اعلیٰ تعلیم برائے فروخت‘ ابتدائی تعلیم مفقود

دو کنال رقبے پر کھڑی ایک پرانی عمارت Renovate ہو رہی تھی۔ اس بوسیدہ عمارت کے مالک کی شہرت اچھی نہیں تھی۔۔۔

h.sethi@hotmail.com

دو کنال رقبے پر کھڑی ایک پرانی عمارت Renovate ہو رہی تھی۔ اس بوسیدہ عمارت کے مالک کی شہرت اچھی نہیں تھی۔ سچ یا جھوٹ لوگ اس شخص کا تعلق ایک منشیات فروش گروہ سے جوڑتے تھے۔ اس شخص کی رہائش تو کسی Posh علاقے میں تھی۔ بقول اس کے یہ پرانی عمارت مہمان خانہ تھی جس کا ایک حصہ گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔

بہرحال اب یہ عمارت مرمت کے بعد اچھی شکل نکال رہی تھی۔ چونکہ مالک مکان کا وہاں آنا کبھی کبھار ہوتا تھا' پاس پڑوس کے لوگوں کا خیال تھا کہ اب وہ اسے فروخت کرنے کے لیے بے دریغ پیسہ خرچ کر رہا ہے لیکن جب یہ مکان اپنا حلیہ بدل کر اپنے اردگرد کی عمارتوں میں ممتاز شکل میں نظر آیا تو رہائشی کے بجائے کمرشل معلوم ہو رہا تھا اور جب اس کی پیشانی پر اس کے تعارف کا خوبصورت کتبہ لگا تو معلوم ہوا کہ یہ تو ایک ماڈرن تعلیمی ادارے کا روپ دھار چکا ہے۔ چند روز کے بعد اس کے گرد اور پیشانی پررنگ برنگی روشنیاں کرنے والے ڈیزائن دار قمقمے سجے تمبو قنات' میز اور کرسیوں قالینوں کی آمد شروع ہوئی تو اہل علاقہ کو معلوم ہوا کہ دھوم دھڑکے دار افتتاحی تقریب ہونے والی ہے۔

تعلیم کا فروغ انسانوں اور ملکوں کی ہمہ جہت ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اسی لیے جن ممالک میں تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، وہ ترقی بھی اسی رفتار سے کرتے ہیں۔ اس لیے مذکورہ اسکول کی آمد نے اہل علاقہ کے دلوں سے عمارت یعنی اسکول کے مالک کے بارے میں مشکوک اور منفی خیالات دھو ڈالے۔ کلاس رومز میں اچھا فرنیچر' جدید لائبریری' اساتذہ کا کمرہ' صاف ستھری کینٹین' متعدد اسٹاف کچھ ہی عرصہ میں اسکول میں مزید طلباء کے لیے گنجائش نہ رہی۔ یہ بھی خبر نکلی کہ شہر کے ماڈرن علاقے میں ایک اور تعلیمی ادارہ انھی صاحب کی نگرانی میں وسیع رقبے پر زیر تعمیر ہے۔ اس کے بعد مزید کیمپس بننے کی اطلاعات بھی نکلیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت تھی جسے ہر کسی نے تحسین کی نظروں سے دیکھا۔

سب سے پہلے اسکول کی فیسیں مناسب تھیں۔ دوسرے تیسرے اور چوتھے اسکول چونکہ امراء کی بستیوں میں تھے، اس لیے کسی نے کمنٹ نہ دیے۔ فروغ علم کے لیے جو بھی کام کرے گا' داد تحسین تو پائے گا۔ ان صاحب کے صرف دوستوں کو علم تھا کہ وہ منجھا ہوا کاروباری ضرور ہے لیکن اس پر یہ انکشاف اس کے ایک سزا یافتہ دوست ہی نے کیا تھا کہ منشیات فروشی ایک قبیح فعل ہے جب کہ علم فروشی باعزت اور منافع بخش کاروبار ہے اور ملک کے حکمران اور جاگیردار بالکل نہیں چاہتے کہ کھیت مزدور' دیہاڑی دار' غریب عوام اور فیکٹری ورکر کی اولادیں تعلیم حاصل کریں۔ حکمران پسند کرتے ہیں کہ امراء کی اولاد ہی مہنگی فیسوں اور ایئرکنڈیشنڈ کلاس روموں اور کینٹینوں سے لیس تعلیم گاہوں کے مزے لوٹیں۔ اب بہت سے ڈرگ مافیا بھی سوچتے ہیں کہ اس رسکی کاروبار کے مقابلے میں پرائیویٹ اسکول مافیا باعزت بھی ہے اور منافع بخش بھی۔


اعلیٰ' مہنگے اور شاندار تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے امپورٹڈ ڈریس میں ملبوس خوشحال طلباء کو دیکھ کر ہمارے ایک دوست نے ملک کے دس پندرہ علاقوں کا سروے کرانے کے لیے ایک رضاکار ٹیم ترتیب دی کہ وہ پسماندہ اور دیہاتی علاقوں میں سرکاری اسکولوں کا دورہ کرے اور ان کی عمارات' وہاں زیرتعلیم طلباء' اساتذہ اور انھیں میسر سہولیات کا جائزہ لے کر غیر سرکاری رپورٹ تیار کرے۔ اس ٹیم نے تین ماہ میں پہلے تو بڑی مشکل سے مختلف علاقوں اور اسکولوں کی فہرست حاصل کی اور اس کے بعد ان اسکولوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جان جوکھوں میں ڈالی۔ ان کے پاس جو فہرست تھی، ان میں دیے گئے ایڈریسز تک صرف پہنچ جانا ہی کوہ قاف کی پری ڈھونڈ لینے کے مترادف تھا لیکن اس ٹیم نے اکثر مقامات تک پہنچ کر جائے وقوعہ ڈھونڈ لی۔ یہ الگ بات کہ اس جائے وقوعہ پر کیا دیکھا یا اسے کس حال میں پایا۔

سرکاری اسکولوں تک رسائی کے لیے اس والنٹری ٹیم کو مقامی لوگوں' محکمہ تعلیم کے ملازموں اور پٹواریوں تک سے مدد لینا پڑی اور دلچسپ بات یہ کہ بہت سی جگہوں پر انھیں اسکولوں کی عمارت تو چھوڑیے ایک عدد اینٹ بھی نہ ملی۔ اگرچہ اس ٹیم کو ایک ہی علاقے میں کئی کئی بار جانا پڑا لیکن کبھی عمارت نہ ملتی' کہیں اس کی چھت ڈھونڈنا پڑتی' کسی جگہ کمرے کی چار دیواری پوری نہ پاتے اور کہیں ملبے کا ڈھیر مل جاتا کہ وہ کبھی اسکول بھی تھا۔ جو اسکول ملے درختوں کے نیچے تھے یا دیواروں کے سائے میں۔ اگر کہیں چند طلباء پائے تو استاد نہ تھا' اگراستاد ملا تو کرسی میز کے بغیر۔ ہماری اس ٹیم کو کسی کسی جگہ چھت اور دیواروں سمیت اسکول بھی ملے لیکن یہ اسکول طلباء یا ٹیچر زمیندار یا اس کے مسٹنڈوں کے زیر استعمال تھے۔

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا چرچا بہت سننے میں آتا ہے جب کہ پرائمری اور مڈل کلاس تک کی تعلیم ہی اعلیٰ تعلیم کا دروازہ کھولتی ہے۔ ہمارے ملک کی اکثریت پرائمری اور مڈل کلاس کی تعلیم سے اسی طرح محروم ہے جیسے کوئی عمارت بظاہر مضبوط اور دیر پا نظر آئے لیکن بنیادی اینٹ جسے نیہہ کہتے ہیں اس میں موجود نہ ہو۔ ہر حکومت دعوے کرتی لیکن بے عمل رہتی ہے۔ ضروری ہے نچلی سطح کے گورنمنٹ اسکول ان کی عمارتیں اور اساتذہ اول ترجیح ہوں۔ اصل خرابی یہیں پر ہے۔ نصاب تعلیم دوسری خرابی ہے۔ مقامی زبانوں کو قائم رکھ کر تمام ملک میںپہلے دس سالوں کا نصاب بشمول مدرسوں کے ایک یعنی یکساں ہونا چاہیے۔

پرائیویٹ اسکول اور کالج قائم ہونا کوئی برائی نہیں لیکن بنیادی تعلیمی اداروں پر عدم توجہ اور نصاب تعلیم الگ الگ ہونا تعلیمی نظام کے لیے اور اس کے شہریوں کے لیے خرابی اور فتنے کی جڑ ہیں۔ پاکستان میں ہر وہ شخص جو صرف اپنا نام لکھ سکتا ہو' خواندہ کہلاتا ہے اور اسی نامعقول شرط کو خواندگی کا پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ تعلیم کے شعبے کے ساتھ مذاق سے آلودہ بے انصافی ختم کر دی جائے۔ اس مقصد کے لیے سنجیدہ ماہرین تعلیم سے سفارشات حاصل کر کے ان پر عملدرآمد کیا جائے ورنہ جہالت دہشت گردی روک سکتی ہے نہ معاشی ترقی میں مددگار ہو سکتی ہے۔
Load Next Story