’’والدین کی ڈانٹ ڈپٹ پرگھر چھوڑانشے کے عادی بن گئے‘‘

اب این جی اوکیساتھ کام کرتاہوں،نشہ چھوڑدیا،عثمان،گھرجانے کو دل نہیں کرتا، عامر.

نشہ چھوڑنانہیں چاہتا،نشئی نوجوان،لاہور کے پارکوں کاسروے،ماریہ ذوالفقارسے گفتگو فوٹو: فائل

ہمارے اردگردمختلف پارکوں میں بیشمار ایسے بچے ملتے ہیں جو کسی وجہ سے گھر سے نکلے اور پھر نشے کی عادی بن گئے بعض بچوں کو گھر والوں نے واپس اپنے گھروں میں لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ عرصہ بعد پھر گھرکی قید کو ناپسند کرکے سڑک کی زندگی گزارنے آگئے۔

فٹ پاتھوں، پارکوں اور سڑک کی زندگی گزارنے کے عادی بچے جن کو اسٹریٹ یوتھ بھی کہا جاتاہے ہمارے معاشرے کا سنگین مسئلہ ہیں یہی بچے جرائم کی بڑی وجہ بھی بنتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب چائلڈ پروٹیکشن جیسے دیگر ادارے اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے توان کے رہنے کا فائدہ کیاہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام بات سے بات کی ٹیم نے میزبان ڈاکٹر ماریہ ذوالفقار کی قیادت میں لاہور کے مختلف پارکوںکاسروے کیااور نشے کے عادی بچوں سے بات چیت کی۔ بادشاہی مسجد کے عقب میں واقع علی پارک میں رہنے والے عثمان نامی نوجوان نے کہاکہ میں گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ سے دلبرداشتہ ہوکر فیصل آباد میں اپنے گھر کو چھوڑ کر نکل آیا اور سڑک پر رہنے والے بچوں سے دوستی کرلی میں اسوقت چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا کچھ عرصہ بعد میں لاہور آگیا اور یہاں پر لاہوراسٹیشن کے قریب اسڑیٹ یوتھ کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔




وہاں آکر میں نے صمدبانڈ کا نشہ بھی شروع کردیا میرے ساتھی رات کو ریلوے کے گودام سے چوریاں بھی کرتے تھے ایک روز وہ پکڑے گئے پولیس نے مجھے بھی دوسال کے لیے جیل بھجوادیا پھرجیل کے بعد میں چائلڈ پروٹیکشن کے ادارے میں آگیا جہاں میں نے میٹرک پاس کیا اور پھر میں لاہور کے علی پارک میں آگیا یہاں میں نے نشہ توچھوڑ دیا لیکن نشہ کرنے والوں سے دوستی ضرور ہوگئی پھرمیں اسٹریٹ یوتھ پر کام کرنے والی تنظیم سائبان کیلیے کام شروع کردیا جو نشہ کرنے والے بچوں کیلیے علاج تعلیم اور کھیل کے مواقع پیدا کرتی ہے اب میں اللہ کا شکر ہے کہ اسٹریٹ یوتھ کے سدھار کیلیے کام کررہا ہوں جو بچے گھروں سے نکل آتے ہیں ان کے ساتھ دوستی کرکے ان کو گھر واپس جانے کیلیے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک نوجوان نے کہاکہ گوجرانوالہ سینٹرمیں میرا نشے کا علاج ہوا ۔

مگر پھر گھر والوں نے گھر سے نکال دیا اب لاہور میں پھیری لگاتا ہوں اور نشہ کرتا ہوں نشہ چھوڑنا نہیں چاہتا۔ نشے کے عادی عامر نامی بچے نے کہا کہ چار سے پانچ سال سے سڑک کی زندگی گزاررہا ہوں اور گھر واپس جانے کو دل نہیں کرتا امی مرچکی ہے اور ابا مارتے ہیں ہوٹل پر کام کرکے چار ہزارکماتا ہوں کچھ اپنا خرچ چلاتا ہوں اور کچھ نشہ کرتاہوں۔ ایک اور نشے کے عادی بچے نے کہاکہ وہ دس سال کی عمر میں گھر سے کام تلاش کرنے نکلا تھا پھر گھر واپس نہیں جاسکااب20سال کا ہوں اور دس سال سے مسلسل نشہ کررہا ہوں۔ ایک اور ننھے نشئی نے کہاکہ جب میں صمد بانڈ کا نشہ کرتا ہوں تو مجھے بہت مزہ آتا ہے اور مجھے سب کچھ بھول جاتا ہے، اگر کوئی میرا علاج کرائے تومیں نشہ چھوڑ دوں گا۔ چائلڈپروٹیکشن بیورو کی حدود میں ایک بچے نے کہاکہ میں رکشہ چلاتاہوں اور چند نشئی لوگوں نے میرے ساتھ زیادتی کی،میں نے بادامی باغ تھانے میں جاکر شکایت کی لیکن انھوں نے مجھے اپنے پاس قید کرلیا اور وہ بھی میرے ساتھ زیادتی کرتے رہے۔
Load Next Story