’سگریٹ نوشی‘ سے سالانہ ایک لاکھ پاکستانی موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں
سگریٹ نوشی سے پیداہونے والی بیماریوں سے متعلق شعور پیدا نہیں ہونے دیا جارہا۔
پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ایک لاکھ سے زائد افراد سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والے امراض میں مبتلا ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یعنی ہر روز 298 ہلاکتوں کی ذمہ داری صرف ایک تمباکونوشی پر عائد ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر نوشین حامد نے بتایا کہ تمباکو نوشی کے باعث سالانہ ایک لاکھ پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اسی لیے وزارت قومی صحت سروسز تمباکو نوشی کے استعمال میں کمی لانے کے لیے طلب اور رسد میں کمی کے لیے اقدامات کررہی ہے۔
پاکستان نے تمباکو نوشی کو کنٹرول کرنے کے فریم ورک کنونشن پر دستخط کررکھے ہیں اور صحت عامہ کی پالیسیوں میں بھی تمباکو نوشی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے نوشین حامد نے بتایا کہ تمباکو کی صنعت کی طرف سے نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کا عادی بنایا جارہا ہے تاکہ یہ نوجوان سگریٹ نوشی چھوڑنے والوں کی جگہ لے سکیں۔ تمباکو انڈسٹری کا مذکورہ بالا طریقہ واردات بہت پرانا ہے، اقوام متحدہ کا اہم ترین ادارہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) 1948ء میں قائم ہوئی اور اس کے فوراً بعد تمباکو انڈسٹری کے شکنجے میں جکڑی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پچاس کی دہائی میں تمباکو انڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں نے عالمی ادارہ صحت میں اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا۔ انھوں نے ایسے ادارے قائم کئے جن سے ڈبلیو ایچ او استفادہ کرتاتھا اور خفیہ طریقے سے ایسے ماہرین اس ادارے کو فراہم کئے جو بظاہر ڈبلیو ایچ او کے لئے کام کرتے تھے تاہم اصلاً وہ تمباکوانڈسٹری کے مفادات کے محافظ تھے۔ سوئٹزرلینڈ کے سابق وزیرصحت تھامس زیٹنر نے اسی قسم کے انکشاف کئے تھے۔
کس قدر سنگین بات ہے کہ سائنسی ماہرین تمباکوانڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں اور ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے لئے بیک وقت کام کریں۔ اس کی ایک مثال علم سموم(زہروں سے متعلقہ علم ) کے ایک ماہر تھے جو ڈبلیوایچ او کے مشیر کے طور پر اُس وقت کام کررہے تھے جب تمباکونوشی کے خلاف عالمی مہم زوروں پر تھی۔
دوسری طرف یہی صاحب فلپ موریس جیسی ملٹی نیشنل سگریٹ بنانے اور بیچنے والی کمپنی سے بھی تنخواہ لیتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اِن صاحب کے مذکورہ بالا تعلقات لوگوں پر ظاہر ببھی ہوگئے، اس کے باوجود وہ عالمی ادارہ صحت کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ سائنسی ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کے قیام کے اغراض ومقاصد کے برخلاف کام کیا۔ جب عالمی ادارہ صحت لوگوں کی صحت کو تحفظ دینے کی آڑ میں بیماریاں پھیلانے والوں کے کاروبار کے فروغ کے لئے مہمات چلائے گی تو آپ اندازہ کریں کہ لوگوں کی صحت کا عالم کیا ہوگا؟
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ایک ارب سگریٹ نوش موجود ہیں جو روزانہ 18ارب سگریٹ پیتے ہیں۔ اس اعتبار سے ماہرین اسے دنیا کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار قراردیتے ہیں۔ پوری دنیا میں موجود سگریٹ نوش حضرات وخواتین میں سے 80 فیصد لوئراورمڈل کلاس معاشروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 33ملین افراد تمباکو کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں، ان کی بڑی تعداد انتہائی غریب علاقوں اور طبقات سے آتی ہے۔ ان مزدوروں میں چھوٹے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو انتہائی کم معاوضے پر کام کرتے ہیں لیکن کبھی چائلڈلیبر کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی نظریں ان بچوں پر نہیں پڑتی۔
سگریٹ نوشی سے پیداہونے والی بیماریوں سے متعلق شعور پیدا نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تمباکو پیدا کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر چین ہے، وہاں صرف 38فیصد افراد جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی دل کے امراض بھی پیدا کرتی ہے اور صرف 27 فیصد جانتے ہیں کہ سگریٹ نوش بالآخر دل کے دورے کا شکار ہوجاتاہے۔
اسی طرح بنگلہ دیش، بھارت، نیدرلینڈ، روس، تھائی لینڈ اور ویت نام میں صرف 25 فیصد آبادی مذکورہ بالا حقیقت سے بے خبر ہے۔ نیوزی لینڈ میں17 فیصد، فرانس میں 14فیصد، امریکا میں 13فیصد لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ دنیا میں امراض قلب انسانوں کے سب سے بڑے قاتل ہیں، پھیپھڑوں کا کینسر نہیں۔
یہ حقیقت بھی جان لیں کہ تمباکو آدھے سے زائد سگریٹ نوشوں کو ہلاک کردیتاہے۔ پوری دنیا میں ہرسال 60سے70 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، ان میں 6لاکھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو سگریٹ نہیں پیتے لیکن سگریٹ نوشی کے اثرات ان کے لئے زہرقاتل ثابت ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر سگریٹ نوشی کا رجحان یہی رہا تو 2030ء تک ہلاکتوںکی تعداد 80لاکھ سالانہ تک پہنچ جائے گی۔ ایک فرد جو ایک سگریٹ پھونکتا ہے، وہ اس کی زندگی کے پانچ سے11منٹ کم کردیتاہے۔مجموعی طور پر ایک فرد سگریٹ نوشی کرکے اپنی زندگی کے 12سال کم کردیتا ہے۔ اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ دل کے امراض میں مبتلا ہونے والے 25فیصد افراد اور پھیپھڑوں کے کینسرزدہ 75فیصد افراد کی ہلاکت کا براہ راست سبب سگریٹ نوشی ہوتاہے۔
یہ خاصی عجیب بات ہے کہ سگریٹ نوشی کے خلاف تمام تر اقدامات اور مہمات کے باوجود پاکستان میں بھی سگریٹ نوشوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ وزارت صحت کی طرف سے سگریٹ کی ہرڈبیہ پر لکھاہوتاہے کہ یہ انسانی صحت کے لئے مضر ہے اور یہ منہ کے کینسر کا باعث بنتی ہے۔ اس کے ساتھ منہ کے کینسر میں مبتلا فرد کی ایک خوفزدہ کرنے والی تصویر بھی شائع ہوتی ہے تاہم اس کے باوجود یہاں لڑکے جوانی کے دور میں داخل ہونے کا اعلان سگریٹ نوشی کے ذریعے کرتے ہیں۔
اب حکومت نے اعلان کیاہے کہ یکم جون 2019ء سے ڈبیہ پر منہ کے کینسر کی تصویر کا سائز بڑھا کر 60فیصد کردیاجائے گا۔ دیگر اقدامات میں تمباکو کی مختلف مصنوعات پر عائد ٹیکسوں میں مزید اضافہ کی تجاویز بھی زیرغور ہیں۔ یادرہے کہ ضمنی بجٹ 2018ء میں سگریٹ کے تیسرے درجہ کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں تقریباً 46فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایسے اقدامات کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔کیا نئی حکومت کے اقدامات موثر ثابت ہوں گے؟
تحریک انصاف کی حکومت نے 'گناہ ٹیکس' کی صورت میں ایک نیا قدم اٹھانے کی اعلان بھی کیا ہے۔ یہ تجویز اس تناظر میں بہترین ہے کہ جومصنوعات انسانی صحت میں خرابی پیداکرتی ہیں ، اس خرابی کا علاج بھی انہی کمپنیوں کی ذمہ داری ہوناچاہئے، چنانچہ حکومت نے میٹھے مشروبات پر بھی یہ ٹیکس عائد کیاہے،کیونکہ چینی سے تیار ہونے والے مشروبات بھی انسانی صحت پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
حکومت اس وقت بجٹ میں صحت کے شعبے پر جی ڈی پی کا 0.6 فیصد مختص کرتی ہے۔ سگریٹ نوشی سمیت ایسی تمام مصنوعات جو انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں، پر ' گناہ ٹیکس' عائد کرنے کی تجویز خاصی پرانی ہے ، حکومتوںکو ان مضراثرات سے نمٹنے یعنی صحت عامہ کے لئے ایک بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ 'گناہ ٹیکس'دنیا کے45 ممالک میں وصول کیا جارہاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹیکس تمام ممالک میں اِسی نام سے وصول کیاجاتا ہے۔
امریکا میں سگریٹ کے ایک پیکٹ پر ڈیڑھ ڈالر وصول کیاجاتاہے، یعنی200 پاکستانی روپے ۔ برطانیہ میں چینی سے تیارشدہ ایک لیٹر مشروب پر 100 پاکستانی روپے کے برابر ٹیکس وصول کیاجاتاہے۔ پاکستان میں 'گناہ ٹیکس' کس قدر وصول کیاجائے گا، تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا۔ ماہرین صحت کا مطالبہ ہے کہ حکومت مضرصحت مصنوعات پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرے تاکہ ایک طرف حکومت پر صحت عامہ پر اخراجات کرنے کا بوجھ کم ہو، دوسری طرف عوام الناس پر بھی بوجھ کم پڑے اور پاکستانی ایک صحت مند قوم بن سکیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرنے کا فائدہ ہوگا کہ مضرصحت مصنوعات کم عمر یا نوجوانوں کی استطاعت سے باہر ہوجائیں گی۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 1500نوجوان یا کم عمر لڑکے سگریٹ نوشی میں مبتلا ہوتے ہیں، حکومت چاہتی ہے کہ اس تعداد میں کمی آئے۔ پاکستان میں صحت عامہ کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے بعض ادارے ایک طویل عرصہ سے مسلسل حکومت پر زور دے رہے تھے کہ وہ 'گناہ ٹیکس' عائد کرے۔
صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی سے ماہرین صحت کا ایک وفد ملا جہاں یہ مطالبہ ایک بارپھر پیش کیاگیا، صدرمملکت نے یقین دلایا کہ وہ اسکے لئے ہرممکن کردار ادا کریں گے۔ یہ تجویز مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بھی پیش کی گئی لیکن اسے منظور نہ کیاگیا۔ پاکستانیوں کو مکمل صحت مند قوم بنانا، شاید یہ ہماری سابقہ حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھا۔
ماہرین کا کہناہے کہ حکومت گناہ ٹیکس نافذ کرتے ہوئے پوری طرح ہوشیار رہے کہ سگریٹ تیار کرنے اور فروخت کرنے والے اس ٹیکس کا بوجھ خریداروں پر نہ ڈال سکے۔ ویسے بعض حلقوں کا کہناہے کہ گناہ ٹیکس کا نفاذ اس قدر آسان نہیں، جتنا سمجھاجاتا ہے کیونکہ ملک میں تمباکو انڈسٹری غیرمعمولی طور پر موثر اور طاقتور ہے۔ اب یہ وزیراعظم عمران خان جیسے مضبوط قوت ارادی کے مالک حکمران کا امتحان ہے، آیا وہ اپنی قوم کا تحفظ کرنے اور اسے ایک مکمل صحت مند قوم بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا تمباکوانڈسٹری فتح یاب ہوتی ہے!۔
گزشتہ دنوں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹر نوشین حامد نے بتایا کہ تمباکو نوشی کے باعث سالانہ ایک لاکھ پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اسی لیے وزارت قومی صحت سروسز تمباکو نوشی کے استعمال میں کمی لانے کے لیے طلب اور رسد میں کمی کے لیے اقدامات کررہی ہے۔
پاکستان نے تمباکو نوشی کو کنٹرول کرنے کے فریم ورک کنونشن پر دستخط کررکھے ہیں اور صحت عامہ کی پالیسیوں میں بھی تمباکو نوشی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے نوشین حامد نے بتایا کہ تمباکو کی صنعت کی طرف سے نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کا عادی بنایا جارہا ہے تاکہ یہ نوجوان سگریٹ نوشی چھوڑنے والوں کی جگہ لے سکیں۔ تمباکو انڈسٹری کا مذکورہ بالا طریقہ واردات بہت پرانا ہے، اقوام متحدہ کا اہم ترین ادارہ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) 1948ء میں قائم ہوئی اور اس کے فوراً بعد تمباکو انڈسٹری کے شکنجے میں جکڑی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پچاس کی دہائی میں تمباکو انڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں نے عالمی ادارہ صحت میں اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا۔ انھوں نے ایسے ادارے قائم کئے جن سے ڈبلیو ایچ او استفادہ کرتاتھا اور خفیہ طریقے سے ایسے ماہرین اس ادارے کو فراہم کئے جو بظاہر ڈبلیو ایچ او کے لئے کام کرتے تھے تاہم اصلاً وہ تمباکوانڈسٹری کے مفادات کے محافظ تھے۔ سوئٹزرلینڈ کے سابق وزیرصحت تھامس زیٹنر نے اسی قسم کے انکشاف کئے تھے۔
کس قدر سنگین بات ہے کہ سائنسی ماہرین تمباکوانڈسٹری کے بڑے کھلاڑیوں اور ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے لئے بیک وقت کام کریں۔ اس کی ایک مثال علم سموم(زہروں سے متعلقہ علم ) کے ایک ماہر تھے جو ڈبلیوایچ او کے مشیر کے طور پر اُس وقت کام کررہے تھے جب تمباکونوشی کے خلاف عالمی مہم زوروں پر تھی۔
دوسری طرف یہی صاحب فلپ موریس جیسی ملٹی نیشنل سگریٹ بنانے اور بیچنے والی کمپنی سے بھی تنخواہ لیتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اِن صاحب کے مذکورہ بالا تعلقات لوگوں پر ظاہر ببھی ہوگئے، اس کے باوجود وہ عالمی ادارہ صحت کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ سائنسی ماہرین نے عالمی ادارہ صحت کے قیام کے اغراض ومقاصد کے برخلاف کام کیا۔ جب عالمی ادارہ صحت لوگوں کی صحت کو تحفظ دینے کی آڑ میں بیماریاں پھیلانے والوں کے کاروبار کے فروغ کے لئے مہمات چلائے گی تو آپ اندازہ کریں کہ لوگوں کی صحت کا عالم کیا ہوگا؟
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ایک ارب سگریٹ نوش موجود ہیں جو روزانہ 18ارب سگریٹ پیتے ہیں۔ اس اعتبار سے ماہرین اسے دنیا کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار قراردیتے ہیں۔ پوری دنیا میں موجود سگریٹ نوش حضرات وخواتین میں سے 80 فیصد لوئراورمڈل کلاس معاشروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 33ملین افراد تمباکو کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں، ان کی بڑی تعداد انتہائی غریب علاقوں اور طبقات سے آتی ہے۔ ان مزدوروں میں چھوٹے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جو انتہائی کم معاوضے پر کام کرتے ہیں لیکن کبھی چائلڈلیبر کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی نظریں ان بچوں پر نہیں پڑتی۔
سگریٹ نوشی سے پیداہونے والی بیماریوں سے متعلق شعور پیدا نہیں ہونے دیا جارہا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ تمباکو پیدا کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر چین ہے، وہاں صرف 38فیصد افراد جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی دل کے امراض بھی پیدا کرتی ہے اور صرف 27 فیصد جانتے ہیں کہ سگریٹ نوش بالآخر دل کے دورے کا شکار ہوجاتاہے۔
اسی طرح بنگلہ دیش، بھارت، نیدرلینڈ، روس، تھائی لینڈ اور ویت نام میں صرف 25 فیصد آبادی مذکورہ بالا حقیقت سے بے خبر ہے۔ نیوزی لینڈ میں17 فیصد، فرانس میں 14فیصد، امریکا میں 13فیصد لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ دنیا میں امراض قلب انسانوں کے سب سے بڑے قاتل ہیں، پھیپھڑوں کا کینسر نہیں۔
یہ حقیقت بھی جان لیں کہ تمباکو آدھے سے زائد سگریٹ نوشوں کو ہلاک کردیتاہے۔ پوری دنیا میں ہرسال 60سے70 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، ان میں 6لاکھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو سگریٹ نہیں پیتے لیکن سگریٹ نوشی کے اثرات ان کے لئے زہرقاتل ثابت ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر سگریٹ نوشی کا رجحان یہی رہا تو 2030ء تک ہلاکتوںکی تعداد 80لاکھ سالانہ تک پہنچ جائے گی۔ ایک فرد جو ایک سگریٹ پھونکتا ہے، وہ اس کی زندگی کے پانچ سے11منٹ کم کردیتاہے۔مجموعی طور پر ایک فرد سگریٹ نوشی کرکے اپنی زندگی کے 12سال کم کردیتا ہے۔ اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ دل کے امراض میں مبتلا ہونے والے 25فیصد افراد اور پھیپھڑوں کے کینسرزدہ 75فیصد افراد کی ہلاکت کا براہ راست سبب سگریٹ نوشی ہوتاہے۔
یہ خاصی عجیب بات ہے کہ سگریٹ نوشی کے خلاف تمام تر اقدامات اور مہمات کے باوجود پاکستان میں بھی سگریٹ نوشوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ وزارت صحت کی طرف سے سگریٹ کی ہرڈبیہ پر لکھاہوتاہے کہ یہ انسانی صحت کے لئے مضر ہے اور یہ منہ کے کینسر کا باعث بنتی ہے۔ اس کے ساتھ منہ کے کینسر میں مبتلا فرد کی ایک خوفزدہ کرنے والی تصویر بھی شائع ہوتی ہے تاہم اس کے باوجود یہاں لڑکے جوانی کے دور میں داخل ہونے کا اعلان سگریٹ نوشی کے ذریعے کرتے ہیں۔
اب حکومت نے اعلان کیاہے کہ یکم جون 2019ء سے ڈبیہ پر منہ کے کینسر کی تصویر کا سائز بڑھا کر 60فیصد کردیاجائے گا۔ دیگر اقدامات میں تمباکو کی مختلف مصنوعات پر عائد ٹیکسوں میں مزید اضافہ کی تجاویز بھی زیرغور ہیں۔ یادرہے کہ ضمنی بجٹ 2018ء میں سگریٹ کے تیسرے درجہ کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں تقریباً 46فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ایسے اقدامات کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔کیا نئی حکومت کے اقدامات موثر ثابت ہوں گے؟
تحریک انصاف کی حکومت نے 'گناہ ٹیکس' کی صورت میں ایک نیا قدم اٹھانے کی اعلان بھی کیا ہے۔ یہ تجویز اس تناظر میں بہترین ہے کہ جومصنوعات انسانی صحت میں خرابی پیداکرتی ہیں ، اس خرابی کا علاج بھی انہی کمپنیوں کی ذمہ داری ہوناچاہئے، چنانچہ حکومت نے میٹھے مشروبات پر بھی یہ ٹیکس عائد کیاہے،کیونکہ چینی سے تیار ہونے والے مشروبات بھی انسانی صحت پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
حکومت اس وقت بجٹ میں صحت کے شعبے پر جی ڈی پی کا 0.6 فیصد مختص کرتی ہے۔ سگریٹ نوشی سمیت ایسی تمام مصنوعات جو انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں، پر ' گناہ ٹیکس' عائد کرنے کی تجویز خاصی پرانی ہے ، حکومتوںکو ان مضراثرات سے نمٹنے یعنی صحت عامہ کے لئے ایک بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ 'گناہ ٹیکس'دنیا کے45 ممالک میں وصول کیا جارہاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹیکس تمام ممالک میں اِسی نام سے وصول کیاجاتا ہے۔
امریکا میں سگریٹ کے ایک پیکٹ پر ڈیڑھ ڈالر وصول کیاجاتاہے، یعنی200 پاکستانی روپے ۔ برطانیہ میں چینی سے تیارشدہ ایک لیٹر مشروب پر 100 پاکستانی روپے کے برابر ٹیکس وصول کیاجاتاہے۔ پاکستان میں 'گناہ ٹیکس' کس قدر وصول کیاجائے گا، تاحال فیصلہ نہیں ہوسکا۔ ماہرین صحت کا مطالبہ ہے کہ حکومت مضرصحت مصنوعات پر بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرے تاکہ ایک طرف حکومت پر صحت عامہ پر اخراجات کرنے کا بوجھ کم ہو، دوسری طرف عوام الناس پر بھی بوجھ کم پڑے اور پاکستانی ایک صحت مند قوم بن سکیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ بھاری بھرکم ٹیکس عائد کرنے کا فائدہ ہوگا کہ مضرصحت مصنوعات کم عمر یا نوجوانوں کی استطاعت سے باہر ہوجائیں گی۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 1500نوجوان یا کم عمر لڑکے سگریٹ نوشی میں مبتلا ہوتے ہیں، حکومت چاہتی ہے کہ اس تعداد میں کمی آئے۔ پاکستان میں صحت عامہ کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے بعض ادارے ایک طویل عرصہ سے مسلسل حکومت پر زور دے رہے تھے کہ وہ 'گناہ ٹیکس' عائد کرے۔
صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی سے ماہرین صحت کا ایک وفد ملا جہاں یہ مطالبہ ایک بارپھر پیش کیاگیا، صدرمملکت نے یقین دلایا کہ وہ اسکے لئے ہرممکن کردار ادا کریں گے۔ یہ تجویز مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بھی پیش کی گئی لیکن اسے منظور نہ کیاگیا۔ پاکستانیوں کو مکمل صحت مند قوم بنانا، شاید یہ ہماری سابقہ حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں تھا۔
ماہرین کا کہناہے کہ حکومت گناہ ٹیکس نافذ کرتے ہوئے پوری طرح ہوشیار رہے کہ سگریٹ تیار کرنے اور فروخت کرنے والے اس ٹیکس کا بوجھ خریداروں پر نہ ڈال سکے۔ ویسے بعض حلقوں کا کہناہے کہ گناہ ٹیکس کا نفاذ اس قدر آسان نہیں، جتنا سمجھاجاتا ہے کیونکہ ملک میں تمباکو انڈسٹری غیرمعمولی طور پر موثر اور طاقتور ہے۔ اب یہ وزیراعظم عمران خان جیسے مضبوط قوت ارادی کے مالک حکمران کا امتحان ہے، آیا وہ اپنی قوم کا تحفظ کرنے اور اسے ایک مکمل صحت مند قوم بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا تمباکوانڈسٹری فتح یاب ہوتی ہے!۔