بغیر پھاٹک کے ریلوے کراسنگ پر المناک حادثہ

پاکستان میں ریلوے پھاٹکوں اور ریلوے کراسنگ پر حادثات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔پاکستان شاید دنیا کےان ممالک میں شامل ہو گا...

ریلوے کراسنگ پر پھاٹک نہ ہونے کی وجہ سے حادثہ پیش آیا، ریسکیو حکام۔ فوٹو : اے ایف پی

PESHAWAR:
پاکستان میں ریلوے پھاٹکوں اور ریلوے کراسنگ پر حادثات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔پاکستان شاید دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گا جہاں سب سے زیادہ ریلوے کراسنگ اور پھاٹک غیر محفوظ ہیں۔ اگلے روز شیخوپورہ کے قصبہ خان پور کے قریب بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ پر قراقرم ایکسپریس ایک دیسی ساختہ پیٹر رکشے سے ٹکراگئی ۔جس کے نتیجے میں رکشے میں سوار ایک ہی خاندان کے 13 افراد سمیت 14 افرادجاں بحق ہو گئے جب کہ 2 بچے شدید زخمی ہوئے۔اخبارات میں جو تفصیلات آئی ہیں' ان کے مطابق جاں بحق ہونیوالوں میں رکشہ ڈرائیور، 6 خواتین اور7 بچے شامل ہیں۔ حادثہ اس قدر خوفناک تھا کہ ٹرین رکشے کو ایک کلو میٹر تک گھسیٹتے ہوئے لے گئی۔

رکشہ کے پرخچے اڑ گئے اور مسافروں کے اعضا کٹ کر دور دور تک بکھر گئے۔ ریلوے حکام نے واقعے کا مقدمہ رکشہ ڈرائیور کے خلاف درج کرایا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے اور وہ قریبی دربار پیر شاہ بخاریؒ کے عرس تقریب میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ رکشہ بغیر پھاٹک کے ریلوے لائن عبور کرنے لگا تو اوور لوڈ ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا'اس کا ایک ٹائر پٹڑی میں پھنس گیا۔ اسی دوران کراچی سے براستہ فیصل آباد لاہور آنے والی قراقرم ایکسپریس رکشے کو روندتی ہوئی گزر گئی۔ حادثے کی اطلاع پر ریلوے حکام، ضلعی انتظامیہ اور ارکان اسمبلی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے، جن کی نگرانی میں نعشوں اور زخمیوں کو ریسکیو اداروں کی ایمبولینسوں اور ٹرالیوں میں لاد کر مقامی اسپتال پہنچایا گیا۔ مقامی افراد نے ریلوے انتظامیہ کو اس حادثہ کا ذمے دار قرار دیا ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی اس طرح کے حادثات رونما ہوئے ہیں لیکن ریلوے انتظامیہ نے کراسنگ پر پھاٹک اور سگنل کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ ادھر ترجمان ریلوے نے اعتراف کیا ہے کہ کراسنگ پر پھاٹک نہیں ہے تاہم انھوں نے واقعے کو رکشہ ڈرائیور کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا ۔ ٹرین کے ڈرائیور کا کہنا ہے اس نے ایمر جنسی بریک لگانے کی بڑی کوشش کی لیکن گاڑی کی رفتار اس قدر زیادہ تھی کہ وہ موثر ثابت نہیں ہو سکی۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ آیندہ کسی بھی صوبے نے لائن کراسنگ بنانا ہے تو انڈر گراؤنڈ یا اوور ہیڈ برج کراسنگ کے ذریعے ہی بنانے کی اجازت دی جائے گی۔ ریلوے کراسنگ پر محکمے کی جانب سے قانون سازی ہو رہی تھی تاہم شخوپورہ ٹرین حادثہ کے بعد اس پر کام تیز کر دیا ہے۔ سیاسی دباؤ کے تحت بنائے گئے کراسنگ ختم کر دیے جائیں گے۔

واضح رہے ملک بھر میں مجموعی طور پر 3783 لیول آف کراسنگ ہیں جن میں سے 2442 بغیر پھاٹک کے ہیں' وزیر ریلوے نے محکمے کی انتظامیہ کو 60 روز میں سروے مکمل کرنے کا کہا ہے تا کہ دیکھا جائے کہ کتنی کراسنگز کو بند کیا جا سکتا ہے۔ حادثہ چاہے رکشہ ڈرائیور کی غفلت کا نتیجہ ہو لیکن اس سے محکمہ ریلوے کو بری الذمہ قرار دینا مشکل ہے۔ ریلوے کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جو پھاٹک لگے ہوئے ہیں 'ان کا سروے کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ برسہا برس سے جو پھاٹک لگے ہیں وہی چل رہے ہیں۔ یہ پھاٹک ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔ پاکستان ریلوے کے حادثوں میں سیکڑوں لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود پھاٹکوں کے معاملات حل ہوئے نہ ریلوے کراسنگ کو محفوظ بنایا جا سکا۔ خان پور شیخوپورہ کا المناک حادثے سے بچا جا سکتا تھا۔ اگر وہاں مناسب انتظامات کیے ہوتے ۔
Load Next Story