سندھ کے معاملات

خدشہ ہے کہ اگرگورنر اور وزیراعلیٰ میں حکومتی معاملات میں ہم آہنگی نہ ہوئی تو سندھ پھر سے بے سکون و بے چین ہوجائے گا۔

mohsin014@hotmail.com

سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے، جہاں شہری اوردیہی آبادی کا کلچر بہت مختلف ہے۔ ان کی زبان اور طرز زندگی میں فرق ہے اس لیے یہ صوبہ لسانیت کے لحاظ سے بہت حساس ہے۔ 1972میں جب سندھ کے وزیراعلیٰ ممتازعلی بھٹو تھے تو سندھی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کا بل پاس ہوا ، سب سے زیادہ ردعمل شہری علاقوں سے آیا ،

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اور پورے سندھ میں لسانی فساد شروع ہوگیا ، مگر اس وقت کے لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو جو بہت مدبر اور مقبول رہنما تھے، انھوں نے بڑی دانش مندی سے ان معاملات پر قابو پا لیا اور وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹوکو عہدے سے ہٹا دیا۔ اس زمانے میں یہ طے ہوا کہ اردو قومی زبان ہے، اس لیے تمام سرکاری معاملات میں اردوکو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں ! اس معاملے میں سرکاری فارم پر صوبائی زبان سندھی بھی لکھی جائے گی تاکہ جو اردو نہیں جانتے وہ سندھی میں پڑھ لیں، یہ ایک منصفانہ فیصلہ تھا۔

اسی زمانے میں ایک اور اچھی رسم یہ ڈالی گئی کہ جب بھی سندھ میں حکومت بنے گی تو وزیراعلیٰ اگر سندھی ہوگا توگورنر شہری علاقے کا ہوگا، جو غیر سندھی ہوگا ۔اس عمل سے صوبے میں ہم آہنگی پیدا ہوئی یہ رسم ذوالفقارعلی بھٹوکے زمانے سے چل رہی ہے اور اس کی بہترین مثال سندھ کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان تھے، جنہوں نے ایک طویل مدت گورنری کی جب کہ کئی حکومتیں تبدیلی ہوتی رہیں۔ اس میں جو اہم بات تھی وہ سندھ میں ہم آہنگی کا راز تھا۔ سندھ کے شہری معاملات کے انتظامی امورگورنرکی ذمے داری تھی جب کہ وزیراعلیٰ اندرون سندھ کے انتظامی امورکے سربراہ تھے اور اس طرح گورنر اور وزیراعلیٰ کے ذریعے سندھ کے معاملات بہتر چلتے رہے۔

اگر آج بھی اسی رسم، اسی روایت اسی اصول کو قائم رکھا جائے تو موجودہ گورنر سندھ عمران اسماعیل جو پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے ہیں اور موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جو پی پی پی سے تعلق رکھتے ہیں دونوں مل کر سندھ کے شہری اور دیہی معاملات پر ہم آہنگ ہوکر یہاں کے عوام کی خدمت کریں توکیا ہی اچھا ہو۔ حکمرانی کا اصل مقصد عوام کی اور صوبے کی بھلائی ہونا چاہیے، اس میں سیاست کرنے کی ضرورت نہیں اور اس حقیقت کو ہمیشہ مد نظر رکھا جائے کہ سندھ کے شہروں کی آبادی غیر سندھیوں پر مشتمل ہے جن کی زبان اردو ہے جو اب مہاجر تو نہیں رہے مگر ہمیشہ اربن مہاجر ہی رہیںگے اور وہ دراصل سندھی ہیں اگر اصل سندھ ان کو سندھی بننے کا حق دیں۔


اس صوبے نے لسانیت کے نام پر بہت زیادہ نقصان اٹھایا، خاص طور پر لسانیت کی بنیاد پر ایم کیو ایم وجود میں لائی گئی اور سندھ میں قومیت کے نام پر قوم پرست جماعتیں بنیں، لیکن سندھ میںقومیت کے نعرے کو عوامی پذیرائی نہ ملی جب کہ شہروں میں لسانیت کے نام پر ایم کیو ایم کو بہت پذیرائی ملی۔ یہاں تک کے ایم کیو ایم کی سیاسی قوت اتنی بڑھ گئی کہ ریاست کمزور ہونے لگی۔ ایم کیوایم نے سندھ کے شہری علاقوں کی محرومی کو سیاست کا محور بنایا، مگر سیاسی قوت اور طاقت نے انھیں اتنا منہ زور کردیا کہ وہ سیاسی جماعت کی بجائے مافیا بن گئے ، جس کا نقصان سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے ادنیٰ کارکنوں، ان کے ہمدردوں اور ان کے ووٹروں اور سپورٹروں کو ہوا۔ حالیہ آپریشن کے نتیجے میں آج ایم کیو ایم اپنا وجود کھو بیٹھی ہے ۔

اب سندھ میں کسی جگہ نہ لسانی کارڈ چلے گا، نہ سندھی قومیت کا کارڈ ، مگر خدشہ ہے کہ اگرگورنر اور وزیراعلیٰ میں حکومتی معاملات میں ہم آہنگی نہ ہوئی تو سندھ پھر سے بے سکون و بے چین ہوجائے گا۔اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ گورنر سندھ کو شہری نظام اور وزیر اعلیٰ سندھ کو اندرون سندھ کے انتظام کا ذمے دار قرار دیا جائے۔ اس طرح کم سے کم سندھ کی شہری آبادی جو درحقیقت نصف آبادی تک پہنچ چکی ہے وہ اسی سندھ میں تقسیم کیے بغیر ہم آہنگی سے رہ سکے گی ۔

اس کا سب سے بڑا فائدہ پورے سندھ کے عوام کو ملے گا، جوکچھ گورنر صاحب کریں گے اور جوکچھ ترقیاتی کام وزیر اعلیٰ سندھ کریں گے ، وہ سندھ کے عوام کے لیے سود مند ثابت ہوگا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی ہوگی۔ اس بات کی ذمے داری میں سندھ کے وزیراعلیٰ کو زیادہ قربانی دینی ہوگی،کیونکہ آئین اور قانون کے مطابق صوبے کا چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس صوبے کے حالات کا تقاضا ہے کہ گورنرکو رسمی گورنر نہ رہنے دیا جائے، انھیں بھی کام کرنے کا موقع دیا جائے وہ بھی اس صوبے کی فیڈرل ترقیاتی معاملات کے ساتھ ساتھ سندھ کے شہرکے باسیوں کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کا خیال رکھیں۔

سندھ کے معاملات پر وزیر اعظم عمران خان اور پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو دونوں کو سندھ کی ترقی اور یہاں کے انفرااسٹرکچر بجلی، پانی،گیس اوردیگر مسائل پر مل بیٹھ کرکام کرنا ہوگا، یہ کام سیاسی تعلقات کو بالائے طاق رکھ کرکیا جائے اور شہر کراچی جس کو مسلسل تیس سال سے نظر اندازکیا جا رہا ہے۔ یہاں کے مسائل بے قابو ہوچکے ہیں اس لیے اس شہر میں ٹرانسپورٹ، بجلی، سڑکوں کی استرکاری پر توجہ دی جائے، بڑے بڑے پلازہ بنانے پر پابندی ہوکیونکہ نہ بجلی ہے نہ پانی نہ ہی گیس اس لیے کم سے کم دس سال تک کے لیے صرف گراؤنڈ پلس فورکی اجازت ہو ، جس میں لفٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ نئے اسپتال ، ڈسپنسریاں نئے پرائمری و سیکنڈری اسکول بنائے جائیں اور سب سے اہم کام یہ کیا جائے کہ جتنے پروجیکٹ سندھ کے اور خاص طورپر شہرکراچی کے ہیں چاہے وہ فیڈرل سطح کے ہوں۔

چاہے صوبائی ان کی تمام تفصیل سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ کون ساپروجیکٹ کب شروع ہوا؟ اس کی مدت تکمیل کیا ہے ؟ مزید کتنا وقت لگے گا؟ اور جو پروجیکٹ گرین لائن کا فیڈرل حکومت کے پاس ہے یا اس جیسا K4پانی کا اس کی تکمیل و نگرانی گورنر صاحب کروائیں اور سندھ کے پروجیکٹ وزیراعلیٰ کریں۔ اس وقت کوئی سیاسی جماعت پوائنٹ اسکورنگ میں نہ پڑے ،آیندہ چند ماہ بعد بلدیاتی انتخابات ہوں گے جس کے لیے وزیر اعظم زیادہ سے زیادہ اختیارات بلدیاتی سطح پر دینے کے قائل ہیں جو ایک اچھی فکر ہے ۔ اس لیے حکومت سندھ ان معاملات میں تعاون کرے اوراٹھارویں ترمیم میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہو تو قومی مفاد میں وہ بھی کرے ۔

نیشنل میوزیم جب سے صوبے کے ماتحت آیا ہے، اس کی ابتری شروع ہوگئی ہے، قیمتی نایاب مجسمے چوری ہو نے لگے ہیں ، جب یہ وفاق کے ماتحت تھا تو بہتر تھا۔اس معاملے کا نوٹس وزیراعلیٰ سندھ بھی لیں اور وزیراعظم بھی۔ نیشنل میوزیم میں کوئی بد عنوانی ہوئی ہے تواس کی تحقیق بھی ہونی چاہیے۔
Load Next Story