تصوّف اور خانقاہی نظام

اللہ کی کلّی اطاعت اور محسن انسانیتؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کا نام تصوّف ہے۔

خانقاہ، دراصل درس گاہ صُفّہ کی طرح وہ تربیت گاہ ہے جہاں شیخ اپنے مرید کی روحانی و اخلاقی تربیت کرتا اور اس کا تعلق اللہ رب العزت کے ساتھ جوڑتا ہے۔ فوٹو: فائل

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام دنیا کا وہ واحد دین ہے جس نے مجموعی طور پر تمام انسانیت کی چارہ گری اور دست گیری کی ہے۔ اسلام، ایمان اور احسان کی ان منزلوں کو حدیث جبرائیلؑ میں بڑی شرح و بسیط کے ساتھ ہمارے نبی مہربانؐ نے بیان فرما دیا ہے۔

جہاں اسلام کے عنوان سے شریعت، ایمان کے عنوان سے عقائد اور ایمانیات و احسان کے جلی عنوان کے تحت تزکیہ و تصوّف کے مقامات کی جانب واضح راہ نمائی کر دی گئی ہے۔ تاریخ اسلام میں صوفیائے کرامؒ نے خانقاہی نظام کی بنیاد رکھی اور پروان چڑھایا۔

خانقاہ، درحقیقت درس گاہ صفّہ کی طرح وہ تربیت گاہ ہے جہاں شیخ اپنے مرید کی روحانی و اخلاقی تربیت کرتا اور اس کا تعلق ﷲ رب العزت کے ساتھ جوڑتا ہے۔ لہٰذا خانقاہی نظام کی اساس بھی تعلق ﷲ ہی ہے۔ بل کہ خانقاہی نظام کا مقصد اولین ہی ﷲ اور اس کے رسولؐ کی محبت کو فروغ دینا ہے۔ صوفیائے کرامؒ کی خانقاہیں ہمیشہ سے ﷲ کے بندوں کی داد رسی، تربیت، تعلیم اور ذکر و فکر کا وہ مرکز رہی ہیں، جہاں سے کروڑوں تشنگان معرفت فیض یاب ہوئے اور لاکھوں گم گشتہ راہیوں کو محبت الہٰی کی منزل کا سراغ ملا۔

ہر لمحہ اپنے خالق سے ڈرنا، دین کے کام کو بغیر کسی بھی دنیاوی لالچ کے سرانجام دینا، ہر انسان کو اپنے سے بہتر سمجھنا، اپنی ذات کی نفی کرنا، روپے پیسے سے محبت اور نہ ہی اسے جمع کرنا، شہرت و نام وری سے بچنا، طبیعت میں نرمی اور مزاج میں عاجزی پیدا کرنا، حقیقت میں یہی وہ بنیادی اوصاف ہیں جن سے مل کر تصوّف کا ابتدائی خاکہ تیار ہوتا ہے۔ ﷲ کے ولیوں کی زندگی انہی تعلیمات کا مظہر تھی۔ ان کے کردار میں پاکیزگی، سیرت میں تقدّس، پیغام میں اخلاص اور لہجوں میں بلا کی شفقت ہی تھی کہ جس نے تاریخ کے بہتے دھاروں کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔

مہر و محبت کے یہ پیکر، علم و آشتی کے یہ چلتے پھرتے مجسمے، صلح و نرمی کے یہ جیتے جاگتے نمونے، صبر و تحمل کے یہ کوہِ وقار، زہد و تقویٰ کے یہ عظیم شاہ کار اور عدل و انصاف کے یہ پیام بر اس دنیا میں رہے تو اس شجرِ سایہ دار کی مانند جو اپنوں کو بھی سایہ فراہم کرتا ہے اور بیگانوں کو بھی، جس کی چھاؤں میں دوست بھی بیٹھتے ہیں اور دشمن بھی۔ باد نسیم کے خوش گوار جھونکے کی مانند ان خلیق اور شفیق ہستیوں نے مخلوق کے دلوں اور ذہنوں پر حکومت کی۔ یہ عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ٹھہرے مگر افسوس کہ جب دیکھا گیا کہ لوگ تو دل و جان سے ان پر فدا ہو رہے ہیں تو کچھ لوگوں نے طلب دنیا کی خواہش میں روحانیت کا لبادہ اوڑھا اور پیری مریدی کے نام پر لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔


انہوں نے اپنی دکانیں سجا کر اسے کاروبار بنا لیا، غیر محرم خواتین سے میل جول اور نشست و برخاست کے علاوہ بہت سے غیر شرعی افعال کو بھی طریقت و تصوّف کا نام دے ڈالا۔ دوسری جانب بھی صورت حال مخدوش ہونے لگی، مسند و سجادہ کے کچھ وارثوں کو بھی ہوس زر و زمین نے اپنے اہداف سے ناآشنا کردیا اور ہوا یوں کہ وہ آستانے جہاں سے لاکھوں زندگیوں میں انقلاب بپا ہوا کرتے تھے، جہاں پر تزکیے و تصفیے کی منازل طے کرائی جاتی تھیں، جہاں پر اتفاق و اتحاد اور اخوّت و یگانگت کا درس دیا جاتا تھا، جہاں پر سیرت سازی کی جاتی تھی افسوس کے آج درگاہوں کے کچھ مسند و سجادہ نشین فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئے۔

مریدوں کی تعداد بڑھانا ان کا مطمع نظر بن گیا۔ جائز و ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کر کے جائیدادیں کھڑی کرنا ان کا مقصد حیات بن گیا۔ نمود و نمائش کی دوڑ، جاہ و حشم میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا خبط، اونچی کرسی اور امتیازی نشست پر بیٹھنے کی بچکانہ خواہش، خوشامد کا شوق اور خلق خدا کی کردار سازی اور تعلیم و تربیت سے کلیتاً دوری کے باعث انہوں نے روحانیت کے چشمۂ صافی کو بھی گدلا کر دیا۔

خانقاہی نظام کے تشکیلی عناصر میں سادگی، علم و عمل، تربیت اور اخلاقیات کو فوقیت حاصل ہے۔ لیکن عصر حاضر میں یہ سب عناصر کچھ خانقاہوں سے ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عصر حاضر میں ہماری کچھ خانقاہوں میں رسوم و روایات اور مظاہر پرستی کا دور دورہ ہے، جبّہ و دستار، تسبیح و مصلی صرف ظاہری دکھاوے کے طور پر باقی ہے اور تصوّف کی حقیقی روح اور تربیتی ماحول کچھ خانقاہوں پر موجود نہیں ہے۔ کچھ درباروں اور خانقاہوں پر میلوں، ٹھیلوں، رقص و سرود اور فال نکالنے والوں کا راج ہے۔

مرد و زن کا اختلاط اور دیگر کئی غیر شرعی امور رواج پاتے چلے جارہے ہیں۔ ضعف الاعتقادی اپنے عروج پر ہے۔ ایسے میں تصوّف اور خانقاہوں کے نظام میں اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں۔ تصوف تو دین کی مکمل فہم اور سمجھ بوجھ کا نام ہے کہ دین پر قابل اعتماد مصادر و مراجع کے مطابق عمل کیا جائے۔ اسلام میں ایسے کسی تصوّف کی گنجائش نہیں جو شریعت کے احکام سے بے تعلق ہو، کسی پیر کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ نماز، روزے، حج اور زکوۃ کی پابندی سے خود کو آزاد قرار دے یا دوسروں کو آزادی کے پروانے بانٹتا پھرے۔ کوئی صوفی یا پیر ان قوانین کو قطعا منسوخ نہیں کرسکتا جو معاشرت اور معیشت، اخلاق اور معاملات، حقوق و فرائض اور حلال و حرام کی حدود کے متعلق ﷲ اور اس کے رسول ؐ نے بتائے ہیں اور جن کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔

تصوف تو دراصل ﷲ اور رسول ؐ کی سچی محبت بل کہ عشق کا نام ہے۔ عشق کا تقاضا یہ ہے کہ ﷲ اور اس کے رسول ؐ کی پیروی سے بال برابر بھی انحراف نہ کیا جائے۔ اسلامی تصوّف، شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، بل کہ شریعت کے احکام کو انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ بجا لانے اور اطاعت میں ﷲ کی محبت اور اس کے آخری نبی محسن انسانیت ﷺ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق زندگی گزارنے کا نام تصوّف ہے۔
Load Next Story