دوسروں کی آواز بننے والوں کی آواز کون اٹھائے گا
صحافی برادری اس وقت بدترین بحران کا شکار ہے، دوسروں کی آواز بننے والے ان صحافیوں کے حقوق کی صدا کون بلند کرے گا؟؟
خدا کی کتاب کہتی ہے کہ وہ اُس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلے۔ مگر افسوس! یہاں ہر فرد ایک مسیحا کا منتظر دکھائی دیتا ہے۔ رحمت اللعالمینﷺ کی بہترین نصیحت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے اسباب پھر توکل، لیکن اِس کے معنی و مفہوم سے ناآشنا یہ لوگ جانے کس بھرم میں جی رہے ہیں، کیا معلوم؟
کئی بار سوچا کہ غفلت میں سوئے اِن لوگوں کو جگایا جائے، لیکن ہر بار صرف سوچ کر ہی رہ جایا کرتا تھا۔ مگر پھر کراچی پریس کلب میں پلاٹوں کی تقسیم اور آگہی ایوارڈ جیسی ''مثبت خبروں'' نے بالآخر راقم کو مجبور کر ہی دیا۔ ایک طرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہزاروں ملازمین کا ذریعۂ معاش چھینے جانے کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، اور دوسری جانب اِس قسم کی ڈرامے بازیاں اپنے عروج پر ہیں۔ یہ بات کسی گھناؤنے مذاق سے کم نہیں کہ مقررہ اوقات سے زیادہ دیر تک نوکری کرکے چند ہزار ماہانہ کمانے والے طبقے کو ملازمتوں سے بے دریغ فارغ کرکے لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے اینکرز کو سیٹھ ہنس کھیل کر برداشت کر رہا ہے۔
اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت بننے والی ہر خبر کے پیچھے طویل محنت پوشیدہ ہوا کرتی ہے، خواہ وہ ٹِکر کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو؛ اور وہ انہی نامعلوم افراد کی بدولت نشر ہوا کرتی ہے۔ حالات حاضرہ پر مبنی پروگرام ہو یا خبرنامہ، اِنہیں نشر ہونے سے قبل مرتب ہونے کےلیے کتنے ہاتھوں سے گزرنا پڑتا ہے اِس کا اندازہ شاید ہی قارئین و ناظرین کو ہو۔
کمی بیشی معاف، غالباً امام العادلین حضرت عمر فاروقؓ کے حضور مقدمہ پیش ہوا۔ ایک شخص پر چوری کا الزام ثابت ہوا۔ حق چونکہ زبانِ عمری کا محتاج ٹھہرا، امیر المومنینؓ کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ غریب نے فاقہ کشی سے مجبور ہوکر چوری کی۔ مؤرخ نے جواب آبِ زر سے لکھا: فرمایا، ''جس ریاست میں غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر چوری کی جائے، وہاں قاضی کو سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔''
روزگار کی فراہمی کسی بھی فلاحی معاشرے کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جو جرائم کا قلع قمع کرنے کےلیے اِکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن ریاستِ مدینہ کے موجودہ دعویداروں سے یہ اُمید نہ ہی باندھی جائے تو بہتر ہے۔ یہ عمل ناگزیر ہے، کوئی پوچھے ذرا یہ وقت کے فرعونوں سے کہ خوفِ خدا بھی آخرکچھ ہے کہ نہیں؟ وزارتِ اطلاعات، پیمرا، نام نہاد صحافتی تنظیمیں و دیگر میں سے کسی کو کیا اِس بات کا ذرا بھی احساس ہے کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی کی زد میں آنے والے یہ ہزاروں افراد اور اُن کے اہلِ خانہ آخر کس حال میں گزر بسر کر رہے ہیں؟ روٹی سے لیکر دوائی تک، پڑھائی سے لیکر شادی تک، پیدائش سے لیکر موت تک، حیاتِ فانی کے جتنے مراحل ہیں اُن تمام سے یہ لوگ کِس طرح گزر رہے ہوں گے؟
اوسط کی بنیاد پر حساب لگایا جائے تو بھی متاثرین کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کہاں جا کر رُکتی ہے؟ الامان الحفیظ! قبلِ محشر ''نفسی نفسی'' کا یہ عالم ہے کہ پلاٹ، ایوارڈ ملنے سے فرصت ملے اور توفیق نصیب ہو تو ہی دوسروں کا سوچا جائے۔ آزادیٔ صحافت کے نغمہ خوانوں کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ اپنے اِس متوسط طبقے کے حقوق کےلیے صدا بلند کی جائے۔ لیکن ریاستی و ادارہ جاتی پالیسیوں کا نام لے کر چھپنے والے، سچائی کے اِن نام نہاد علمبرداروں کی اِس مجرمانہ خاموشی کے سبب اگر قدرت اِن کو بھی اِسی منزل پر لے آئے تو کیا ہوگا؟
بقول شخصے کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجا کرتی ہے، شکوہ اِن متاثرہ افراد سے بھی کرنا بنتا ہے جو خود کوئی قدم اُٹھانے کے بجائے بزدلوں اور بے حسوں کی طرح مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ ایسا منظر ہندی فلموں میں تو ضرور دیکھا جاسکتا ہے، لیکن حقیقت اِس کے بالکل بر عکس ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں اپنے حق کےلیے خود ہی نکلنا پڑتا ہے۔ بغیر اسباب کے توکل کرنا عقلمندوں کی نشانی نہیں۔ ہم کوشش کیے بغیر ہی نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔ ''یہ نہیں ہوسکتا، کیسے ہوگا، ارے یار کون سُنے گا ہماری؟'' جیسے بزدلانہ الفاظ کم ظرفوں ہی کو زیب دیتے ہیں۔
یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ مایوسی کفر کے در پر دھکیل دیتی ہے۔ حکومتی نشست پر براجمان ایک انتہائی ذمہ دار شخصیت سے اِس بارے میں گفتگو ہوئی۔ خاکسار نے استفسار کیا کہ حکومت اِس معاملے میں آخر کر کیا رہی ہے؟ جواب میں صاحب کی خاموشی سے یہ ثابت ہوا کہ حکومت اِس معاملے پر آپ کی داد رسی نہیں کرسکتی۔ تو صاحبو! ماضی کے مقابلے موجودہ عدالتِ عظمیٰ جتنی آزاد، مضبوط اور طاقتور دکھائی دے رہی ہے، اتنی پہلے نہ تھی؛ اور موجودہ چیف جسٹس صاحب جس برق رفتاری سے انصاف کی فراہمی کےلیے مؤثر عملی اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں، یقیناً بے مثل ہے۔ وزرائے اعظم تک کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اعلیٰ عدالتوں نے عوام الناس میں جو اُمیدیں پیدا کی ہیں وہ یقیناً قابلِ تحسین عمل ہے۔ موجودہ عدالتی نظام میں تبدیلی کے باعث جہاں انصاف کی فراہمی کا عمل شفاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہاں اگر تمام متاثرہ افراد اجتماعی شکل میں انصاف کے حصول کےلیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟
اگر تمام متاثرین یک آواز ہو کر اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے خلاف صدا بلند کریں تویہاں انصاف ملنے کا قوی امکان ہے، بجائے اِس کے کہ دوسروں کو کوستے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ بقول اُستادِ محترم، ہزار سال کا فاصلہ طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلا قدم اُٹھایا جائے۔
قادرِ قدیر نے اپنے محبوبﷺ کو بھی کوشش کا حکم دیا ہے، نتیجے کا نہیں۔ کیوںکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے؛ اور نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو ہی جاتی ہے۔ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ مظلوم کی کمزوری، ظالم کی طاقت بن جایا کرتی ہے۔ پھر وہ جو چاہے کرتا ہے۔ شہیدِ کربلاؓ فرماتے ہیں کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھو گے، اُتنی ہی زیادہ قربانیاں دینا پڑیں گی۔ قصہ مختصر، بے بسی کا ماتم کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ کوشش کی جائے؛ وگرنہ زندگی کفِ افسوس ملتے ہی گزرے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کئی بار سوچا کہ غفلت میں سوئے اِن لوگوں کو جگایا جائے، لیکن ہر بار صرف سوچ کر ہی رہ جایا کرتا تھا۔ مگر پھر کراچی پریس کلب میں پلاٹوں کی تقسیم اور آگہی ایوارڈ جیسی ''مثبت خبروں'' نے بالآخر راقم کو مجبور کر ہی دیا۔ ایک طرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہزاروں ملازمین کا ذریعۂ معاش چھینے جانے کا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا، اور دوسری جانب اِس قسم کی ڈرامے بازیاں اپنے عروج پر ہیں۔ یہ بات کسی گھناؤنے مذاق سے کم نہیں کہ مقررہ اوقات سے زیادہ دیر تک نوکری کرکے چند ہزار ماہانہ کمانے والے طبقے کو ملازمتوں سے بے دریغ فارغ کرکے لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے اینکرز کو سیٹھ ہنس کھیل کر برداشت کر رہا ہے۔
اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت بننے والی ہر خبر کے پیچھے طویل محنت پوشیدہ ہوا کرتی ہے، خواہ وہ ٹِکر کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو؛ اور وہ انہی نامعلوم افراد کی بدولت نشر ہوا کرتی ہے۔ حالات حاضرہ پر مبنی پروگرام ہو یا خبرنامہ، اِنہیں نشر ہونے سے قبل مرتب ہونے کےلیے کتنے ہاتھوں سے گزرنا پڑتا ہے اِس کا اندازہ شاید ہی قارئین و ناظرین کو ہو۔
کمی بیشی معاف، غالباً امام العادلین حضرت عمر فاروقؓ کے حضور مقدمہ پیش ہوا۔ ایک شخص پر چوری کا الزام ثابت ہوا۔ حق چونکہ زبانِ عمری کا محتاج ٹھہرا، امیر المومنینؓ کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ غریب نے فاقہ کشی سے مجبور ہوکر چوری کی۔ مؤرخ نے جواب آبِ زر سے لکھا: فرمایا، ''جس ریاست میں غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر چوری کی جائے، وہاں قاضی کو سزا دینے کا کوئی حق نہیں۔''
روزگار کی فراہمی کسی بھی فلاحی معاشرے کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جو جرائم کا قلع قمع کرنے کےلیے اِکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن ریاستِ مدینہ کے موجودہ دعویداروں سے یہ اُمید نہ ہی باندھی جائے تو بہتر ہے۔ یہ عمل ناگزیر ہے، کوئی پوچھے ذرا یہ وقت کے فرعونوں سے کہ خوفِ خدا بھی آخرکچھ ہے کہ نہیں؟ وزارتِ اطلاعات، پیمرا، نام نہاد صحافتی تنظیمیں و دیگر میں سے کسی کو کیا اِس بات کا ذرا بھی احساس ہے کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی کی زد میں آنے والے یہ ہزاروں افراد اور اُن کے اہلِ خانہ آخر کس حال میں گزر بسر کر رہے ہیں؟ روٹی سے لیکر دوائی تک، پڑھائی سے لیکر شادی تک، پیدائش سے لیکر موت تک، حیاتِ فانی کے جتنے مراحل ہیں اُن تمام سے یہ لوگ کِس طرح گزر رہے ہوں گے؟
اوسط کی بنیاد پر حساب لگایا جائے تو بھی متاثرین کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کہاں جا کر رُکتی ہے؟ الامان الحفیظ! قبلِ محشر ''نفسی نفسی'' کا یہ عالم ہے کہ پلاٹ، ایوارڈ ملنے سے فرصت ملے اور توفیق نصیب ہو تو ہی دوسروں کا سوچا جائے۔ آزادیٔ صحافت کے نغمہ خوانوں کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ اپنے اِس متوسط طبقے کے حقوق کےلیے صدا بلند کی جائے۔ لیکن ریاستی و ادارہ جاتی پالیسیوں کا نام لے کر چھپنے والے، سچائی کے اِن نام نہاد علمبرداروں کی اِس مجرمانہ خاموشی کے سبب اگر قدرت اِن کو بھی اِسی منزل پر لے آئے تو کیا ہوگا؟
بقول شخصے کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجا کرتی ہے، شکوہ اِن متاثرہ افراد سے بھی کرنا بنتا ہے جو خود کوئی قدم اُٹھانے کے بجائے بزدلوں اور بے حسوں کی طرح مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ ایسا منظر ہندی فلموں میں تو ضرور دیکھا جاسکتا ہے، لیکن حقیقت اِس کے بالکل بر عکس ہے۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں اپنے حق کےلیے خود ہی نکلنا پڑتا ہے۔ بغیر اسباب کے توکل کرنا عقلمندوں کی نشانی نہیں۔ ہم کوشش کیے بغیر ہی نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔ ''یہ نہیں ہوسکتا، کیسے ہوگا، ارے یار کون سُنے گا ہماری؟'' جیسے بزدلانہ الفاظ کم ظرفوں ہی کو زیب دیتے ہیں۔
یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ مایوسی کفر کے در پر دھکیل دیتی ہے۔ حکومتی نشست پر براجمان ایک انتہائی ذمہ دار شخصیت سے اِس بارے میں گفتگو ہوئی۔ خاکسار نے استفسار کیا کہ حکومت اِس معاملے میں آخر کر کیا رہی ہے؟ جواب میں صاحب کی خاموشی سے یہ ثابت ہوا کہ حکومت اِس معاملے پر آپ کی داد رسی نہیں کرسکتی۔ تو صاحبو! ماضی کے مقابلے موجودہ عدالتِ عظمیٰ جتنی آزاد، مضبوط اور طاقتور دکھائی دے رہی ہے، اتنی پہلے نہ تھی؛ اور موجودہ چیف جسٹس صاحب جس برق رفتاری سے انصاف کی فراہمی کےلیے مؤثر عملی اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں، یقیناً بے مثل ہے۔ وزرائے اعظم تک کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اعلیٰ عدالتوں نے عوام الناس میں جو اُمیدیں پیدا کی ہیں وہ یقیناً قابلِ تحسین عمل ہے۔ موجودہ عدالتی نظام میں تبدیلی کے باعث جہاں انصاف کی فراہمی کا عمل شفاف ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہاں اگر تمام متاثرہ افراد اجتماعی شکل میں انصاف کے حصول کےلیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟
اگر تمام متاثرین یک آواز ہو کر اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے خلاف صدا بلند کریں تویہاں انصاف ملنے کا قوی امکان ہے، بجائے اِس کے کہ دوسروں کو کوستے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ بقول اُستادِ محترم، ہزار سال کا فاصلہ طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلا قدم اُٹھایا جائے۔
قادرِ قدیر نے اپنے محبوبﷺ کو بھی کوشش کا حکم دیا ہے، نتیجے کا نہیں۔ کیوںکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے؛ اور نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو ہی جاتی ہے۔ مشاہدہ بتلاتا ہے کہ مظلوم کی کمزوری، ظالم کی طاقت بن جایا کرتی ہے۔ پھر وہ جو چاہے کرتا ہے۔ شہیدِ کربلاؓ فرماتے ہیں کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھو گے، اُتنی ہی زیادہ قربانیاں دینا پڑیں گی۔ قصہ مختصر، بے بسی کا ماتم کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ کوشش کی جائے؛ وگرنہ زندگی کفِ افسوس ملتے ہی گزرے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔