توانائی بحران کے حل کیلئے بجلی کی قیمتوں میں فوری اضافہ کیا جارہا ہے وزیر پانی وبجلی
اگربجلی کے نرخوں میں اضافے کو مؤخر کردیا گیا تو پھر گردشی قرضے میں 150 ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا، خواجہ آصف
وفاقی وزیر برائے پانی وبجلی خواجہ آصف نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبے میں مالی بحران حل کرنے کے لئے بجلی کی قیمتوں میں فوری اضافہ کیا جا رہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ رواں مہینے صنعتی اور تجارتی صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے گا جبکہ گھریلو صارفین کے لیے نرخوں میں اضافہ آئندہ دو تین ماہ میں ہوگا، اگر بجلی کے نرخوں میں اضافے کو دو تین ماہ کے لیے مؤخر کر دیا گیا تو پھر گردشی قرضے میں 150 ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجلی پر دی جانے والے سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم حکومت بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت 14 روپے سے کم کرکے 10 یا 11 روپے تک لانے کی کوشش کرے گی۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بجلی کی طلب کو ٹھیک کرلیا جائے تو 1300 میگاوٹ تک بجلی بچائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ توانائی پالیسی میں دکانوں کے جلد بند کرنے کی تجویز کے حق میں ہیں تاہم اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے چاروں صوبوں کو شامل کرنا لازمی ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھاد اور فرٹیلائزر فیکٹریوں کو جس قیمت پر گیس فراہم کی جا رہی ہے اس کو مزید جاری رکھنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں اتنی گاڑیاں سی این جی پر نہیں چلائی جاتیں جتنی پاکستان میں چلتی ہیں لیکن چند لاکھ لوگوں کی سہولت کے لیے کروڑوں پاکستانیوں کو بجلی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا کہ رواں مہینے صنعتی اور تجارتی صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے گا جبکہ گھریلو صارفین کے لیے نرخوں میں اضافہ آئندہ دو تین ماہ میں ہوگا، اگر بجلی کے نرخوں میں اضافے کو دو تین ماہ کے لیے مؤخر کر دیا گیا تو پھر گردشی قرضے میں 150 ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجلی پر دی جانے والے سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم حکومت بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت 14 روپے سے کم کرکے 10 یا 11 روپے تک لانے کی کوشش کرے گی۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بجلی کی طلب کو ٹھیک کرلیا جائے تو 1300 میگاوٹ تک بجلی بچائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ توانائی پالیسی میں دکانوں کے جلد بند کرنے کی تجویز کے حق میں ہیں تاہم اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کے لئے چاروں صوبوں کو شامل کرنا لازمی ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھاد اور فرٹیلائزر فیکٹریوں کو جس قیمت پر گیس فراہم کی جا رہی ہے اس کو مزید جاری رکھنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں اتنی گاڑیاں سی این جی پر نہیں چلائی جاتیں جتنی پاکستان میں چلتی ہیں لیکن چند لاکھ لوگوں کی سہولت کے لیے کروڑوں پاکستانیوں کو بجلی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔