قاہرہ کا تحریر چوک اور اس سے ملحقہ گلیوں کی شرمناک کہانیاں
تحریر چوک میں مرسی کے لاکھوں مخالفین جمع تھے‘ ایسے میں وحشیوں نے جس درندگی اور بربریت کا مظاہر ہ کیا وہ ناقابل فہم ہے۔
قاہرہ کے تحریر چوک میں جہاں مرسی حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے اور وہاں لاکھوں لوگ جمع تھے وہیں لاقانونیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض گروہوں نے اس چوک اور اس کے ملحقہ گلیوں میں چار دن اور چار راتیں درندگی کا کھیل جاری رکھا۔ لاقانونیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے راہرو نوجوانو ں کے ٹولوں نے بلا خوف و خطر ان کے قابو میں آ جانے والی خواتین کو درندگی کا نشانہ بنایا۔ دنیا کا میڈیا وہا ں موجود تھا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کسی کو بھی ایسے واقعات رپورٹ کر نے کی تو فیق نہیں ہو ئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا ایجنڈا صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنا تھا' باقی جو کچھ ہوتا رہا' اس کی جانب ان کی توجہ نہیں تھی۔ اعتدال پسند اسلام کا علمبردار اور امریکی درسگاہوں کا تعلیم یا فتہ مرسی، جس پر انھوں نے چن چن کر نشا نے لگائے، مصری فوج نے اس کا تختہ الٹ دیا جس پر مشرقِ وسطیٰ کے حکمرانوں سمیت ساری مہذب دنیا نے سکھ کا سا نس لیا ہے۔
ویسے بھی عالمی میڈیا ایسے گھنائونے واقعات کیوں رپورٹ کرتا ہے۔ اس کا ایجنڈا تو صدر مرسی کا تختہ الٹنا تھا۔ اس لیے جان بوجھ کر ان شرمناک واقعات کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔
تحریر چوک میں محمد مرسی کے لاکھوں مخالفین جمع تھے' ایسے میں وحشیوں نے جس درندگی اور بربریت کا مظاہر ہ کیا وہ ناقابل فہم ہے۔ خواتین کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک روا رکھا گیا' اس نے مصری معاشرے کو بھی بے نقاب کیا اور مغربی میڈیا کو بھی۔ عالمی ذرایع ابلاغ، ٹی وی چینلوں اور نیوز ایجنسیوں نے جس طر ح خود عائد کردہ سنسر پر عمل درآمد کیا اس نے ان کے مسلم دنیا کے بار ے میں مخصوص "ایجنڈے" کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
30 جو ن سے 2 جولائی کی رات تک قاہرہ کے تحریک چوک اور اس سے ملحقہ گلیوں میں جو کچھ ہوا' اس کے بارے میں رپورٹ پڑھ کر مجھے تو تقسیم برصغیر پا ک و ہند اور ما ضی قر یب میں بوسنیا کے المناک واقعا ت یاد آ گئے۔ ہیومن رائٹ واچ نیو یارک (hrw.org) نے لرزہ خیز رپورٹ Egypyt: Epidemic of Sexual Violence مرتب کی جس کے مطا بق محمد مرسی کے دھر نے کے درمیان کم از کم 90 خواتین کی آبروریزی اور تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔
مصری فو ج کے سربراہ جنرل فاتح نے بغاوت سے دو دن پہلے صدر مرسی کو تنبیہ کی تھی کہ 'پر امن مظاہرین' کے خلاف طاقت استعمال نہ کی جائے جس کے بعد پولیس سمیت تما م قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر جانبدار ہو گئے تھے اور مرسی کی حکومت عملاً ختم ہو گئی تھی۔ جس کے بعد انسانوں کے روپ میں ان وحشی درندوں کو کھلی چھوٹ مل گئی جس کا انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور درجنوں خواتین پر قیامت گزر گئی۔ ان مظلوم خواتین کو بچانے کے لیے بروئے کار رضا کاروں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان خواتین کو آہنی راڈوں، ڈنڈوں، تیز دھار ہتھیاروں اور خنجروں سے نشانہ بنایا گیا۔ بعض خواتین پر 45 منٹ سے ایک گھنٹے تک مسلسل تشدد کیا جاتا رہا۔
مصر میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ سماجی مجبوریوں اور معاشرتی اقدار کی وجہ سے مظلوم خواتین سا منے نہیں آتی لیکن التحریر اسکوائر میں حالیہ مظاہروں کے دوران جو واقعات ہوئے ان پر دنیا بھر کا میڈیا کیوں خاموش رہا' اس کا جواب ان پر واجب ہے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنسی درندگی کے تما م واقعات میں مماثلت پائی جاتی ہے جس میں بے راہرو نوجوانوں نے باقاعدہ منظم طریقے سے ہدف بنا کر خواتین کو گھیر ے میں لے کر ان کی دوستوں اور عزیزوں سے دور دھکیلا اور پھر مظلوم خواتین کو زیادتی یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا'جس کی تفصیلات سے ڈاکٹروں اور رضاکاروں نے انتظامیہ اور پو لیس کو آگاہ کیا۔ لیکن انہو ں نے جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
پا نچ رضا کاروں نے خواتین کی زبردستی آبروریز ی کے 23 میں سے 10 ایسے واقعات کی تفصیلات سے ہیومن رائٹس واچ کو آگا ہ کیا جس میں انھوں نے مداخلت کر کے مظلوم خو اتین کو اسپتالوں تک پہنچایا۔ یہ تما م واقعات 30 جون کی شام 7 بجے سے رات 2.10 منٹ کے دوران پیش آئے۔ جن میں تحریر چوک کے مشرقی حصے اور ملحقہ گلیوں کو مجرمانہ حملوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ رضاکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا' ایک رضاکار نے بتایا کہ زخموں سے چور چور ایک خاتون کی جا ن بچانے کے لیے فوری سرجری کی گئی۔ ایک رضا کار کریم مسعود نے بتایا کہ اس رات 9.30 پر بہت سے افراد نے ایک 20 سالہ خاتون کو گھیرا ہوا تھا اسے دھکیلتے ہوئے تحریر چوک کے مشرقی علاقے میں شاہراہ محمد محمود کی طرف لے گئے' ہما ر ے رضا کاروں نے اس خاتو ن کو قریبی کیفے میں پہنچایا اور اسے کھڑکی کے راستے باہر ایمبولنس تک پہنچایا اس کے جسم سے لہو بہہ رہا تھا۔ اس طرح ایک خاتون کو ایک گھنٹے تک درجنوں درندے تشدد کا نشانہ بناتے رہے' اس علا قے میں کئی جگہوں پر خواتین سے زیادتی کے واقعات ہوئے' چھ خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک ایسی خاتون کو بھی ان درندوں نے اچک لیا جو اپنے شوہر کے ہمراہ محمد مرسی کے خلاف عوامی تحریک میں شرکت کے لیے آئی تھی۔
ایک رضا کار Dirk Wanrooiji نے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا کہ عر ب لیگ کی بلٖڈنگ کے قریب 15نوجوان ایک خاتون کو باڑ کی طرف دھکیل رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس ہجو م میں اضافہ ہو گیا۔ مختلف ہتھیاروں سے مسلح افراد اس مظلوم خاتون کو طوائف قر ار دے رہے تھے۔
رضا کاروں کے گروپ لیڈر احمد عز نے بتایا کہ 30 جو ن کی رات اس نے 12خواتین پر زیادتی کے واقعا ت دیکھے جن میں سے 2 غیر ملکی خواتین بھی شا مل تھیں۔ ان میں بیشتر واقعات محمود چو ک کے درمیان داخلی راستوں کے قرب و جوار میں ہو ئے۔ مظلوم خواتین کی عمریں 17سے 50 سال کے درمیا ن تھیں۔ بعض درندے ان حملوں کے دوران بظاہر خو اتین کو بچا نے کے لیے مدد کے لیے آتے۔
قاہر ہ کا تحریر چوک ہو یا اسلا م آباد کا ڈی چوک ہر جگہ مظاہرہ ہوتے رہتے ہیں۔ التحریر اسکوائر اور اس کی قرب و جوار میں لاقانونیت کا فائدہ اٹھا کر بعض گروہوں نے جو کچھ کیا ہے' وہ افسوسناک ہے۔ مصر کی حکومت کو ایسے جرائم کرنے والے افراد کو حراست میں لے کر انھیں نشان عبرت بنانا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
ویسے بھی عالمی میڈیا ایسے گھنائونے واقعات کیوں رپورٹ کرتا ہے۔ اس کا ایجنڈا تو صدر مرسی کا تختہ الٹنا تھا۔ اس لیے جان بوجھ کر ان شرمناک واقعات کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔
تحریر چوک میں محمد مرسی کے لاکھوں مخالفین جمع تھے' ایسے میں وحشیوں نے جس درندگی اور بربریت کا مظاہر ہ کیا وہ ناقابل فہم ہے۔ خواتین کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک روا رکھا گیا' اس نے مصری معاشرے کو بھی بے نقاب کیا اور مغربی میڈیا کو بھی۔ عالمی ذرایع ابلاغ، ٹی وی چینلوں اور نیوز ایجنسیوں نے جس طر ح خود عائد کردہ سنسر پر عمل درآمد کیا اس نے ان کے مسلم دنیا کے بار ے میں مخصوص "ایجنڈے" کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔
30 جو ن سے 2 جولائی کی رات تک قاہرہ کے تحریک چوک اور اس سے ملحقہ گلیوں میں جو کچھ ہوا' اس کے بارے میں رپورٹ پڑھ کر مجھے تو تقسیم برصغیر پا ک و ہند اور ما ضی قر یب میں بوسنیا کے المناک واقعا ت یاد آ گئے۔ ہیومن رائٹ واچ نیو یارک (hrw.org) نے لرزہ خیز رپورٹ Egypyt: Epidemic of Sexual Violence مرتب کی جس کے مطا بق محمد مرسی کے دھر نے کے درمیان کم از کم 90 خواتین کی آبروریزی اور تشدد کے واقعات ہوئے ہیں۔
مصری فو ج کے سربراہ جنرل فاتح نے بغاوت سے دو دن پہلے صدر مرسی کو تنبیہ کی تھی کہ 'پر امن مظاہرین' کے خلاف طاقت استعمال نہ کی جائے جس کے بعد پولیس سمیت تما م قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر جانبدار ہو گئے تھے اور مرسی کی حکومت عملاً ختم ہو گئی تھی۔ جس کے بعد انسانوں کے روپ میں ان وحشی درندوں کو کھلی چھوٹ مل گئی جس کا انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور درجنوں خواتین پر قیامت گزر گئی۔ ان مظلوم خواتین کو بچانے کے لیے بروئے کار رضا کاروں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان خواتین کو آہنی راڈوں، ڈنڈوں، تیز دھار ہتھیاروں اور خنجروں سے نشانہ بنایا گیا۔ بعض خواتین پر 45 منٹ سے ایک گھنٹے تک مسلسل تشدد کیا جاتا رہا۔
مصر میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ سماجی مجبوریوں اور معاشرتی اقدار کی وجہ سے مظلوم خواتین سا منے نہیں آتی لیکن التحریر اسکوائر میں حالیہ مظاہروں کے دوران جو واقعات ہوئے ان پر دنیا بھر کا میڈیا کیوں خاموش رہا' اس کا جواب ان پر واجب ہے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنسی درندگی کے تما م واقعات میں مماثلت پائی جاتی ہے جس میں بے راہرو نوجوانوں نے باقاعدہ منظم طریقے سے ہدف بنا کر خواتین کو گھیر ے میں لے کر ان کی دوستوں اور عزیزوں سے دور دھکیلا اور پھر مظلوم خواتین کو زیادتی یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا'جس کی تفصیلات سے ڈاکٹروں اور رضاکاروں نے انتظامیہ اور پو لیس کو آگاہ کیا۔ لیکن انہو ں نے جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
پا نچ رضا کاروں نے خواتین کی زبردستی آبروریز ی کے 23 میں سے 10 ایسے واقعات کی تفصیلات سے ہیومن رائٹس واچ کو آگا ہ کیا جس میں انھوں نے مداخلت کر کے مظلوم خو اتین کو اسپتالوں تک پہنچایا۔ یہ تما م واقعات 30 جون کی شام 7 بجے سے رات 2.10 منٹ کے دوران پیش آئے۔ جن میں تحریر چوک کے مشرقی حصے اور ملحقہ گلیوں کو مجرمانہ حملوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ رضاکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا' ایک رضاکار نے بتایا کہ زخموں سے چور چور ایک خاتون کی جا ن بچانے کے لیے فوری سرجری کی گئی۔ ایک رضا کار کریم مسعود نے بتایا کہ اس رات 9.30 پر بہت سے افراد نے ایک 20 سالہ خاتون کو گھیرا ہوا تھا اسے دھکیلتے ہوئے تحریر چوک کے مشرقی علاقے میں شاہراہ محمد محمود کی طرف لے گئے' ہما ر ے رضا کاروں نے اس خاتو ن کو قریبی کیفے میں پہنچایا اور اسے کھڑکی کے راستے باہر ایمبولنس تک پہنچایا اس کے جسم سے لہو بہہ رہا تھا۔ اس طرح ایک خاتون کو ایک گھنٹے تک درجنوں درندے تشدد کا نشانہ بناتے رہے' اس علا قے میں کئی جگہوں پر خواتین سے زیادتی کے واقعات ہوئے' چھ خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک ایسی خاتون کو بھی ان درندوں نے اچک لیا جو اپنے شوہر کے ہمراہ محمد مرسی کے خلاف عوامی تحریک میں شرکت کے لیے آئی تھی۔
ایک رضا کار Dirk Wanrooiji نے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا کہ عر ب لیگ کی بلٖڈنگ کے قریب 15نوجوان ایک خاتون کو باڑ کی طرف دھکیل رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس ہجو م میں اضافہ ہو گیا۔ مختلف ہتھیاروں سے مسلح افراد اس مظلوم خاتون کو طوائف قر ار دے رہے تھے۔
رضا کاروں کے گروپ لیڈر احمد عز نے بتایا کہ 30 جو ن کی رات اس نے 12خواتین پر زیادتی کے واقعا ت دیکھے جن میں سے 2 غیر ملکی خواتین بھی شا مل تھیں۔ ان میں بیشتر واقعات محمود چو ک کے درمیان داخلی راستوں کے قرب و جوار میں ہو ئے۔ مظلوم خواتین کی عمریں 17سے 50 سال کے درمیا ن تھیں۔ بعض درندے ان حملوں کے دوران بظاہر خو اتین کو بچا نے کے لیے مدد کے لیے آتے۔
قاہر ہ کا تحریر چوک ہو یا اسلا م آباد کا ڈی چوک ہر جگہ مظاہرہ ہوتے رہتے ہیں۔ التحریر اسکوائر اور اس کی قرب و جوار میں لاقانونیت کا فائدہ اٹھا کر بعض گروہوں نے جو کچھ کیا ہے' وہ افسوسناک ہے۔ مصر کی حکومت کو ایسے جرائم کرنے والے افراد کو حراست میں لے کر انھیں نشان عبرت بنانا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔