بے تنخواہ اساتذہ کی خودسوزی

جمعرات کے تمام اخبارات میں ایک شخص کی خودسوزی کی تصاویر نمایاں طور پر شایع کی گئیں جسے اس کے ساتھی شعلوں سے...

advo786@yahoo.com

جمعرات کے تمام اخبارات میں ایک شخص کی خودسوزی کی تصاویر نمایاں طور پر شایع کی گئیں جسے اس کے ساتھی شعلوں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ خودسوزی کرنے والا شخص سرکاری اسکول کا ٹیچر ہے اور اس کو بچانے والے بھی اس کے ساتھی اسکول ٹیچر ہیں جو گزشتہ گیارہ ماہ سے اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں اور ہر طرح کی کوششیں اور مظاہرے کرنے کے بعد خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہوئے۔ تنخواہوں سے محروم ان اساتذہ نے جب سندھ اسمبلی کے سامنے مظاہرے اور احتجاج کا پروگرام بنایا ہوگا تو یقیناً ان کے ذہنوں میں یہ بات ضرور ہوگی کہ یہ اسمبلی انھی کے منتخب کردہ نمایندوں پر مشتمل ہے جس میں جمہوریت کی باتیں کرنے والے، اسلام کا درس دینے والے، انسانیت دوستی اور غریبوں کی باتیں کرنے والے اور قوم پرست تک موجود ہیں، وہ ان کی بات ضرور سنیں گے، ان میں سے کچھ لوگ ضرور ان کے حق کے لیے لڑنے کے لیے کھڑے ہوجائیں گے۔

انسانی ہمدردی کی علمبردار انجمنوں اور سیاستدانوں کی توجہ اور ہمدردی بھی انھیں حاصل ہوجائے گی۔ لیکن ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ خودکشی کی کوشش کرنے والا شخص ٹیچر ایکشن کمیٹی کا صدر بتایا جاتا ہے، جس کے جسم کا 20 فیصد حصہ جھلس چکا ہے۔ تنخواہوں سے محروم اساتذہ کی ایکشن کمیٹی کے صدر نے اپنے ساتھیوں کے لیے ان سے آگے بڑھ کر قربانی پیش کرنے کی مثال قائم کرکے بے حس حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ایثار کا ایک سبق تو دیا ہے لیکن سبق بھی وہ لوگ لیا کرتے ہیں جن میں اپنی اصلاح کی خواہش ہو۔ چھوٹے چھوٹے سے واقعات پر رائی کا پہاڑ بنادینے والے حکمران، حزب اختلاف، این جی اوز اور میڈیا اساتذہ سے متعلق اس مسئلے، حق تلفی اور شہری حقوق کی پامالی پر خاموش ہیں۔

تنخواہوں سے محروم یہ اساتذہ سابقہ دور حکومت کے آخری 8 ماہ کے دوران بھرتی کیے گئے تھے، جب پیر مظہرالحق وزیر تھے جو آج بھی کابینہ میں موجود ہیں، صوبائی محکمہ تعلیم نے ان اساتذہ کی بھرتیوں کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے انھیں فارغ کردینے اور بھرتی کے ذمے داران افسران کے خلاف کرمنل مقدمات قائم کرنے کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ یہ بھرتیاں رشوت کے عوض کی گئی ہیں جس کا متعلقہ افسران نے اعتراف بھی کرلیا ہے۔ تاہم یہ راز اب تک افشا نہیں کیا گیا ہے کہ یہ بھرتیاں کس کے کہنے پر کی جاتی تھیں، تقرری کے لیٹر کس وزیر کے دفتر سے جاری ہوتے تھے، محکمہ تعلیم کے علاوہ وزارت تعلیم کے ذمے داروں کا اس میں کیا کردار رہا ہے اور ان کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی یا لائی جانے والی ہے؟ حیرت انگیز بات ہے کہ محکمہ تعلیم سندھ کے تحت ستمبر 2013 میں بھرتی کیے گئے سندھی، عربی اور ڈرائنگ ٹیچرز کو آسامیاں نہ ہونے کے باوجود بھرتی کیا گیا۔

اس سلسلے میں اخبارات میں بھی خبریں اور تبصرے آتے رہے مگر محکمہ تعلیم کے کان پر کوئی جوں نہ رینگی اور کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر اضلاع میں بھرتی کیے گئے اساتذہ کو تنخواہیں ادا بھی کردی گئی ہیں۔ چند روز قبل سندھ کے موجودہ وزیر تعلیم نثار کھوڑو نے کہا تھا کہ اس معاملے پر غور کیا جارہا ہے تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ اتنی بڑی تعداد میں بھرتی کیے گئے ملازمین کو تنخواہیں کیسے ادا کی جائیں۔ جب کہ تنخوہوں سے محروم اساتذہ کا کہنا ہے کہ انھیں 11 ماہ سے تنخواہیں نہیں دی گئی ہیں، کچھ ہی دنوں میں رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے مگر ان کے پاس اس مقدس مہینے میں روزے کے فریضے کو ادا کرنے کے لیے کوئی انتظامات نہیں ہیں، ان کے بچے پہلے ہی سے فاقہ کشی کا شکار ہیں، وہ رمضان اور عید کیسے گزاریں گے۔


جہاں تک اساتذہ ایکشن کمیٹی کے صدر کے خودکشی کے اقدام کا تعلق ہے تو یہ عمل یقیناً غیر شرعی بھی ہے اور غیر آئینی بھی ہے، جس پر عذاب بھی ہے اور سزا بھی ہے۔ جس کے لیے خودکشی کی کوششیں کرنے والے اپنے اس ذاتی عمل کا اﷲ اور قانون دونوں کو جوابدہ ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں اور ارباب اختیار کا کیا فرض بنتا ہے، انھیں بھی اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے۔ اول تو یہ کہ اگر آسامیاں نہیں تھیں تو بلاجواز اتنی بڑی تعداد میں بھرتیاں کیوں کی گئیں؟ اگر یہ بھرتیاں رشوتیں لے کر کی گئیں تو اتنے بڑے پیمانے پر یہ کاروبار کیسے انجام کو پہنچا؟ رشوت لینے والوں کون تھے؟ بڑا جرم تو ان لوگوں نے کیا جنھوں نے بیروزگاری سے تنگ لوگوں سے چند ہزار کی نوکری کے عوض لاکھوں کی رشوتیں وصول کیں جو ان ملازمین نے اپنی جمع پونجی اور قرض لے کر ادا کی ہوں گی۔ گیارہ ماہ جب سے یہ ملازمین اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں، ارباب اختیار اس پر خاموش کیوں تھے اور ان لوگوں سے بیگار کیوں لی جارہی تھی؟

پچھلے چند سال سے محکمہ تعلیم سندھ میں دیگر بدعنوانیوں کے علاوہ اساتذہ کے تقرر کے سلسلے میں جو اقربا پروری، سفارش، رشوت، سیاسی اثر و رسوخ کے مظاہرے دیکھنے میں آرہے ہیں، وہ ملک کے معماروں کے مستقبل کو خطرات میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سبب بھی بن رہے ہیں، جن پر تعلیم کے لیے امداد و معاونت کرنے والے بین الاقوامی ادارے بھی کھل کر اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اساتذہ کی نئی بھرتیوں کے حالیہ عمل جو پچھلے دور حکومت سے جاری ہے، اس میں یونین کونسل کی سطح پر خالی آسامیوں کی بنیاد پر تقرری جیسے قواعد و ضوابط سے اہل امیدواروں کی حق تلفی ہوگی اور کم استعداد اور تعلیمی اہلیت کے امیدواروں کے تقرر کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

جس پر بھرتیوں کے خواہشمند امیدوار بھی عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں لہٰذا میرٹ لسٹ یونین کونسل کی سطح پر بنانے کے بجائے ضلع یا کم ازکم ٹاؤن کی سطح بنائی جانی چاہئیں تاکہ زیادہ اہلیت کے امیدواروں کی تقرریاں عمل میں آئیں اور بدعنوانیوں اور حق تلفی کا خاتمہ ہوسکے۔ تنخواہوں سے محروم بھرتی کیے گئے اساتذہ جو مطلوبہ تعلیمی معیار اور اہلیت پر پورا اترتے ہوں انھیں فوری طور پر تنخواہیں ادا کی جائیں، جو اہلیت و معیار پر پورا نہ اترتے ہوں انھیں فارغ کرکے ان کو بھرتی کرنے والے ذمے داروں اور رشوتوں کے عوض بھرتی کرنے والوں اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرنے کے علاوہ کرمنل ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کرکے انھیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب ہوسکے۔

تعلیم کا شعبہ ملک اور اس کی آنے والی نسلوں کی بقا اور خوشحالی کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے اگر یہ شعبہ بدعنوان، نااہلیت اور تباہی و بربادی سے دوچار ہوگا تو ملک کے مقدر میں بھی تباہی اور بربادی آئے گی۔
Load Next Story