زمین کسی بھی وقت تباہ ہو سکتی ہے
خلاء میں گھومتے ہزاروں سیارچے اور چٹانیں کرئہ ارض کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں.
کسی پرفضا مقام پر شب کو تاروں بھرے فلک کا نظارہ انسان کو کیف و مستی کے ایک نئے عالم میں کھینچ کر لے جاتا ہے۔
یہ نظارہ دیکھنے والا اگر شاعر ہو تو اس پر شعروں کا نزول ہونے لگتا ہے، اگرسائنسدان ہو تو اس کی نظر نئے ستاروں اور کہکشائوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتی ہے، اس حسین منظر میں کھویا ہوا انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اگلے ہی لمحے یہ فضا اس کے لئے کوئی خوفناک تباہی بھی لا سکتی ہے، زمین سے لے کر آسمان تک بظاہر بالکل سکون نظر آتا ہے مگر اس سکون کے پس پردہ بے شمار ہنگامے چھپے ہوئے ہیں۔ شہاب ثاقب جب خلاء سے زمین کے گرد بنے ہوا کے ہالے میں داخل ہوتا ہے تو روشنی کی ایک لمبی لکیر چھوڑتا ہوا کہیں غائب ہو جاتا ہے ، جسے عام طور پر لوگ تارے کا ٹوٹنا بھی کہتے ہیں ۔ اگر یہی شہاب ثاقب ہوا سے رگڑ کھانے کے بعد جل کر راکھ ہو نے کے بعد غائب نہ ہو تو کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ، آسمان سے گرنے والے اس پتھر کا دھماکہ کسی بڑے بم سے کم نہیں ہو گا، اور اگر یہ ٹکڑا کئی کلومیٹر طویل ہو تو زمین کا ماحولیاتی منظر تبدیل ہو جائے گا جس سے زمین پر زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔
اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق ہماری زمین پوری کائنات میں واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، زندگی سے بھرپور یہ سیارہ اپنی اسی اہمیت کی وجہ سے تمام ستاروں اور سیاروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بے کنار کائنات میں سورج کے گرد گھومنے والا یہ واحد حیاتیاتی سیارہ کیا محفوظ ہے؟۔ جب انسان کو یہ بھی علم نہ تھا کہ زمین پر اس کی طرح اور بھی کئی خطے ایسے ہیں جہاں پر اس کی طرح انسان بستے ہیں تب اسے یہ زمین بہت ہی محفوظ لگتی تھی کیونکہ اس کا علم زمین کے ایک خاص حصے تک محفوظ تھا ، وہ زمین کو محدود نہیں بلکہ بے کنار سمجھتا تھا ، اس کا خیال تھا کہ سورج ،چاند، ستارے سب اس کے گرد گھومتے ہیں ، کائنات کے راز اس کے لئے ابھی سربستہ تھے،
اسے ابھی یہ علم نہیں تھا کہ زمین جسے وہ لامحدود سمجھتا ہے وہ کائنات میں ایک ذرے جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی ، حالانکہ آسمان سے گرنے والی چٹانیں اور اس سے پھیلنے والی تباہی اسے کائنات میں جھانکنے پر مجبور کرتی تھی ، مگر توہم پرستانہ خیالات اسے ہر طرف سے جکڑے ہوئے تھے اور پتھروں کے گرنے کو دیوتائوں کی ناراضگی قرار دیا جاتا تھا۔ جب سائنس نے اتنی ترقی کر لی کہ انسان کوعلم ہو گیا کہ زمین کائنات میں موجود بے شمار نظاموں میں سے ایک نظام شمسی کا ایک حصہ ہے تو اس پر حیرت کے نئے در وا ہوئے۔ تب جہاں اسے کائنات میں زمین کی حیثیت کا علم ہوا وہیں اسے یہ بھی پتہ چلا کہ سورج کے گرد خلاء میں گردش کرتے ہوئے زندگی سے بھرپور اس سیارے کو بے شمار خطرات لاحق ہیں ، خلاء میں آوارہ گھومنے والے سیارچے اور چٹانیں کسی وقت زمین کو تباہ کر سکتے ہیں ۔
خلاء میں گھومنے والے یہ سیارچے اور چٹانیں آخر ہیں کیا اور کہاں سے آئے ہیں ؟ ۔ 1801ء میں ایک سائنسدان گیوسپی پیزی نے خلاء کے مشاہدے کے دوران مریخ اور مشتری کے مداروں کے درمیان چٹانی مادے کو سورج کے گرد گھومتے دیکھا تو وہ بڑا حیران ہوا ، اس نے اس کا نام سیرس رکھا ، اس کا حجم 1003کلومیٹر تھا ( یہ اب تک کے دریافت ہونے والے تمام اسٹیرائیڈز میں سب سے بڑا ہے اور تمام سیارچوں کے مجموعی حجم کا پچیس فیصد ہے) مگر یہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ اسے سیارہ کہا جا سکے اس لئے اسے سیارچہ یعنی اسٹیرائیڈ کہا گیا ، چھ سال کی تحقیق کے دوران مزید تین سیارچے دریافت ہوئے ، پہلے خیال تھا کہ یہ سلسلہ یہیں پر رک جائے گا مگر تحقیق کرنے پر پتہ چلاکہ ایسے بے شمار چھوٹے بڑے سیارچے ہیں جو سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ،
تب یہ خیال کیا گیا کہ یہ سب کسی ایک سیارے کے ٹکڑے ہیں جو کسی وجہ سے تباہی سے دوچار ہو گیا ، ان سیارچوں کو اسٹیرائیڈ بلٹ کا نام دیا گیا، ان میں چند میٹر سے لے کر سینکڑوں میل بڑے سیارچے شامل ہیں ۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے، ان میں سے 6ہزارکے باقاعدہ نام رکھے گئے ہیں جبکہ 70 ہزار سیارچوں پر تحقیق جاری ہے ۔ ساخت کے اعتبار سے سیارچوں کی مختلف اقسام ہیں جیسے Cٹائپ، Sٹائپ ،M ٹائپ وغیرہ ۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد سی ٹائپ کی ہے، کالے رنگ کے یہ سیارچے کل تعداد کا 75فیصد ہیں، S ٹائپ سیارچے نسبتاً روشن ہیںکیونکہ ان میں نکل اور لوہے کی آمیزش ہے اور یہ تمام اسٹیرائیڈ ز کا 17فیصد ہیں، دیگر سیارچے ایم ٹائپ ہیں اور یہ بہت روشن ہیں کیونکہ ان میں نکل اور لوہے کی آمیزش بہت زیادہ ہے، اس کے علاوہ بھی سیارچوں کی چند دیگر اقسام ہیں ۔
اگرچہ سیارچوں کی اکثریت اسٹیرائیڈ بلٹ میں ہی چکر کاٹ رہی ہے مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے مدارمقررہ نہیں یعنی بے مرکز یا عام روش سے ہٹ کر ہیں اور وہ اسٹیرائیڈ بلٹ سے باہر حرکت کرتے ہیں اور زمین کے مدار کے بہت قریب سے گزرتے ہیں ، سائنسدان ایسے سیارچوں کو خطرنا ک کیٹگری میں شمار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ اپنے مدار میں حرکت کر رہے ہیں مگر ان کی قربت زمین کے لئے خطرناک ہے کیونکہ مستقبل میں کسی بھی بڑے ٹکرائو کا باعث بن سکتے ہیں ، ان میں سے بھی زیادہ وہ سیارچے اور چٹانیں خطرناک ہیں جو ابھی تک دریافت ہی نہیں ہوئیں اور اچانک ظاہر ہوتی ہیں ، خاص طور پر چھوٹے سیارچے جنھیں شہابیہ کہا جاتا ہے جو زمین کی فضا میں داخل ہو کر جل جاتے ہیں ۔
ایسا ہی ایک شہابیہ فروری میں روس کی فضا میں داخل ہوا اور جل کر راکھ ہو گیا مگر اس کے جلنے سے پیدا ہونے والی شاک ویو یا لہر اتنی طاقتور تھی کہ اس نے کرہ ارض کے گرد دو بار چکر لگایا، فرانس کی جوہری توانائی کمیشن کے الکسی لاپیشن اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ روس میں چمکنے والے شہابیے کی شدت 460کلو ٹن ٹی این ٹی یونٹ کے برابر تھی جس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ 1908ء میں روس کے علاقے سائبیریا میں گرنے والے شہابیوں نے دوہزار مربع میل کے جنگل کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا ، ان کی طاقت تین سے پانچ میگا ٹن ٹی این ٹی کے مساوی تھی یعنی دوسری جنگ عظیم میں ہیرو شیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم دھماکوں سے سو گنا زیادہ ۔ اسی سے اندازہ لگائیں کہ اگر فروری میں روس کی فضا میں داخل ہونے والا شہابیہ جل کر خاکستر ہونے کی بجائے زمین سے آ ٹکراتا تو بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔ زمین کے گرد ہوا کا ہالہ ایسا قدرتی دفاعی نظام ہے جو ہمیں فضا سے آنے والی ایسی آوارہ چٹانوں اور شہابیوں سے بچاتا رہتا ہے اور اکثر ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ۔ سائنسدانوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ سیارچے اپنے مداروں میں گھوم رہے ہیں اس لئے ان کا زمین سے ٹکرانا بہت مشکل ہے۔
اب تک کی تحقیق کے مطابق زمین کے قریب نوہزار سیارچوں اوراوسطاًسالانہ آٹھ سوچٹانوں کا پتہ چلایا جا چکا ہے ۔ ناسا کے مطابق اگر 1/4کلومیٹر جسامت کا سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو زمین پر زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ جو سیارچے سائنسدانوں کے علم میں آ چکے ہیں وہ ان پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ اگر کوئی غیر معمولی تبدیلی دیکھنے میں آئے تو اس کا کوئی حل ڈھونڈا جا سکے کیونکہ کرہ ارض کو لاحق ایسے گھمبیر مسائل سے نمٹنے کے لئے سائنسی تحقیق جاری ہے ، مگر ایسے سیارچے جو ابھی ان کے علم میں ہی نہیں یا انھوں نے اپنے غیر مستقل مدار کا چکر ہی پورا نہیں کیا وہ کرہ ارض کے لئے کسی بھی لمحے شدید خطرے کا باعث بن سکتے ہیں ، اصل میں ایسے غیر مستقل مداروں والے سیارچوں کا چکر کئی کئی سو سال پر محیط ہوتا ہے، زمین کے مدار کے قریب سے گزرتے ہوئے یہ کشش ثقل کا شکار ہو کر زمین کی فضائی حدود میں داخل ہو سکتے ہیں جس سے زمین لمحوں میں تباہ ہو سکتی ہے۔
تین کلومیٹر بڑے سیارچے کا زمین کے قریب سے سفر
گزشتہ مہینے زمین کے قریب سے تین کلومیٹر چوڑا سیارچہ گزرا تو دنیا بھر کے سائنس دانوں کی نظریں اس کی طرف لگ گئیں ۔
کیونکہ اتنے بڑے سیارچے کا زمین کے قریب سے گزرنا ایک بہت بڑا واقعہ تھا، اس سیارچے کو 1998 کیو ای 2 کا نام دیا گیا تھا۔ یہ زمین سے اٹھاون لاکھ کلومیٹر کی دوری سے گزرا ،دو سو سال کے سفر کے دوران یہ اس کا زمین سے کم ترین فاصلہ تھا گویا یہ اپنے مرکز سے ہٹ رہا ہے،تاہم اتنے فاصلے سے اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات بہت کم تھے۔ یہ فاصلہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے سیارچے کو صرف دوربین سے دیکھا جا سکا ،خوفناک پہلو یہ ہے کہ اتنی بڑی جسامت کے چھ سو کے قریب سیارچے خلا میں گردش کر رہے ہیں۔
تاہم سب اپنے مداروں میں چکر کاٹ رہے ہیں ۔ جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ کیو ای 2کا اپنا چاند بھی ہے اور اس کے مدار میں مزید خلائی چٹانیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے سیارچے کا زمین سے ٹکرانا بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، اس لئے ایسے سیارچوں پر نظر رکھنا بہت
ضروری ہے تاکہ وقت سے پہلے پیش بندی کی جا سکے۔
یہ نظارہ دیکھنے والا اگر شاعر ہو تو اس پر شعروں کا نزول ہونے لگتا ہے، اگرسائنسدان ہو تو اس کی نظر نئے ستاروں اور کہکشائوں کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتی ہے، اس حسین منظر میں کھویا ہوا انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اگلے ہی لمحے یہ فضا اس کے لئے کوئی خوفناک تباہی بھی لا سکتی ہے، زمین سے لے کر آسمان تک بظاہر بالکل سکون نظر آتا ہے مگر اس سکون کے پس پردہ بے شمار ہنگامے چھپے ہوئے ہیں۔ شہاب ثاقب جب خلاء سے زمین کے گرد بنے ہوا کے ہالے میں داخل ہوتا ہے تو روشنی کی ایک لمبی لکیر چھوڑتا ہوا کہیں غائب ہو جاتا ہے ، جسے عام طور پر لوگ تارے کا ٹوٹنا بھی کہتے ہیں ۔ اگر یہی شہاب ثاقب ہوا سے رگڑ کھانے کے بعد جل کر راکھ ہو نے کے بعد غائب نہ ہو تو کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ، آسمان سے گرنے والے اس پتھر کا دھماکہ کسی بڑے بم سے کم نہیں ہو گا، اور اگر یہ ٹکڑا کئی کلومیٹر طویل ہو تو زمین کا ماحولیاتی منظر تبدیل ہو جائے گا جس سے زمین پر زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔
اب تک کی سائنسی تحقیق کے مطابق ہماری زمین پوری کائنات میں واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، زندگی سے بھرپور یہ سیارہ اپنی اسی اہمیت کی وجہ سے تمام ستاروں اور سیاروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بے کنار کائنات میں سورج کے گرد گھومنے والا یہ واحد حیاتیاتی سیارہ کیا محفوظ ہے؟۔ جب انسان کو یہ بھی علم نہ تھا کہ زمین پر اس کی طرح اور بھی کئی خطے ایسے ہیں جہاں پر اس کی طرح انسان بستے ہیں تب اسے یہ زمین بہت ہی محفوظ لگتی تھی کیونکہ اس کا علم زمین کے ایک خاص حصے تک محفوظ تھا ، وہ زمین کو محدود نہیں بلکہ بے کنار سمجھتا تھا ، اس کا خیال تھا کہ سورج ،چاند، ستارے سب اس کے گرد گھومتے ہیں ، کائنات کے راز اس کے لئے ابھی سربستہ تھے،
اسے ابھی یہ علم نہیں تھا کہ زمین جسے وہ لامحدود سمجھتا ہے وہ کائنات میں ایک ذرے جتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی ، حالانکہ آسمان سے گرنے والی چٹانیں اور اس سے پھیلنے والی تباہی اسے کائنات میں جھانکنے پر مجبور کرتی تھی ، مگر توہم پرستانہ خیالات اسے ہر طرف سے جکڑے ہوئے تھے اور پتھروں کے گرنے کو دیوتائوں کی ناراضگی قرار دیا جاتا تھا۔ جب سائنس نے اتنی ترقی کر لی کہ انسان کوعلم ہو گیا کہ زمین کائنات میں موجود بے شمار نظاموں میں سے ایک نظام شمسی کا ایک حصہ ہے تو اس پر حیرت کے نئے در وا ہوئے۔ تب جہاں اسے کائنات میں زمین کی حیثیت کا علم ہوا وہیں اسے یہ بھی پتہ چلا کہ سورج کے گرد خلاء میں گردش کرتے ہوئے زندگی سے بھرپور اس سیارے کو بے شمار خطرات لاحق ہیں ، خلاء میں آوارہ گھومنے والے سیارچے اور چٹانیں کسی وقت زمین کو تباہ کر سکتے ہیں ۔
خلاء میں گھومنے والے یہ سیارچے اور چٹانیں آخر ہیں کیا اور کہاں سے آئے ہیں ؟ ۔ 1801ء میں ایک سائنسدان گیوسپی پیزی نے خلاء کے مشاہدے کے دوران مریخ اور مشتری کے مداروں کے درمیان چٹانی مادے کو سورج کے گرد گھومتے دیکھا تو وہ بڑا حیران ہوا ، اس نے اس کا نام سیرس رکھا ، اس کا حجم 1003کلومیٹر تھا ( یہ اب تک کے دریافت ہونے والے تمام اسٹیرائیڈز میں سب سے بڑا ہے اور تمام سیارچوں کے مجموعی حجم کا پچیس فیصد ہے) مگر یہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا کہ اسے سیارہ کہا جا سکے اس لئے اسے سیارچہ یعنی اسٹیرائیڈ کہا گیا ، چھ سال کی تحقیق کے دوران مزید تین سیارچے دریافت ہوئے ، پہلے خیال تھا کہ یہ سلسلہ یہیں پر رک جائے گا مگر تحقیق کرنے پر پتہ چلاکہ ایسے بے شمار چھوٹے بڑے سیارچے ہیں جو سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ،
تب یہ خیال کیا گیا کہ یہ سب کسی ایک سیارے کے ٹکڑے ہیں جو کسی وجہ سے تباہی سے دوچار ہو گیا ، ان سیارچوں کو اسٹیرائیڈ بلٹ کا نام دیا گیا، ان میں چند میٹر سے لے کر سینکڑوں میل بڑے سیارچے شامل ہیں ۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے، ان میں سے 6ہزارکے باقاعدہ نام رکھے گئے ہیں جبکہ 70 ہزار سیارچوں پر تحقیق جاری ہے ۔ ساخت کے اعتبار سے سیارچوں کی مختلف اقسام ہیں جیسے Cٹائپ، Sٹائپ ،M ٹائپ وغیرہ ۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد سی ٹائپ کی ہے، کالے رنگ کے یہ سیارچے کل تعداد کا 75فیصد ہیں، S ٹائپ سیارچے نسبتاً روشن ہیںکیونکہ ان میں نکل اور لوہے کی آمیزش ہے اور یہ تمام اسٹیرائیڈ ز کا 17فیصد ہیں، دیگر سیارچے ایم ٹائپ ہیں اور یہ بہت روشن ہیں کیونکہ ان میں نکل اور لوہے کی آمیزش بہت زیادہ ہے، اس کے علاوہ بھی سیارچوں کی چند دیگر اقسام ہیں ۔
اگرچہ سیارچوں کی اکثریت اسٹیرائیڈ بلٹ میں ہی چکر کاٹ رہی ہے مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے مدارمقررہ نہیں یعنی بے مرکز یا عام روش سے ہٹ کر ہیں اور وہ اسٹیرائیڈ بلٹ سے باہر حرکت کرتے ہیں اور زمین کے مدار کے بہت قریب سے گزرتے ہیں ، سائنسدان ایسے سیارچوں کو خطرنا ک کیٹگری میں شمار کرتے ہیں ، حالانکہ وہ اپنے مدار میں حرکت کر رہے ہیں مگر ان کی قربت زمین کے لئے خطرناک ہے کیونکہ مستقبل میں کسی بھی بڑے ٹکرائو کا باعث بن سکتے ہیں ، ان میں سے بھی زیادہ وہ سیارچے اور چٹانیں خطرناک ہیں جو ابھی تک دریافت ہی نہیں ہوئیں اور اچانک ظاہر ہوتی ہیں ، خاص طور پر چھوٹے سیارچے جنھیں شہابیہ کہا جاتا ہے جو زمین کی فضا میں داخل ہو کر جل جاتے ہیں ۔
ایسا ہی ایک شہابیہ فروری میں روس کی فضا میں داخل ہوا اور جل کر راکھ ہو گیا مگر اس کے جلنے سے پیدا ہونے والی شاک ویو یا لہر اتنی طاقتور تھی کہ اس نے کرہ ارض کے گرد دو بار چکر لگایا، فرانس کی جوہری توانائی کمیشن کے الکسی لاپیشن اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ روس میں چمکنے والے شہابیے کی شدت 460کلو ٹن ٹی این ٹی یونٹ کے برابر تھی جس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ 1908ء میں روس کے علاقے سائبیریا میں گرنے والے شہابیوں نے دوہزار مربع میل کے جنگل کو جلا کر خاکستر کر دیا تھا ، ان کی طاقت تین سے پانچ میگا ٹن ٹی این ٹی کے مساوی تھی یعنی دوسری جنگ عظیم میں ہیرو شیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم دھماکوں سے سو گنا زیادہ ۔ اسی سے اندازہ لگائیں کہ اگر فروری میں روس کی فضا میں داخل ہونے والا شہابیہ جل کر خاکستر ہونے کی بجائے زمین سے آ ٹکراتا تو بہت بڑی تباہی کا باعث بن سکتا تھا۔ زمین کے گرد ہوا کا ہالہ ایسا قدرتی دفاعی نظام ہے جو ہمیں فضا سے آنے والی ایسی آوارہ چٹانوں اور شہابیوں سے بچاتا رہتا ہے اور اکثر ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ۔ سائنسدانوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ سیارچے اپنے مداروں میں گھوم رہے ہیں اس لئے ان کا زمین سے ٹکرانا بہت مشکل ہے۔
اب تک کی تحقیق کے مطابق زمین کے قریب نوہزار سیارچوں اوراوسطاًسالانہ آٹھ سوچٹانوں کا پتہ چلایا جا چکا ہے ۔ ناسا کے مطابق اگر 1/4کلومیٹر جسامت کا سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو زمین پر زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ جو سیارچے سائنسدانوں کے علم میں آ چکے ہیں وہ ان پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ اگر کوئی غیر معمولی تبدیلی دیکھنے میں آئے تو اس کا کوئی حل ڈھونڈا جا سکے کیونکہ کرہ ارض کو لاحق ایسے گھمبیر مسائل سے نمٹنے کے لئے سائنسی تحقیق جاری ہے ، مگر ایسے سیارچے جو ابھی ان کے علم میں ہی نہیں یا انھوں نے اپنے غیر مستقل مدار کا چکر ہی پورا نہیں کیا وہ کرہ ارض کے لئے کسی بھی لمحے شدید خطرے کا باعث بن سکتے ہیں ، اصل میں ایسے غیر مستقل مداروں والے سیارچوں کا چکر کئی کئی سو سال پر محیط ہوتا ہے، زمین کے مدار کے قریب سے گزرتے ہوئے یہ کشش ثقل کا شکار ہو کر زمین کی فضائی حدود میں داخل ہو سکتے ہیں جس سے زمین لمحوں میں تباہ ہو سکتی ہے۔
تین کلومیٹر بڑے سیارچے کا زمین کے قریب سے سفر
گزشتہ مہینے زمین کے قریب سے تین کلومیٹر چوڑا سیارچہ گزرا تو دنیا بھر کے سائنس دانوں کی نظریں اس کی طرف لگ گئیں ۔
کیونکہ اتنے بڑے سیارچے کا زمین کے قریب سے گزرنا ایک بہت بڑا واقعہ تھا، اس سیارچے کو 1998 کیو ای 2 کا نام دیا گیا تھا۔ یہ زمین سے اٹھاون لاکھ کلومیٹر کی دوری سے گزرا ،دو سو سال کے سفر کے دوران یہ اس کا زمین سے کم ترین فاصلہ تھا گویا یہ اپنے مرکز سے ہٹ رہا ہے،تاہم اتنے فاصلے سے اس کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات بہت کم تھے۔ یہ فاصلہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے سیارچے کو صرف دوربین سے دیکھا جا سکا ،خوفناک پہلو یہ ہے کہ اتنی بڑی جسامت کے چھ سو کے قریب سیارچے خلا میں گردش کر رہے ہیں۔
تاہم سب اپنے مداروں میں چکر کاٹ رہے ہیں ۔ جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ کیو ای 2کا اپنا چاند بھی ہے اور اس کے مدار میں مزید خلائی چٹانیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے سیارچے کا زمین سے ٹکرانا بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، اس لئے ایسے سیارچوں پر نظر رکھنا بہت
ضروری ہے تاکہ وقت سے پہلے پیش بندی کی جا سکے۔