نئے موسم کی خوشی
موسم کا بدلنا بھی خوشی کی ایک علامت ہوتا ہے اور بعض اوقات نئے کپڑوں کی خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے۔
سردیاں علیٰ الاعلان شروع ہو گئی ہیں۔ ان کی آمد کو آپ جن الفاظ میں بھی یاد کریں یہ سردیاں ہی رہتی ہیں اور اپنے ساتھ اپنا مخصوص لباس بھی لے کر آتی ہیں۔ حسب توفیق سردی کا مارا ہر شخص گرم لباس اوڑھ لیتا ہے اور ہمارے ہاں گائوں میں تو گرم کوٹ وغیرہ نہیں ہوتے اور نہ ہی گرم واسکٹ ہوتی ہے لوگ موٹے کپڑے پہن کر سردی کا استقبال کرتے ہیں اور اپنی قوت ارادی اور جسمانی قوت برداشت کو سردی کی یلغار سے لڑا دیتے ہیں۔ اس طرح وہ سخت سردیوں کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔
میں جو ایک پہاڑی علاقے وادیٔ سون کا باسی ہوں جہاں ہر گائوں پہاڑ میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس وادیٔ کے باشندے ان پہاڑوں کو کسی نہ کسی نام سے پکارتے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والے سخت موسم کو بھی کوئی نام دے دیتے ہیں، کہ کسی سال کے موسم سرما کی سردی کو اس کی شدت کے لحاظ سے یاد رکھا جائے۔
سردی کا موسم ہو یا گرمی کا ہر سال اس کے رنگ ڈھنگ بدلے ہوئے ہوتے ہیں اور انسانی جسموں پر ان کے اثرات بھی ہر سال سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ بدلتے موسموں کے باشندے کسی موسم کی آمد کے ساتھ ہی اس کے لیے پہلے سے ہی تیاری کر لیتے ہیں کیونکہ بالعموم یہ موسم بھی گزشتہ سال کے اپنے ساتھی موسم جیسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کے عوام کے بدلتے ہوئے حالات موسم کو بھی بدل دیتے ہیں اور وہ یوں کہ ان کو ان کی محنت کے عوض اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ وہ بدلتے موسم کے ساتھ اپنا لباس بھی بدل لیتے ہیں۔
سردیوں میں موٹے اُونی کپڑے خواہ وہ لنڈے بازار کے ہی کیوں نہ ہوں موسم کا سستا مقابلہ کر لیتے ہیں۔ انسانی جسم کے لیے موسم کی سختیوں سے بچائو میں کام آتے ہیں اور غریب لوگ بھی کسی قدرتی موسم کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔ اور سردیوں سے اس مقابلے میں لنڈا بازار ان کا ساتھی ہوتا ہے بلکہ گرانی کے اس زمانے میں لنڈا بازار ہی موسم سرما میں عام انسانوں کا محافظ ہوتا ہے۔ لنڈے کے کپڑے جن میں تلاش کے بعد کئی بہتر کپڑے بھی مل جاتے ہیں جو بعض رئوساء کی خوبصورت پردہ پوشی بھی کر لیتے ہیں۔
میں نے ایک بار لنڈے بازار میں اپنے علاقے کے ایک رئیس کو بڑی محنت کے ساتھ شاپنگ کرتے دیکھا جو لنڈے کے کپڑوں میں گم تھے۔ اسی دوران ایک صاحب ان کے ملنے والے بھی آگئے اور انھوں نے حیران ہو کر پوچھا جناب آپ بھی۔ اس کے جواب میں انھوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ نوکر ہر سال کپڑے پرانے کر دیتے ہیں۔گزشتہ سال کے کپڑے وہ ناکارہ بنا دیتے ہیں اس لیے ان کے لیے کپڑے میں ہی خریدتا ہوں ورنہ وہ خود پھر سے پرانے کپڑے ہی خرید کر ان کی قیمت مجھ سے وصول کریں گے جو اصلی نہیں نقلی ہو گی۔
بہر کیف ہر سال اس سیزن میں نوکروں کے لیے بھی نئے یعنی پرانے کپڑے خریدنے پڑتے ہیں اور اس طرح بعض اوقات یہ پرانے کپڑے ہمارے نئے کپڑوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ اگر نوکروں سے کہا جائے کہ وہ خود ہی اپنے لیے کپڑے خرید لیں تو پھر یہ پرانے کپڑے بھی یعنی نئے کپڑوں کی قیمت کے ہوتے ہیں اور آپ کے پاس سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے عقلمند رئوساء نوکروں کے لیے کپڑے بھی خود ہی خریدتے ہیں اور یہ دیکھ کر کہ یہ کپڑے جیسے بھی ہوں اگلے سیزن میں ان کی جگہ دوسرے کپڑے خریدنے ہی ہیں اس لیے ان کی شکل و صورت ایسی ہو کہ تجربہ کار نوکر انھیں بادل نخواستہ قبول کر لیں اور ساتھیوں پر رعب جمائیں کہ صاحب نے اپنے لیے کچھ نئے کپڑے خریدے ہیں اور یہ پرانے جو نئے جیسے تھے ہم نوکروں کو دے دیے ہیں۔
ان اچھی حالت کے کپڑوں سے بھی لوگ خوش ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات قسمت ساتھ دیتی ہے اور ان پرانے کپڑوں کی جیبوں کی تلاشی میں لے آتی ہے اور ان میں سے کچھ نوٹ بھی نکل آتے ہیں جو چپکے سے صاحب کی نظروں سے بچا کر رکھ لیے جاتے ہیں۔ یہ نئے موسم کا ایک انعام ہوتا ہے جو اکثر ہر سال کے بدلتے موسم میں پرانے کپڑوں سے نکل ہی آتا ہے، کبھی زیادہ کبھی کم۔ گزشتہ برس کے نوٹ جو کوٹ کی کسی جیب میں رہ جاتے ہیں وہ نوٹ کسی اور کی قسمت میں استعمال کے لیے ہوتے ہیں جن کو وہ ایک انعام سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔
صاحب لوگ موسم بدلنے کا انتظار کرتے ہیں کہ نئے کپڑے خرید یں گے جب کہ ہم لوگ موسم بدلنے کے منتظر رہتے ہیں کہ صاحب لوگوں کے کپڑے ہمیں مل سکتے ہیں۔ ان کی جیبوں سے کچھ نہ نکلے تو یہ پرانے کپڑے بذات خود اچھی قیمت کے ہوتے ہیں۔ یہ سب اپنی اپنی قسمت کے کھیل ہیں جو ہر بدلتا موسم دکھاتا ہے اور اس سے ایک غائبانہ خوشی ملتی ہے۔
بہر کیف موسم کا بدلنا بھی خوشی کی ایک علامت ہوتا ہے اور بعض اوقات نئے کپڑوں کی خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے ۔ اس طرح ہر موسم بھی اپنے ساتھ ایک نئی دنیا لے کر آتا ہے اور اس کو سہنے والے ایک نئی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ غریب لوگوں کے لیے بھی قدرت خوشی کے موقع پیدا کر دیتی ہے۔ بدلتے موسم شاید ان کی زندگی میں بھی کوئی تبدیلی لے آئیں اسی امید پر وہ نئے موسم کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ارباب اختیار کی طرح موسموں کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔
میں جو ایک پہاڑی علاقے وادیٔ سون کا باسی ہوں جہاں ہر گائوں پہاڑ میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس وادیٔ کے باشندے ان پہاڑوں کو کسی نہ کسی نام سے پکارتے ہیں اور ان سے پیدا ہونے والے سخت موسم کو بھی کوئی نام دے دیتے ہیں، کہ کسی سال کے موسم سرما کی سردی کو اس کی شدت کے لحاظ سے یاد رکھا جائے۔
سردی کا موسم ہو یا گرمی کا ہر سال اس کے رنگ ڈھنگ بدلے ہوئے ہوتے ہیں اور انسانی جسموں پر ان کے اثرات بھی ہر سال سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ بدلتے موسموں کے باشندے کسی موسم کی آمد کے ساتھ ہی اس کے لیے پہلے سے ہی تیاری کر لیتے ہیں کیونکہ بالعموم یہ موسم بھی گزشتہ سال کے اپنے ساتھی موسم جیسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کے عوام کے بدلتے ہوئے حالات موسم کو بھی بدل دیتے ہیں اور وہ یوں کہ ان کو ان کی محنت کے عوض اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ وہ بدلتے موسم کے ساتھ اپنا لباس بھی بدل لیتے ہیں۔
سردیوں میں موٹے اُونی کپڑے خواہ وہ لنڈے بازار کے ہی کیوں نہ ہوں موسم کا سستا مقابلہ کر لیتے ہیں۔ انسانی جسم کے لیے موسم کی سختیوں سے بچائو میں کام آتے ہیں اور غریب لوگ بھی کسی قدرتی موسم کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔ اور سردیوں سے اس مقابلے میں لنڈا بازار ان کا ساتھی ہوتا ہے بلکہ گرانی کے اس زمانے میں لنڈا بازار ہی موسم سرما میں عام انسانوں کا محافظ ہوتا ہے۔ لنڈے کے کپڑے جن میں تلاش کے بعد کئی بہتر کپڑے بھی مل جاتے ہیں جو بعض رئوساء کی خوبصورت پردہ پوشی بھی کر لیتے ہیں۔
میں نے ایک بار لنڈے بازار میں اپنے علاقے کے ایک رئیس کو بڑی محنت کے ساتھ شاپنگ کرتے دیکھا جو لنڈے کے کپڑوں میں گم تھے۔ اسی دوران ایک صاحب ان کے ملنے والے بھی آگئے اور انھوں نے حیران ہو کر پوچھا جناب آپ بھی۔ اس کے جواب میں انھوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ نوکر ہر سال کپڑے پرانے کر دیتے ہیں۔گزشتہ سال کے کپڑے وہ ناکارہ بنا دیتے ہیں اس لیے ان کے لیے کپڑے میں ہی خریدتا ہوں ورنہ وہ خود پھر سے پرانے کپڑے ہی خرید کر ان کی قیمت مجھ سے وصول کریں گے جو اصلی نہیں نقلی ہو گی۔
بہر کیف ہر سال اس سیزن میں نوکروں کے لیے بھی نئے یعنی پرانے کپڑے خریدنے پڑتے ہیں اور اس طرح بعض اوقات یہ پرانے کپڑے ہمارے نئے کپڑوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ اگر نوکروں سے کہا جائے کہ وہ خود ہی اپنے لیے کپڑے خرید لیں تو پھر یہ پرانے کپڑے بھی یعنی نئے کپڑوں کی قیمت کے ہوتے ہیں اور آپ کے پاس سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے عقلمند رئوساء نوکروں کے لیے کپڑے بھی خود ہی خریدتے ہیں اور یہ دیکھ کر کہ یہ کپڑے جیسے بھی ہوں اگلے سیزن میں ان کی جگہ دوسرے کپڑے خریدنے ہی ہیں اس لیے ان کی شکل و صورت ایسی ہو کہ تجربہ کار نوکر انھیں بادل نخواستہ قبول کر لیں اور ساتھیوں پر رعب جمائیں کہ صاحب نے اپنے لیے کچھ نئے کپڑے خریدے ہیں اور یہ پرانے جو نئے جیسے تھے ہم نوکروں کو دے دیے ہیں۔
ان اچھی حالت کے کپڑوں سے بھی لوگ خوش ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات قسمت ساتھ دیتی ہے اور ان پرانے کپڑوں کی جیبوں کی تلاشی میں لے آتی ہے اور ان میں سے کچھ نوٹ بھی نکل آتے ہیں جو چپکے سے صاحب کی نظروں سے بچا کر رکھ لیے جاتے ہیں۔ یہ نئے موسم کا ایک انعام ہوتا ہے جو اکثر ہر سال کے بدلتے موسم میں پرانے کپڑوں سے نکل ہی آتا ہے، کبھی زیادہ کبھی کم۔ گزشتہ برس کے نوٹ جو کوٹ کی کسی جیب میں رہ جاتے ہیں وہ نوٹ کسی اور کی قسمت میں استعمال کے لیے ہوتے ہیں جن کو وہ ایک انعام سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔
صاحب لوگ موسم بدلنے کا انتظار کرتے ہیں کہ نئے کپڑے خرید یں گے جب کہ ہم لوگ موسم بدلنے کے منتظر رہتے ہیں کہ صاحب لوگوں کے کپڑے ہمیں مل سکتے ہیں۔ ان کی جیبوں سے کچھ نہ نکلے تو یہ پرانے کپڑے بذات خود اچھی قیمت کے ہوتے ہیں۔ یہ سب اپنی اپنی قسمت کے کھیل ہیں جو ہر بدلتا موسم دکھاتا ہے اور اس سے ایک غائبانہ خوشی ملتی ہے۔
بہر کیف موسم کا بدلنا بھی خوشی کی ایک علامت ہوتا ہے اور بعض اوقات نئے کپڑوں کی خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے ۔ اس طرح ہر موسم بھی اپنے ساتھ ایک نئی دنیا لے کر آتا ہے اور اس کو سہنے والے ایک نئی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ غریب لوگوں کے لیے بھی قدرت خوشی کے موقع پیدا کر دیتی ہے۔ بدلتے موسم شاید ان کی زندگی میں بھی کوئی تبدیلی لے آئیں اسی امید پر وہ نئے موسم کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ارباب اختیار کی طرح موسموں کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔