نیٹوانخلا کے بعد پاکستان ٹوٹنے کا آغاز ہوجائیگا امتیاز عالم
ہمیں جہاد پالیسی چھوڑنا ہوگی، کامران شفیع، احمد رشید کا سیفماکی تقریب سے خطاب
سال2014 افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکا سال ہے لیکن ہم نے ابھی تک یہ طے نہیں کیاکہ ہم کیاچاہتے ہیں۔
نیٹوافواج کی واپسی کے بعد یہ خطہ بدترین حالات کاشکار ہوجائے گا، طالبان کے ہتھیاروں کا رخ پاکستان کی جانب ہوگا اور سول وارکا خطرہ پیدا ہوجائے گا، لہٰذا اس دلدل سے نکلنے کے لیے پاکستان کواپنی جہاد پالیسی چھوڑناپڑے گی۔ ان خیالات کااظہار مقررین نے ''افغانستان میںجنگ کے خاتمے کے بعدکی صورت حال'' کے موضوع پرمنعقدہ نشست میںکیا جس کااہتمام سیفمانے کیاتھا۔ سیفماکے سیکریٹری جنرل امتیازعالم نے کہاکہ نیٹو افواج کی واپسی کے بعدہماری پختون بیلٹ طالبانائزڈ ہوجائے گی اور پاکستان ٹوٹنے کاعمل شروع ہوجائے گا۔ ہم نے ابھی تک یہ طے نہیں کیاکہ ہم کیاچاہتے ہیں۔
ہمیں ملاعمر اور طالبان کی فتح پر تشویش ہے امریکیوںکو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بہرحال اس کے بعد گلی گلی لڑائی ہوگی۔ معروف دانش ور اور مصنف کامران شفیع نے کہاکہ افغانستان کے معاملے میں فوج کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اب یہ معاملہ دلدل کی صورت اختیارکر گیاہے جس سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنی جہادپالیسی چھوڑنا ہوگی۔ اگر وزیراعظم نوازشریف اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان کے حالات ٹھیک نہ کیے تو پھریہ آخر ی موقع ہوگا جس کے بعد کسی کوبھی موقع نہیںملے گا۔ تاہم انھوںنے کہاکہ فوج اقتدارمیں نہیںآئے گی۔ مسائل اس قدرہیں کہ جرنیلوں کوخود سویلین کندھوںکی ضرورت ہے۔ اب مصر والا تجربہ یہاں نہیںہوگا۔ احمدرشید نے کہاکہ طالبان نے اسٹیٹ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے قطرکو دعوت دی کہ وہ افغانستان کے معاملات میں اپناکردار اداکرے کیونکہ پاکستان ایک متنازعہ ملک بن چکاہے۔ انھوںنے کہاکہ افغانستان کے ایشوپر مذاکرا ت کے سواکوئی راستہ نہیںہے اور امریکاخود اس کاپوری طرح ادراک رکھتاہے۔ انھوںنے کہاکہ اگر جنگ جاری رہی توہمیں کچھ بھی نہیںملے گا۔
نیٹوافواج کی واپسی کے بعد یہ خطہ بدترین حالات کاشکار ہوجائے گا، طالبان کے ہتھیاروں کا رخ پاکستان کی جانب ہوگا اور سول وارکا خطرہ پیدا ہوجائے گا، لہٰذا اس دلدل سے نکلنے کے لیے پاکستان کواپنی جہاد پالیسی چھوڑناپڑے گی۔ ان خیالات کااظہار مقررین نے ''افغانستان میںجنگ کے خاتمے کے بعدکی صورت حال'' کے موضوع پرمنعقدہ نشست میںکیا جس کااہتمام سیفمانے کیاتھا۔ سیفماکے سیکریٹری جنرل امتیازعالم نے کہاکہ نیٹو افواج کی واپسی کے بعدہماری پختون بیلٹ طالبانائزڈ ہوجائے گی اور پاکستان ٹوٹنے کاعمل شروع ہوجائے گا۔ ہم نے ابھی تک یہ طے نہیں کیاکہ ہم کیاچاہتے ہیں۔
ہمیں ملاعمر اور طالبان کی فتح پر تشویش ہے امریکیوںکو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بہرحال اس کے بعد گلی گلی لڑائی ہوگی۔ معروف دانش ور اور مصنف کامران شفیع نے کہاکہ افغانستان کے معاملے میں فوج کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اب یہ معاملہ دلدل کی صورت اختیارکر گیاہے جس سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنی جہادپالیسی چھوڑنا ہوگی۔ اگر وزیراعظم نوازشریف اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان کے حالات ٹھیک نہ کیے تو پھریہ آخر ی موقع ہوگا جس کے بعد کسی کوبھی موقع نہیںملے گا۔ تاہم انھوںنے کہاکہ فوج اقتدارمیں نہیںآئے گی۔ مسائل اس قدرہیں کہ جرنیلوں کوخود سویلین کندھوںکی ضرورت ہے۔ اب مصر والا تجربہ یہاں نہیںہوگا۔ احمدرشید نے کہاکہ طالبان نے اسٹیٹ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے قطرکو دعوت دی کہ وہ افغانستان کے معاملات میں اپناکردار اداکرے کیونکہ پاکستان ایک متنازعہ ملک بن چکاہے۔ انھوںنے کہاکہ افغانستان کے ایشوپر مذاکرا ت کے سواکوئی راستہ نہیںہے اور امریکاخود اس کاپوری طرح ادراک رکھتاہے۔ انھوںنے کہاکہ اگر جنگ جاری رہی توہمیں کچھ بھی نہیںملے گا۔