قومی ہاکی ٹیم کی ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی
فیڈریشن کے اربابِ اختیار احتساب سے بالا تر کیوں؟
جاوید آفریدی پاکستان سپرلیگ میں پشاور زلمی کے اونر ہیں، آج پی ایس ایل اپنی مقبولیت کی جس بلندیوں پر ہے، اس میں پشاور زلمی ٹیم کی کوششوں کا بڑا عمل دخل ہے، کرکٹ کے بعد جاوید آفریدی ہاکی کی طرف اس وقت آئے جب قومی کھیل کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کا خزانہ خالی ہو جانے کی وجہ سے گرین شرٹس کی ورلڈکپ میں شرکت مشکوک تھی، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ میگا ایونٹ کی تیاریوں کے لئے شیڈول کیمپ بھی ملتوی کرنا پڑا، ان نازک حالات میں جاوید آفریدی میدان میں آئے اور ان کے مالی تعاون کی وجہ سے قومی ٹیم ورلڈ کپ کا حصہ بننے کے قابل ہو سکی۔
جاویدآفریدی نے راقم کو ون ٹو ون ملاقات میں بتایا کہ کھلاڑی عالمی کپ سمیت مستقبل کے انٹرنیشنل ایونٹس میں بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں تو انہیں اس قدر انعام و کرام سے نوازا جائے گا جس کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا، اگرکھلاڑیوں اور پی ایچ ایف نے اپنی ماضی کی روش نہ بدلی اور ناکامیوںو مایوسیوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو میں کیا، میری طرح کے کئی اور سپانسرز بھی ایک ایک کر کے پیچھے ہٹ جائیں گے۔
بھارت میں جاری ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بالکل ویسی ہی ہے جیسے1986ء کے عالمی کپ میں تھی، انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم 12ٹیموں پر مشتمل میگا ایونٹ میں گیارہویں نمبر آئی، بڑے افسوس اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ ہماری ہاکی آج بھی وہیں بلکہ اس سے بھی بری پوزیشن پر کھڑی ہے جہاں 32 سال قبل تھی۔ 16ٹیموں کے ایونٹ میں پاکستانی ٹیم12ویں اپوزیشن ہی حاصل کی ہے۔
گو ہاکی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد صدر پی ایچ ایف بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر کی طرف سے رشید جونیئر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن لیکن اس کا بھی کوئی خاص فائدہ اس لئے بھی نہیں ہوگا کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی چند کھلاڑیوں اور آفیشلز کو قربانی کا بکرا بنا کر اصل ذمہ داروں کو بچا لیا جائے گا۔
یہ وہ کھیل ہے جو ملکی کھیلوں کے ارباب اختیار سالہاسال سے کھیلتے آ رہے ہیں، ورلڈ کپ کے لئے ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا جن کا نام ماضی کے ناکام ترین عہدیداروں میں آتا رہا ہے، ٹیم منیجر حسن سردار کئی بار فیڈریشن میں آئے، ناکامی پر گھر کی راہ لی، کچھ عرصہ کے بعد پھر کوئی نئی ذمہ داری سنبھال لی، چیف سلیکٹر اصلاح الدین صدیقی اس فہرست میں حسن سردار سے بھی کچھ آگے ہیں۔
پاکستان ہاکی کے ناکام ترین عہدیداروں میں ان کا شمار ہوتا ہے لیکن نہ جانے ان کے پاس وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہر فیڈریشن میں کسی نہ کسی طرح کوئی عہدہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور جب بات انٹرنیشنل دوروں کی ہو تو موصوف کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں، یہی کچھ ورلڈ کپ کے دوران بھی ہوا اور سابق کپتان بھارت میں خوب سیر سپاٹے اور انجوائے کرتے دکھائی دیئے۔
کوچز کی بات کی جائے تو ان میں صرف توقیر ڈار ایسی شخصیت ہیں جو پاکستان ہاکی فیڈریشن سے کچھ لینے نہیں بلکہ دینے آئے تھے، ان کے ٹیم مینجمنٹ کا حصہ بننے کی وجہ سے ہاکی کے اجڑے کیمپ میں بہار آ گئی، سپانسرز کھلاڑیوں کی مدد کرنے کے لئے میدان میں آ گئے، گورنر پنجاب اور ڈائریکٹر جنرل پنجاب سپورٹس بورڈ ندیم سرورسمیت متعدد شخصیات کی طرف سے قومی ٹیم کے اعزاز میں ظہرانوں اور اعشائیوں کا اہتمام کیا گیا۔
فنکاروں اور گلوکاروں نے کیمپ میں آکر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی، ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لئے بھارت جانے سے قبل تمام کھلاڑیوں کے واجبات کی ادائیگی ممکن ہوئی، ان تمام خدمات کے باوجود پاکستانی ٹیم بیلجیم سے ہارنے کی وجہ سے ورلڈ کپ میں ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہوئی تو انہوں نے اسے اپنی ناکامی سمجھتے ہوئے خود ہی ہیڈ کوچ کے عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔
ورلڈ کپ کے دوران ٹیم مینجمنٹ کے ایک اعلی عہدیدار سے قربت کی وجہ سے قومی ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری ریحان بٹ کو سونپی گئی ، پھر وہی ہونا تھا جس کی توقع کی جا رہی تھی، کوچنگ کی الف ب سے بھی واقفیت نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں ایک میچ بھی نہ جیت سکی اور تو اور گرین شرٹس عالمی کپ کے میچوں کے دوران حریف سائیڈز کے خلاف صرف ایک گول ہی کر سکے۔
ٹیم کے ساتھ اسے ڈاکٹر بنا کر بھارت لے جایا گیا جو صرف ڈسپنسر ہے، یہی حال فزیو تھراپسٹ کا بھی تھا۔ایک بارویڈیو اینالسٹ ایسے شخص کو بنایا گیا جس کو اپنے کام سے کم پی ایچ ایف حکام اور ٹیم مینجمنٹ کے عہدیداروں کی چاپلوسی میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، اسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے وہ ہر فیڈریشن میں وڈیو اینالسٹ کی مد میں دنیا بھر کے سیرسپاٹے کرتا چلا آ رہا ہے۔
ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی کی بات کی جائے تو گرین شرٹس نے شائقین کو خاصا مایوس کیا ہے، نہ جانے کیوں اسی کھلاڑی کو بار بار کپتان کیوں بنایا جاتا ہے جو ایونٹ کے دوران ہی اَن فٹ ہو کر ٹیم سے باہر ہو جاتا ہے جس کا خمیازہ گرین شرٹس کو بھگتنا پڑتا ہے، یہی کچھ ورلڈکپ کے دوران بھی ہوا اور رضوان سینئر ملائیشیا کے خلاف میچ کے دوران پاؤں کی انگلی زخمی ہونے کی وجہ سے ورلڈکپ کی دوڑ سے باہرہو گئے۔ جب ٹیم کی کوئی پلاننگ ہو اور نہ ہی کھلاڑیوں میں جیت کا کوئی جذبہ موجود ہو تو فتح وکامرانی کیسے ٹیم کا مقدر بن سکتی ہے۔
قومی کھیل کی جو موجودہ صورتحال ہے اس کے بعد میری سمجھ سے باہر ہے کہ عوام کی خون پسینے کی کمائی کو کیوں لٹایا جا رہا ہے؟ حال ہی میں حکومت سندھ کی طرف سے پی ایچ ایف کو10کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ جاری کی گئی تو ہاکی اوپن سیریز میں کیمپ کیلئے 115 کھلاڑیوں کو مدعو کر لیا گیا تاکہ ان کے قیام وطعام اور تیاریوں کی مد میں زیادہ سے زیادہ رقم اپنی جیبوں میں ڈالی جا سکے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پی ایچ ایف عہدیداراور سالہا سال سے قومی ٹیم پر بوجھ بننے والے کھلاڑی تو اپنے بینک بیلنس میں مزید لاکھوں روپے کا اضافہ کرکے گھروں کی راہ لے لیں گے لیکن ذمہ داروں کی غلط پالیسوں کا مجموعی نقصان صرف اور صرف قومی کھیل کو ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن اور قومی ٹیم کی اب تک کی مایوس کن کارکردگی کی حکومتی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کر کے قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ اگر اہم سیاسی، سماجی اور کاروباری شخصیات احتساب کے شکنجے میں لائے جا سکتے ہیں تو قومی کھیل کے مستقبل سے کھیلنے والوں کا کڑا احتساب کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
پاکستان ہاکی فیڈریشن کا خزانہ خالی ہو جانے کی وجہ سے گرین شرٹس کی ورلڈکپ میں شرکت مشکوک تھی، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ میگا ایونٹ کی تیاریوں کے لئے شیڈول کیمپ بھی ملتوی کرنا پڑا، ان نازک حالات میں جاوید آفریدی میدان میں آئے اور ان کے مالی تعاون کی وجہ سے قومی ٹیم ورلڈ کپ کا حصہ بننے کے قابل ہو سکی۔
جاویدآفریدی نے راقم کو ون ٹو ون ملاقات میں بتایا کہ کھلاڑی عالمی کپ سمیت مستقبل کے انٹرنیشنل ایونٹس میں بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں تو انہیں اس قدر انعام و کرام سے نوازا جائے گا جس کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا، اگرکھلاڑیوں اور پی ایچ ایف نے اپنی ماضی کی روش نہ بدلی اور ناکامیوںو مایوسیوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو میں کیا، میری طرح کے کئی اور سپانسرز بھی ایک ایک کر کے پیچھے ہٹ جائیں گے۔
بھارت میں جاری ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بالکل ویسی ہی ہے جیسے1986ء کے عالمی کپ میں تھی، انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم 12ٹیموں پر مشتمل میگا ایونٹ میں گیارہویں نمبر آئی، بڑے افسوس اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ ہماری ہاکی آج بھی وہیں بلکہ اس سے بھی بری پوزیشن پر کھڑی ہے جہاں 32 سال قبل تھی۔ 16ٹیموں کے ایونٹ میں پاکستانی ٹیم12ویں اپوزیشن ہی حاصل کی ہے۔
گو ہاکی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد صدر پی ایچ ایف بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر کی طرف سے رشید جونیئر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن لیکن اس کا بھی کوئی خاص فائدہ اس لئے بھی نہیں ہوگا کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی چند کھلاڑیوں اور آفیشلز کو قربانی کا بکرا بنا کر اصل ذمہ داروں کو بچا لیا جائے گا۔
یہ وہ کھیل ہے جو ملکی کھیلوں کے ارباب اختیار سالہاسال سے کھیلتے آ رہے ہیں، ورلڈ کپ کے لئے ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا جن کا نام ماضی کے ناکام ترین عہدیداروں میں آتا رہا ہے، ٹیم منیجر حسن سردار کئی بار فیڈریشن میں آئے، ناکامی پر گھر کی راہ لی، کچھ عرصہ کے بعد پھر کوئی نئی ذمہ داری سنبھال لی، چیف سلیکٹر اصلاح الدین صدیقی اس فہرست میں حسن سردار سے بھی کچھ آگے ہیں۔
پاکستان ہاکی کے ناکام ترین عہدیداروں میں ان کا شمار ہوتا ہے لیکن نہ جانے ان کے پاس وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہر فیڈریشن میں کسی نہ کسی طرح کوئی عہدہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور جب بات انٹرنیشنل دوروں کی ہو تو موصوف کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں، یہی کچھ ورلڈ کپ کے دوران بھی ہوا اور سابق کپتان بھارت میں خوب سیر سپاٹے اور انجوائے کرتے دکھائی دیئے۔
کوچز کی بات کی جائے تو ان میں صرف توقیر ڈار ایسی شخصیت ہیں جو پاکستان ہاکی فیڈریشن سے کچھ لینے نہیں بلکہ دینے آئے تھے، ان کے ٹیم مینجمنٹ کا حصہ بننے کی وجہ سے ہاکی کے اجڑے کیمپ میں بہار آ گئی، سپانسرز کھلاڑیوں کی مدد کرنے کے لئے میدان میں آ گئے، گورنر پنجاب اور ڈائریکٹر جنرل پنجاب سپورٹس بورڈ ندیم سرورسمیت متعدد شخصیات کی طرف سے قومی ٹیم کے اعزاز میں ظہرانوں اور اعشائیوں کا اہتمام کیا گیا۔
فنکاروں اور گلوکاروں نے کیمپ میں آکر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی، ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لئے بھارت جانے سے قبل تمام کھلاڑیوں کے واجبات کی ادائیگی ممکن ہوئی، ان تمام خدمات کے باوجود پاکستانی ٹیم بیلجیم سے ہارنے کی وجہ سے ورلڈ کپ میں ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہوئی تو انہوں نے اسے اپنی ناکامی سمجھتے ہوئے خود ہی ہیڈ کوچ کے عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔
ورلڈ کپ کے دوران ٹیم مینجمنٹ کے ایک اعلی عہدیدار سے قربت کی وجہ سے قومی ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری ریحان بٹ کو سونپی گئی ، پھر وہی ہونا تھا جس کی توقع کی جا رہی تھی، کوچنگ کی الف ب سے بھی واقفیت نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ میں ایک میچ بھی نہ جیت سکی اور تو اور گرین شرٹس عالمی کپ کے میچوں کے دوران حریف سائیڈز کے خلاف صرف ایک گول ہی کر سکے۔
ٹیم کے ساتھ اسے ڈاکٹر بنا کر بھارت لے جایا گیا جو صرف ڈسپنسر ہے، یہی حال فزیو تھراپسٹ کا بھی تھا۔ایک بارویڈیو اینالسٹ ایسے شخص کو بنایا گیا جس کو اپنے کام سے کم پی ایچ ایف حکام اور ٹیم مینجمنٹ کے عہدیداروں کی چاپلوسی میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، اسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے وہ ہر فیڈریشن میں وڈیو اینالسٹ کی مد میں دنیا بھر کے سیرسپاٹے کرتا چلا آ رہا ہے۔
ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی مجموعی کارکردگی کی بات کی جائے تو گرین شرٹس نے شائقین کو خاصا مایوس کیا ہے، نہ جانے کیوں اسی کھلاڑی کو بار بار کپتان کیوں بنایا جاتا ہے جو ایونٹ کے دوران ہی اَن فٹ ہو کر ٹیم سے باہر ہو جاتا ہے جس کا خمیازہ گرین شرٹس کو بھگتنا پڑتا ہے، یہی کچھ ورلڈکپ کے دوران بھی ہوا اور رضوان سینئر ملائیشیا کے خلاف میچ کے دوران پاؤں کی انگلی زخمی ہونے کی وجہ سے ورلڈکپ کی دوڑ سے باہرہو گئے۔ جب ٹیم کی کوئی پلاننگ ہو اور نہ ہی کھلاڑیوں میں جیت کا کوئی جذبہ موجود ہو تو فتح وکامرانی کیسے ٹیم کا مقدر بن سکتی ہے۔
قومی کھیل کی جو موجودہ صورتحال ہے اس کے بعد میری سمجھ سے باہر ہے کہ عوام کی خون پسینے کی کمائی کو کیوں لٹایا جا رہا ہے؟ حال ہی میں حکومت سندھ کی طرف سے پی ایچ ایف کو10کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ جاری کی گئی تو ہاکی اوپن سیریز میں کیمپ کیلئے 115 کھلاڑیوں کو مدعو کر لیا گیا تاکہ ان کے قیام وطعام اور تیاریوں کی مد میں زیادہ سے زیادہ رقم اپنی جیبوں میں ڈالی جا سکے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پی ایچ ایف عہدیداراور سالہا سال سے قومی ٹیم پر بوجھ بننے والے کھلاڑی تو اپنے بینک بیلنس میں مزید لاکھوں روپے کا اضافہ کرکے گھروں کی راہ لے لیں گے لیکن ذمہ داروں کی غلط پالیسوں کا مجموعی نقصان صرف اور صرف قومی کھیل کو ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن اور قومی ٹیم کی اب تک کی مایوس کن کارکردگی کی حکومتی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کر کے قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ اگر اہم سیاسی، سماجی اور کاروباری شخصیات احتساب کے شکنجے میں لائے جا سکتے ہیں تو قومی کھیل کے مستقبل سے کھیلنے والوں کا کڑا احتساب کیوں نہیں کیا جا سکتا؟