مارِ آتشیں
کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کے اکثر طلبا کا بیان ہے کہ انھیں مشق تنفس نور کرتے ہوئے اپنے گرد و پیش میں سانپ کی۔۔۔
کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کے اکثر طلبا کا بیان ہے کہ انھیں مشق تنفس نور کرتے ہوئے اپنے گرد و پیش میں سانپ کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ روح حیات پر بحث کرتے ہوئے ہم نے ''کنڈالنی شکتی'' کا ذکر کیا تھا جو ریڑھ کے نچلے حصے میں سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی ہے۔ سانس، ارتکاز توجہ اور مراقبے کے ذریعے اس ''مار آتشیں'' (Serpent Fire) میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور یہ قوت اپنے پیچ و خم کھول کر، دماغ کی طرف سرکنے لگتی ہے۔ اس قوت کو ''مار آتشیں'' استعارے اور تشبیہہ کے طور پر کہا جاتا ہے، ورنہ درحقیقت یہ نہ مار ہے نہ آتشیں، یعنی سانپ ہے نہ آگ۔
بلکہ یہ تخلیق و تولید کی قوت ہے جو کہا جاتا ہے کہ زیر ناف ''کنڈل'' (گول دائرے) میں خوابیدہ ہے۔ اس قوت کا تجربہ نہ کسی لیبارٹری (معمل) میں کیا جاسکتا ہے، نہ اس کا تجزیہ کیمیاوی طریقے پر ممکن ہے بلکہ جس طرح طبیعات میں برق پاروں کی حرکت یا ایٹم کی ساخت یا روشنی کے قوانین یا حرکت و حرارت کے ضوابط کو پہلے فرض کر لیا جاتا ہے اور پھر اس مفروضے کی تائید حقیقتوں اور علمی سچائیوں کے ذریعے کی جاتی ہے، یہی حال ''مار آتشیں'' کا ہے۔ بے شک ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے کا مارِ آتشیں ایک مفروضے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جن لوگوں کو اس ''اگنی سانپ'' کی موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے، وہ اسے مفروضے کی بجائے حقیقت تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ لطیفہ زیر ناف کی قوت تخلیقی ہے۔ جب اس کا رخ حیاتیات کی طرف ہوتا ہے تو یہ جنسی عمل کے ذریعے زندگی کو جنم دیتی ہے۔
جو لوگ اس قوت کا رخ جسم و جنس کے بجائے روح و نفس کی طرف پھیر دیتے ہیں، ان میں روحیت کی استعداد بیدار ہوجاتی ہے، نفس کی استعداد اور مخفی قوتوں کو بروئے کار لانے کے لیے جو مجرد یا غیر جنسی زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، اس کا سبب یہی ہے کہ ہماری روح حیات کا ذخیرہ روحی اور نفسی ترقی کے کام میں آئے۔ اعتدال کی حد تک عورت و مرد کا ساتھ نہ صرف ضروری بلکہ قانون فطرت کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ ازدواجی زندگی سے مکمل پرہیز بھی نفس کو آلودہ، دماغ کو غلیظ، قلب کو افسردہ اور روح کو بے رونق کر دیتا ہے۔ بیشتر ذہنی امراض اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان کا جنسی جذبہ یا تو مکمل نشوونما سے محروم رہتا ہے یا غلط راستے پر چل نکلتا ہے۔ کئی مریض ایسے بھی نظروں سے گزرے ہیں جن کی تمام تر بیماریاں محض نفسیات سے تعلق رکھتی تھیں جب کہ جسمانی طور پر ان میں کوئی خامی نہ تھی۔
گزشتہ مضمون نف جسمی امراض میں بھی ہم ایسی بیماریوں کا تذکرہ کرچکے ہیں جو سراسر دماغ کی پیدا کردہ ہیں۔ جنس کے حوالے سے ذہن میں ایک گرہ لگ جاتی ہے اور صرف ایک معالج نفسیات ہی اس گرہ کو کھول سکتا ہے۔ اس گتھی کو سلجھانا تحلیل نفسی سے ہی ممکن ہے۔ ہم ایسے مریضوں کے لیے مشق متبادل طرز تنفس اور خود نویسی تجویز کرتے ہیں، یقین ہے کہ انجام کار ان مشقوں پر عمل کرنے سے نفس کی یہ گتھی سلجھ جائے گی۔ یہ بات عین ممکن ہے اور متواتر تجربہ یہی ہوا کہ سانس کی مشق شروع کرنے کے بعد مریض کے ''اندرون'' میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ سانس کی مشقیں جب دبے ہوئے، دبائے ہوئے، چھپے اور چھپائے ہوئے مسخ شدہ جذبات پر حملہ کرتی ہیں تو وہ یکایک ابھر آتے ہیں اور اس طرح جس منفی جذبے کی شدت پر غالب آنے کے لیے مشق شروع کی گئی ہے وہ ہیجان عارضی طور پر شدید ہوجاتا ہے، تاہم شدت مرض کا یہ دور عارضی ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ انسان اپنے نظام اعصاب اور نظام جذبات پر قابو پالیتا ہے۔
مشق تنفس نور سے سانپ کا تصور پیدا ہونا یا جنسی جذبے کی بیداری درحقیقت ایک ہی سلسلہ عمل کی دو کڑیاں ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے اعصاب کا مار آتشیں، جنس کے خزانے کی حفاظت کرتا ہے۔ سانپ بجائے خود جنس کا استعارہ ہے۔ فرائیڈ کے فن تعمیر خواب کے بموجب سانپ مردانہ قوت کی علامت ہے۔ آدم و حوا کے قصے کے پس منظر میں بھی ہم سانپ کو لہراتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ انڈیا میں ''ناگ دیوتا'' کی باقاعدہ پرستش کی جاتی ہے۔ براعظم افریقہ، لاطینی امریکا اور بحرالکاہل کے بعض جزیروں میں بھی سانپ اور اژدہے کو ''دیوتا'' کا درجہ حاصل ہے۔
لوک گیتوں، دیو مالائی اور قصے کہانیوں میں سانپ کی سریت (یعنی اس کے پراسرار پن) پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اردو کا محاورہ ہے ''خزانے پر سانپ'' یعنی جب کوئی شخص کسی نادر اور انمول چیز کو دبا کر بیٹھ جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ خزانے پر سانپ بن کر بیٹھ گیا ہے۔ یہ ''خزانے پر سانپ'' کا محاورہ کہاں سے پیدا ہوا؟ بلاشبہ جنسی خزانے کی نگرانی کرنے والے مار آتشیں کی تمثیل سے (خواہ یہ تمثیل آپ کے لیے شاعرانہ کیوں نہ ہو) یہ مثال وجود میں آتی ہے۔
اور اب اپنی بات... ملک بھر سے درجنوں خطوط اور ای میل موصول ہوئی ہیں جن میں کچھ طلبا نے مشقوں کے مثبت اثرات کا احوال درج کیا ہے۔ مشقوں کے بعد وہ باآسانی نور کا تصور قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مزاج میں بھی اعتدال پیدا ہورہا ہے، کئی مثبت پہلو شخصیت میں اجاگر ہوچکے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ ابتدائی کامیابیوں کے بعد اچانک ہی تصور قائم کرنے میں دشواری کا سامنا ہے اور دماغ میں جیسے بلیک آؤٹ ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں، ہم اس سے پہلے ''قبض و بسط'' کے موضوع پر تفصیلی تحریر کرچکے ہیں، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی کامیابیوں کے بعد قبض کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، لیکن اس ناکامی سے گھبرا کر مشقوں کو ترک کردینا راست اقدام نہیں۔
اپنی مشقیں جاری رکھیں، قبض کی یہ شکایت بھی رفع ہوجائے گی۔ وہ لوگ جو متواتر کوششوں کے بعد بھی کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں کرپائے ہیں ان کے لیے یہی مشورہ ہے کہ مستقل مزاجی ہی کامیابی کی ضامن ہے۔ جس طرح پانی کا قطرہ مسلسل گر کر پتھر میں سوراخ کا باعث بن جاتا ہے اسی طرح آپ کی مسلسل کوشش ہی آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ نفسیات کی مشقیں ہوں یا زندگی کے دیگر عوامل، عمل پیہم اور مثبت خیالی ہی آپ کو منزل تک پہنچانے میں مہمیز کا کردار ادا کرتی ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)
بلکہ یہ تخلیق و تولید کی قوت ہے جو کہا جاتا ہے کہ زیر ناف ''کنڈل'' (گول دائرے) میں خوابیدہ ہے۔ اس قوت کا تجربہ نہ کسی لیبارٹری (معمل) میں کیا جاسکتا ہے، نہ اس کا تجزیہ کیمیاوی طریقے پر ممکن ہے بلکہ جس طرح طبیعات میں برق پاروں کی حرکت یا ایٹم کی ساخت یا روشنی کے قوانین یا حرکت و حرارت کے ضوابط کو پہلے فرض کر لیا جاتا ہے اور پھر اس مفروضے کی تائید حقیقتوں اور علمی سچائیوں کے ذریعے کی جاتی ہے، یہی حال ''مار آتشیں'' کا ہے۔ بے شک ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے کا مارِ آتشیں ایک مفروضے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جن لوگوں کو اس ''اگنی سانپ'' کی موجودگی کا احساس ہونے لگتا ہے، وہ اسے مفروضے کی بجائے حقیقت تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ لطیفہ زیر ناف کی قوت تخلیقی ہے۔ جب اس کا رخ حیاتیات کی طرف ہوتا ہے تو یہ جنسی عمل کے ذریعے زندگی کو جنم دیتی ہے۔
جو لوگ اس قوت کا رخ جسم و جنس کے بجائے روح و نفس کی طرف پھیر دیتے ہیں، ان میں روحیت کی استعداد بیدار ہوجاتی ہے، نفس کی استعداد اور مخفی قوتوں کو بروئے کار لانے کے لیے جو مجرد یا غیر جنسی زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، اس کا سبب یہی ہے کہ ہماری روح حیات کا ذخیرہ روحی اور نفسی ترقی کے کام میں آئے۔ اعتدال کی حد تک عورت و مرد کا ساتھ نہ صرف ضروری بلکہ قانون فطرت کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ ازدواجی زندگی سے مکمل پرہیز بھی نفس کو آلودہ، دماغ کو غلیظ، قلب کو افسردہ اور روح کو بے رونق کر دیتا ہے۔ بیشتر ذہنی امراض اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان کا جنسی جذبہ یا تو مکمل نشوونما سے محروم رہتا ہے یا غلط راستے پر چل نکلتا ہے۔ کئی مریض ایسے بھی نظروں سے گزرے ہیں جن کی تمام تر بیماریاں محض نفسیات سے تعلق رکھتی تھیں جب کہ جسمانی طور پر ان میں کوئی خامی نہ تھی۔
گزشتہ مضمون نف جسمی امراض میں بھی ہم ایسی بیماریوں کا تذکرہ کرچکے ہیں جو سراسر دماغ کی پیدا کردہ ہیں۔ جنس کے حوالے سے ذہن میں ایک گرہ لگ جاتی ہے اور صرف ایک معالج نفسیات ہی اس گرہ کو کھول سکتا ہے۔ اس گتھی کو سلجھانا تحلیل نفسی سے ہی ممکن ہے۔ ہم ایسے مریضوں کے لیے مشق متبادل طرز تنفس اور خود نویسی تجویز کرتے ہیں، یقین ہے کہ انجام کار ان مشقوں پر عمل کرنے سے نفس کی یہ گتھی سلجھ جائے گی۔ یہ بات عین ممکن ہے اور متواتر تجربہ یہی ہوا کہ سانس کی مشق شروع کرنے کے بعد مریض کے ''اندرون'' میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ سانس کی مشقیں جب دبے ہوئے، دبائے ہوئے، چھپے اور چھپائے ہوئے مسخ شدہ جذبات پر حملہ کرتی ہیں تو وہ یکایک ابھر آتے ہیں اور اس طرح جس منفی جذبے کی شدت پر غالب آنے کے لیے مشق شروع کی گئی ہے وہ ہیجان عارضی طور پر شدید ہوجاتا ہے، تاہم شدت مرض کا یہ دور عارضی ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ انسان اپنے نظام اعصاب اور نظام جذبات پر قابو پالیتا ہے۔
مشق تنفس نور سے سانپ کا تصور پیدا ہونا یا جنسی جذبے کی بیداری درحقیقت ایک ہی سلسلہ عمل کی دو کڑیاں ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے اعصاب کا مار آتشیں، جنس کے خزانے کی حفاظت کرتا ہے۔ سانپ بجائے خود جنس کا استعارہ ہے۔ فرائیڈ کے فن تعمیر خواب کے بموجب سانپ مردانہ قوت کی علامت ہے۔ آدم و حوا کے قصے کے پس منظر میں بھی ہم سانپ کو لہراتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ انڈیا میں ''ناگ دیوتا'' کی باقاعدہ پرستش کی جاتی ہے۔ براعظم افریقہ، لاطینی امریکا اور بحرالکاہل کے بعض جزیروں میں بھی سانپ اور اژدہے کو ''دیوتا'' کا درجہ حاصل ہے۔
لوک گیتوں، دیو مالائی اور قصے کہانیوں میں سانپ کی سریت (یعنی اس کے پراسرار پن) پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اردو کا محاورہ ہے ''خزانے پر سانپ'' یعنی جب کوئی شخص کسی نادر اور انمول چیز کو دبا کر بیٹھ جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ خزانے پر سانپ بن کر بیٹھ گیا ہے۔ یہ ''خزانے پر سانپ'' کا محاورہ کہاں سے پیدا ہوا؟ بلاشبہ جنسی خزانے کی نگرانی کرنے والے مار آتشیں کی تمثیل سے (خواہ یہ تمثیل آپ کے لیے شاعرانہ کیوں نہ ہو) یہ مثال وجود میں آتی ہے۔
اور اب اپنی بات... ملک بھر سے درجنوں خطوط اور ای میل موصول ہوئی ہیں جن میں کچھ طلبا نے مشقوں کے مثبت اثرات کا احوال درج کیا ہے۔ مشقوں کے بعد وہ باآسانی نور کا تصور قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مزاج میں بھی اعتدال پیدا ہورہا ہے، کئی مثبت پہلو شخصیت میں اجاگر ہوچکے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ ابتدائی کامیابیوں کے بعد اچانک ہی تصور قائم کرنے میں دشواری کا سامنا ہے اور دماغ میں جیسے بلیک آؤٹ ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں، ہم اس سے پہلے ''قبض و بسط'' کے موضوع پر تفصیلی تحریر کرچکے ہیں، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی کامیابیوں کے بعد قبض کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، لیکن اس ناکامی سے گھبرا کر مشقوں کو ترک کردینا راست اقدام نہیں۔
اپنی مشقیں جاری رکھیں، قبض کی یہ شکایت بھی رفع ہوجائے گی۔ وہ لوگ جو متواتر کوششوں کے بعد بھی کسی قسم کی کامیابی حاصل نہیں کرپائے ہیں ان کے لیے یہی مشورہ ہے کہ مستقل مزاجی ہی کامیابی کی ضامن ہے۔ جس طرح پانی کا قطرہ مسلسل گر کر پتھر میں سوراخ کا باعث بن جاتا ہے اسی طرح آپ کی مسلسل کوشش ہی آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ نفسیات کی مشقیں ہوں یا زندگی کے دیگر عوامل، عمل پیہم اور مثبت خیالی ہی آپ کو منزل تک پہنچانے میں مہمیز کا کردار ادا کرتی ہے۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)