مغرب سے مشرق انقلابی لپیٹ میں
کارل مارکس نے کہا تھا کہ جب ایک جانب دولت کا انبارہوگا اور دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج،تو لوگوں کی...
کارل مارکس نے کہا تھا کہ جب ایک جانب دولت کا انبارہوگا اور دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج،تو لوگوں کی قوت خرید جواب دیتی جائے گی نتیجتاً زائد پیداوارکا بحران شروع ہوگا۔پھر زائد پیداوار سے گوڈاؤن لدے پڑے ہوں گے تو دوسری جانب معیشتیںدیوالیہ ہوتی جائیں گی اور لوگ بے روزگاری کی وجہ سے انقلاب کی جانب پیش قدمی کریں گے۔ یہی حال 1929-30 اور 1997 میں ہوا۔اور اب 2008 میں سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی انہدام کے بعد یورپ، امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کی معیشتیں بحالی کی بجائے مزید اقتصادی ومالیاتی بحران میں ڈوبتی چلی جارہی ہیں۔
عالمی سرمایہ داری کے ماہرین کا خیال تھا کہ ''ابھرتی'' ہوئی معیشتیں (جن میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں) سرمائے کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو سہارا دیں گی اور سرمایہ داری کو اس عالمی بحران سے نکالنے میں کردار ادا کریں گی، لیکن پچھلے پانچ سال میں حکمرانوں کی یہ امیدیں اورخواب چکنا چور ہوچکے ہیں۔ چین کی شرح نمو 11 فیصد سے کم ہوکر 7.2 فیصد، ہندوستان کی 10 فیصد سے 5.5 جب کہ برازیل کی شرح نمو 7 فیصد سے گر کر 0.9 فیصد تک آگئی ہے۔ یہ تمام تر ممالک جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل اور استواری مکمل نہیں ہوئی ہے،اس تنزلی سے سماجی انتشارکا شکار ہوچکے ہیں۔
اسی طرح ترکی کے بارے میں بہت شور مچایا جارہا تھا۔ اسلامی بنیاد پرست اور لبرل عناصر دونوں ہی اسے سرمایہ داری کی کامیابی کا ماڈل بناکر پیش کر رہے تھے لیکن اب ترکی بھی معاشی وسماجی بحرانوں میں گھر چکا ہے۔ ترکی میں پچھلے پانچ ہفتوں سے جاری عوامی بغاوت شدت اختیارکرگئی ہے اور وزیر اعظم اردگان کی اسلامی جمہوری حکومت کا آمرانہ اور جابرانہ وحشت پر مبنی اصل کردار بے نقاب ہوگیا ہے۔گھروں میں گھس کر سیکڑوں لوگوں کوگرفتارکیا گیا۔ اب تک گرفتار ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ ترکی کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ریاستی تشدد سے اب تک پانچ افراد مارے گئے ہیں اور 8000 زخمی ہوئے ہیں۔ ترکی کے وزیر داخلہ معمرگلرکے مطابق مارکسسٹ لینسٹ کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کے خلاف ایک سخت آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
ان کارکنان نے اس تحریک کو ابھارنے میں ہر اول کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈینسی(IMT) نے 56 ملکوں سے ترکی کے عوام کی حمایت میں مظاہرے کی اپیل کی ہے، جس پر پاکستان اور کشمیر سمیت دنیا بھر میں یکجہتی کے مظاہرے ہوئے۔ طیب اردگان نے ریاستی تشدد پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے پولیس کو مزید اختیارات اور طاقت دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ مظاہرین کو کچلا جاسکے۔ الجزیرہ کے مطابق اردگان نے مرچوں کے اسپرے اور ریاستی تشدد کے دوسرے وحشیانہ ہتھکنڈوں کو جائز قرار دیا ہے۔ اپنی پارٹی کے پارلیمانی گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ''پولیس کی قوتیں جمہوریت کا امتحان پاس کرچکی ہیں'' اس کے ساتھ ہی اس نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اگر پولیس اس تحریک کو کچلنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو فوج کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 20 سال میں ترکی میں ابھرنے والی یہ سب سے بڑی احتجاجی تحریک ہے جو درختوں کی کٹائی کے خلاف دھرنوں سے شروع ہوکر ملک گیر حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
مظاہرین کے مطالبات سیاسی نوعیت اختیار کرچکے ہیں اور کمیونسٹ پارٹی سمیت بائیں بازو کی پارٹیاں اور ٹریڈ یونینز اس تحریک میں واضح کردار ادا کر رہی ہیں۔ عوامی بغاوت کا یہ پہلا ریلا اگرچہ اردگان کی رجعتی، جابر اورعوام کی زندگیوں میں مداخلت پر ترک حکومت کو اکھاڑ نہیں سکا لیکن اسے بے نقاب کرکے اس کی سماجی بنیادوں کو کھوکھلا کردینے میں کامیاب ضرور ہوا ہے۔ ادھر ترکی کی معاشی ترقی اتنی مصنوعی ہے کہ اسے ریت کا ٹیلا کہا جاسکتا ہے۔ 2011 میں ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (10 فیصد) امریکا کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تھا۔ واضح رہے کہ طیب اردگان کے برسراقتدار آنے سے قبل 2000 تک ترکی کا کرنٹ خسارہ کم و بیش صفر رہا ہے۔ 2008 سے 2012 تک ترکی کے بیرونی قرضے میں اضافہ 44.3 ارب ڈالر ہے۔ 2013 میں ترکی کا بیرونی قرضہ 340 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے جوکہ جی ڈی پی کا 42 فیصد بنا ہے۔ بالواسطہ ٹیکس میں بھی امیروں کو چھوٹ دی جاتی ہے۔
مثلاً جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد جب کہ قیمتی پتھروں کی خریداری پرکوئی ٹیکس عائد نہیںکیا جاتا ہے۔اردگان دور حکومت میں ترکی کے گھریلو قرضے میں 3600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ گھریلو قرضے جو 2011 میں 234.6 ارب لیرا (ترک کرنسی) تھا۔ جولائی 2012 میں 256ارب لیرا (135 ارب ڈالر) سے تجاوز کرچکا ہے یعنی قرضوں کے ذریعے مصنوعی طور پر منڈی کو سرگرم رکھ کر معیشت کو بڑھایا گیا ہے۔ لیکن قرض کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے واپس کرنا پڑتا ہے اور قرضوں کے ذریعے اجناس کی کھپت کا یہ عمل مسلسل جاری نہیں رہ سکتا۔ اس وقت 20 لاکھ ترک شہری قرضے کی ادائیگی نہ کرسکنے کے باعث جبری وصولی یا جائیداد کی ضبطگی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بغاوت کی اگلی موج زیادہ طاقت ور ہوگی جو اردگان کی نام نہاد (آزادی و انصاف) پارٹی کی حکومت کو نیست و نابود کردے گی۔
ترکی میں ابھی انقلابی تحریک جاری ہی تھی کہ لاطینی امریکا کے سب سے بڑے ملک اور دنیا کی 8 ویں بڑی معیشت برازیل میں 20 سال بعد ایک بڑی عوامی بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ جیسے پاکستان میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف ابھرنے والے 1968-69 کے انقلاب کو بھڑکانے والی چنگاری چینی کی قیمت میں چار آنے کا اضافہ تھا۔ اسی طرح برازیل میں بھی بسوں کے کرایوں میں 10 سینٹ کے اضافے نے سطح کے نیچے پکنے والے آتش فشاں کو پھاڑ دیا ہے۔ سرمایہ دار معیشت دان برازیل کی معاشی ترقی کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے لیکن لاکھوں افراد کے حکومت مخالف مظاہرے مویولوسے شروع ہوکر برق رفتاری سے ریوڈی جیز، برازیلیا اور دوسرے شہروں میں پھیل چکے ہیں۔ اسی طرح انڈونیشیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جکارتہ میں شروع ہونے والی تحریک سماترا اور بورنیا سمیت انڈونیشیا کے بیشتر جزائر میں پھیل کر برسراقتدار دائیں بازو کی حکومت کے لیے للکار بن گئی ہے۔
مصر میں 2011 میں ابھرنے والی تحریک جس نے حسنی مبارک کی مطلق العنان آمریت کو اکھاڑ پھینکا تھا، لیکن امریکی سامراج نے مصری فوج پر دباؤ ڈال کر اپنے پرانے خلیفہ اخوان المسلمون کو انتخابی دھاندلی کے ذریعے اقتدار دلوایا۔ انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم رہا اور نتائج کے مطابق اخوان المسلمون کو 25 فیصد سے بھی کم عوام کی حمایت حاصل تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد رجعتی اور بنیاد پرست حکومت کو بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے ایک سالہ اقتدار کے دوران اس اسلامی جمہوری حکومت نے سرمایہ دارانہ نظام کے جبروتسلط اور امریکی سامراج کی اطاعت کی پالیسیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ عوام پر بے پناہ معاشی اور اقتصادی حملے کیے گئے ہیں، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ صدر مرسی کے خلاف عوامی نفرت اور حقارت بڑھی ہے۔ 30 جون کو اخوان المسلمون کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر حزب اختلاف نے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے کیے، وہ صدر مرسی سے فوراً سبکدوش ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اخوان المسلمون کی حکومت کے خلاف ایک درخواست پر ایک کروڑ 40 لاکھ افراد نے دستخط کیے۔ مصر کے ایک اپوزیشن لیڈر کے مطابق انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ 29/30 جون کو مصر میں اخوان المسلمون کے دفتروں کو آگ لگا دی گئی۔ ایک امریکی شہری سمیت 8 افراد ہلاک ہوئے غیر ملکیوں کی بڑی تعداد اپنے ملکوں میں واپس چلے گئے۔ مصری صدر اپنے اہل خانہ سمیت نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے فوجی ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لی گئی۔ امریکا نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ۔ 30 جون کو لاکھوں عوام نے ریلی نکالی۔ وزیر خارجہ نے استعفیٰ دے دیا اور لاکھوں عوام سرکاری ٹی وی پر قبضہ کرنے پہنچے تو فوج نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ اب تو مرسی گرفتار ہیں اور چیف جسٹس سربراہ ہیں۔ جنوبی افریقہ میں اوباما کے پہنچنے پر اوباما کی تصویر اور امریکی پرچم کو نذرآتش کیا گیا۔ سوویٹو یونیورسٹی میں بھی مظاہرہ ہوا۔ جوہانسبرگ، سوویٹو سمیت دیگر شہروں میں مظاہرے کا اہتمام بائیں بازو کی پارٹیوں نے کیا تھا۔
29 جون کو پرتگال میں محنت کشوں کی جانب سے مکمل ہڑتال انتہائی کامیاب رہی۔ اساتذہ، آٹوموبائل، فوڈ انڈسٹریز، ایئرسروس، ٹرانسپورٹ، ریلوے، مارکیٹیں یعنی 100 فیصد اداروں میں ہڑتال رہی۔ اسی روز سے چلی میں طلبہ تحریک شروع ہوچکی ہے۔ طلبہ نے اپنے مطالبات کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف بھی اپنے مطالبات شامل کرلیے ہیں۔ آج کوئی ملک یا خطہ ایسا نہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کا بحران عدم استحکام، مفلسی، محرومی، بیروزگاری اور بیگانگی میں اضافہ نہ کررہا ہو۔ لوگ اس استحصال زدہ زندگی اور حالات سے تنگ آچکے ہیں۔ ہر طرف جمود ٹوٹ رہا ہے۔ عوامی بغاوتیں ابھر رہی ہیں۔ آنے والا دن عالمی انقلاب کا ہوگا۔ پھر ایک ایسا سماج قائم ہوگا جس کی کوئی سرحدیں، فوج، عدلیہ، اسمبلی، وکیل، پولیس، جیل، کرنسی نوٹس، ملکیت، طبقات، پارٹیاں، کوئی سرمایہ دار یا گداگر نہ ہوگا۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔
عالمی سرمایہ داری کے ماہرین کا خیال تھا کہ ''ابھرتی'' ہوئی معیشتیں (جن میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں) سرمائے کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو سہارا دیں گی اور سرمایہ داری کو اس عالمی بحران سے نکالنے میں کردار ادا کریں گی، لیکن پچھلے پانچ سال میں حکمرانوں کی یہ امیدیں اورخواب چکنا چور ہوچکے ہیں۔ چین کی شرح نمو 11 فیصد سے کم ہوکر 7.2 فیصد، ہندوستان کی 10 فیصد سے 5.5 جب کہ برازیل کی شرح نمو 7 فیصد سے گر کر 0.9 فیصد تک آگئی ہے۔ یہ تمام تر ممالک جہاں سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل اور استواری مکمل نہیں ہوئی ہے،اس تنزلی سے سماجی انتشارکا شکار ہوچکے ہیں۔
اسی طرح ترکی کے بارے میں بہت شور مچایا جارہا تھا۔ اسلامی بنیاد پرست اور لبرل عناصر دونوں ہی اسے سرمایہ داری کی کامیابی کا ماڈل بناکر پیش کر رہے تھے لیکن اب ترکی بھی معاشی وسماجی بحرانوں میں گھر چکا ہے۔ ترکی میں پچھلے پانچ ہفتوں سے جاری عوامی بغاوت شدت اختیارکرگئی ہے اور وزیر اعظم اردگان کی اسلامی جمہوری حکومت کا آمرانہ اور جابرانہ وحشت پر مبنی اصل کردار بے نقاب ہوگیا ہے۔گھروں میں گھس کر سیکڑوں لوگوں کوگرفتارکیا گیا۔ اب تک گرفتار ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ ترکی کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق ریاستی تشدد سے اب تک پانچ افراد مارے گئے ہیں اور 8000 زخمی ہوئے ہیں۔ ترکی کے وزیر داخلہ معمرگلرکے مطابق مارکسسٹ لینسٹ کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کے خلاف ایک سخت آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
ان کارکنان نے اس تحریک کو ابھارنے میں ہر اول کردار ادا کیا ہے۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈینسی(IMT) نے 56 ملکوں سے ترکی کے عوام کی حمایت میں مظاہرے کی اپیل کی ہے، جس پر پاکستان اور کشمیر سمیت دنیا بھر میں یکجہتی کے مظاہرے ہوئے۔ طیب اردگان نے ریاستی تشدد پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے پولیس کو مزید اختیارات اور طاقت دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ مظاہرین کو کچلا جاسکے۔ الجزیرہ کے مطابق اردگان نے مرچوں کے اسپرے اور ریاستی تشدد کے دوسرے وحشیانہ ہتھکنڈوں کو جائز قرار دیا ہے۔ اپنی پارٹی کے پارلیمانی گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ''پولیس کی قوتیں جمہوریت کا امتحان پاس کرچکی ہیں'' اس کے ساتھ ہی اس نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اگر پولیس اس تحریک کو کچلنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو فوج کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 20 سال میں ترکی میں ابھرنے والی یہ سب سے بڑی احتجاجی تحریک ہے جو درختوں کی کٹائی کے خلاف دھرنوں سے شروع ہوکر ملک گیر حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
مظاہرین کے مطالبات سیاسی نوعیت اختیار کرچکے ہیں اور کمیونسٹ پارٹی سمیت بائیں بازو کی پارٹیاں اور ٹریڈ یونینز اس تحریک میں واضح کردار ادا کر رہی ہیں۔ عوامی بغاوت کا یہ پہلا ریلا اگرچہ اردگان کی رجعتی، جابر اورعوام کی زندگیوں میں مداخلت پر ترک حکومت کو اکھاڑ نہیں سکا لیکن اسے بے نقاب کرکے اس کی سماجی بنیادوں کو کھوکھلا کردینے میں کامیاب ضرور ہوا ہے۔ ادھر ترکی کی معاشی ترقی اتنی مصنوعی ہے کہ اسے ریت کا ٹیلا کہا جاسکتا ہے۔ 2011 میں ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (10 فیصد) امریکا کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تھا۔ واضح رہے کہ طیب اردگان کے برسراقتدار آنے سے قبل 2000 تک ترکی کا کرنٹ خسارہ کم و بیش صفر رہا ہے۔ 2008 سے 2012 تک ترکی کے بیرونی قرضے میں اضافہ 44.3 ارب ڈالر ہے۔ 2013 میں ترکی کا بیرونی قرضہ 340 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے جوکہ جی ڈی پی کا 42 فیصد بنا ہے۔ بالواسطہ ٹیکس میں بھی امیروں کو چھوٹ دی جاتی ہے۔
مثلاً جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد جب کہ قیمتی پتھروں کی خریداری پرکوئی ٹیکس عائد نہیںکیا جاتا ہے۔اردگان دور حکومت میں ترکی کے گھریلو قرضے میں 3600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ گھریلو قرضے جو 2011 میں 234.6 ارب لیرا (ترک کرنسی) تھا۔ جولائی 2012 میں 256ارب لیرا (135 ارب ڈالر) سے تجاوز کرچکا ہے یعنی قرضوں کے ذریعے مصنوعی طور پر منڈی کو سرگرم رکھ کر معیشت کو بڑھایا گیا ہے۔ لیکن قرض کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے واپس کرنا پڑتا ہے اور قرضوں کے ذریعے اجناس کی کھپت کا یہ عمل مسلسل جاری نہیں رہ سکتا۔ اس وقت 20 لاکھ ترک شہری قرضے کی ادائیگی نہ کرسکنے کے باعث جبری وصولی یا جائیداد کی ضبطگی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بغاوت کی اگلی موج زیادہ طاقت ور ہوگی جو اردگان کی نام نہاد (آزادی و انصاف) پارٹی کی حکومت کو نیست و نابود کردے گی۔
ترکی میں ابھی انقلابی تحریک جاری ہی تھی کہ لاطینی امریکا کے سب سے بڑے ملک اور دنیا کی 8 ویں بڑی معیشت برازیل میں 20 سال بعد ایک بڑی عوامی بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ جیسے پاکستان میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف ابھرنے والے 1968-69 کے انقلاب کو بھڑکانے والی چنگاری چینی کی قیمت میں چار آنے کا اضافہ تھا۔ اسی طرح برازیل میں بھی بسوں کے کرایوں میں 10 سینٹ کے اضافے نے سطح کے نیچے پکنے والے آتش فشاں کو پھاڑ دیا ہے۔ سرمایہ دار معیشت دان برازیل کی معاشی ترقی کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے لیکن لاکھوں افراد کے حکومت مخالف مظاہرے مویولوسے شروع ہوکر برق رفتاری سے ریوڈی جیز، برازیلیا اور دوسرے شہروں میں پھیل چکے ہیں۔ اسی طرح انڈونیشیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جکارتہ میں شروع ہونے والی تحریک سماترا اور بورنیا سمیت انڈونیشیا کے بیشتر جزائر میں پھیل کر برسراقتدار دائیں بازو کی حکومت کے لیے للکار بن گئی ہے۔
مصر میں 2011 میں ابھرنے والی تحریک جس نے حسنی مبارک کی مطلق العنان آمریت کو اکھاڑ پھینکا تھا، لیکن امریکی سامراج نے مصری فوج پر دباؤ ڈال کر اپنے پرانے خلیفہ اخوان المسلمون کو انتخابی دھاندلی کے ذریعے اقتدار دلوایا۔ انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم رہا اور نتائج کے مطابق اخوان المسلمون کو 25 فیصد سے بھی کم عوام کی حمایت حاصل تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد رجعتی اور بنیاد پرست حکومت کو بڑے پیمانے پر عوامی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے ایک سالہ اقتدار کے دوران اس اسلامی جمہوری حکومت نے سرمایہ دارانہ نظام کے جبروتسلط اور امریکی سامراج کی اطاعت کی پالیسیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ عوام پر بے پناہ معاشی اور اقتصادی حملے کیے گئے ہیں، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ صدر مرسی کے خلاف عوامی نفرت اور حقارت بڑھی ہے۔ 30 جون کو اخوان المسلمون کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر حزب اختلاف نے حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے کیے، وہ صدر مرسی سے فوراً سبکدوش ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اخوان المسلمون کی حکومت کے خلاف ایک درخواست پر ایک کروڑ 40 لاکھ افراد نے دستخط کیے۔ مصر کے ایک اپوزیشن لیڈر کے مطابق انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ 29/30 جون کو مصر میں اخوان المسلمون کے دفتروں کو آگ لگا دی گئی۔ ایک امریکی شہری سمیت 8 افراد ہلاک ہوئے غیر ملکیوں کی بڑی تعداد اپنے ملکوں میں واپس چلے گئے۔ مصری صدر اپنے اہل خانہ سمیت نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے فوجی ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لی گئی۔ امریکا نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ۔ 30 جون کو لاکھوں عوام نے ریلی نکالی۔ وزیر خارجہ نے استعفیٰ دے دیا اور لاکھوں عوام سرکاری ٹی وی پر قبضہ کرنے پہنچے تو فوج نے اپنی حفاظت میں لے لیا۔ اب تو مرسی گرفتار ہیں اور چیف جسٹس سربراہ ہیں۔ جنوبی افریقہ میں اوباما کے پہنچنے پر اوباما کی تصویر اور امریکی پرچم کو نذرآتش کیا گیا۔ سوویٹو یونیورسٹی میں بھی مظاہرہ ہوا۔ جوہانسبرگ، سوویٹو سمیت دیگر شہروں میں مظاہرے کا اہتمام بائیں بازو کی پارٹیوں نے کیا تھا۔
29 جون کو پرتگال میں محنت کشوں کی جانب سے مکمل ہڑتال انتہائی کامیاب رہی۔ اساتذہ، آٹوموبائل، فوڈ انڈسٹریز، ایئرسروس، ٹرانسپورٹ، ریلوے، مارکیٹیں یعنی 100 فیصد اداروں میں ہڑتال رہی۔ اسی روز سے چلی میں طلبہ تحریک شروع ہوچکی ہے۔ طلبہ نے اپنے مطالبات کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف بھی اپنے مطالبات شامل کرلیے ہیں۔ آج کوئی ملک یا خطہ ایسا نہیں جہاں سرمایہ دارانہ نظام کا بحران عدم استحکام، مفلسی، محرومی، بیروزگاری اور بیگانگی میں اضافہ نہ کررہا ہو۔ لوگ اس استحصال زدہ زندگی اور حالات سے تنگ آچکے ہیں۔ ہر طرف جمود ٹوٹ رہا ہے۔ عوامی بغاوتیں ابھر رہی ہیں۔ آنے والا دن عالمی انقلاب کا ہوگا۔ پھر ایک ایسا سماج قائم ہوگا جس کی کوئی سرحدیں، فوج، عدلیہ، اسمبلی، وکیل، پولیس، جیل، کرنسی نوٹس، ملکیت، طبقات، پارٹیاں، کوئی سرمایہ دار یا گداگر نہ ہوگا۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔