پرانے دوست
مگر نفسیاتی گرہیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہروقت اَنجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایک عرض کرتا چلوں
گزشتہ شب،ارشدچوہدری کی بیٹی کی شادی پر محض چند گھنٹوں کے لیے فیصل آبادجانے کااتفاق ہوا۔ارشدنے اسکول کے پرانے دوستوں کو مدعو کر رکھاتھا۔پانچ دہائیوں کے طویل عرصے کے روابط بالکل تازہ ہوگئے۔پہلی بات تویہ شادی کی تقریب بے حد اچھی بلکہ بہترین تھی۔ویسے ارشدبھی عجیب طبیعت کامالک ہے۔
بڑے باپ کا بڑا بیٹا۔ والد صاحب، ڈاکٹرشفیع،تقسیم برصغیر سے پہلے کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔زرعی یونیورسٹی میں طویل عرصے تک کام کرتے رہے۔پنتالیس برس پہلے،فیصل آباد میں کتنے ڈاکٹر ہونگے۔ ایک درجن یا شائد دو درجن۔اس وقت کے ڈاکٹر کی کیا اہمیت تھی، کیا وقعت تھی،آج اسکااندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ دولت،سماجی حیثیت اورمراسم،ہاتھ باندھ کرسامنے کھڑے رہتے تھے۔ویسے ارشدکے والد،کمال درویش صفت انسان تھے۔بچپن میں جن بزرگوں کی یادمیرے ذہن پرنقش ہے،ان میں سے ڈاکٹر صاحب بھی ہیں۔
ارشدپولیس ڈیپارٹمنٹ میں گیا۔لیکن پولیس کے منفی کلچرمیں ڈھل نہ پایا۔کبھی تھانے کارخ نہ کیا۔ کرختگی کا ماحول اس پراثراندازنہ ہوپایا۔اسی محکمہ کے ذریعے بین الاقوامی امن فورس میں تعینات ہوتا رہا۔چندسال پہلے، خود ہی ریٹائرمنٹ لے کر گھر آگیا۔پہلاشخص دیکھاہے جسے تھانیداری پسندنہیں آئی۔جسے چوہدری بننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ورنہ یہاں تو،معمولی سے معمولی پوزیشن پرکام کرنے والا سرکاری اہلکاربھی فرعون سے کم نہیں۔مگرارشدبگڑا نہیں۔ جب پولیس ڈیپارٹمنٹ سے اُکتا گیا، تو بھرا میلہ چھوڑکرگھر آگیا۔ قناعت اورایمانداری سے بھرپور زندگی گزار رہا ہے۔ بات شادی کی تقریب کی ہورہی تھی۔بیٹی کی شادی خیریت سے ہوجائے۔ اس سے زیادہ کسی والدکی کیاخوش قسمتی ہوسکتی ہے۔ ارشد اس لحاظ سے حددرجہ خوش نصیب انسان ہے۔
شادی ہال کے ایک کونے میں پرانے دوستوں کے ساتھ یادگارملاقات رہی۔پرانے دوست بھی کیا عجب تحفہ ہیں۔بچپن کے ساتھی۔ اسکول کے کلاس فیلوز۔ خالد باجوہ، ڈاکٹراحسن سلیم، جاویداصغر، شاہدمنیر۔ جاویداصغراوائل عمری سے لے کراب تک زندگی سے اتنابھرپورانسان ہے،کہ اس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنابھول گیا۔غفورچوہدری سے رابطہ ارشداورخالدباجوہ کی وجہ سے ہوا۔پراب ان سے بھی مروت کارشتہ قائم ہے۔خالدباجوہ بچپن سے لے کراب تک،ہمیشہ بزرگ بزرگ سارہا ہے۔ خالص دیسی اورمخلص آدمی۔بچپن میں،طالبعلم اور باجوہ،سائیکل اکٹھے چلاتے رہے۔
چچا اسلم مرحوم کی موٹرسائیکل پرپھرہم دونوں نے بائیک چلانا سیکھی۔ خالد،ہاسٹل میں رہتاتھا۔ڈویژنل پبلک اسکول کے متعلق اس کی معلومات کم ازکم میرے سے بہت زیادہ ہیں۔وہ تو چوبیس گھنٹے کاطالبعلم تھا۔ہم لوگ تو دوپہرکے بعدگھرواپس آ جاتے تھے۔باجوہ نے گھر سے باہررہناابتدائی عمرسے ہی سیکھ لیاتھا۔ اوائل عمری سے حددرجہ خوداعتمادی تھی اورآج بھی ہے۔ باجوہ نے تیس برس پہلے کاروبارکرناشروع کیا اور اب تو خیروہ بے حدمستحکم حالات میں ہے۔مگرسب کچھ حاصل کرنے کے بعدبھی اس میں وہی خاندانی عاجزی اور نجابت موجود ہے۔ خالدکی سماجی زندگی کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ وہ بڑے سنجیدہ طریقے سے ہنساتاہے۔خدااسے قائم ودائم رکھے۔
ڈاکٹرجاویداصغرایک انسان نہیں بلکہ تحفہ ہے۔ کلاس میں ایسی ایسی شرارتیں کرتاتھاکہ ہم سارے بچے ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے۔ویسے بچے کالفظ لکھتے ہوئے عجیب سی کیفیت ہورہی ہے۔ مگر سفیدبالوں یابالوں کے بغیر ہم جیسے بوڑھے لوگ آج سے پانچ دہائیاں قبل بچے ہی تھے۔ ویسے ہر بوڑھے یاجوان انسان کے اندرایک ننھا منا کھلکھلاتا ہوا بچہ ضرورہوتاہے۔اسے زندہ رکھناچاہیے۔عملی زندگی کے تقاضوں میں سب سے پہلی زد اسی اندرونی بچے ہی کولگتی ہے۔اسے تھپڑ مارمارکرمصنوعی سنجیدگی کے تابوت میں بند کر دیا جاتا ہے۔ مگر جاویداصغرنے اپنے ساتھ یہ نہیں ہونے دیا۔
آج بھی ایک پُرمعنی زندگی گزاررہاہے۔جذبے اور شرارتوں سے بھرپور۔ کلاس روم میں جب استادبلیک بورڈ پر کچھ لکھنے میں مصروف ہوتے تھے توجاویداصغرپچھلی طرف مونہہ کرکے ایسی مزاحیہ شکلیں بناتاتھاکہ سب کوہنسی آجاتی تھی۔بے ساختہ ہنسی۔ جس پرکنٹرول کرناناممکن تھا۔ویسے میرے ذہن میں آج بھی جاویداصغرکی تمام شرارتیں امانتاً محفوظ ہیں۔اس کی ایک قوالی بھی یادہے۔جاویدآج ایک کامیاب ڈاکٹرہے اور بھرپور پریکٹس کررہاہے۔اس کے ساتھ ساتھ، پیرا میڈیکل کی تعلیم کے لیے ایک ادارہ بھی احسن طریقہ سے چلا رہا ہے۔ جاوید اصغر سے ایک گھنٹہ ملاقات ہم سب کو اسکول کے اسی ماحول میں واپس لے گئی جس میں کسی کوکسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ کسی کوعلم نہیں تھاکہ مقدرکاہاتھ اسے زندگی میں کس جگہ پر لے جائیگا۔بے لوث سے انسانی رشتے جو بہرحال،اب مکمل طور پر ناپید ہوچکے ہیں۔اب توایسے لگتا ہے کہ اکثر لوگ دولت اور صرف دولت کمانے کی اس دوڑ میں مصروف کار ہیں۔جسکی نہ کوئی ابتداء ہے اورنہ کوئی انتہا۔ لکھ پتی انسان، کروڑپتی بننے کے لیے تقریباًپاگل ہوچکا ہے۔
کروڑ پتی، اربوں کے گرداب سے باہرنہیں آرہا۔غریب آدمی اپنی جگہ پر پریشان ہے۔ مگر سب سے زیادہ رنج میں سفیدپوش طبقے کے لو گ ہیں۔ جو رزق حلال میں گزارا کرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں۔یہ سفیدپوش لوگ، اصل پاکستان ہیں۔یہ گھٹ گھٹ کرزندہ رہتے ہیں اور ہر پَل دنیا کے رنگ دیکھ کر مرنے کی خواہش کرتے ہیں۔یہ اپنی اولادکوہروہ سہولت نہیں دے پاتے جو دیگرآسودہ طبقے دے سکتے ہیں۔ ویسے ایک حقیقت عرض کروں۔آج سے تیس چالیس سال پہلے بھی سماج میں ہرمالی طبقے کے لوگ رہتے تھے۔مگررہن سہن اس درجہ سادہ تھے کہ سفیدپوش اورغریب لوگ،اپنی سفیدپوشی میں مست تھے۔ دولت مند،اپنی دولت کی نمائش سے کوسوں دور رہتے تھے۔ ہرجانب ایک اطمینان کی کیفیت تھی۔طبقاتی تفرق ہرگز ہرگز اتنا زیادہ نہیں تھا۔ جس کوعملی طور پرہم آج بھگت رہے ہیں۔بہت سے لوگوں کو جانتاہوں جو سولہ کروڑ کی رولزرائس گاڑی رکھنے کے باوجود، اَزحدپریشان ہیں۔ دولت ان کے لیے بے معنی ہے۔
مگر نفسیاتی گرہیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہروقت اَنجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایک عرض کرتا چلوں۔ میرے ایک قریبی دوست بہت بڑی شوگرمل کے مالک ہیں۔ انھیں ہروقت یہ خوف رہتاہے کہ کوئی انھیں نقصان نہ پہنچا جائے۔اپنے گھرکوقلعہ بنارکھا ہے۔ سفرکے دوران بھی، دس بارہ محافظ ساتھ رکھتے ہیں۔ ایک دن میں نے کہا کہ چلو،اکیلے چلتے ہیں اورکسی جگہ پر کھاناکھاکرآتے ہیں۔ میں گاڑی چلارہاتھا۔ دوست، ساتھ والی سیٹ پربیٹھ گئے۔ میں نے کسی بھی محافظ کوساتھ لیجانے سے منع کر دیا۔ایک دومنٹ کے لیے اس کی حالت غیر ہوگئی۔ یقین دلایاکہ کچھ نہیں ہوگا۔ہم دونوں،اکیلے دوتین گھنٹے باہرگھومتے رہے۔تھوڑی دیرکے بعد،میرادوست کہنے لگاکہ مجھے توواقعی کوئی بھی کچھ نہیں کہہ رہا۔اس کے چہرے پر بھرپورخوشی کا تاثر تھا۔اب یہی ہوتاہے کہ ہم دونوں کبھی کبھی باہرچلے جاتے ہیں۔گپ شپ لگاتے ہیں۔عام سے لطیفوں پرکھل کرہنستے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔اصل میں زندگی، دولت کے انبار کے اندر پوشیدہ نہیں۔ یہ تو،آسودگی ایک بھرپور کیفیت ہے۔ صرف یہ دعامانگنی چاہیے کہ خداکسی کے سامنے دستِ سوال کی نوبت نہ آنے دے۔ باقی سب خیر ہے۔ زندگی توگزرہی جاتی ہے۔
شاہدمنیربھی موجود تھا۔ شاہد اور جاوید اصغر، آپس میں قریبی رشتہ دارہیں۔شاہدکے چہرے پر آج بھی وہی بھول پن ہے جوآج سے دہائیاں پہلے موجودتھا۔شاہدجب بھی ملتا ہے، مسکراتا ہوا ملتا ہے۔ چہرے پرایک مطمئن جذبے کی لہر ہے۔قناعت سے بھرپورانسان۔یادہے کہ بچپن میں بھی سنجیدگی اور غیرسنجیدگی کے توازن سے آراستہ تھا۔دھیمے لہجے میں بات کرنے کی عادت اسے ہمیشہ سے ہے۔خدااسے خوش وخرم رکھے۔احسن سلیم ہم سب سے ایک یا دو جماعتیںجونیئرتھا۔شائدایک جماعت۔دل کا ڈاکٹر ہے اور فیصل آباد کے کامیاب ترین ڈاکٹروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انتہائی مہذب شخص۔بچپن سے آج تک میں نے احسن میں ایک متانت پائی ہے۔بے حدنرم دل اور اچھا انسان۔ کل بتانے لگاکہ اس کی اورمیری والدہ،آپس میں گہری سہیلیاں تھیں۔ احسن نے ذکرکیاتوآنکھوں میں بادل سے آگئے۔ خاموش ہوگیا۔اپنی والدہ کس کوعزیزنہیں ہوتی۔ مگر یہ بزرگ بھی ایسے دنیاسے رخصت ہوجاتے ہیں، جیسے پکے ہوئے پھل ایک دم زمین پرگرجاتے ہیں۔
آناًفاناًنظروں سے اوجھل۔ منوں مٹی اوڑھ کرایک ایسے سفرپرچلے جاتے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ویسے ایک قطارہے۔جس میں سب اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔مگرمانتاکوئی نہیں۔ ویسے موت بھی ایک پُرکشش سفرکی ابتداء ہے۔زندگی کی خوبصورتی اسی نکتے میں پنہاں ہے کہ اس نے ایک دم ختم ہو جاناہے۔احسن سلیم نے جب والدہ کا ذکر کیا تو کافی دیر تک صرف یہ سوچتارہاکہ اگرچندسانس مزیدمل جاتے تو کیا حرج تھا۔بہرحال جوخداکی مرضی،وہی ہماری رضا۔جب مالک بلاوابھیج دے تو پھرکیسی نافرمانی۔ڈاکٹراحسن انکساری سے بھرپور انسان ہے۔اپنے حال میں مست۔ویسے اس کی ایک اور بڑی کامیابی بھی ہے۔اس نے اپناوزن قطعاً بڑھنے نہیں دیا۔وہ آج بھی عمرمیں ہم سے کافی چھوٹااورجوان نظر آتاہے۔خدااسے اسی طرح قائم رکھے۔
فیصل آبادسے لاہورآتے ہوئے مسلسل سوچ رہا تھا کہ پرانے دوستوں جیسے نایاب رشتے اب کہاں میسرآتے ہیں۔ہرچیزبدل سکتی ہے۔وقت کی تلوارہمیں تبدیل کرسکتی ہے۔مگروہ پرانے جذبوں کو مرتے دم تک ختم نہیں کر سکتی۔ یہی زندگی کاحسن ہے۔یہی زیست کا پوشیدہ رازہے۔یہی خوشی کی ایک لہرہے اورشائدیہی زندگی ہے۔خداان دوستوں اور محفلوں کوقائم رکھے۔ویسے واپسی پرمیں بے حد اُداس سا تھا۔یہ فسوں ابھی تک قائم ہے۔ پر ملاقاتوں کی طوالت نہیں، بلکہ ان کی کیفیت اہم ہے۔پرانے دوست بھی کیابیش بہاتحفے ہیں۔ انسان کودہائیوں کاذہنی سفرکروانے پرقادرلوگ!
بڑے باپ کا بڑا بیٹا۔ والد صاحب، ڈاکٹرشفیع،تقسیم برصغیر سے پہلے کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔زرعی یونیورسٹی میں طویل عرصے تک کام کرتے رہے۔پنتالیس برس پہلے،فیصل آباد میں کتنے ڈاکٹر ہونگے۔ ایک درجن یا شائد دو درجن۔اس وقت کے ڈاکٹر کی کیا اہمیت تھی، کیا وقعت تھی،آج اسکااندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ دولت،سماجی حیثیت اورمراسم،ہاتھ باندھ کرسامنے کھڑے رہتے تھے۔ویسے ارشدکے والد،کمال درویش صفت انسان تھے۔بچپن میں جن بزرگوں کی یادمیرے ذہن پرنقش ہے،ان میں سے ڈاکٹر صاحب بھی ہیں۔
ارشدپولیس ڈیپارٹمنٹ میں گیا۔لیکن پولیس کے منفی کلچرمیں ڈھل نہ پایا۔کبھی تھانے کارخ نہ کیا۔ کرختگی کا ماحول اس پراثراندازنہ ہوپایا۔اسی محکمہ کے ذریعے بین الاقوامی امن فورس میں تعینات ہوتا رہا۔چندسال پہلے، خود ہی ریٹائرمنٹ لے کر گھر آگیا۔پہلاشخص دیکھاہے جسے تھانیداری پسندنہیں آئی۔جسے چوہدری بننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ورنہ یہاں تو،معمولی سے معمولی پوزیشن پرکام کرنے والا سرکاری اہلکاربھی فرعون سے کم نہیں۔مگرارشدبگڑا نہیں۔ جب پولیس ڈیپارٹمنٹ سے اُکتا گیا، تو بھرا میلہ چھوڑکرگھر آگیا۔ قناعت اورایمانداری سے بھرپور زندگی گزار رہا ہے۔ بات شادی کی تقریب کی ہورہی تھی۔بیٹی کی شادی خیریت سے ہوجائے۔ اس سے زیادہ کسی والدکی کیاخوش قسمتی ہوسکتی ہے۔ ارشد اس لحاظ سے حددرجہ خوش نصیب انسان ہے۔
شادی ہال کے ایک کونے میں پرانے دوستوں کے ساتھ یادگارملاقات رہی۔پرانے دوست بھی کیا عجب تحفہ ہیں۔بچپن کے ساتھی۔ اسکول کے کلاس فیلوز۔ خالد باجوہ، ڈاکٹراحسن سلیم، جاویداصغر، شاہدمنیر۔ جاویداصغراوائل عمری سے لے کراب تک زندگی سے اتنابھرپورانسان ہے،کہ اس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنابھول گیا۔غفورچوہدری سے رابطہ ارشداورخالدباجوہ کی وجہ سے ہوا۔پراب ان سے بھی مروت کارشتہ قائم ہے۔خالدباجوہ بچپن سے لے کراب تک،ہمیشہ بزرگ بزرگ سارہا ہے۔ خالص دیسی اورمخلص آدمی۔بچپن میں،طالبعلم اور باجوہ،سائیکل اکٹھے چلاتے رہے۔
چچا اسلم مرحوم کی موٹرسائیکل پرپھرہم دونوں نے بائیک چلانا سیکھی۔ خالد،ہاسٹل میں رہتاتھا۔ڈویژنل پبلک اسکول کے متعلق اس کی معلومات کم ازکم میرے سے بہت زیادہ ہیں۔وہ تو چوبیس گھنٹے کاطالبعلم تھا۔ہم لوگ تو دوپہرکے بعدگھرواپس آ جاتے تھے۔باجوہ نے گھر سے باہررہناابتدائی عمرسے ہی سیکھ لیاتھا۔ اوائل عمری سے حددرجہ خوداعتمادی تھی اورآج بھی ہے۔ باجوہ نے تیس برس پہلے کاروبارکرناشروع کیا اور اب تو خیروہ بے حدمستحکم حالات میں ہے۔مگرسب کچھ حاصل کرنے کے بعدبھی اس میں وہی خاندانی عاجزی اور نجابت موجود ہے۔ خالدکی سماجی زندگی کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ وہ بڑے سنجیدہ طریقے سے ہنساتاہے۔خدااسے قائم ودائم رکھے۔
ڈاکٹرجاویداصغرایک انسان نہیں بلکہ تحفہ ہے۔ کلاس میں ایسی ایسی شرارتیں کرتاتھاکہ ہم سارے بچے ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے۔ویسے بچے کالفظ لکھتے ہوئے عجیب سی کیفیت ہورہی ہے۔ مگر سفیدبالوں یابالوں کے بغیر ہم جیسے بوڑھے لوگ آج سے پانچ دہائیاں قبل بچے ہی تھے۔ ویسے ہر بوڑھے یاجوان انسان کے اندرایک ننھا منا کھلکھلاتا ہوا بچہ ضرورہوتاہے۔اسے زندہ رکھناچاہیے۔عملی زندگی کے تقاضوں میں سب سے پہلی زد اسی اندرونی بچے ہی کولگتی ہے۔اسے تھپڑ مارمارکرمصنوعی سنجیدگی کے تابوت میں بند کر دیا جاتا ہے۔ مگر جاویداصغرنے اپنے ساتھ یہ نہیں ہونے دیا۔
آج بھی ایک پُرمعنی زندگی گزاررہاہے۔جذبے اور شرارتوں سے بھرپور۔ کلاس روم میں جب استادبلیک بورڈ پر کچھ لکھنے میں مصروف ہوتے تھے توجاویداصغرپچھلی طرف مونہہ کرکے ایسی مزاحیہ شکلیں بناتاتھاکہ سب کوہنسی آجاتی تھی۔بے ساختہ ہنسی۔ جس پرکنٹرول کرناناممکن تھا۔ویسے میرے ذہن میں آج بھی جاویداصغرکی تمام شرارتیں امانتاً محفوظ ہیں۔اس کی ایک قوالی بھی یادہے۔جاویدآج ایک کامیاب ڈاکٹرہے اور بھرپور پریکٹس کررہاہے۔اس کے ساتھ ساتھ، پیرا میڈیکل کی تعلیم کے لیے ایک ادارہ بھی احسن طریقہ سے چلا رہا ہے۔ جاوید اصغر سے ایک گھنٹہ ملاقات ہم سب کو اسکول کے اسی ماحول میں واپس لے گئی جس میں کسی کوکسی سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ کسی کوعلم نہیں تھاکہ مقدرکاہاتھ اسے زندگی میں کس جگہ پر لے جائیگا۔بے لوث سے انسانی رشتے جو بہرحال،اب مکمل طور پر ناپید ہوچکے ہیں۔اب توایسے لگتا ہے کہ اکثر لوگ دولت اور صرف دولت کمانے کی اس دوڑ میں مصروف کار ہیں۔جسکی نہ کوئی ابتداء ہے اورنہ کوئی انتہا۔ لکھ پتی انسان، کروڑپتی بننے کے لیے تقریباًپاگل ہوچکا ہے۔
کروڑ پتی، اربوں کے گرداب سے باہرنہیں آرہا۔غریب آدمی اپنی جگہ پر پریشان ہے۔ مگر سب سے زیادہ رنج میں سفیدپوش طبقے کے لو گ ہیں۔ جو رزق حلال میں گزارا کرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں۔یہ سفیدپوش لوگ، اصل پاکستان ہیں۔یہ گھٹ گھٹ کرزندہ رہتے ہیں اور ہر پَل دنیا کے رنگ دیکھ کر مرنے کی خواہش کرتے ہیں۔یہ اپنی اولادکوہروہ سہولت نہیں دے پاتے جو دیگرآسودہ طبقے دے سکتے ہیں۔ ویسے ایک حقیقت عرض کروں۔آج سے تیس چالیس سال پہلے بھی سماج میں ہرمالی طبقے کے لوگ رہتے تھے۔مگررہن سہن اس درجہ سادہ تھے کہ سفیدپوش اورغریب لوگ،اپنی سفیدپوشی میں مست تھے۔ دولت مند،اپنی دولت کی نمائش سے کوسوں دور رہتے تھے۔ ہرجانب ایک اطمینان کی کیفیت تھی۔طبقاتی تفرق ہرگز ہرگز اتنا زیادہ نہیں تھا۔ جس کوعملی طور پرہم آج بھگت رہے ہیں۔بہت سے لوگوں کو جانتاہوں جو سولہ کروڑ کی رولزرائس گاڑی رکھنے کے باوجود، اَزحدپریشان ہیں۔ دولت ان کے لیے بے معنی ہے۔
مگر نفسیاتی گرہیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہروقت اَنجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایک عرض کرتا چلوں۔ میرے ایک قریبی دوست بہت بڑی شوگرمل کے مالک ہیں۔ انھیں ہروقت یہ خوف رہتاہے کہ کوئی انھیں نقصان نہ پہنچا جائے۔اپنے گھرکوقلعہ بنارکھا ہے۔ سفرکے دوران بھی، دس بارہ محافظ ساتھ رکھتے ہیں۔ ایک دن میں نے کہا کہ چلو،اکیلے چلتے ہیں اورکسی جگہ پر کھاناکھاکرآتے ہیں۔ میں گاڑی چلارہاتھا۔ دوست، ساتھ والی سیٹ پربیٹھ گئے۔ میں نے کسی بھی محافظ کوساتھ لیجانے سے منع کر دیا۔ایک دومنٹ کے لیے اس کی حالت غیر ہوگئی۔ یقین دلایاکہ کچھ نہیں ہوگا۔ہم دونوں،اکیلے دوتین گھنٹے باہرگھومتے رہے۔تھوڑی دیرکے بعد،میرادوست کہنے لگاکہ مجھے توواقعی کوئی بھی کچھ نہیں کہہ رہا۔اس کے چہرے پر بھرپورخوشی کا تاثر تھا۔اب یہی ہوتاہے کہ ہم دونوں کبھی کبھی باہرچلے جاتے ہیں۔گپ شپ لگاتے ہیں۔عام سے لطیفوں پرکھل کرہنستے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔اصل میں زندگی، دولت کے انبار کے اندر پوشیدہ نہیں۔ یہ تو،آسودگی ایک بھرپور کیفیت ہے۔ صرف یہ دعامانگنی چاہیے کہ خداکسی کے سامنے دستِ سوال کی نوبت نہ آنے دے۔ باقی سب خیر ہے۔ زندگی توگزرہی جاتی ہے۔
شاہدمنیربھی موجود تھا۔ شاہد اور جاوید اصغر، آپس میں قریبی رشتہ دارہیں۔شاہدکے چہرے پر آج بھی وہی بھول پن ہے جوآج سے دہائیاں پہلے موجودتھا۔شاہدجب بھی ملتا ہے، مسکراتا ہوا ملتا ہے۔ چہرے پرایک مطمئن جذبے کی لہر ہے۔قناعت سے بھرپورانسان۔یادہے کہ بچپن میں بھی سنجیدگی اور غیرسنجیدگی کے توازن سے آراستہ تھا۔دھیمے لہجے میں بات کرنے کی عادت اسے ہمیشہ سے ہے۔خدااسے خوش وخرم رکھے۔احسن سلیم ہم سب سے ایک یا دو جماعتیںجونیئرتھا۔شائدایک جماعت۔دل کا ڈاکٹر ہے اور فیصل آباد کے کامیاب ترین ڈاکٹروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انتہائی مہذب شخص۔بچپن سے آج تک میں نے احسن میں ایک متانت پائی ہے۔بے حدنرم دل اور اچھا انسان۔ کل بتانے لگاکہ اس کی اورمیری والدہ،آپس میں گہری سہیلیاں تھیں۔ احسن نے ذکرکیاتوآنکھوں میں بادل سے آگئے۔ خاموش ہوگیا۔اپنی والدہ کس کوعزیزنہیں ہوتی۔ مگر یہ بزرگ بھی ایسے دنیاسے رخصت ہوجاتے ہیں، جیسے پکے ہوئے پھل ایک دم زمین پرگرجاتے ہیں۔
آناًفاناًنظروں سے اوجھل۔ منوں مٹی اوڑھ کرایک ایسے سفرپرچلے جاتے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ویسے ایک قطارہے۔جس میں سب اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔مگرمانتاکوئی نہیں۔ ویسے موت بھی ایک پُرکشش سفرکی ابتداء ہے۔زندگی کی خوبصورتی اسی نکتے میں پنہاں ہے کہ اس نے ایک دم ختم ہو جاناہے۔احسن سلیم نے جب والدہ کا ذکر کیا تو کافی دیر تک صرف یہ سوچتارہاکہ اگرچندسانس مزیدمل جاتے تو کیا حرج تھا۔بہرحال جوخداکی مرضی،وہی ہماری رضا۔جب مالک بلاوابھیج دے تو پھرکیسی نافرمانی۔ڈاکٹراحسن انکساری سے بھرپور انسان ہے۔اپنے حال میں مست۔ویسے اس کی ایک اور بڑی کامیابی بھی ہے۔اس نے اپناوزن قطعاً بڑھنے نہیں دیا۔وہ آج بھی عمرمیں ہم سے کافی چھوٹااورجوان نظر آتاہے۔خدااسے اسی طرح قائم رکھے۔
فیصل آبادسے لاہورآتے ہوئے مسلسل سوچ رہا تھا کہ پرانے دوستوں جیسے نایاب رشتے اب کہاں میسرآتے ہیں۔ہرچیزبدل سکتی ہے۔وقت کی تلوارہمیں تبدیل کرسکتی ہے۔مگروہ پرانے جذبوں کو مرتے دم تک ختم نہیں کر سکتی۔ یہی زندگی کاحسن ہے۔یہی زیست کا پوشیدہ رازہے۔یہی خوشی کی ایک لہرہے اورشائدیہی زندگی ہے۔خداان دوستوں اور محفلوں کوقائم رکھے۔ویسے واپسی پرمیں بے حد اُداس سا تھا۔یہ فسوں ابھی تک قائم ہے۔ پر ملاقاتوں کی طوالت نہیں، بلکہ ان کی کیفیت اہم ہے۔پرانے دوست بھی کیابیش بہاتحفے ہیں۔ انسان کودہائیوں کاذہنی سفرکروانے پرقادرلوگ!