کرائے کے سپاہی…
711 عیسوی میں ایک مظلوم کی فریاد پر محمد بن قاسم کا سندھ میں آنا گویا جنوبی ایشیا میں اسلام کا دروازہ کھلنا تھا...
711 عیسوی میں ایک مظلوم کی فریاد پر محمد بن قاسم کا سندھ میں آنا گویا جنوبی ایشیا میں اسلام کا دروازہ کھلنا تھا، اس کو برصغیر میں روشناس کرانے کا وقت دراصل یہی تھا۔ یہاں کا عمومی مذہب ہندو تھا اور لوگ ذات پات میں بٹے ہوئے تھے۔ اسلام کی عالمگیریت اور مساوات کی اعلیٰ اقدار نے ہندوئوں کو متاثر کیا اور وہ اس جانب راغب ہونے لگے۔ محمد بن قاسم نے برصغیر میں اشاعت اسلام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جو پوری ایک صدی تک زور وشور سے جاری رہا۔ بزرگان دین نے اس خطے میں دین کی تبلیغ و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی کوششوں سے بے شمار لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اسی دور میں عوام الناس کے لیے اصلاحی اور تعلیم وتربیت کے مراکز کا قیام عمل میں آیا۔ بعد ازاں اسلامی روایات نے حالات کی بے رخی کے باعث دم توڑنا شروع کردیا۔ بعض علمائے دین نے اسلام کو نفع بخش کاروبار بنالیا۔ چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑا بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔ فقہ میں جزئیات کی بحث نے جگہ لینا شروع کردی اور مسلمانوں نے تفقہ فی الدین سے رو گردانی شروع کردی۔
برصغیر میں مسلمانوں نے حکمرانی کی لیکن اپنی عیاشیوں اور سہل پسند شاہانہ اقدار کے باعث رفتہ رفتہ زوال پذیری ان کا مقدر ٹھہری۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ہی ساتھ فرنگی دور کا آغاز بھی شروع ہونے لگا اور پھر اچانک پورے خطے میں انھوں نے اپنی سرکار قائم کرلی۔ مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں میں نفرت بدرجہ اتم بڑھانے کے لیے انگریز سرکار نے مسلمانوں کے مذہبی و اجتماعی احساسات مجروح کرنا شروع کردیے۔ اسلام کی اصل روح کی بحالی کی خاطر اور مسلمانوں کی عزت نفس کی حفاظت کے لیے برصغیر میں تحریک اسلامی نے جنم لیا۔ تحریک اسلامی نے حالات اور حکمرانوں کے ستائے ہوئے مسلمانوں میں علیحدگی کی سوچ پروان چڑھائی تاکہ وہ آزادانہ طور پر دینی عقائد کی ادائیگی کرسکیں اور دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوسکیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے الگ ریاست کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا اور اسی کو بنیاد بناکر مسلمانوں میں آزادی کی جد وجہد شروع کرنے کے لیے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا شروع کیا اور بالآخر 1947 میں باقاعدہ اسلامی ریاست کا وجود ممکن ہوسکا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام اسلام کی بنیاد پر ہے اور اس سے پڑوسی ملک سمیت تمام طاغوتی طاقتیں اس کے درپے رہی ہیں لیکن عوام نے اس کا بھرپور مقابلہ بھی کیا۔
پس منظر میں آپ نے دیکھا کہ سندھ میں اسلامی فتح سے لے کر پاکستان بننے کے عمل تک دین اسلام بنیاد رہا ہے اور پاکستان چونکہ اسلام ہی کے نام پر حاصل کیا گیا ہے تو گویا اسلام ہی دراصل پاکستان کی پہچان ہے اور اسی وجہ سے اس ملک میں سیاسی میدان میں دینی جماعتوں کا کردار بھی ملتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہلحدیث، اہلسنت والجماعت، تحریک جعفریہ پاکستان اور جماعت اسلامی وغیرہ پاکستان کی نمایاں جماعتیں ہیں۔ پاکستان کی تینوں دساتیر میں اسلامی شقوں کے تعین کرنے میں ان جماعتوں کا مرکزی کردار رہا ہے۔ خاص طور پر 1973 کا دستور اسلامی طرز کا ہے۔ دینی جماعتوں نے ختم نبوت کو باقاعدہ قانون کا حصہ بناکر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ جہاد کشمیر سے لے کر افغان جہاد تک طاغوتی قوتوں کے سامنے برسر پیکار رہیں۔
ہمارے ملک میں دینی جماعتوں کے حوالے سے روز اول سے بدقسمتی نظر آئی ہے۔ یہ جماعتیں سیاسی مفادات کے تحت اکٹھی ہوتی ہیں اور پھر اختلافات انھیں جدا کردیتے ہیں۔ جے یو آئی اس کی مثال ہے جو بکھر کر مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کی جمیت علمائے اسلام کے طور پر شناخت ہوتی ہیں۔ علامہ شاہ احمد نورانی (مرحوم) جو جمعیت علمائے پاکستان کے بانی تھے انھوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ملک میں سرگرم دینی سیاسی جماعتوں کو متحدہ کیا اور متحدہ مجلس عمل قائم کی۔ مجلس عمل نے امریکی اور عالمگیر طاغوتی جارحیت کے خلاف مسلمانوں کی آواز پر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ مسائل کے حل بھی پیش کیے۔ ملک میں عام انتخابات 2002 میں اسی اتحاد نے بھرپور حصہ لیا اور ملک گیر کامیابی حاصل کی۔ مجلس عمل پہلی مرتبہ ایک اسلامی طاقت بن کر قومی اسمبلی میں ابھری اور مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی دینی لحاظ سے قد آور شخصیت کو بنایاگیا جو لمحہ بہ لمحہ مشرف حکومت کو ناکوں چنے چبواتا رہا۔
اپوزیشن لیڈر نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان علماء جیسا کردار ادا کرنا شروع کردیا جن کا مقصد دین کو نفع بخش کاروبار سمجھنا ہے۔ مشرف حکومت کی رعنائیوں میں گم ہوکر اس کی حمایت کرنا شروع کردی۔ اپوزیشن لیڈر کی اس روش نے انھیں مجلس عمل کے بنیادی مقاصد سے دور کرنا شروع کردیا اور مزاحمتی دیوار کمزور ہونے لگی۔ اپوزیشن لیڈر نے مجلس عمل کو اپنے مفادات کی ترجیح سے مخالف کیا اور حکومت سے وفاداری نبھائی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد سے اب تک بعض مذہبی جماعتیں حکومت کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔ سابق ادوار میں جو کردار ان کے لیے متاثر کن نہیں تھے اب یہ ان کے لیے متاثر کن بننا چاہتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بعض مذہبی لیڈروں کو چیلنج کیا۔ مولانا طاہر القادری بھی اپنے کردار کو مسخ کرچکے ہیں اور دینی کاروبار میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے بھی عدلیہ کو اپنے خلاف فیصلے پر غلط کہنا شروع کردیا تھا، وگرنہ دھرنے میں عدلیہ ان کے لیے باوقار ادارہ تھی اور جس طرح انھوںنے دھرنے کا ڈراپ سین کیا وہ درست نہیں ہے۔
المختصر! ہمارے خطے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہاں کے مسلمان عام افراد سے لے کر بعض علمائے کرام ''کرائے کے سپاہی'' بننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ہماری اس اخلاقی کمزوری سے ہمارا دشمن فائدہ اٹھانے میں کبھی تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ ہمارے متوسط طبقے کی اخلاقی کمزوریوں میں علمائے کرام نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں بیشتر وظیفوں پر پل رہے ہیں اور ان کی منشا اسلامی نظام کا نفاذ نہیں بلکہ اپنی ذاتی خواہشات کو دین کے تقاضوں پر مقدم رکھنا ہے۔ بے شک تمام انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، یقیناً حقیقی علما و دین حق پر چلنے والے موجود ہیں لیکن سیاست کے کارزار پر ایسے باکردار لوگ خال خال ہی ملتے ہیں۔
برصغیر میں مسلمانوں نے حکمرانی کی لیکن اپنی عیاشیوں اور سہل پسند شاہانہ اقدار کے باعث رفتہ رفتہ زوال پذیری ان کا مقدر ٹھہری۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ہی ساتھ فرنگی دور کا آغاز بھی شروع ہونے لگا اور پھر اچانک پورے خطے میں انھوں نے اپنی سرکار قائم کرلی۔ مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں میں نفرت بدرجہ اتم بڑھانے کے لیے انگریز سرکار نے مسلمانوں کے مذہبی و اجتماعی احساسات مجروح کرنا شروع کردیے۔ اسلام کی اصل روح کی بحالی کی خاطر اور مسلمانوں کی عزت نفس کی حفاظت کے لیے برصغیر میں تحریک اسلامی نے جنم لیا۔ تحریک اسلامی نے حالات اور حکمرانوں کے ستائے ہوئے مسلمانوں میں علیحدگی کی سوچ پروان چڑھائی تاکہ وہ آزادانہ طور پر دینی عقائد کی ادائیگی کرسکیں اور دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوسکیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے الگ ریاست کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا اور اسی کو بنیاد بناکر مسلمانوں میں آزادی کی جد وجہد شروع کرنے کے لیے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا شروع کیا اور بالآخر 1947 میں باقاعدہ اسلامی ریاست کا وجود ممکن ہوسکا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام اسلام کی بنیاد پر ہے اور اس سے پڑوسی ملک سمیت تمام طاغوتی طاقتیں اس کے درپے رہی ہیں لیکن عوام نے اس کا بھرپور مقابلہ بھی کیا۔
پس منظر میں آپ نے دیکھا کہ سندھ میں اسلامی فتح سے لے کر پاکستان بننے کے عمل تک دین اسلام بنیاد رہا ہے اور پاکستان چونکہ اسلام ہی کے نام پر حاصل کیا گیا ہے تو گویا اسلام ہی دراصل پاکستان کی پہچان ہے اور اسی وجہ سے اس ملک میں سیاسی میدان میں دینی جماعتوں کا کردار بھی ملتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہلحدیث، اہلسنت والجماعت، تحریک جعفریہ پاکستان اور جماعت اسلامی وغیرہ پاکستان کی نمایاں جماعتیں ہیں۔ پاکستان کی تینوں دساتیر میں اسلامی شقوں کے تعین کرنے میں ان جماعتوں کا مرکزی کردار رہا ہے۔ خاص طور پر 1973 کا دستور اسلامی طرز کا ہے۔ دینی جماعتوں نے ختم نبوت کو باقاعدہ قانون کا حصہ بناکر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ جہاد کشمیر سے لے کر افغان جہاد تک طاغوتی قوتوں کے سامنے برسر پیکار رہیں۔
ہمارے ملک میں دینی جماعتوں کے حوالے سے روز اول سے بدقسمتی نظر آئی ہے۔ یہ جماعتیں سیاسی مفادات کے تحت اکٹھی ہوتی ہیں اور پھر اختلافات انھیں جدا کردیتے ہیں۔ جے یو آئی اس کی مثال ہے جو بکھر کر مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کی جمیت علمائے اسلام کے طور پر شناخت ہوتی ہیں۔ علامہ شاہ احمد نورانی (مرحوم) جو جمعیت علمائے پاکستان کے بانی تھے انھوں نے دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ملک میں سرگرم دینی سیاسی جماعتوں کو متحدہ کیا اور متحدہ مجلس عمل قائم کی۔ مجلس عمل نے امریکی اور عالمگیر طاغوتی جارحیت کے خلاف مسلمانوں کی آواز پر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ مسائل کے حل بھی پیش کیے۔ ملک میں عام انتخابات 2002 میں اسی اتحاد نے بھرپور حصہ لیا اور ملک گیر کامیابی حاصل کی۔ مجلس عمل پہلی مرتبہ ایک اسلامی طاقت بن کر قومی اسمبلی میں ابھری اور مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی دینی لحاظ سے قد آور شخصیت کو بنایاگیا جو لمحہ بہ لمحہ مشرف حکومت کو ناکوں چنے چبواتا رہا۔
اپوزیشن لیڈر نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان علماء جیسا کردار ادا کرنا شروع کردیا جن کا مقصد دین کو نفع بخش کاروبار سمجھنا ہے۔ مشرف حکومت کی رعنائیوں میں گم ہوکر اس کی حمایت کرنا شروع کردی۔ اپوزیشن لیڈر کی اس روش نے انھیں مجلس عمل کے بنیادی مقاصد سے دور کرنا شروع کردیا اور مزاحمتی دیوار کمزور ہونے لگی۔ اپوزیشن لیڈر نے مجلس عمل کو اپنے مفادات کی ترجیح سے مخالف کیا اور حکومت سے وفاداری نبھائی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد سے اب تک بعض مذہبی جماعتیں حکومت کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔ سابق ادوار میں جو کردار ان کے لیے متاثر کن نہیں تھے اب یہ ان کے لیے متاثر کن بننا چاہتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بعض مذہبی لیڈروں کو چیلنج کیا۔ مولانا طاہر القادری بھی اپنے کردار کو مسخ کرچکے ہیں اور دینی کاروبار میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے بھی عدلیہ کو اپنے خلاف فیصلے پر غلط کہنا شروع کردیا تھا، وگرنہ دھرنے میں عدلیہ ان کے لیے باوقار ادارہ تھی اور جس طرح انھوںنے دھرنے کا ڈراپ سین کیا وہ درست نہیں ہے۔
المختصر! ہمارے خطے کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ یہاں کے مسلمان عام افراد سے لے کر بعض علمائے کرام ''کرائے کے سپاہی'' بننے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ہماری اس اخلاقی کمزوری سے ہمارا دشمن فائدہ اٹھانے میں کبھی تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ ہمارے متوسط طبقے کی اخلاقی کمزوریوں میں علمائے کرام نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں بیشتر وظیفوں پر پل رہے ہیں اور ان کی منشا اسلامی نظام کا نفاذ نہیں بلکہ اپنی ذاتی خواہشات کو دین کے تقاضوں پر مقدم رکھنا ہے۔ بے شک تمام انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، یقیناً حقیقی علما و دین حق پر چلنے والے موجود ہیں لیکن سیاست کے کارزار پر ایسے باکردار لوگ خال خال ہی ملتے ہیں۔