علی اعجاز اور سجاد بابر
بطور انسان اوردوست علی اعجاز ایک بہت اعلیٰ انسان تھا اس نے نہ کبھی شہرت کو اپنے سر پر سوار ہونے دیا۔
سوچا تھا اس بار پاکستان کی تاریخ میں دسمبر کے تیسرے ہفتے میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے کچھ لکھوں گا کہ اس کے تقریباً ہر دن میں کوئی نہ کوئی ایسا انوکھا، عہد ساز، فکر انگیز یا امید افزا واقعہ ہوا ہے جس پر کالم توکیا کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر وہ جو جنابِ علیؓ کا قول ہے کہ ''میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا'' تو ادھر بھی کچھ ایسی ہی صورت بن گئی ہے کہ ایک ہی دن میں ڈرامے اور شاعری کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے دو عزیز دوست اور قیمتی لوگ چند گھنٹوں کے فرق سے اس دنیا سے پردہ کرگئے ہیں۔
بعض اوقات لفظ بھی پھولوں کی طرح باسی ہوجاتے ہیں سو ان دونوں کی یادوں کے یہ چند الفاظ کے پھول ان کی قبروں پر چڑھانا اولیت اختیار کرگیا ہے۔علی اعجاز سے تعلق اور تعارف کی عمر کم و بیش پی ٹی وی جتنی ہی ہے کہ وہ لاہور ٹی وی سے نشر ہونے والی اطہرشاہ خان کی لکھی ہوئی مشہور اور مقبول مزاحیہ ڈرامہ سیریز ''لاکھوں میں تین'' کا اسٹاک کریکٹر تھا۔ اس میں اس کا رول ڈاکٹر وٹ (What) کا تھا جب کہ قمر چوہدری مرحوم ڈاکٹر یس Yes اور قوی خان ڈاکٹر نو No بنے تھے۔ پی ٹی وی کی ہسٹری میں کئی بڑے اور معروف نام کسی نہ کسی ڈرامہ سیریل کے حوالے سے مشہور اور مقبول ہوئے ہیں۔
لیکن کسی ایک ہی قسط پر مبنی مکمل ڈرامے سے جو شہرت علی اعجاز کو ''دبئی چلو'' سے ملی وہ اپنی مثال آپ ہے جس کا ہدایت کار ہمارا یار عارف وقار تھا۔ اس کے فنی کیریئر کا دوسرا سنگ میل ''خواجہ اینڈ سن'' میں کیا گیا ''خواجہ صاحب'' کا کردار تھا جو آج بھی پہلے دن کی طرح زندہ اور تروتازہ ہے۔ اگرچہ اس نے بے شمار فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے لیکن کامیڈی کرداروں میں اس کی جوڑی مرحوم ننھا کے ساتھ خوب سجی۔ اتفاق سے دونوں طرف سے خواہش کے باوجود وہ میری کسی ڈرامہ سیریل میںکاسٹ نہ ہوسکا جس کا افسوس کرنے کے لیے اب صرف میں ہی رہ گیا ہوں۔
گزشتہ چند برسوں سے وہ علالت اور فلمی صنعت کے زوال کی وجہ سے قدرے گوشہ نشین ہوگیا تھا جیل روڈ پر واقع مبارک موٹرز کے مالک میاں مبارک اسلم ہمارے سانجھے دوست ہیں۔ گزشتہ ایک ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ کام کی کمی بیماری اور عمر کے ساتھ ساتھ وہ کچھ ذاتی اور پراپرٹی کے حوالوں سے بھی پریشان تھا جس کی وجہ سے اس نے لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم کردیا ہے۔ارادہ تھا کہ ہم دونوں کسی دن مل کر اس کے ساتھ کچھ وقت گزاریں لیکن اس کا موقع ہی نہ مل سکا اور آج وہ اس سفر پر روانہ ہوگیا جہاں انسان کا اپنا سایا بھی اس کے ساتھ نہیں چل سکتا۔
اب تو ہر ٹی وی چینل پر مزاحیہ اداکاروں کی صفیں بچھی ہوئی نظر آتی ہیں مگر پندرہ بیس برس پہلے تک نہ تو اس طرح کے پروگرام ہوتے تھے اور نہ ہی مزاح کی سطح اس حد تک گرنے دی جاتی تھی کہ گھر کے افراد ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگ جائیں۔ ہماری فلموں کے ابتدائی دور یعنی ٹی وی کے آغاز تک جن چند مرد اداکاروں نے مزاحیہ اداکاری میں نام پیدا کیا ان میں ظریف نذر، آصف جاہ، اے شاہ شکار پوری، خلیفہ نذیر، زلفی اور علاؤالدین کے نام زیادہ نمایاں ہیں جب کہ بعد کے دور میں لہری صاحب، منور ظریف، ننھا، علی اعجاز، رنگیلا اور نرالا وغیرہ زیادہ مقبول رہے۔ اس طرح پی ٹی وی میں خالد عباس ڈار، کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان، جمشید انصاری، اسماعیل تارا، ماجد جہانگیر، سلیم ناصر، عمر شریف، حامد رانا، جمیل فخری، البیلا، بہروز سبزواری، سہیل احمد اور معین اختر نے اپنی دھاک بٹھائی لیکن دیکھا جائے تو علی اعجاز وہ واحد اداکار ہے جو دونوں شعبوں میں بیک وقت پہلی صف میں نظر آتا ہے۔
بطور انسان اوردوست علی اعجاز ایک بہت اعلیٰ انسان تھا اس نے نہ کبھی شہرت کو اپنے سر پر سوار ہونے دیا اور نہ ہی اپنے سے عمر میں چھوٹے یا معاشی طور پر کمزور ساتھیوں سے وہ فاصلہ رکھا جو اکثر دنیاوی طور پر کامیاب لوگوں کی اصلیت کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ اس نے ریڈیو، ٹی وی، فلم اور اسٹیج ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ وہ ایک محنتی، خوش باش اور وضع دار انسان تھا اور یہ وہ مجموعہ ہے جو آج کل تقریباً ناپید ہوتا جارہا ہے۔
درد کے احوال میں بھی رنگ بھرنا پڑگیا
کاغذوں پر موت لکھی اور مرنا پڑگیا
اب سمائی ہے یہ دھن کیسا ہے سورج کا لہو
سوچ کو آزاد چھوڑا ہے تو ڈرنا پڑگیا
جب اس کے تذکرے میں ہر صفت تحریر کرتے تھے
تو اپنے عکس کی کرنوں سے ہی تعبیر کرتے تھے
بریدہ پر نہیں، پر بانس کے تنکوں سے گھائل ہیں
کبھی بے پر تھے لیکن آسماں تسخیر کرتے تھے
مجھ کو خلا کے پار سے آئی ہے اک صدا
اے رہرو خیال، ذرا پر لگا مجھے
زخمی افق، دھوئیں کی کمند، گھومتے درخت
منظر کی زد میں آکے بڑا ڈر لگا مجھے
یہ چند اشعار ہیں اس پیارے دوست اور منفرد انداز کے نمایندہ شاعر سجاد بابر کے جو آج ہم سے جدا ہوگیا ہے۔ ماضی قریب میں خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے اردو کے چار بہت نامور شاعر احمد فراز، محسن احسان، فارغ بخاری اور غلام محمد قاصر یکے بعد دیگرے رخصت ہوئے تو اس علاقے کا جو شاعر وہاں کا نمایندہ ٹھہرا وہ سجاد بابر ہی تھا۔
وہ تلاش معاش کے سلسلے میں طویل عرصے تک جدہ میں بھی رہا۔ وہاں بھی اس سے ملاقات کا موقع ملتا رہا اور یہاں بھی ٹی وی اور دیگر اداروں کے ترتیب دیے ہوئے مشاعروں میں اس سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر بہت عرصے سے کوئی ایسا وقفہ نہ مل سکا جس میں دل کی باتیں کی جاسکتیں۔ اس کی صحت بھی اچھی نہیں رہتی تھی۔ سو بات اس کی صحت اور بال بچوں کے حال احوال سے آگے نہ جاسکی جس کا احساس گزشتہ ایک دو برس میں ہونے والی ملاقاتوں میں زیادہ شدت پکڑگیا کہ ہر بار وہ واضح طور پر پہلے سے زیادہ کمزور نظر آتا تھا۔ رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ان دونوں مرحومین کی روحوں کو اپنے کرم کی پناہ میں رکھے اور جو سرمایا وہ اس دنیا میں چھوڑ چلے ہیں اس کی طرف سے انھیں ہمیشہ ٹھنڈی ہوا آتی رہے۔
بعض اوقات لفظ بھی پھولوں کی طرح باسی ہوجاتے ہیں سو ان دونوں کی یادوں کے یہ چند الفاظ کے پھول ان کی قبروں پر چڑھانا اولیت اختیار کرگیا ہے۔علی اعجاز سے تعلق اور تعارف کی عمر کم و بیش پی ٹی وی جتنی ہی ہے کہ وہ لاہور ٹی وی سے نشر ہونے والی اطہرشاہ خان کی لکھی ہوئی مشہور اور مقبول مزاحیہ ڈرامہ سیریز ''لاکھوں میں تین'' کا اسٹاک کریکٹر تھا۔ اس میں اس کا رول ڈاکٹر وٹ (What) کا تھا جب کہ قمر چوہدری مرحوم ڈاکٹر یس Yes اور قوی خان ڈاکٹر نو No بنے تھے۔ پی ٹی وی کی ہسٹری میں کئی بڑے اور معروف نام کسی نہ کسی ڈرامہ سیریل کے حوالے سے مشہور اور مقبول ہوئے ہیں۔
لیکن کسی ایک ہی قسط پر مبنی مکمل ڈرامے سے جو شہرت علی اعجاز کو ''دبئی چلو'' سے ملی وہ اپنی مثال آپ ہے جس کا ہدایت کار ہمارا یار عارف وقار تھا۔ اس کے فنی کیریئر کا دوسرا سنگ میل ''خواجہ اینڈ سن'' میں کیا گیا ''خواجہ صاحب'' کا کردار تھا جو آج بھی پہلے دن کی طرح زندہ اور تروتازہ ہے۔ اگرچہ اس نے بے شمار فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے لیکن کامیڈی کرداروں میں اس کی جوڑی مرحوم ننھا کے ساتھ خوب سجی۔ اتفاق سے دونوں طرف سے خواہش کے باوجود وہ میری کسی ڈرامہ سیریل میںکاسٹ نہ ہوسکا جس کا افسوس کرنے کے لیے اب صرف میں ہی رہ گیا ہوں۔
گزشتہ چند برسوں سے وہ علالت اور فلمی صنعت کے زوال کی وجہ سے قدرے گوشہ نشین ہوگیا تھا جیل روڈ پر واقع مبارک موٹرز کے مالک میاں مبارک اسلم ہمارے سانجھے دوست ہیں۔ گزشتہ ایک ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ کام کی کمی بیماری اور عمر کے ساتھ ساتھ وہ کچھ ذاتی اور پراپرٹی کے حوالوں سے بھی پریشان تھا جس کی وجہ سے اس نے لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم کردیا ہے۔ارادہ تھا کہ ہم دونوں کسی دن مل کر اس کے ساتھ کچھ وقت گزاریں لیکن اس کا موقع ہی نہ مل سکا اور آج وہ اس سفر پر روانہ ہوگیا جہاں انسان کا اپنا سایا بھی اس کے ساتھ نہیں چل سکتا۔
اب تو ہر ٹی وی چینل پر مزاحیہ اداکاروں کی صفیں بچھی ہوئی نظر آتی ہیں مگر پندرہ بیس برس پہلے تک نہ تو اس طرح کے پروگرام ہوتے تھے اور نہ ہی مزاح کی سطح اس حد تک گرنے دی جاتی تھی کہ گھر کے افراد ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگ جائیں۔ ہماری فلموں کے ابتدائی دور یعنی ٹی وی کے آغاز تک جن چند مرد اداکاروں نے مزاحیہ اداکاری میں نام پیدا کیا ان میں ظریف نذر، آصف جاہ، اے شاہ شکار پوری، خلیفہ نذیر، زلفی اور علاؤالدین کے نام زیادہ نمایاں ہیں جب کہ بعد کے دور میں لہری صاحب، منور ظریف، ننھا، علی اعجاز، رنگیلا اور نرالا وغیرہ زیادہ مقبول رہے۔ اس طرح پی ٹی وی میں خالد عباس ڈار، کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان، جمشید انصاری، اسماعیل تارا، ماجد جہانگیر، سلیم ناصر، عمر شریف، حامد رانا، جمیل فخری، البیلا، بہروز سبزواری، سہیل احمد اور معین اختر نے اپنی دھاک بٹھائی لیکن دیکھا جائے تو علی اعجاز وہ واحد اداکار ہے جو دونوں شعبوں میں بیک وقت پہلی صف میں نظر آتا ہے۔
بطور انسان اوردوست علی اعجاز ایک بہت اعلیٰ انسان تھا اس نے نہ کبھی شہرت کو اپنے سر پر سوار ہونے دیا اور نہ ہی اپنے سے عمر میں چھوٹے یا معاشی طور پر کمزور ساتھیوں سے وہ فاصلہ رکھا جو اکثر دنیاوی طور پر کامیاب لوگوں کی اصلیت کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ اس نے ریڈیو، ٹی وی، فلم اور اسٹیج ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ وہ ایک محنتی، خوش باش اور وضع دار انسان تھا اور یہ وہ مجموعہ ہے جو آج کل تقریباً ناپید ہوتا جارہا ہے۔
درد کے احوال میں بھی رنگ بھرنا پڑگیا
کاغذوں پر موت لکھی اور مرنا پڑگیا
اب سمائی ہے یہ دھن کیسا ہے سورج کا لہو
سوچ کو آزاد چھوڑا ہے تو ڈرنا پڑگیا
جب اس کے تذکرے میں ہر صفت تحریر کرتے تھے
تو اپنے عکس کی کرنوں سے ہی تعبیر کرتے تھے
بریدہ پر نہیں، پر بانس کے تنکوں سے گھائل ہیں
کبھی بے پر تھے لیکن آسماں تسخیر کرتے تھے
مجھ کو خلا کے پار سے آئی ہے اک صدا
اے رہرو خیال، ذرا پر لگا مجھے
زخمی افق، دھوئیں کی کمند، گھومتے درخت
منظر کی زد میں آکے بڑا ڈر لگا مجھے
یہ چند اشعار ہیں اس پیارے دوست اور منفرد انداز کے نمایندہ شاعر سجاد بابر کے جو آج ہم سے جدا ہوگیا ہے۔ ماضی قریب میں خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے اردو کے چار بہت نامور شاعر احمد فراز، محسن احسان، فارغ بخاری اور غلام محمد قاصر یکے بعد دیگرے رخصت ہوئے تو اس علاقے کا جو شاعر وہاں کا نمایندہ ٹھہرا وہ سجاد بابر ہی تھا۔
وہ تلاش معاش کے سلسلے میں طویل عرصے تک جدہ میں بھی رہا۔ وہاں بھی اس سے ملاقات کا موقع ملتا رہا اور یہاں بھی ٹی وی اور دیگر اداروں کے ترتیب دیے ہوئے مشاعروں میں اس سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ مگر بہت عرصے سے کوئی ایسا وقفہ نہ مل سکا جس میں دل کی باتیں کی جاسکتیں۔ اس کی صحت بھی اچھی نہیں رہتی تھی۔ سو بات اس کی صحت اور بال بچوں کے حال احوال سے آگے نہ جاسکی جس کا احساس گزشتہ ایک دو برس میں ہونے والی ملاقاتوں میں زیادہ شدت پکڑگیا کہ ہر بار وہ واضح طور پر پہلے سے زیادہ کمزور نظر آتا تھا۔ رب کریم سے دعا ہے کہ وہ ان دونوں مرحومین کی روحوں کو اپنے کرم کی پناہ میں رکھے اور جو سرمایا وہ اس دنیا میں چھوڑ چلے ہیں اس کی طرف سے انھیں ہمیشہ ٹھنڈی ہوا آتی رہے۔