سانحات کا شکار ہم ہی کیوں

ہم پاکستانیوں کو اپنے ملک کو مزید سانحات سے محفوظ بنانا ہوگا اس لیے کہ اب ہمارا ملک مزید سانحات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

usmandamohi@yahoo.com

گزشتہ اتوار پاکستانی قوم نے دو قومی سانحات کی برسیاں منائیں ۔ یہ دونوں سانحات ہمیشہ ناقابل فراموش رہیں گے۔ قوم ان کڑی آزمائشوں کے سہارے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرسکتی ہے اور ملک کی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ بننے والے دشمن کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دونوں سانحات کا مرتکب اور ذمے دار ایک ہی دشمن ہے اور وہ ہمارا مشرقی پڑوسی ہے۔ وہ تو ہمیں شروع سے ہی صفحہ ہستی سے مٹانے کے در پے ہے مگر افسوس کہ ہم اپنے اندرونی خلفشارکی وجہ سے دشمن کی چالوں کو ناکام نہیں بنا سکے اور اس کی انتقامی کارروائیوں کا لقمہ تر بنتے رہے۔ جہاں تک سقوط ڈھاکہ کا تعلق ہے یہ سانحہ کوئی معمولی نہیں تھا۔

آدھے ملک کا ٹوٹ جانا بھلا اس سے بڑا کسی قوم کے لیے اور کیا المیہ ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سانحے نے سقوط اندلس کی تاریخ کو دہرا دیا تھا لیکن فرق اتنا ضرور ہے کہ اندلس یعنی اسپین سے اسلامی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا تھا جب کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی صورت میں مسلمانوں کی وہاں حکومت اب بھی قائم ہے البتہ وہ سراسر بھارت کی طابع ہے۔

گزشتہ جمعہ شوریٰ ہمدرد کے منعقدہ اجلاس میں اتفاق سے یہی موضوع زیر بحث تھا کہ کیا قائد اعظم کے ڈھاکہ میں اردوکو قومی زبان بنانے کے خطاب نے بنگالیوں کو علیحدگی کا راستہ دکھا دیا تھا۔ اس خاکسار کو شوریٰ ہمدرد کے تمام قومی مباحثوں میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہے۔ اس اجلاس میں معروف تاریخ دان خواجہ رضی حیدر کو بطور مہمان مقرر مدعو کیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ قائد اعظم کے اردو کو قومی زبان بنانے کے خطاب سے بنگالیوں میں وفاق کے خلاف جذبات پیدا ہوگئے تھے، یہ دراصل ایک بھارتی سازش تھی۔ وہاں کے اسکول کالج اور جامعات میں بھارت نواز استاد وہاں کے طلبا اور طالبات کے اذہان میں مغربی پاکستان کے خلاف پہلے سے ہی قوم پرستانہ جذبات ابھار رہے تھے مگر انھیں کامیابی نصیب نہیں ہو رہی تھی البتہ قائد اعظم کی اردو کی بابت تقریر سے انھیں بنگلہ زبان کا شوشہ ہاتھ لگ گیا جس کے ذریعے بنگالیوں کو بہکانہ آسان ہوگیا تھا۔

یہ زہر بنگالی نوجوانوں کو اس طرح پلایا گیا تھا کہ وہ بنگلہ زبان کو اپنی جان سے زیادہ فوقیت دینے لگے تھے۔ بنگلہ زبان کے حق میں ڈھاکہ میں منعقدہ ایک مظاہرے کے دوران طلبا اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں کئی طلبا ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعے سے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف شدید جذبات ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔

جہاں تک ڈھاکہ میں اردو کو قومی زبان بنانے کے اعلان کا تعلق ہے وہ قائد اعظم نے اپنی طرف سے نہیں کیا تھا بلکہ وہ پہلی دستور ساز اسمبلی میں اردو کو پورے پاکستان کی قومی زبان بنانے سے متعلق پاس ہونے والی قرار داد پر مبنی تھا اس اجلاس میں بنگالی ارکان بھی موجود تھے، قائد اعظم کوئی یو ٹرن لینے والے انسان نہیں تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ آئینی فیصلوں کے کتنے پابند تھے۔

علیحدگی کی بڑی وجہ دراصل آزادی کے بعد بنگالی عوام کی حالت زار پر توجہ نہ دینا تھا جب کہ وہاں کے اخبار مغربی پاکستانیوں کی عیاشی کی خبریں چھاپ کر وہاں کے عوام میں مسلسل احساس محرومی پیدا کر رہے تھے۔ جب مغربی پاکستان میں حکمرانوں کو اچھی طرح پتا تھا کہ بھارت وہاں کے عوام کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مغربی پاکستان سے مسلسل بدظن کرنے میں لگا ہوا ہے تو اس کا کوئی تدارک بھی نہیں کیا گیا ۔


آمرانہ حکومتوں نے انھیں اور زیادہ مایوسی کا شکارکیا۔ ایسے حالات سے بھارت نے جو شروع سے ہی مشرقی پاکستان کو ہڑپ کرنے کی ٹو میں لگا ہوا تھا فائدہ اٹھایا۔ وہ جنرل چوہدری کے ذریعے کئی سال قبل بھی مشرقی پاکستان پر فوج کشی کرچکا تھا مگر جنرل ایوب خان نے اس حملے کو نہ صرف ناکام بنادیا تھا بلکہ حملہ آور جنرل چوہدری کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔ کاش کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے دفاع پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کی جاتی تو شاید پاکستان کبھی دولخت نہ ہو پاتا۔

اب بنگلہ دیش تو بن گیا ہے مگر وہاں کے عوام کی غربت تو ابھی بھی جوں کی توں ہے۔ شیخ مجیب کا خاندان بھارت کی مدد سے وہاں کے اقتدار سے اس طرح چمٹا ہوا ہے کہ اس سے وہاں کے عوام کو نجات ملنا مشکل نظر آتا ہے۔ گزشتہ انتخابات کی طرح بھارت اس دفعہ بھی حسینہ واجد کو پھر اقتدار میں رکھنے کے لیے پورا زور لگا رہا ہے۔ گوکہ حسینہ واجد اب ایک آمر حکمران کے طور پر بنگلہ دیش میں بدنام ہوچکی ہیں۔

وہ دراصل بنگلہ دیش میں ایک پارٹی سسٹم چاہتی ہیں۔ انھوں نے آنیوالے الیکشن سے قبل ہی حزب اختلاف کی سب سے بڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کو جیل میں ڈال دیا ہے مگر عوامی غیظ و غضب کے پیش نظر انھیں خالدہ ضیا کو رہا کرنا ہوگا اور الیکشن میں اس دفعہ ان کی پارٹی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کی جانب سے الیکشن میں مداخلت نہیں کی گئی تو کوئی بھی خالدہ ضیا کی پارٹی کو نہیں ہرا سکے گا اس لیے کہ ہر شہر میں خالدہ ضیا کی رہائی کے لیے مظاہرے ہو رہے ہیں پھر عوامی رجحان ان کی پارٹی کی جانب دیکھا جا رہا ہے۔

دراصل وہاں کے عوام حسینہ واجد کی آمرانہ ذہنیت اور بھارت نوازی سے تنگ آچکے ہیں۔ اب وہاں کا میڈیا بھی بھارت نوازی کے جال سے نکل کر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہوا حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف لکھ رہا ہے وہ انھیں ایک غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی پر عمل کرنے اور اپنے ملکی معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق حل کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔

حال ہی میں بنگلہ دیشی حکومت نے نیپال سے بجلی درآمد کرنے کے سلسلے میں مذاکرات کیے ہیں مگر وہ کوئی معاہدہ اپنی مرضی سے نہیں کرسکتی بلکہ اس کے لیے بھارت سے اجازت لینا ضروری ہے اور بھارت بنگلہ دیش کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیگا اس لیے کہ آج کل اس کے نیپال کے ساتھ تعلقات میں تلخی پائی جاتی ہے۔ بھارت دراصل نیپال کو بھی بنگلہ دیش کی طرح اپنا طفیلی بنانا چاہتا ہے مگر نیپالی حکومت نے بھارت کے آگے جھکنے سے صاف انکار کردیا ہے۔

دراصل بنگلہ دیشی عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ بھارت سے ایک ہمسائے جیسے تعلقات رکھے جائیں نہ کہ آقا غلام جیسے مگر حسینہ واجد شاید کبھی ایسا نہ کرسکیں کیونکہ ان کے اپنے خاندان کی سیکیورٹی اور ساتھ ہی ان کا اقتدار بھارت کے رحم و کرم پر ہے۔ بھارت خالدہ ضیا کی پاکستان سے اچھے تعلقات رکھنے کی پالیسی کے خلاف ہے اور اسی لیے انھیں اقتدار سے دور رکھنا چاہتا ہے بہرحال اب دیکھیے 30 دسمبر کو ہونے والے الیکشن میں عوامی امنگیں کامیاب ہوتی ہیں یا پھر بھارتی مداخلت۔

اب رہا ہمارا معاملہ تو ہم پاکستانیوں کو اپنے ملک کو مزید سانحات سے محفوظ بنانا ہوگا اس لیے کہ اب ہمارا ملک مزید سانحات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے عوام گزشتہ ستر برسوں سے ملک کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب حکمرانوں کو بھی خواب غفلت سے بیدار ہوکر اپنے تدبر اور ملک سے مخلصی کا ثبوت دینا ہوگا۔
Load Next Story