کوتاہ نظر
کیا صورت حال کچھ ایسی نہیں ہے کہ ہم لوگ، ہم شہروں کے رہنے والے لوگ، ہم بڑے شہروں کے رہنے والے لوگ ایک کنویں میں بندہیں
کیا صورت حال کچھ ایسی نہیں ہے کہ ہم لوگ، ہم شہروں کے رہنے والے لوگ، ہم بڑے شہروں کے رہنے والے لوگ ایک کنویں میں بند ہیں۔ اس کے مینڈک ہیں۔ اس کنویں سے باہر کم ہی نکلتے ہیں۔ ہماری کوتاہ نظری جو موضوعات اور مسائل تراشتی ہے ہم اسی میں ڈبکی پہ ڈبکی لگائے جاتے ہیں۔ باہر کا منظر کیا ہے۔ ہم اسے نہ تو دیکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ شاید پسند بھی نہیں کرتے۔ آٹھ گھنٹے تو چھوڑیں، تین گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بھی ہماری چیخیں نکال دیتی ہے۔ اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ والوں پر بات کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور ہمارا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ابھی تک زرعی آمدنی پر ٹیکس کیوں نہیں لگایا گیا۔
ایک چھوٹے شہر بلکہ گاؤں سے آئے ہوئے ایک نوجوان سے میری ملاقات ہوئی، اس کی بغل میں ایک اخبار تھا۔ چھوٹی جگہوں سے بھی اب اخبارات نکلتے ہیں۔ یہ بس چند ہی کلومیٹر چلتے ہیں تو تھک جاتے ہیں۔ اس اخبار کے صرف صفحہ اول پر نہری پانی کے مسئلے سے متعلق چھوٹی بڑی بائیس خبریں موجود تھیں۔ جی ہاں! پوری بائیس۔ اس نوجوان کا سینہ محرومی کے کرب سے بھرا تھا۔ اتنا کرب اس نے کچھ کہا بھی نہیں۔
میں نے پوچھا ''سنا ہے بہت گرمی پڑ رہی ہے؟''
بولا: ''جی... پڑ تو رہی ہے پر ہم کیا اور ہماری گرمی کیا۔ بچے تو وزیروں اور وزیراعظموں کے نازک ہوتے ہیں''۔
لیجیے۔۔۔۔ یہاں مجھے حافظؔ یاد آگیا۔
زبان خامہ ندارد سر بیان فراق
وگرنہ شرح دھم باتو داستان فراق
بسی نماند کہ کشتیٔ عمر غرقہ شود
زموج شوق تو در بحر بی کران فراق
اس کا ترجمہ بھی سن لیجیے، اسے خالد حمید شیدا نے نظم کیا ہے۔
زبان کو ہو اگر طاقت بیان فراق
سنائیں ہم تمہیں تفسیر داستان فراق
ہے ڈر کہ موج تمنا سے ڈوب جائے گا
سفینہ عمر کا، اے بحر بیکران فراق
جس کے لیے ہم ترستے اور لڑتے مرتے ہیں، اس پانی اور آفات ارضی و سماوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سو ڈیڑھ سو فٹ بلند سمندری لہر کی آمد ہو، بند توڑ کے بہتا ہوا پانی ہو، آسمان سے برستی ہوئی طوفانی بارش ہو یا قلت آب کے مارے اور ترسے ہوئے پیاسے لوگ ہوں جو بے آب و گیاہ صحرا میں کھڑے ایڑیاںاٹھا اٹھا کے کسی ندی کی راہ تک رہے ہوں اور لمحہ دلمحہ دکھائی دیتے سرابوں سے جی خوش کرتے ہوں، یہ سب پانی کے تماشے ہیں۔ کبھی پانی کا ہونا کٹھن ہے اور کبھی نہ ہونا جوکھم۔
جیساکہ میں نے اوپر لکھا ہے، شہروں کے رہنے والے اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے کہ نہری علاقوں کے حالات کیا ہوتے ہیں اور بارانی علاقوںکے کیا۔۔۔۔ اور پھر نہری علاقوں میں سالانہ علاقے علیحدہ ہیں اور ششماہی علیحدہ۔ اس سے آگے بھی ان کا شجرہ نصب دور تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ پھر بجلی کے علاقے جہاں ایئرکنڈیشنز نہیں بلکہ ٹیوب ویل چلتے ہیں اور بغیر بجلی کے علاقے ہیں۔ میٹھے پانی اور کڑوے پانی کے علاقے ہیں۔ سیم کے اور تھور کے علاقے ہیں۔ کبھی کسان کی آنکھیں آسمان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے دیکھتے پتھرا جاتی ہیں اور کبھی آدھی رات کو جب اس کے کھیتوں میں پانی دینے کی باری آتی ہے اور وہ ''موہگہ'' کھول کے پانی کو اپنے کھیتوں کی طرف موڑ کے جیسے آپ کو سیراب کرتا ہے تو پچھلے پہر راستے میں کوئی پانی کو توڑ لیتا ہے، یوں جیسے کسی نے خود اس کی اپنی شہ رگ کاٹ ڈالی ہو۔ تب وہ زخمی شیر بن جاتا ہے اور فوجداری مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں۔
ایسے میں بات چھوٹی ہو تو چھوٹا اور بڑی ہو تو میدان جنگ بھی بڑا چاہیے۔ کم ازکم تین سو ممبروں کو چاہیے کہ اسمبلی ہال میں ڈاکٹر کے کسی نسخے کی مانند، صبح دوپہر اور شام العطش العطش پکاریں اور اپنے حلق کے کچھ اصلی اور نقلی کانٹے دکھائیں۔ چھوٹے بھائیوں کے سامنے کبھی دوزانو ہوں اور کبھی انھیں ڈپٹ دیں۔ جب حالات کے سرتال درست ہو کے مسرت کی راگنی بجنے کا وقت آچکا ہو تو ٹھنڈے مزاج کا چھوٹا بھائی غیر متوقع طور پر سوا سو ممبروں کی تالیاں اور ڈیسک بجنے کی تحسین آمیز آواز سننے کے شوق میں لفظوں کی آگ کا تحفہ پیش کرکے سب کو حیران کردے ۔۔۔۔ (تالیاں۔۔۔۔ صاحبِ قدر! آج کی زیر بحث قرارداد۔۔۔۔ کالج کی زیربحث قرارداد۔۔۔۔ کالج کا مباحثہ۔۔۔۔ دیرتک تالیاں)۔ کسی بے وقوف نے کہا تھا گڑ نہ دو مگر گڑ جیسی بات تو کرو، خوامخواہ کرو۔ شو جمہوریت کا ہو تو چوٹ برابر کی ہونی چاہیے۔ مجھے حیرت ہے کہ زر، زمین اور زن کو ازل سے جھگڑے کی بنیاد ٹھہرانے والوں نے پانی کو کیسے بخش دیا۔ ہاں شاید اس لیے کہ یہ زمین پر ہی تو بہتا ہے۔ لہٰذا بس وہی ٹھیک ہے زر زن اور زمین۔ زمین جو بنجر بھی ہے اور شاداب بھی۔ سیم زدہ بھی ہے اور تھور آلود بھی۔ وہ جس پر کوئی ایسا ڈیم جس کا نام کالا پیلا ہو، اگر بنانے کی بات کی جائے تو ملک تڑخنے لگ جائے اور اگر سیاست میں بھرکس نکل جائے تو پانی کا بہاؤ بہانہ بنے اور ملک کی سب سے بڑی شاہراہ بلاک کردی جائے۔
سیکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں لوگ آئے دن اس فلاپ سیاست گری کا شکار ہوتے ہیں۔ حکومتی رٹ کا کالم یہ ہے کہ بیس لوگوں کو بھگا نہیں سکتی۔ انتظار کرتی ہے کہ وہ بور ہو کے خود ہی اٹھ جائیں تو اچھا ہے۔ویسے بھی پانی ہو کہ زمین کا بنجر پن اور ہائی وے پر بیٹھے ہوئے آزار پسند، ان سے ہمیں کیا لینا۔ یہ ہمارا معاملہ ہی نہیں۔ یہ شہر سے باہر کا مسئلہ ہے۔ دو کنوؤں کے کہیں درمیان کا قصہ۔ جہاں انسان نہیں، بے زبان ووٹ بستے ہیں۔ ان کے رہنما پانچ برس کے بعد کسی کنویں سے نکل کے آتے ہیں۔ زبان پر کسانوں اور ہاریوں کا دکھ درد جاری ہوتا ہے اور آنکھ میں آنسو۔ اس کے بعد وہیں واپس کنویں میں چلے جاتے ہیں۔ ہماری، میڈیا کی اور عوامی نمائندوں کی بصارت کی حد بس اتنی ہی ہے۔
ایک چھوٹے شہر بلکہ گاؤں سے آئے ہوئے ایک نوجوان سے میری ملاقات ہوئی، اس کی بغل میں ایک اخبار تھا۔ چھوٹی جگہوں سے بھی اب اخبارات نکلتے ہیں۔ یہ بس چند ہی کلومیٹر چلتے ہیں تو تھک جاتے ہیں۔ اس اخبار کے صرف صفحہ اول پر نہری پانی کے مسئلے سے متعلق چھوٹی بڑی بائیس خبریں موجود تھیں۔ جی ہاں! پوری بائیس۔ اس نوجوان کا سینہ محرومی کے کرب سے بھرا تھا۔ اتنا کرب اس نے کچھ کہا بھی نہیں۔
میں نے پوچھا ''سنا ہے بہت گرمی پڑ رہی ہے؟''
بولا: ''جی... پڑ تو رہی ہے پر ہم کیا اور ہماری گرمی کیا۔ بچے تو وزیروں اور وزیراعظموں کے نازک ہوتے ہیں''۔
لیجیے۔۔۔۔ یہاں مجھے حافظؔ یاد آگیا۔
زبان خامہ ندارد سر بیان فراق
وگرنہ شرح دھم باتو داستان فراق
بسی نماند کہ کشتیٔ عمر غرقہ شود
زموج شوق تو در بحر بی کران فراق
اس کا ترجمہ بھی سن لیجیے، اسے خالد حمید شیدا نے نظم کیا ہے۔
زبان کو ہو اگر طاقت بیان فراق
سنائیں ہم تمہیں تفسیر داستان فراق
ہے ڈر کہ موج تمنا سے ڈوب جائے گا
سفینہ عمر کا، اے بحر بیکران فراق
جس کے لیے ہم ترستے اور لڑتے مرتے ہیں، اس پانی اور آفات ارضی و سماوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سو ڈیڑھ سو فٹ بلند سمندری لہر کی آمد ہو، بند توڑ کے بہتا ہوا پانی ہو، آسمان سے برستی ہوئی طوفانی بارش ہو یا قلت آب کے مارے اور ترسے ہوئے پیاسے لوگ ہوں جو بے آب و گیاہ صحرا میں کھڑے ایڑیاںاٹھا اٹھا کے کسی ندی کی راہ تک رہے ہوں اور لمحہ دلمحہ دکھائی دیتے سرابوں سے جی خوش کرتے ہوں، یہ سب پانی کے تماشے ہیں۔ کبھی پانی کا ہونا کٹھن ہے اور کبھی نہ ہونا جوکھم۔
جیساکہ میں نے اوپر لکھا ہے، شہروں کے رہنے والے اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے کہ نہری علاقوں کے حالات کیا ہوتے ہیں اور بارانی علاقوںکے کیا۔۔۔۔ اور پھر نہری علاقوں میں سالانہ علاقے علیحدہ ہیں اور ششماہی علیحدہ۔ اس سے آگے بھی ان کا شجرہ نصب دور تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ پھر بجلی کے علاقے جہاں ایئرکنڈیشنز نہیں بلکہ ٹیوب ویل چلتے ہیں اور بغیر بجلی کے علاقے ہیں۔ میٹھے پانی اور کڑوے پانی کے علاقے ہیں۔ سیم کے اور تھور کے علاقے ہیں۔ کبھی کسان کی آنکھیں آسمان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے دیکھتے پتھرا جاتی ہیں اور کبھی آدھی رات کو جب اس کے کھیتوں میں پانی دینے کی باری آتی ہے اور وہ ''موہگہ'' کھول کے پانی کو اپنے کھیتوں کی طرف موڑ کے جیسے آپ کو سیراب کرتا ہے تو پچھلے پہر راستے میں کوئی پانی کو توڑ لیتا ہے، یوں جیسے کسی نے خود اس کی اپنی شہ رگ کاٹ ڈالی ہو۔ تب وہ زخمی شیر بن جاتا ہے اور فوجداری مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں۔
ایسے میں بات چھوٹی ہو تو چھوٹا اور بڑی ہو تو میدان جنگ بھی بڑا چاہیے۔ کم ازکم تین سو ممبروں کو چاہیے کہ اسمبلی ہال میں ڈاکٹر کے کسی نسخے کی مانند، صبح دوپہر اور شام العطش العطش پکاریں اور اپنے حلق کے کچھ اصلی اور نقلی کانٹے دکھائیں۔ چھوٹے بھائیوں کے سامنے کبھی دوزانو ہوں اور کبھی انھیں ڈپٹ دیں۔ جب حالات کے سرتال درست ہو کے مسرت کی راگنی بجنے کا وقت آچکا ہو تو ٹھنڈے مزاج کا چھوٹا بھائی غیر متوقع طور پر سوا سو ممبروں کی تالیاں اور ڈیسک بجنے کی تحسین آمیز آواز سننے کے شوق میں لفظوں کی آگ کا تحفہ پیش کرکے سب کو حیران کردے ۔۔۔۔ (تالیاں۔۔۔۔ صاحبِ قدر! آج کی زیر بحث قرارداد۔۔۔۔ کالج کی زیربحث قرارداد۔۔۔۔ کالج کا مباحثہ۔۔۔۔ دیرتک تالیاں)۔ کسی بے وقوف نے کہا تھا گڑ نہ دو مگر گڑ جیسی بات تو کرو، خوامخواہ کرو۔ شو جمہوریت کا ہو تو چوٹ برابر کی ہونی چاہیے۔ مجھے حیرت ہے کہ زر، زمین اور زن کو ازل سے جھگڑے کی بنیاد ٹھہرانے والوں نے پانی کو کیسے بخش دیا۔ ہاں شاید اس لیے کہ یہ زمین پر ہی تو بہتا ہے۔ لہٰذا بس وہی ٹھیک ہے زر زن اور زمین۔ زمین جو بنجر بھی ہے اور شاداب بھی۔ سیم زدہ بھی ہے اور تھور آلود بھی۔ وہ جس پر کوئی ایسا ڈیم جس کا نام کالا پیلا ہو، اگر بنانے کی بات کی جائے تو ملک تڑخنے لگ جائے اور اگر سیاست میں بھرکس نکل جائے تو پانی کا بہاؤ بہانہ بنے اور ملک کی سب سے بڑی شاہراہ بلاک کردی جائے۔
سیکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں لوگ آئے دن اس فلاپ سیاست گری کا شکار ہوتے ہیں۔ حکومتی رٹ کا کالم یہ ہے کہ بیس لوگوں کو بھگا نہیں سکتی۔ انتظار کرتی ہے کہ وہ بور ہو کے خود ہی اٹھ جائیں تو اچھا ہے۔ویسے بھی پانی ہو کہ زمین کا بنجر پن اور ہائی وے پر بیٹھے ہوئے آزار پسند، ان سے ہمیں کیا لینا۔ یہ ہمارا معاملہ ہی نہیں۔ یہ شہر سے باہر کا مسئلہ ہے۔ دو کنوؤں کے کہیں درمیان کا قصہ۔ جہاں انسان نہیں، بے زبان ووٹ بستے ہیں۔ ان کے رہنما پانچ برس کے بعد کسی کنویں سے نکل کے آتے ہیں۔ زبان پر کسانوں اور ہاریوں کا دکھ درد جاری ہوتا ہے اور آنکھ میں آنسو۔ اس کے بعد وہیں واپس کنویں میں چلے جاتے ہیں۔ ہماری، میڈیا کی اور عوامی نمائندوں کی بصارت کی حد بس اتنی ہی ہے۔