگتا۔ کئی انجینئر اس خرابی کو دور کرنے میں ناکام رہے تھے۔ 1951ء میں خان بہادر نے ایک انٹرنیشنل انجینئرنگ کانفرنس میں بھارتی وفد کی قیادت کی۔ کانفرنس کے بعد پنڈت جواہر لعل نہرو نے خان بہادر کو گنبد کی Seapage دور کرنے کی ڈیوٹی سونپی جو انھوں نے معائنہ کر کے ٹھیک کر دی۔

نہرو صاحب نے خان بہادر کی مہارت کو سراہا کہ انھوں نے بغیر وقت ضائع کیے معمولی خرچ پر دیرینہ نقص دور کر دیا۔ وہ نہ صرف ماہر انجینئر تھے، علم وادب اور شعر وسخن کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ پلنگ یا چارپائی کے بجائے فرش پر میٹرس بچھا کر سوتے تھے۔ ہندوستان کے شہری، لیکن سیالکوٹ رہنا پسند کرتے تھے۔ وہ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے۔ اقبال اور حالی کی شاعری کے شیدائی تھے۔ ان کی بیٹی ادیبہ خانم نے ان کا علمی خزانہ 1958ء تک، جب خان بہادر محمد دین کی سیالکوٹ میں وفات ہوئی، سنبھال کر رکھا ہوا تھا، جو بعد میں بکھر گیا۔

خان بہادر کا پہلا کارنامہ سکھر بیراج تھا جو اب پاکستان میں ہے۔ بمبئی کے سیٹھ کی کوٹھی کو غرق ہونے سے بچانے اور تاج محل کے گنبد کو ٹپکنے سے روک کر ممتاز محل کے مقبرے کو محفوظ کرنے، قائداعظم کی Mayfair پراپرٹی کی مرمت اور قائداعظم سے ملاقاتیں اور خط وکتابت سے لے کر ان کی انجینئرنگ میں مہارت اور پھر علم وادب یا شعری ذوق، وہ چند یادیں ہیں جو لوگ بھول چکے تھے، سلیم مرزا، اختر مرزا، ارسلان مرزا اور ادیبہ خانم کا شکریہ کہ ہم آج بھی خاں بہادر محمد دین کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔
Load Next Story