بھارت کی خوشامد کی حد

نواز شریف نے تو بطور وزیر اعظم کبھی بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیو کا نام تک نہیں لیا۔

moazzamhai@hotmail.com

18 فروری 2007ء کی رات بھارتی شہر پانی پت کے نزدیک پاکستان جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس پر دہشتگردی کے واقعے میں 68 افراد جاں بحق ہو گئے، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی۔ بھارتی ہندو انتہا پسند دہشتگردوں نے ٹرین کی دو بوگیوں میں بم نصب کر دیے تھے۔

ان بھارتی ہندو انتہا پسند دہشتگردوں میں بھارتی فوج کا حاضر سروس افسر لیفٹیننٹ کرنل سری کانت پرشاد بھی شامل نکلا۔30 دسمبر 2010ء میں تحقیقات میں یہ مزید واضح ہو گیا کہ ہندو مذہبی رہنما سوامی اسیم آنند اس دہشتگردی کا ماسٹر مائنڈ تھا جس نے خود قبول کیا کہ زعفرانی (ہندو انتہا پسند) دہشتگرد تنظیمیں سمجھوتہ ایکسپریس پہ دہشتگرد حملے کی ذمے دار ہیں۔

بھارت کی نام نہاد تحقیقاتی ٹیموں نے شروع شروع میں ان بم دھماکوں کی ذمے داری مبینہ طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والی مذہبی تنظیموں پہ ڈالنے کی کوشش کی تاہم جیسے جیسے ثبوتوں کے ساتھ واضح ہوتا گیا کہ ہندو انتہا پسند دہشتگرد تنظیمیں جن میں بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی کی روحانی سرپرست آر ایس ایس بھی شامل ہے۔ ویسے ویسے بھارتی تحقیقات دم توڑتی گئیں اور چند ایک ہندو انتہا پسند دہشتگرد جو گرفتار ہوئے تھے وہ رہا کر دیے گئے، کسی کو بھی سزا نہیں ملی۔ حکومت پاکستان نے کیا کیا؟ کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کے قانون و انصاف سے تا ابد بالاتر جنرل پرویز مشرف نے کچھ کیا نہ زرداری اور شریف حکومتوں نے کچھ کیا۔

ادھر سمجھوتہ ایکسپریس پہ دہشتگردی کے واقعے کے اگلے سال 26 نومبر 2008ء کو بھارت کے ممبئی شہر میں دہشتگردی کا واقعہ ہوا اور بھارتی حکومت نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ یہ حملہ جب جاری تھا تبھی بھارتی حکومت نے اس کا الزام پاکستان کے سر دھر دیا۔ صرف چند دن کے اندر اندر بھارت نے دنیا بھر میں موجود ہر قابل ذکر بین الاقوامی فورم اور تقریباً ہر اہم ملک کی حکومت کے سامنے پاکستان کو دہشتگردی کا عالمی مجرم بناکر پیش کردیا۔

ادھر اس وقت پاکستانی حکومت کوئی مضبوط موقف اپنانے اور دنیا بھر میں بھارتی پروپیگنڈے کا جواب دینے کے بجائے الٹا بھارتیوں کی خوشامد میں مصروف ہوگئی۔ خود پاکستانی میڈیا کا یہ حال تھا کہ وہ ممبئی حملے کے چند دن کے اندر اندر وسطیٰ پنجاب کے ایک گاؤں میں ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث اجمل قصاب کے نام نہاد گھر تک پہنچ گیا۔ جی ہاں اسی اجمل قصاب کا گھر کہ جس کا ابھی کچھ دن پہلے بھارتی صوبے اترپردیش کی تحصیل بدھونہ کا ڈومیسائل برآمد ہوا، تاہم اس معاملے پہ بھی پاکستان نے اپنے لب سیے رکھے۔

جب کہ بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا نے پاکستان میں اجمل قصاب کا نام نہاد گھر ملنے پر دنیا بھر میں پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا ایک طوفان کھڑا کردیا تھا۔ ہمیشہ سے ہی بھارت کا رویہ جارحانہ رہا ہے اور پاکستان کا فدویانہ اور دونوں ہی رویوں میں وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل اضافہ ہوتا گیا ہے۔ آپ سیاچن گلیشیئر کی مثال لے لیجیے جو پاکستان کا قانونی حصہ ہے۔

سیاچن گلیشیئر پہ تعینات پاکستانی فوج سردیوں کے موسم میں موسم کی شدت کے پیش نظر بلندیوں سے نیچے آجاتی تھی۔ 1984ء میں بھارتی فوج موقع کا فائدہ اٹھاتی ہوئی سیاچن گلیشیئر پہ قابض ہوگئی اور آج تک اس کی چوٹیوں پہ قابض ہے۔ جنرل ضیا الحق، بینظیر بھٹو، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف، آصف زرداری، پاکستان کی کوئی بھی حکومت آج تک دنیا میں کسی بھی بین الاقوامی فورم پہ بھارت کے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک قرارداد تک منظور نہیں کروا پائی۔


اب آپ ذرا کارگل کی مثال لے لیجیے۔ کارگل کی چوٹیاں پاکستان کا حصہ تھیں جنھیں بھٹو حکومت نے 1972ء کے شملہ معاہدے میں بھارت کے حوالے کر دیا تھا۔ 1999ء میں جب پاکستان نے کارگل کی چوٹیاں واپس لینے کی کوشش کی تو بھارتی حکومت نے دنیا بھر میں ہنگامہ مچا دیا اور چند ہی ہفتوں میں دنیا بھر میں پاکستان کو ایک امن دشمن جارح ملک قرار دلوا دیا، یہاں تک کہ بھارت کارگل کی چوٹیوں پہ پھر قابض ہو گیا۔

بھارت کی آبی دہشتگردی دیکھیے کہ پچھلے دس پندرہ سال میں بھارت نے پاکستانی دریاؤں پہ ایک چھوڑ کئی درجن ڈیم اور بیراج تعمیر کر لیے۔ آپ پچھلے دس سال سے لے کر آج تک آصف زرداری، بلاول زرداری، یوسف گیلانی، نواز شریف، شہباز شریف کا کسی بین الاقوامی فورم کو تو چھوڑیں خود پاکستان کے اندر ہی بھارت کی اس آبی دہشتگردی کے خلاف ایک معمولی سا بیان تک تو ڈھونڈ کر دکھادیں۔

نواز شریف نے تو بطور وزیر اعظم کبھی بھارتی دہشتگرد کلبھوشن یادیو کا نام تک نہیں لیا، بلوچستان میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی آج تک مذمت تک نہیں کی الٹا ہندو انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم مودی اور پاکستان میں دہشتگردی کا کھلم کھلا فخر سے اعتراف کرنے والے مودی کے سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی مہمان نوازی فرماتے رہے۔ موجودہ حکومت گو کہ بھارتی حکومت سے نسبتاً آبرو مندانہ طریقے سے بات کر رہی ہے، پچھلی پاکستانی حکومتوں کے مقابلے میں تاہم بھارت سے مذاکرات کرنے اور کرکٹ کھیلنے کی خوشامد بدستور جاری ہے۔

کوئی نہ کوئی حکومتی چھوٹا بڑا ہر کچھ دن بعد بھارت سے مذاکرات اور کرکٹ کھیلنے کا بیان داغ دیتا ہے اور بھارتی ہیں کہ ہر بار انتہائی نخوت اور حقارت سے اس خوشامد کا جواب دیتے ہیں۔ آپ کو آج تک بھارت سے مذاکرات کرکے کیا ملا جو آپ مذاکرات کرلو، مذاکرات کرلو کی التجا کرتے مرے جاتے ہیں۔ آپ بھارت سے تجارت کے لیے بھی ہر وقت مچلتے رہتے ہیں جب کہ بھارت سے تجارت میں پاکستان نے ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے۔ آپ بھارت سے کرکٹ نہیں کھیلیں گے توکیا مر جائیں گے؟

ایک عام شریف متوسط طبقے کے پڑھے لکھے پاکستانی شہری کو یہاں وی وی آئی پی ہستیوں کے ایک کلومیٹر دور سے بھی نہیں گزرنے دیا جاتا جب کہ اگر بھارت کا کوئی اوسط درجے کا کرکٹر اور فلم اسٹار بھی آجائے تو یہاں وزیروں، مشیروں، وزیر اعظم تک اس سے ملنے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔

ادھر بھارت اپنے ہاں ہونے والے کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں تک میں شرکت کے لیے پاکستانی کھلاڑیوں کو ویزے دینے پہ آمادہ نہیں ہوتا۔ بھارت میں دہشتگردی کے معمولی سے واقعے میں اگر کسی بھارتی کو خراش بھی آجائے تو پاکستانی حکومت اور ادارے مذمت کرتے نہیں تھکتے۔ پاکستان میں دہشتگردی کے ایک ایک واقعے میں درجنوں پاکستانی شہری اور سپاہی شہید ہوتے ہیں اور کوئی معمولی بھارتی اہلکار بھی مذمت تک نہیں کرتا۔

پاکستانی ایک زمانے میں گوروں سے مرعوب تھے پھر عربوں سے بھی مرعوب ہوگئے، مزید نیچے گئے اور اب بھارتیوں سے بھی مرعوب رہتے ہیں اور ہماری حکومتیں بھارتیوں کی خوشامد میں ایک عجیب لذت محسوس کرتی ہیں۔ سوال صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ بھارت کی خوشامد کی کوئی حد ہے؟ اور اس خوشامد کا کوئی فائدہ بھی ہے؟
Load Next Story