بچے خود پر بھروسا چاہتے ہیں

ماضی کی سخت گیری آج کی نسل کے لیے مناسب نہیں

ماضی کی سخت گیری آج کی نسل کے لیے مناسب نہیں۔ فوٹو: فائل

QUETTA:
والدین اور بچوں کا تعلق زیادہ تر احکامات اور ان کی بجا آوری پر محیط سمجھا جاتا ہے۔

والدین اپنی اولاد کو مختلف معاملات پر ہدایات دیتے اورآگاہی فراہم کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک طرف ان کی ضرورت ہوتا ہے، تو دوسری طرف ان کی تربیت کے لیے بھی ناگزیر خیال کیا جاتا ہے، لیکن اس ضمن میں اعتدال اور توازن کی بھی خاصی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین اور بچے کا یہ تعلق بہت سخت گیر صورت اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ہر وقت اور بہت زیادہ روک ٹوک کا سلسلہ اگر محفل اور لوگوں کے سامنے ہو تو پھر بعض اوقات یہ بچوں کے مزاج پر خاصا گراں گزرتا ہے۔

سب سے اہم یہ ہے کہ بچے کو احساس دلایا جائے کہ آپ اس پر بھروسا کرتے ہیں۔ ایک بچہ اپنے والدین سے بلا مشروط توجہ اور مثبت راہ نمائی چاہتا ہے۔ بچے والدین کی بات پر تب ہی اعتبار کریں گے، جب وہ اسے عملاً پورا کر کے دکھائیں۔ والدین اسے کہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور جب اسے ضرورت ہو تو آپ اس کے ساتھ نہ ہوں تو وہ کیسے آپ کی بات پر یقین کرے گا۔ بچے کی پرورش میں نظم و ضبط کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے، مگر کسی بات کا جو منفی نتیجہ نکلتا ہے، اسے بچوں کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بے عزتی اور شرمندگی بہرحال ایک شدید احساس ہے۔ یہ بچے کے اندر آپ کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اکثر اوقات والدین بچے کے موڈ اور اس کی بات کو سمجھے بغیر انہیں سخت کلمات کا نشانہ بناتے ہیں اور بعض اوقات جسمانی سزا سے بھی نہیں چُوکتے۔

زبانی بے عزتی کے حوالے سے ایک چھوٹی سی بات بھی بچے کی شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے۔ جیسے بچے کا موازنہ دوسرے بچے سے کرنا۔ جس سے اس کے اندر احساس کم تری پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح بچے کو غلط یا برے ناموں سے پکارنا بھی کسی طرح درست نہیں۔ خصوصاً جب کسی محفل میں اس لقب سے پکارا جائے، جس سے اس کی تضحیک یا عیب جھلکتا ہو تو بات اور بھی زیادہ غیر مناسب ہے۔ بعض اوقات والدین سوچے سمجھے بغیر بہت ساری منفی باتیں کر جاتے ہیں جن سے بچوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔




والدین بچے کو شرمندہ کر کے اس کے اعتماد کو بری طرح مجروح کرتے ہیں اور یہ عمل اگر بار بار کیا جاتا رہے، تو بچے کی عزت نفس تباہ ہو جاتی ہے۔ اگر بچہ حساس طبیعت کا ہے تو پھر اس کے اندر زندگی پھیکی پڑنے لگے گی۔ حالات سے لڑنے اور جستجو کا جذبہ مانند پڑ جائے گا۔ ان کے اندر منفی چیزیں سرایت کرجائیں گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے کو کس طرح شرمندہ کیے بغیر نظم و ضبط کا پابند بنایا جائے؟ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہ کریں، جس میں بے عزتی کا پہلو پوشیدہ ہو، والدین دوستانہ انداز اختیار کریں، کھل کر دوستانہ ماحول میں براہ راست بات کریں۔ ان کے بارے میں آپ جو چاہتے ہیں وہ انہیں اچھی طرح سمجھائیں۔ اگر زیادہ توجہ کی ضرورت ہو تو پھر تنہائی میں ان سے تفصیلی گفت گو کریں۔ تخلیے میں بے شک آپ اسے مثبت طریقے سے ذرا سرزنش کرتے ہوئے اس کی متواتر غلطیاں اور بری عادات کے حوالے بھی دے سکتی ہیں۔ اکیلے میں ایسی باتیں کرنے سے نہ صرف بات زیادہ بہتر طریقے سے سمجھائی جا سکتی ہے، بلکہ اس کی عزت نفس بھی محفوظ رہے گی۔

بعض معاملات میں ان کو کچھ چیزوں پر اختیار دیں، تاکہ ان کو احساس ہو کہ انہوں نے جو انتخاب کیا اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس طرح کا ان کو تجربہ حاصل ہوگا۔ اگر بچوں کے آس پاس کوئی ان کی راہ نمائی کرنے والا ہو تو وہ زیادہ سیکھتے ہیں۔ والدین بچے کو کسی خوف کا احساس پیدا کیے بغیر نظم و ضبط سکھائیں اور مثبت رویہ اپنائیں۔ صرف منع نہ کریں، بلکہ وضاحت بھی کریں کہ کسی کام سے کیوں منع کر رہے ہیں۔ والدین جب کسی خوف کا احساس پیدا کیے بغیر اصول سمجھائیں گے تو بات بنے گی۔ وضاحت ایسی ہو کہ بچے کی سمجھ میں آجائے۔ مثلاً اس سے کہیں، اگر تم کھڑکی پر چڑھوگے تو گر جاؤ گے اور تمہیں درد ہوگا تو مجھے بھی تکلیف ہوگی۔ کھڑی کوئی کھیلنے کی جگہ نہیں ہے آیندہ نہ چڑھنا۔

اس طرح کے جملوں میں بچے کے لیے راہ نمائی ہوتی ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اسے کیوں منع کیا جا رہا ہے۔ نظم و ضبط کا بار بار اعادہ ہونا چاہیے اور بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی بتایا جائے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔ اگر بچے پر چیخ و پکار کی جائے گی تو اس سے اس کے اندر باغیانہ رویہ پیدا ہو سکتا ہے۔ والدین کی ذمے داری ادا کرنے کا ایک سادہ سا اصول یہ ہے کہ غصہ حاوی نہ ہونے دیں۔ اس لیے اپنے مشتعل جذبات ضبط کریں۔ جب غصہ حاوی ہوتا ہے تو ہم سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے اور اس جذبات میں آکر ردعمل ظاہر کردیتے ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ نارمل ہونے کے بعد ہی بچے سے بات کی جائے تاکہ آپ بھی ساری صورت حال کو سمجھ سکیں اور بچہ بھی آپ کے طیش کا نشانہ نہ بنے۔

درست گفت و شنید والدین اور بچے کے تعلقات میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اکثر والدین اس حوالے سے اپنے والدین کے دنوں کو یاد کرتے ہیں جب ان کے والدین ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگایا کرتے تھے اور بہت روک ٹوک کی جاتی تھی۔ بچے پر اپنی مرضی مسلط کی جاتی تھی اور اسے کُھل کر اپنی رائے ظاہر کرنے اور بولنے کا حق بھی نہیں تھا۔ بدلتے وقت کے ساتھ جہاں دنیا بدل رہی ہے، وہاں معاشرتی روایات اور تقاضے بھی تغیر پذیر ہیں۔ اس لیے ماضی کی ہر چیز کو آج کے بچوں پر منطبق کرنا کسی طور صحت مندانہ رویہ نہیں، بلکہ یہ بچے کے مزاج اور اس کے مستقبل کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
Load Next Story