گر پھیرن نہیں تو جان بھی نہیں

سخت سردی کے موسم میں کشمیریوں سے پھیرن پہننے کا حق چھیننا جہاں مضحکہ خیز ہے، وہیں دلی سرکار کے خوف کی علامت بھی ہے

پھیرن کشمیر کی ثقافت کا ممتاز حصہ اور ایک محبوب قدیم روایتی لباس ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کشمیر کے سنگلاخ پہاڑ، گھاٹیاں اور وادیاں تہذیب و ثقافت کا ایک حسین امتزاج ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں کشمیری ثقافت پر ایران کا اثر غالب ہے، تاہم سرد موسم کے پیش نظر یہاں کانگڑی اور پھیرن کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ سموار سے نون چائے کی اٹھتی ہوئی بھاپ بھی کشمیری ثقافت کی آئینہ دار ہے۔ وادی کشمیر گذشہ ستر برسوں سے آگ اور خون کی گھاٹی میں بدل چکی ہے، جہاں روز لاشیں گرتی اور گھر جلتے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت نے اب کشمیریوں کی جانوں کے بعد یہاں کی ثقافت پر حملہ کردیا ہے۔

مودی سرکار نے کشمیریوں کے پھیرن پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔ سرکاری حکمنامے کے مطابق محکمہ تعلیم کے انتظامی دفاتر، سول سیکرٹریٹ میں افسروں، ملازمین اور سائلین کے پھیرن پہننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ پھیرن کشمیر کی ثقافت کا ممتاز حصہ اور ایک محبوب قدیم روایتی لباس ہے۔ ایک تجزیہ کے مطابق کشمیر میں ہر سال تقریباً انتیس لاکھ کے قریب نئے پھیرن تیار کیے جاتے ہیں۔

کشمیری موسم سرما اور گرما کےلیے علیحدہ پھیرن تیار کرتے ہیں۔ وادی میں کئی اقسام کے پھیرن بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ مردوں کےلیے تن دار پھیرن، بانی دار پھیرن، کالر دار پھیرن، ٹوپہ دار پھیرن، جبکہ عورتوں میں تلہ دار پھیرن، کامہ دار پھیرن، لاد دار پھیرن، لب چاکی پھیرن، بیگی پھیرن، کوٹھہ پھیرن، قراب پھیرن، مہرنہ پھیرن زیادہ مقبول ہیں۔ ہمارا پھیرن ہمارے مزاج اور اقتصادی حالت کا عکاس ہوتا ہے۔ پھیرن ہماری شان ہے، ہماری پہچان ہے۔ کشمیر میں ہر مرد کے پاس کم سے کم ایک پھیرن اور ہر خاتون کے پاس کم سے کم چار پھیرن ضرور ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے پاس اوسطاً دو پھیرن ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر سال کم سے کم بیس سے تیس لاکھ پھیرن سلائے جاتے ہیں۔ وادی میں پھیرن نے ایک بڑی صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے۔

مقبوضہ وادی میں پھیرن پر پابندی کیخلاف بڑے پیمانے پر ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کشمیری اسے اپنی ثقافت پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ سری نگر، اننت ناگ، پلوامہ، اُوڑی اور مظفرآباد میں مقیم کشمیریوں نے بھارتی حکومت کے اس اقدام کو شرمناک قرار دیا ہے۔


قابض افواج نے پھیرن کو سیکورٹی رسک قرار دیا ہے۔ ہاں کشمیریوں کی سانسیں بھی تو بھارت کےلیے سیکورٹی رسک ہیں، جو ہر سانس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ وادی میں موجود صحافیوں اور معصوم بچوں کو پھیرن کے استعمال سے روک دیا گیا ہے۔ سخت سردی اور وادی میں برف باری کے باوجود ان سے پھیرن پہننے کا حق چھیننا جہاں مضحکہ خیز ہے، وہیں دلی سرکار کے خوف کی علامت بھی ہے۔ پاکستانی کبوتروں، پرندوں اور جانوروں سے خوفزدہ بھارتی حکومت کو اب کشمیری پھیرن سے خوف محسوس ہورہا ہے۔ بھارتی حکومت کے اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مودی جی اپنی چائے کی کیتلی کی بقاء کےلیے کشمیری سموار پر بھی پابندی عائد کردیں گے، رہی کانگڑی کی بات تو اس کے دھکتے کوئلے ہی مودی سرکار کے رونگٹے کھڑے کرنے کےلیے کافی ہیں۔

سری نگر میں موجود صحافی جمیل اختر کے مطابق وادی کے نوجوان، مرد و خواتین اس فیصلے پر بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ایک جانب سوشل میڈیا پر پھیرن سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری جانب مودی حکومت کے اقدامات کے خلاف فوجی کیمپس، سرکاری دفاتر اور اہم مقامات پر اجتماعی پھیرن پہن کر جا رہے ہیں، کشمیری بچے اور خواتین بھی پھیرن سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ پلوامہ میں چودہ کشمیریوں کی شہادت کے بعد جہاں وادی میں بھارت سے نفرت میں اضافے میں شدت آئی ہے، وہیں کشمیریوں کی ثقافت پر بھارتی وار اس نفرت کو آتش فشاں میں بدل کر رکھ دے گا۔

حکومتی پابندی کیخلاف وادی میں موجود صحافی دوستوں اور عزیز و اقارب سے رابطہ کیا، سبھی اس بات پر متفق تھے کہ دہلی سرکار کا فیصلہ کہساروں میں سوئے ہوئے شیروں کو بیدار کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ صحافیوں نے 1931 میں ڈوگرہ راج کے خلاف اٹھنے والی تحریک مزاحمت کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ تب بھی کشمیری مسلمانوں کے گائے ذبح کرنے پر پابندی کیخلاف ایک طوفان برپا ہوا تھا، جس نے مظفرآباد، گلگت اور جموں تک ہر طرف بغاوت کی بنیاد رکھ دی۔ کیوں کہ کشمیری قوم اپنا خون معاف کرسکتی ہے، لیکن یہ قوم اپنی ثقافت، تہذیب، مذہب اور اقدار پر حملوں کو برداشت نہیں کرسکتی۔

سرکاری حکم کیخلاف بھارت نواز سیاسی جماعتیں بھی حریت کانفرنس کیساتھ کھڑی ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ احمقانہ فیصلہ بھارتی راج کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ کشمیری کی معصوم بچیاں گھیرے دار پھیرن اور سر پر نگین دوپٹہ باندھے وادی کے پھولوں میں آزادی کے نغمے گائیں گی، لوک کشمیری گیتوں میں آزادی کا پیغام حقیقت میں آزادی کا روپ ضرور دھارے گا۔ کشمیری قوم کا اب ایک ہی اعلان ہے، پھیرن نہیں تو جان بھی نہیں۔ یہی نعرہ آج کے جدید دور میں کشمیری ثقافت کی زندگی کا پیغام ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story