صدر ٹرمپ کا شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا اعلان

امریکی فوجیں شمالی شام میں متعین ہیں جب کہ کچھ تعداد اردنی اور عراقی سرحد کے قریب بھی تعینات ہے۔

امریکی فوجیں شمالی شام میں متعین ہیں جب کہ کچھ تعداد اردنی اور عراقی سرحد کے قریب بھی تعینات ہے۔ فوٹو: فائل

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے تمام امریکی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک شام میں داعش کو شکست دے دی گئی ہے۔ ادھر شام میں لڑنے والے کُرد جنگجوؤں کا خیال ہے کہ ذہن کو چونکا دینے والے اس فیصلے کے جغرافیائی اور سیاسی طور پر غیرمعمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہمارے شام میں آنے کا واحد مقصد داعش کو شکست دینا تھا جس میں ہم کامیاب ہو چکے ہیں۔

امریکی حکام نے میڈیا کو بتایا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے کو منگل کو حتمی شکل دی گئی تھی جس کے نتیجے میں شام سے تمام امریکی فوجی نکال لیے جائیں گے جن کی تعداد تقریباً دو ہزار ہے جن میں زیادہ تر تربیت دینے اور مشورہ دینے کے مشن پر ہیں یا داعش کے مدمقابل کھڑی ہونے والی مقامی طاقتوں کی مدد کرنا ہے۔ تاہم امریکی حکام اس بات کا کوئی اشارہ نہ دے سکے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کی ''ٹائم لائن'' کیا ہو گی، البتہ یہ کہا گیا ہے کہ انھیں جلد از جلد واپس بلانے کی کوشش کی جائے گی۔

امریکی ایوان صدر وہائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا ہے کہ داعش مکمل طور پر شکست کھا چکی ہے جب کہ امریکی فوج کے ساتھ درجن بھر قومیتوں کے لوگ داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ مس سارہ نے مزید بتایا کہ امریکی فوجی دستوں کی واپسی شروع ہو چکی ہے اور اب اس مہم کے اگلے درجے پر غور کیا جائے گا۔


یہ ظاہر ہے کہ شام میں داعش کی قوت بہت سکڑ چکی ہے۔ کردوں کو شام میں امریکا کا خاص اتحادی تصور کیا جاتا ہے جب کہ ترکی انھیں دہشتگردوں کا نام دیتا ہے۔ انقرہ نے کہا ہے کہ وہ کردوں کے خلاف فوجی آپریشن کا پروگرام بنا رہا ہے۔

امریکی فوجیں شمالی شام میں متعین ہیں جب کہ کچھ تعداد اردنی اور عراقی سرحد کے قریب بھی تعینات ہے۔ ری پبلکن سینیٹر لینڈزے گراہم نے اپنی پارٹی کے صدر کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔

برطانوی جریدے نے بھی صدر ٹرمپ کے شام سے فوجی انخلا کے فیصلے کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ اس سے امریکی اتحادی کردوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ یہ فیصلہ فتح یابی کا فیصلہ نہیں بلکہ انخلا کا فیصلہ ہے جو کامیابی کی ضد ہے۔ البتہ ایران کی طرف سے بہت خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے اسد حکومت کے علاوہ روس کو بھی مسرت ہوئی ہے۔صدر ٹرمپ کے مخالفین اس فیصلے کو ایران اور روس کی فتح قرار دے رہے ہیں۔
Load Next Story