اسکول مالکان کو فیس اسٹرکچر پیش کرنے کا حکم
لگتا ہے اسکول مالکان عدالت سے تعاون ہی نہیں کرناچاہتے،جسٹس عقیل عباسی
ہائی کورٹ نے نجی اسکولوں کو 5 فیصد سے زائد فیس سے متعلق توہین عدالت کی درخواست پر اسکول مالکان کو 14جنوری کو تفصیلی فیس اسٹرکچر پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
جسٹس عقیل عباسی، جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسز اشرف جہاں پرمشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو پرائیویٹ اسکول فیس میں اضافے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست کی سماعت ہوئی،مختلف اسکولوں نے فیس ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا، عدالت نے فیس ریکارڈ پر اعتراضات لگا دیے،جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی کتنی ایڈجسٹمنٹ کی ہے؟ اہم سوالات کے جواب تو دیے ہی نہیں،یہ تو ماہانہ فیس کا ریکارڈ ہے،ٹیوشن کی فیس کی مد میں کتنا وصول کررہے ہیں؟
وکیل پرائیویٹ اسکول نے موقف دیا کہ تفصیلی ریکارڈ پیش کرنے کے لیے صرف ایک دن کی مہلت دی جائے، سٹی اسکول کے وکیل نے موقف اپنایا سب زیادہ منافع بیکن ہاؤس اسکول کمارہا ہے، جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کی کمیٹی نے کیا نیجہ نکالا؟
سندھ ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا 5 فیصد سے زائد فیس نہیں بڑھا سکتے اس کا کیا بنا؟ درخواست گزار والدین کے وکیل نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست دائر ہونے کے بعد اسکول مالکان نے 2 قسم کے فیس اسٹرکچر عدالت میں پیش کیے ،جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے اسکول فیس اسٹرکچر کو محکمہ چیک کرے گا، ایسا لگتا نجی اسکول مالکان عدالت سے تعاون ہی نہیں کرنا چاہتے، اب ایسا کرنا پڑے گا جب تک مکمل ریکارڈ نہیں پیش کیا جاتا کسی بچے سے فیس وصول نہیں کریں گے۔
عدلیہ نے اسکول مالکان کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ہر تاریخ پر عدالت لگتی ہے اور آپ آکر چلے جاتے ہیں،ریکارڈ جمع کرنے کے لیے مہینے لگاتے ہیں لگالیں پھر کسی بچے سے فیس بھی نالیں،سپریم کورٹ نے بھی حکم دیا کسی بات پر عملدرآمد نہیں ہورہا، اسکول مالکان کے وکیل نے موقف دیا کہ ہم بہت مشکل میں ہیں، ہم نے فیس بڑھائی کیوں یہ تو پوچھا جائے، اس طرح تو اسکول بند کرنے پڑیں گے۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے اگر آپ قانون کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں تو ادارے بند ہی ہونے چاہیں، آپ کو 2005 میں ہی ادارے بند کردیناچاہیے تھے جب اسکول فیس سے متعلق قانون آیا تھا،2017 کے حکم کے بعد زیادہ فیس لے رہے ہیں تو والدین فیس نہ دیں، کسی بھی اسکول کے بچے کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے ،اگر کسی بچے کو تنگ کیا گیا تو سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ،بچوں کے والدین فکر نہ کریں ہم اسکولوں پر آڈیٹر بٹھائیں گے، فیکٹ اینڈ فیگر آنے دیں پھر دیکھتے کیا کرنا ہے، بچے اسکول جائیں اور امتحانات میں بھی حصہ لیں۔
جسٹس عقیل عباسی، جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسز اشرف جہاں پرمشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو پرائیویٹ اسکول فیس میں اضافے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست کی سماعت ہوئی،مختلف اسکولوں نے فیس ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا، عدالت نے فیس ریکارڈ پر اعتراضات لگا دیے،جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی کتنی ایڈجسٹمنٹ کی ہے؟ اہم سوالات کے جواب تو دیے ہی نہیں،یہ تو ماہانہ فیس کا ریکارڈ ہے،ٹیوشن کی فیس کی مد میں کتنا وصول کررہے ہیں؟
وکیل پرائیویٹ اسکول نے موقف دیا کہ تفصیلی ریکارڈ پیش کرنے کے لیے صرف ایک دن کی مہلت دی جائے، سٹی اسکول کے وکیل نے موقف اپنایا سب زیادہ منافع بیکن ہاؤس اسکول کمارہا ہے، جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کی کمیٹی نے کیا نیجہ نکالا؟
سندھ ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا 5 فیصد سے زائد فیس نہیں بڑھا سکتے اس کا کیا بنا؟ درخواست گزار والدین کے وکیل نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست دائر ہونے کے بعد اسکول مالکان نے 2 قسم کے فیس اسٹرکچر عدالت میں پیش کیے ،جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے اسکول فیس اسٹرکچر کو محکمہ چیک کرے گا، ایسا لگتا نجی اسکول مالکان عدالت سے تعاون ہی نہیں کرنا چاہتے، اب ایسا کرنا پڑے گا جب تک مکمل ریکارڈ نہیں پیش کیا جاتا کسی بچے سے فیس وصول نہیں کریں گے۔
عدلیہ نے اسکول مالکان کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ہر تاریخ پر عدالت لگتی ہے اور آپ آکر چلے جاتے ہیں،ریکارڈ جمع کرنے کے لیے مہینے لگاتے ہیں لگالیں پھر کسی بچے سے فیس بھی نالیں،سپریم کورٹ نے بھی حکم دیا کسی بات پر عملدرآمد نہیں ہورہا، اسکول مالکان کے وکیل نے موقف دیا کہ ہم بہت مشکل میں ہیں، ہم نے فیس بڑھائی کیوں یہ تو پوچھا جائے، اس طرح تو اسکول بند کرنے پڑیں گے۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے اگر آپ قانون کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں تو ادارے بند ہی ہونے چاہیں، آپ کو 2005 میں ہی ادارے بند کردیناچاہیے تھے جب اسکول فیس سے متعلق قانون آیا تھا،2017 کے حکم کے بعد زیادہ فیس لے رہے ہیں تو والدین فیس نہ دیں، کسی بھی اسکول کے بچے کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے ،اگر کسی بچے کو تنگ کیا گیا تو سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ،بچوں کے والدین فکر نہ کریں ہم اسکولوں پر آڈیٹر بٹھائیں گے، فیکٹ اینڈ فیگر آنے دیں پھر دیکھتے کیا کرنا ہے، بچے اسکول جائیں اور امتحانات میں بھی حصہ لیں۔