کبیر اور بابا فرید آج کی اردو اور پنجابی میں
ہم تو یہاں پاکستان میں بیٹھے بیٹھے یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جو مخلوق رزق کی تلاش میں اپنے دیس سے...
لاہور:
ہم تو یہاں پاکستان میں بیٹھے بیٹھے یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جو مخلوق رزق کی تلاش میں اپنے دیس سے نکل کر دور دیسوں میں آباد ہوئی ہے، وہ ادب و تہذیب کے ذیل میں ایک ہی مال ساتھ لے کر وہاں پہنچی ہے اور اب وہاں اس مال کی بہت کھپت ہے۔ بھلا کونسا مال۔۔۔ مشاعرہ
مشاعرہ نے نو آبادکاروں کے طفیل دور کے دیسوں میں امریکا' کینیڈا' برطانیہ اور قریبی دیسوں خاص طور پر عرب شیوخ کی ریاستوں میں خوب زور باندھا۔ مشاعروں نے وہاں مقبولیت حاصل کی تو ہمارے شاعروں کی چاندی ہوگئی۔ شاعرجب مشاعرے لُوٹ کر واپس آتے ہیں تو مشاعرے اور اپنی مقبولیت کی داستانیں ساتھ لے کر آتے ہیں۔ سفرناموں میں وہ جو مضمون باندھتے ہیں اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہاں جو یہاں کے لوگ جا کر آباد ہوئے ہیں بس وہ مشاعرے ہی کو حاصل ادب سمجھتے ہیں اور مشاعرے والی غزل ہی کے دلدادہ ہیں۔
مگر یہ پوری حقیقت نہیں ہے۔ بیشک وہاں سب سے بڑھ کر مشاعرے ہی کا سکہ چلتا ہے۔ اور وہاں لکھنے کا شوق کسی کو چراتا ہے سب سے پہلے غزل میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ مگر ان کے سوا بھی جہاں تہاں ایسے لوگ ملیں گے جو مشاعرے اور غزل سے ہٹ کر بہت سنجیدگی سے اپنے اپنے حساب سے ادبی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی ہم لندن اور مانچسٹر کا چکر لگا کر آئے ہیں۔ ایسے کتنے لوگوں سے مڈھ بھیڑ ہوئی جن کا شغف مشاعرے اور مشاعرے والی غزل سے ہٹ کر ادب کی دوسری اصناف سے ہے۔ لیجیے ایک ایسی ہی شخصیت سے ہم آپ کا تعارف کراتے ہیں۔ یہ صاحب ہمیں مانچسٹر میں ملے تھے۔ دو ضخیم شعری مجموعے انھوں نے ہمارے سامنے رکھ دیے۔ کہا کہ اس کام کو ذرا دیکھیے اور ان پر دو حرف تعارف کے لکھ دیجیے۔ دونوں مجموعوں پر نام ایسے تھے کہ ہم فوراً ہی ان سے مرعوب ہو گئے۔ کبیر اور بابا فرید۔ ان دونوں شاعروں کے کلام پر جس طرح کا انھوں نے کام کیا تھا، اس کے قائل تو ہم اسی وقت ہو گئے۔ مگر ہم نے عذر کیا کہ یہاں ہمارا قیام دو ڈھائی دن کاہے۔ اور مصروفیات اتنی کہ کتاب پڑھنے کی مہلت کہاں مل رہی ہے۔ بہر حال ان کا دل بھی رکھنا تھا۔ جلدی جلدی دونوں ضخیم جلدوں پر نظر دوڑائی اور داد کے چند جملے لکھ دیے۔
اس وقت ہمارے سامنے کبیر کی جلد ہے۔ 'بھگت کبیر۔ شبد'۔ انھوں نے کیا یہ ہے کہ بھگت کبیر کے دو جملوں کو پہلے منظوم اردو میں منتقل کیا پھر منظوم پنجابی میں۔ پھر اردو میں تھوڑی تشریح کی اور کیا خوب ترجمہ کیا ہے۔ مگر پہلے یہ تو سن لیجیے کہ یہ ہیں کون۔ یہ ہیں جاوید اقبال ستار۔ سیدھا سچا نام جاوید اقبال' تخلص ستار۔ بریکٹ میں کرم فرید۔ کیا کرم فرید ثانوی تخلص ہے۔ اس کی تشریح انھوں نے نہیں کی۔ گوجر خاں جائے پیدائش 52میں پیدا ہوئے تھے۔ 68 میں نقل مکانی کر کے انگلستان چلے گئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ملازمت مل گئی۔ بس اس محکمہ میں کھپ گئے۔ تعلیم کے سلسلہ میں لکھا ہے ''نہ ہونے کے برابر''۔ لیکن کام ایسا کر رکھا ہے کہ اچھے اچھے تعلیم یافتہ اس پر رشک کریں۔ مگر خیر ادب میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ میرا جی کی کتنی تعلیم تھی بس وہ بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر ان کی کتاب مغرب و مشرق کے نغمے' دیکھو۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ مشرق سے مغرب تک نئی پرانی شاعری کے شناور نظر آتے ہیں۔
جاوید اقبال ستار کی زیر نظر کتاب سے ان کے چند ترجمے نقل کرتے ہیں۔ پھر خود ہی فیصلہ کر لیجیے کہ ان کی تعلیم نہ ہونے کے برابر کس طرز کی ہے۔ سنیے بھگت کبیر کہتے ہیں ؎
کبیرا جنتر نہ باجئی' ٹوٹ گیا سب تار
جنتر بچارا کیا کرے' چلا بجاون ہار
ترجمہ: اے کبیر زندگی کا ساز خاموش ہے کہ اس کے تار ٹوٹ گئے ہیں اور ساز بجانے والا اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ منظوم اردو ترجمہ:
سازینہ خاموش پڑا ہے ٹوٹ گیا ہے تار
ساز بجے کیا چھوڑ گیا ہے اس کا بجاون ہار
پنجابی ترجمہ: کیہہ وجے گا ساز کوئی جد ٹٹ گئے نیں تار
نالے ساز نوں چھڈ کے ٹُر گیا ساز بجاون ہار
شرح: ساز سے مراد انسان کا جسم ہے اور ساز بجانے والا سے مراد انسان کی روح ہے۔ موت کے آ جانے سے ساز خاموش ہے۔ اور روح اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ ایسی صورت میں بھلا ساز کیا بجے گا۔
کبیر نے کہا ؎
روکھا سُکھا کھائے کے، ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی مت للچاوے جی
اور بابا فرید نے یوں کہا ؎
رُکھی سُکھی کھائو کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
منظوم اردو ترجمہ:
روکھی سوکھی اپنی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چپڑی روٹی مت کر میلا جی
منظوم پنجابی ترجمہ:
رُکّھی سُکّی اپنی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی روٹی ناں ترسائیں جی
کبیر کا ایک اور دوہا یوں ہے ؎
کرتا تھا تو کیوں رہا' اب کاہے پچھتائے
بووے پیڑ ببول کا' آم کہاں سے آئے
اردو ترجمہ: مندے کام نہ چھوڑے تونے اب کاہے پچھتائے
کیکر کے جب پیڑ لگائے آم کہاں سے کھائے
پنجابی: مندے کموں باز نہ آیا' ہن ایویں پچھتائے
کیکر دے جد بوٹے لائے' امب کتھوں ہن کھاویں
مترجم کو یہاں بابا فرید کا ایک اشلوک یاد آ گیا۔ اس کا اردو ترجمہ یوں کیا ؎
پیڑ لگائے کیکر کا اور آس انگور کی باندھے
خود ہی کات کے اون کی ڈھیری پگلا ریشم ڈھونڈے
لیجیے کبیر کا ایک دوہا اور سنیے ؎
پستو کہیں ڈھونڈے کہیں کیہہ یدہ آوے ہاتھ
کہہ کبیر تب پائے' بھیدی لیجے ساتھ
اردو ترجمہ: مال کہیں ہے تلاش کہیں ہے صورت کیا نکلے گی
یار کبیر' خدا مل جائے ساتھ چلے جو بھیدی
پنجابی ترجمہ: مال کتے ہے لبھ کتے ہے' کیہہ تیرے ہاتھ آوے
یار کبیر' خدا مل جاوے' جے بھیدی مل جاوے
جاوید اقبال ستار نے اس رنگ سے کبیر کے دوہوں کے ترجمے کیے ہیں۔ اور منظوم ترجمے اردو میں بھی اور پنجابی میں بھی پھر دوہے کی تشریح۔ تشریح کرتے کرتے اگر اسی مفہوم کا کوئی اردو شعر یاد آ گیا نظیر اکبر آبادی کا یا غالب کا' یا میر کا' تو وہ بیچ میں جڑ دیا۔
بالکل یہی کام انھوں نے بابا فرید کے کلام کے ذیل میں کیا ہے۔ یہ بھلا معمولی کام ہے۔ ایسے کام کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔
ہم تو یہاں پاکستان میں بیٹھے بیٹھے یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جو مخلوق رزق کی تلاش میں اپنے دیس سے نکل کر دور دیسوں میں آباد ہوئی ہے، وہ ادب و تہذیب کے ذیل میں ایک ہی مال ساتھ لے کر وہاں پہنچی ہے اور اب وہاں اس مال کی بہت کھپت ہے۔ بھلا کونسا مال۔۔۔ مشاعرہ
مشاعرہ نے نو آبادکاروں کے طفیل دور کے دیسوں میں امریکا' کینیڈا' برطانیہ اور قریبی دیسوں خاص طور پر عرب شیوخ کی ریاستوں میں خوب زور باندھا۔ مشاعروں نے وہاں مقبولیت حاصل کی تو ہمارے شاعروں کی چاندی ہوگئی۔ شاعرجب مشاعرے لُوٹ کر واپس آتے ہیں تو مشاعرے اور اپنی مقبولیت کی داستانیں ساتھ لے کر آتے ہیں۔ سفرناموں میں وہ جو مضمون باندھتے ہیں اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہاں جو یہاں کے لوگ جا کر آباد ہوئے ہیں بس وہ مشاعرے ہی کو حاصل ادب سمجھتے ہیں اور مشاعرے والی غزل ہی کے دلدادہ ہیں۔
مگر یہ پوری حقیقت نہیں ہے۔ بیشک وہاں سب سے بڑھ کر مشاعرے ہی کا سکہ چلتا ہے۔ اور وہاں لکھنے کا شوق کسی کو چراتا ہے سب سے پہلے غزل میں طبع آزمائی کرتا ہے۔ مگر ان کے سوا بھی جہاں تہاں ایسے لوگ ملیں گے جو مشاعرے اور غزل سے ہٹ کر بہت سنجیدگی سے اپنے اپنے حساب سے ادبی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی ہم لندن اور مانچسٹر کا چکر لگا کر آئے ہیں۔ ایسے کتنے لوگوں سے مڈھ بھیڑ ہوئی جن کا شغف مشاعرے اور مشاعرے والی غزل سے ہٹ کر ادب کی دوسری اصناف سے ہے۔ لیجیے ایک ایسی ہی شخصیت سے ہم آپ کا تعارف کراتے ہیں۔ یہ صاحب ہمیں مانچسٹر میں ملے تھے۔ دو ضخیم شعری مجموعے انھوں نے ہمارے سامنے رکھ دیے۔ کہا کہ اس کام کو ذرا دیکھیے اور ان پر دو حرف تعارف کے لکھ دیجیے۔ دونوں مجموعوں پر نام ایسے تھے کہ ہم فوراً ہی ان سے مرعوب ہو گئے۔ کبیر اور بابا فرید۔ ان دونوں شاعروں کے کلام پر جس طرح کا انھوں نے کام کیا تھا، اس کے قائل تو ہم اسی وقت ہو گئے۔ مگر ہم نے عذر کیا کہ یہاں ہمارا قیام دو ڈھائی دن کاہے۔ اور مصروفیات اتنی کہ کتاب پڑھنے کی مہلت کہاں مل رہی ہے۔ بہر حال ان کا دل بھی رکھنا تھا۔ جلدی جلدی دونوں ضخیم جلدوں پر نظر دوڑائی اور داد کے چند جملے لکھ دیے۔
اس وقت ہمارے سامنے کبیر کی جلد ہے۔ 'بھگت کبیر۔ شبد'۔ انھوں نے کیا یہ ہے کہ بھگت کبیر کے دو جملوں کو پہلے منظوم اردو میں منتقل کیا پھر منظوم پنجابی میں۔ پھر اردو میں تھوڑی تشریح کی اور کیا خوب ترجمہ کیا ہے۔ مگر پہلے یہ تو سن لیجیے کہ یہ ہیں کون۔ یہ ہیں جاوید اقبال ستار۔ سیدھا سچا نام جاوید اقبال' تخلص ستار۔ بریکٹ میں کرم فرید۔ کیا کرم فرید ثانوی تخلص ہے۔ اس کی تشریح انھوں نے نہیں کی۔ گوجر خاں جائے پیدائش 52میں پیدا ہوئے تھے۔ 68 میں نقل مکانی کر کے انگلستان چلے گئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ملازمت مل گئی۔ بس اس محکمہ میں کھپ گئے۔ تعلیم کے سلسلہ میں لکھا ہے ''نہ ہونے کے برابر''۔ لیکن کام ایسا کر رکھا ہے کہ اچھے اچھے تعلیم یافتہ اس پر رشک کریں۔ مگر خیر ادب میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ میرا جی کی کتنی تعلیم تھی بس وہ بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر ان کی کتاب مغرب و مشرق کے نغمے' دیکھو۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ مشرق سے مغرب تک نئی پرانی شاعری کے شناور نظر آتے ہیں۔
جاوید اقبال ستار کی زیر نظر کتاب سے ان کے چند ترجمے نقل کرتے ہیں۔ پھر خود ہی فیصلہ کر لیجیے کہ ان کی تعلیم نہ ہونے کے برابر کس طرز کی ہے۔ سنیے بھگت کبیر کہتے ہیں ؎
کبیرا جنتر نہ باجئی' ٹوٹ گیا سب تار
جنتر بچارا کیا کرے' چلا بجاون ہار
ترجمہ: اے کبیر زندگی کا ساز خاموش ہے کہ اس کے تار ٹوٹ گئے ہیں اور ساز بجانے والا اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ منظوم اردو ترجمہ:
سازینہ خاموش پڑا ہے ٹوٹ گیا ہے تار
ساز بجے کیا چھوڑ گیا ہے اس کا بجاون ہار
پنجابی ترجمہ: کیہہ وجے گا ساز کوئی جد ٹٹ گئے نیں تار
نالے ساز نوں چھڈ کے ٹُر گیا ساز بجاون ہار
شرح: ساز سے مراد انسان کا جسم ہے اور ساز بجانے والا سے مراد انسان کی روح ہے۔ موت کے آ جانے سے ساز خاموش ہے۔ اور روح اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ ایسی صورت میں بھلا ساز کیا بجے گا۔
کبیر نے کہا ؎
روکھا سُکھا کھائے کے، ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی مت للچاوے جی
اور بابا فرید نے یوں کہا ؎
رُکھی سُکھی کھائو کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
منظوم اردو ترجمہ:
روکھی سوکھی اپنی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چپڑی روٹی مت کر میلا جی
منظوم پنجابی ترجمہ:
رُکّھی سُکّی اپنی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی روٹی ناں ترسائیں جی
کبیر کا ایک اور دوہا یوں ہے ؎
کرتا تھا تو کیوں رہا' اب کاہے پچھتائے
بووے پیڑ ببول کا' آم کہاں سے آئے
اردو ترجمہ: مندے کام نہ چھوڑے تونے اب کاہے پچھتائے
کیکر کے جب پیڑ لگائے آم کہاں سے کھائے
پنجابی: مندے کموں باز نہ آیا' ہن ایویں پچھتائے
کیکر دے جد بوٹے لائے' امب کتھوں ہن کھاویں
مترجم کو یہاں بابا فرید کا ایک اشلوک یاد آ گیا۔ اس کا اردو ترجمہ یوں کیا ؎
پیڑ لگائے کیکر کا اور آس انگور کی باندھے
خود ہی کات کے اون کی ڈھیری پگلا ریشم ڈھونڈے
لیجیے کبیر کا ایک دوہا اور سنیے ؎
پستو کہیں ڈھونڈے کہیں کیہہ یدہ آوے ہاتھ
کہہ کبیر تب پائے' بھیدی لیجے ساتھ
اردو ترجمہ: مال کہیں ہے تلاش کہیں ہے صورت کیا نکلے گی
یار کبیر' خدا مل جائے ساتھ چلے جو بھیدی
پنجابی ترجمہ: مال کتے ہے لبھ کتے ہے' کیہہ تیرے ہاتھ آوے
یار کبیر' خدا مل جاوے' جے بھیدی مل جاوے
جاوید اقبال ستار نے اس رنگ سے کبیر کے دوہوں کے ترجمے کیے ہیں۔ اور منظوم ترجمے اردو میں بھی اور پنجابی میں بھی پھر دوہے کی تشریح۔ تشریح کرتے کرتے اگر اسی مفہوم کا کوئی اردو شعر یاد آ گیا نظیر اکبر آبادی کا یا غالب کا' یا میر کا' تو وہ بیچ میں جڑ دیا۔
بالکل یہی کام انھوں نے بابا فرید کے کلام کے ذیل میں کیا ہے۔ یہ بھلا معمولی کام ہے۔ ایسے کام کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔