عروس البلاد اور عروس ہزار داماد
کچھ ایسی ہی پشاور نام کی اس بیوہ کا بھی ہے تو اسے تو ’’عروس البلاد ‘‘ کے مقابلے سے خارج ہی سمجھیے۔
ایک عرصے سے ہمارے دل میں یہ '' تحقیق '' چٹکیاں لے رہی ہے کہ ہم نے اور بہت ساری چیزوں کے بارے میں تحقیق کرلی ہے لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں کر پائے کہ ''عروس البلاد '' یعنی شہروں کی دلہن یا '' دلہنوں کا شہر '' کونسا ہے کیونکہ کراچی کو بھی ہم نے یہ لقب اختیار کرتے ہوئے پڑھا اور لاہور تو ہے ہی عروس البلاد کیوں '' پیدائش '' کے لیے پہلے دلہن بننا ضروری ہوتا ہے جب کہ '' پیدائش گاہ '' تو یہ ایک زمانے سے ہے اورجہاں پیدا ہوگا وہاں ایک '' زچہ '' ضرور ہوتی ہے کیونکہ زچہ بھی بلکہ '' ہی '' کبھی دلہن ہوتی ہے ۔
رہا پشاور تو شاید یہ کبھی دلہن رہی ہو لیکن آج کل تو ''بیوہ '' بلکہ ''رانڈ ''ہے اور اگر اسی طرح '' بنی گالہ ''کی ریزیڈنسی رہی تو دوبارہ دلہن بننے کا سپنا اپنے ساتھ قبر میں لے کر جائے گا۔
یہاں پر ایک لطیفہ '' دُم '' ہلا رہا ہے اسے بھی دیکھتے چلیں ۔ ایک عورت کو اپنے تیسرے شوہر نے بہت مارا پیٹا اور نکل گیا اس کے نکلتے ہی بیوی مصلے پر کھڑی ہو گئی دو رکعت نفل کے پڑھ کر دعا مانگنے لگی کہ یا اللہ میرے اس شوہر کو سلامت تا قیامت رکھو۔ کبھی گرم ہوا بھی اسے نہ لگے دیوار پر بیٹھی ہوئی پڑوسن یہ سب دیکھ اور ہنس رہی تھی بولی یہ کیا بہن اس نے تمہیں اتنا مارا اور تم بددعاؤں کے بجائے دعائیں دے رہی ہو۔ بولی تمہیں کیا پتہ بہن میرا پہلا شوہر صرف مجھے بُرا بھلا کہتا تھا ۔ دوسرا گالیاں دیتا تھا اور یہ تیسرا مارتا پیٹتا ہے اب اگر یہ بھی مر گیا تو چوتھا تو مجھے مار ہی ڈالے گا ۔
کچھ ایسی ہی پشاور نام کی اس بیوہ کا بھی ہے تو اسے تو ''عروس البلاد '' کے مقابلے سے خارج ہی سمجھیے لیکن کراچی اور لاہور کا مقابلہ صرف آپس ہی میں نہیں بلکہ نئی نویلی دلہن اسلام آباد بھی ٹف ٹائم دے رہی ہے جس کی ''باراتیں ''آئے دن چڑھتی رہتی ہیں اوراسے دیکھ کر دوسرے شہر رو رہے ہیں کہ
سب کی باراتیں آئیں ، میری بھی تم لانا
دلہن بنا کے مجھے ڈولی میں لے جانا
خیر اس مقابلہ حسن یا مقابلہ دلہن کا فیصلہ تو جج صاحبان جو کریں گے سو کریں گے لیکن ہمارے ''شکی مزاج '' کو ایک اور شک پریشان کیے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ '' عروس البلاد '' میں شہر نہیں بلکہ '' شہروں ''کی دلہن کا قرینہ ہے یعنی وہ جسے فارسی میں '' عروس ہزار داماد '' کہتے ہیں ۔
مجو درستیٔ عہد از جہان سست نہاد
کہ ایں عجوزہ عروس ہزار داماد است
یعنی '' دنیا '' سے وفا کی امید نہ رکھ کہ یہ عورت ہزار ہزار شوہروں کی '' دلہن '' ہے اوریوں ''عروس ہزار داماد '' کے ''معنی '' کھل جاتے ہیں جب کہ عروس البلاد تو ہزار داماد نہیں بلکہ '' ہزار بلاد '' یعنی شہروں کی دلہن کو کہتے ہیں بڑے دل والی ہے، شہر شہر اس کے شوہر ہیں اور اس کی پیشانی پر شکن تک نہیں آتی اور اس '' اعزاز '' پر الٹا خوش ہو جاتی ہے۔
خیر ہمیں کیا کہ عجوزہ یا غفیفہ کا اگر ایک شوہر پر گزارہ نہیں ہو رہا ہے تو ہمیں کیا حق ہے اس پر اعتراض کرنے کا۔ اور اگر دل والے دلہنیا لے جاتے ہیں تو دلہن دل والوں کی تعداد بھی اپنی ضرورت کے مطابق رکھ سکتی ہے دوسری '' عروس '' کا معاملہ تو بہت پرانا ہے چلتا رہے گا لیکن ہمیں اس نئی نویلی دلہن کی فکر ہے ۔ جو آج کل کچھ اور بھی زیادہ '' نئی نئی '' لگ رہی ہے۔ کیونکہ ابھی تازہ تازہ اس نے شوہر بدلا ہے اور پہلے سے کچھ زیادہ ہی بدلا ہے حالانکہ اس دلہے کی شہرت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے خاص طور پر دلہنوں کے بارے میں ۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اس کا جی دلہنوں سے بھرتا نہیں ہے ۔ '' تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی '' والا وطیرہ اس نے اپنایا ہوا ہے ۔ کچھ منفی سوچ رکھنے والے مبصرین تو کہتے ہیں کہ دلہے بدلتے بدلتے اب یہ کافی ہوشیار ہو گئی ہے اس لیے نادان بالک اور برائے نام شوہر کو ترجیح دینے لگی ہے واللہ اعلم ۔ منفی تنقیدیے تو کچھ بھی بول دیتے ہیں لیکن ہم اس کے کردار اور چال چلن پر انگلی نہیں اٹھا سکتے ۔
شاید اس کے ساتھ بھی کچھ نفسیاتی مسئلہ بلکہ کمپلیکس ہو کیونکہ یہاں '' کمپلیکس '' بھی تو بہت ہوتے ہیں جیسے اس عورت کو لاحق تھا جسے شوہروں کے پے بہ پے مرنے کا صدمہ پہنچا تھا اور اب وہ اس '' صدمے '' کا کچھ مداوا کرنا چاہتی تھی ۔ ایک شخص سے اس کا نکاح ہونے لگا تو اس نے نکاح پڑھانے والے سے گزارش کی ۔ استاد جی اگر ممکن ہو تو بیک وقت چار پانچ کے ساتھ نکاح پڑھوایے کیونکہ میں'' موت کی ڈرائی ہوئی'' ہوں ۔
عروس البلاد کی دوڑ میں تازہ تازہ شامل ہونے والی اس عفیفہ کے بارے میں اور بھی ہم نے بہت کچھ سنا ہے لیکن ہم سنی سنائی پر زیادہ یقین نہیں رکھتے صرف وہی بات کریں گے جو ریسرچ سے ثابت ہوتی ہے اور ہماری ریسرچ سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ باقی دلہنوں کو'' شہروں کی دلہن '' کا دعویٰ اب ترک ہی کر دینا چاہیے کیونکہ پہلے ان کا مقابلہ پشاور کوئٹہ اور حیدر آباد وغیرہ جیسی نالائق ان پڑھ اور بھولی بھالی دلہنوں سے تھا لیکن اب ایسی عروس البلاد ان کے سامنے ہے جو نئے دور کے تمام ' ' زیورات '' سے لیس ہے بلکہ وہ جوکسی نے کہاہے کہ
شفق ، دھنک ، مہتاب ، ہوائیں بجلی تارے نغمے پھول
اس '' دلہن '' میں کیا کیا کچھ ہے وہ دلہن ہاتھ میں آئے تو
ایک امیر اور خوبصورت شخص رانڈ ہوگیا تو دوسری بیوی کی تلاش شروع ہوئی اور بھی بیوہ تھیں لیکن ان میں دو خواتین قابل ترجیح امیدوار تھیں ۔پھر اس نے ان میں سے جو ایک نوجوان بیوہ تھی اسے منتخب کر لیا جو دوسری کنواری اور خوبصورت '' امیدوارہ ''کے مقابل کچھ بھی نہیں تھی۔ وہ حیرت سے بولی اس اندھے نے اس بیوہ اور بدصورت عورت میں کیا دیکھا جو مجھ جیسی کنواری جواں اور خوبصورت عورت پر ترجیح دی گئی۔
سننے والے نے کہا اس کے پچھلے '' شوہر کا ترکہ '' آج کل اقتصاد اور معاش کا زمانہ ہے حسن اور کنوراپن کو لے کر کوئی چاٹے گا کیا ؟ اصل چیز '' ترکہ '' ہے جو اس نئی عروس البلاد کے پاس بہت سارے مرحوم شوہروں کا پڑا ہوا ہے ۔
رہا پشاور تو شاید یہ کبھی دلہن رہی ہو لیکن آج کل تو ''بیوہ '' بلکہ ''رانڈ ''ہے اور اگر اسی طرح '' بنی گالہ ''کی ریزیڈنسی رہی تو دوبارہ دلہن بننے کا سپنا اپنے ساتھ قبر میں لے کر جائے گا۔
یہاں پر ایک لطیفہ '' دُم '' ہلا رہا ہے اسے بھی دیکھتے چلیں ۔ ایک عورت کو اپنے تیسرے شوہر نے بہت مارا پیٹا اور نکل گیا اس کے نکلتے ہی بیوی مصلے پر کھڑی ہو گئی دو رکعت نفل کے پڑھ کر دعا مانگنے لگی کہ یا اللہ میرے اس شوہر کو سلامت تا قیامت رکھو۔ کبھی گرم ہوا بھی اسے نہ لگے دیوار پر بیٹھی ہوئی پڑوسن یہ سب دیکھ اور ہنس رہی تھی بولی یہ کیا بہن اس نے تمہیں اتنا مارا اور تم بددعاؤں کے بجائے دعائیں دے رہی ہو۔ بولی تمہیں کیا پتہ بہن میرا پہلا شوہر صرف مجھے بُرا بھلا کہتا تھا ۔ دوسرا گالیاں دیتا تھا اور یہ تیسرا مارتا پیٹتا ہے اب اگر یہ بھی مر گیا تو چوتھا تو مجھے مار ہی ڈالے گا ۔
کچھ ایسی ہی پشاور نام کی اس بیوہ کا بھی ہے تو اسے تو ''عروس البلاد '' کے مقابلے سے خارج ہی سمجھیے لیکن کراچی اور لاہور کا مقابلہ صرف آپس ہی میں نہیں بلکہ نئی نویلی دلہن اسلام آباد بھی ٹف ٹائم دے رہی ہے جس کی ''باراتیں ''آئے دن چڑھتی رہتی ہیں اوراسے دیکھ کر دوسرے شہر رو رہے ہیں کہ
سب کی باراتیں آئیں ، میری بھی تم لانا
دلہن بنا کے مجھے ڈولی میں لے جانا
خیر اس مقابلہ حسن یا مقابلہ دلہن کا فیصلہ تو جج صاحبان جو کریں گے سو کریں گے لیکن ہمارے ''شکی مزاج '' کو ایک اور شک پریشان کیے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ '' عروس البلاد '' میں شہر نہیں بلکہ '' شہروں ''کی دلہن کا قرینہ ہے یعنی وہ جسے فارسی میں '' عروس ہزار داماد '' کہتے ہیں ۔
مجو درستیٔ عہد از جہان سست نہاد
کہ ایں عجوزہ عروس ہزار داماد است
یعنی '' دنیا '' سے وفا کی امید نہ رکھ کہ یہ عورت ہزار ہزار شوہروں کی '' دلہن '' ہے اوریوں ''عروس ہزار داماد '' کے ''معنی '' کھل جاتے ہیں جب کہ عروس البلاد تو ہزار داماد نہیں بلکہ '' ہزار بلاد '' یعنی شہروں کی دلہن کو کہتے ہیں بڑے دل والی ہے، شہر شہر اس کے شوہر ہیں اور اس کی پیشانی پر شکن تک نہیں آتی اور اس '' اعزاز '' پر الٹا خوش ہو جاتی ہے۔
خیر ہمیں کیا کہ عجوزہ یا غفیفہ کا اگر ایک شوہر پر گزارہ نہیں ہو رہا ہے تو ہمیں کیا حق ہے اس پر اعتراض کرنے کا۔ اور اگر دل والے دلہنیا لے جاتے ہیں تو دلہن دل والوں کی تعداد بھی اپنی ضرورت کے مطابق رکھ سکتی ہے دوسری '' عروس '' کا معاملہ تو بہت پرانا ہے چلتا رہے گا لیکن ہمیں اس نئی نویلی دلہن کی فکر ہے ۔ جو آج کل کچھ اور بھی زیادہ '' نئی نئی '' لگ رہی ہے۔ کیونکہ ابھی تازہ تازہ اس نے شوہر بدلا ہے اور پہلے سے کچھ زیادہ ہی بدلا ہے حالانکہ اس دلہے کی شہرت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے خاص طور پر دلہنوں کے بارے میں ۔ لیکن پتہ نہیں کیوں اس کا جی دلہنوں سے بھرتا نہیں ہے ۔ '' تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی '' والا وطیرہ اس نے اپنایا ہوا ہے ۔ کچھ منفی سوچ رکھنے والے مبصرین تو کہتے ہیں کہ دلہے بدلتے بدلتے اب یہ کافی ہوشیار ہو گئی ہے اس لیے نادان بالک اور برائے نام شوہر کو ترجیح دینے لگی ہے واللہ اعلم ۔ منفی تنقیدیے تو کچھ بھی بول دیتے ہیں لیکن ہم اس کے کردار اور چال چلن پر انگلی نہیں اٹھا سکتے ۔
شاید اس کے ساتھ بھی کچھ نفسیاتی مسئلہ بلکہ کمپلیکس ہو کیونکہ یہاں '' کمپلیکس '' بھی تو بہت ہوتے ہیں جیسے اس عورت کو لاحق تھا جسے شوہروں کے پے بہ پے مرنے کا صدمہ پہنچا تھا اور اب وہ اس '' صدمے '' کا کچھ مداوا کرنا چاہتی تھی ۔ ایک شخص سے اس کا نکاح ہونے لگا تو اس نے نکاح پڑھانے والے سے گزارش کی ۔ استاد جی اگر ممکن ہو تو بیک وقت چار پانچ کے ساتھ نکاح پڑھوایے کیونکہ میں'' موت کی ڈرائی ہوئی'' ہوں ۔
عروس البلاد کی دوڑ میں تازہ تازہ شامل ہونے والی اس عفیفہ کے بارے میں اور بھی ہم نے بہت کچھ سنا ہے لیکن ہم سنی سنائی پر زیادہ یقین نہیں رکھتے صرف وہی بات کریں گے جو ریسرچ سے ثابت ہوتی ہے اور ہماری ریسرچ سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ باقی دلہنوں کو'' شہروں کی دلہن '' کا دعویٰ اب ترک ہی کر دینا چاہیے کیونکہ پہلے ان کا مقابلہ پشاور کوئٹہ اور حیدر آباد وغیرہ جیسی نالائق ان پڑھ اور بھولی بھالی دلہنوں سے تھا لیکن اب ایسی عروس البلاد ان کے سامنے ہے جو نئے دور کے تمام ' ' زیورات '' سے لیس ہے بلکہ وہ جوکسی نے کہاہے کہ
شفق ، دھنک ، مہتاب ، ہوائیں بجلی تارے نغمے پھول
اس '' دلہن '' میں کیا کیا کچھ ہے وہ دلہن ہاتھ میں آئے تو
ایک امیر اور خوبصورت شخص رانڈ ہوگیا تو دوسری بیوی کی تلاش شروع ہوئی اور بھی بیوہ تھیں لیکن ان میں دو خواتین قابل ترجیح امیدوار تھیں ۔پھر اس نے ان میں سے جو ایک نوجوان بیوہ تھی اسے منتخب کر لیا جو دوسری کنواری اور خوبصورت '' امیدوارہ ''کے مقابل کچھ بھی نہیں تھی۔ وہ حیرت سے بولی اس اندھے نے اس بیوہ اور بدصورت عورت میں کیا دیکھا جو مجھ جیسی کنواری جواں اور خوبصورت عورت پر ترجیح دی گئی۔
سننے والے نے کہا اس کے پچھلے '' شوہر کا ترکہ '' آج کل اقتصاد اور معاش کا زمانہ ہے حسن اور کنوراپن کو لے کر کوئی چاٹے گا کیا ؟ اصل چیز '' ترکہ '' ہے جو اس نئی عروس البلاد کے پاس بہت سارے مرحوم شوہروں کا پڑا ہوا ہے ۔