ڈیلس میں بیس دن
میں نے ڈیلس شہر کی مشہور جگہوں اور تجارتی مراکز کی آگاہی انھی کی وساطت سے حاصل کی تھی۔
کیلی فورنیا ریاست آبادی کے لحاظ سے شمالی امریکا کی سب سے بڑی ریاست ہے اور اس کے بعد ریاست ٹیکساس کا نمبر آتا ہے۔ ٹیکساس کے دو بڑے شہر ہوسٹن اور ڈیلس اس اعتبار سے اپنی ایک اہمیت اور بڑی پہچان رکھتے ہیں کہ ان دو شہروں میں پاکستانی کمیونٹی کی تعداد دیگر ریاستوں سے زیادہ ہے اور ان دونوں شہروں میں پاکستانی اپنی ثقافت اپنی تہذیب اور اپنی اردو زبان کو بھی فروغ دے رہے ہیں یہاں دیگر رہائشیوں کی نسبت شعر و ادب کی تنظیمیں بھی بہت فعال ہیں اور ثقافت کے رنگ بھی نمایاں ہیں۔
ہوسٹن اور ڈیلس میں کثیر تعداد میں خوبصورت مسجدیں بھی ہیں اور یہاں پاکستانی کمیونٹی اپنے تہوار بھی یہاں کے تہواروں کے ساتھ ساتھ بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے۔ ہوسٹن اور ڈیلس میں بڑے پیمانے پر مشاعروں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے اور ان مشاعروں میں امریکی ریاستوں کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان کے شاعروں اور شاعرات کو بھی مدعوکیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ سارے سال جاری رہتا ہے۔
جب کہ موسیقی کے پروگراموں کی تعداد بھی ان دو شہروں میں زیادہ ہوتی ہے ان پروگراموں میں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ہندوستانی کمیونٹی بھی تعاون کرتی ہے۔اور دونوں ملکوں کے نامور فنکار یہاں گاہے گاہے آتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مجھے ڈیلس جانے کا اتفاق ہوا تھا میں پہلی بار وہاں اپنی بیٹی اور داماد سے ملنے گیا تھا۔ ڈیلس میں کراچی کے ایک دیرینہ دوست جن کی ایک پروڈکٹ کے لیے کراچی میں میں نے ایک کمرشل فلم بھی بنائی تھی ان سے بھی ملاقات ہوئی یہ ظفر اے خان ہیں ڈیلس کی ایک نمایاں شخصیت ہیں، یہاں سے شایع ہونے والے ایک انگریزی رسالے Style of Dallas کے چیف ایڈیٹر ہیں اور ڈیلس کی پاکستان کمیونٹی کے تجارتی حلقوں میں اپنا بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
میں نے ڈیلس شہر کی مشہور جگہوں اور تجارتی مراکز کی آگاہی انھی کی وساطت سے حاصل کی تھی۔ شام کی چائے ہم دونوں نے المرکز شاپنگ سینٹر کے ریسٹورنٹ میں پی تھی اسی دوران ظفر خان نے بتایا کہ المرکز سے چند قدم پر اپنے وقت کی مشہور ماڈل اور اداکارہ انیتا ایوب کی بہن امبر ایوب کا بوتیک بھی ہے، چائے سے فارغ ہو کر ہم دونوںاس بوتیک میں گئے، میں نے اس دور کا تذکرہ کیا جب میں کراچی میں فلمی صحافی تھا اور انیتا ایوب اور امبر ایوب دونوں بہنوں کے بھی بطور ماڈلز بڑے چرچے تھے جب کہ انیتا ایوب نے تو دو تین فلموں میں بھی کام کیا تھا اور ان فلموں کے نام تھے ''چلتی کا نام گاڑی'' اور ''گینگسٹر'' وغیرہ۔
امبر ایوب ہم سے اور ہم امبر ایوب سے مل کر بڑے خوش ہوئے کافی دیر تک کراچی کی باتیں ہوتی رہیں پھر اس نے بتایا کہ وہ آج شام کچھ جلدی بوتیک بند کرکے گھر جائے گی کیونکہ وحید مراد کی بیٹی عالیہ پاکستان سے آئی ہوئی ہے لیجنڈ ہیرو وحید مراد اور سلمیٰ مراد کے ساتھ ان دونوں بہنوں کے بڑے پرانے اور گہرے مراسم چلے آرہے ہیں بلکہ خاندانی تعلقات رہے ہیں امبر ایوب سے یہ ایک بڑی خوشگوار اور یادگار ملاقات رہی تھی اس شام میں نے بھی جلدی جانا تھا کہ رات کو پاکستانی ٹیلی ویژن کی لیجنڈ فنکارہ اور ہمارے دیرینہ دوست قمر علی عباسی مرحوم کی بیگم نیلوفر عباسی کے گھر رات کو ڈنر تھا اور بڑی محبت سے انھوں نے ہمیں مدعوکیا تھا۔
نیلوفر عباسی بلکہ نیلوفر بھابھی سے ہمارے اس زمانے کے مراسم ہیں جب میں ریڈیو پاکستان کراچی میں بزم طلبا کے پروگرام سے وابستہ تھا اور نیلوفر عباسی اس وقت نیلوفر علیم کے نام سے ریڈیو کی نامور صداکارہ تھیں پھر وہ قمر علی عباسی کی شریک حیات ہوگئی تھیں اور ہمیں بھی انھیں بھابھی کہنے کا موقع مل گیا تھا۔جب میں اپنی بیگم کے ساتھ ڈیلس کے علاقے مرفی میں ان کے گھر پہنچا تو وہاں اپنے دیرینہ دو دوستوں کراچی اسٹیج کے مشہور پروڈیوسر ڈائریکٹر فرقان حیدر اور ریڈیو پاکستان کراچی کے رائٹر اور صحافی اویس نصیر کے ساتھ ڈیلس کے مقامی شاعر یونس اعجاز بھی موجود تھے، نیلوفر بھابھی نے یہ ایک سر پرائز دیا تھا، پرانے دوستوں کا ملنا کسی سوغات سے کم نہیں ہوتا ان دونوں دوستوں سے تقریباً پچیس تیس سال بعد میری ملاقات ہوئی تھی۔
نیلوفر بھابھی کا گھر بڑا شاندار تھا اور اس کے لیے فرنیچر پاکستان سے منگوایا گیا تھا ان کے صاحبزادے پہلے اپنے والد قمر علی عباسی جب حیات تھے تو نیویارک ہی میں رہتے تھے مگر والد کے انتقال کے بعد وہ نیویارک چھوڑ کر والدہ سمیت ڈیلس میں آبسے تھے۔ وجاہت علی نے بہت اچھے کالم بھی لکھے ہیں، اب دو بیٹوں کے باپ ہیں۔
ڈنر کے دوران قمر علی عباسی کی بہت سی باتیں اور یادیں ہم کافی دیر تک شیئر کرتے رہے پھر کھانے کے بعد وجاہت علی عباسی اور فرقان حیدر کے اصرار پر کچھ شعر و شاعری کا سلسلہ بھی چل نکلا اس طرح ایک چھوٹی سی شعری نشست بھی ہوگئی جس کی خوبصورت نظامت کے فرائض وجاہت علی عباسی نے ادا کیے اور اس دوران مقامی شاعر یونس اعجاز اور میں نے اپنے اشعار سنائے اس طرح یہ دعوت بھی شعری نشست کے ساتھ ایک یادگار دعوت کے زمرے میں آگئی تھی۔
دوسرے دن پھر ظفر خان کا فون آگیا۔ وہ بولے کرکٹ کے کھیل سے دلچسپی ہے؟ میں نے کہا کیوں ۔ بچپن سے جوانی تک خوب کرکٹ کھیلی ہے پھر شاعری شروع کی تو کرکٹ پس منظر میں چلی گئی تھی۔ یہ سن کر ظفر صاحب نے کہا تو بس پھر آپ تیار رہیں میں آپکو لینے آرہا ہوں۔ میں نے کہا لیکن ایک بات یاد رہے کہ ہم شام سے پہلے جہاں بھی جائیں فارغ ہوجائیں وہ اس لیے کہ آج شام کو میرا دیرینہ دوست اور میرے ابتدائی گیتوں کا سنگر تحسین جاوید ہوسٹن سے بائی کار صرف مجھے ملنے آرہا ہے۔
آج شام کی چائے اور کھانا اس کے ساتھ ہی ہے۔ یہ سن کر ظفر خان نے کہا ارے واہ! تحسین جاوید تو ہمارا بھی بہت اچھا دوست ہے وہ ڈیلس میں آئے دن اکثر میوزیکل شوز میں آتا رہتا ہے۔ کچھ دیر بعد ظفر خان کے ساتھ ہم ڈیلس کے کرکٹ سے متعلق ایک کو چنگ سینٹر کے آفس میں موجود تھے یہ ان ڈور خوبصورت کوچنگ سینٹر گزشتہ سال ہی قائم کیا گیا ہے۔ اس کا نام (Cric Zone) کرک زون رکھا گیا ہے۔
ڈیلس میں اس کی شاندار پیمانے پر افتتاحی تقریب ہوئی تھی اس کے روح رواں سینئر کرکٹر نبیل ہیں اور پچھلے دنوں انھی کی دعوت پر کرکٹ کے نامور کھلاڑی ثقلین مشتاق اور عمران اکمل ڈیلس آئے تھے۔ انھی کے مشوروں سے ڈیلس کی ایک کرکٹ ٹیم تشکیل دی جاچکی ہے جو جلد ہی بڑے پیمانے پر ڈیلس میں کرکٹ میچز کا انعقاد کرے گی پھر شام سے پہلے ہم ڈیلس کے اس ریسٹورنٹ میں موجود تھے جہاں گلوکار تحسین جاوید کے ساتھ چائے کی چسکیوں کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کی جا رہی تھیں۔
اس ریسٹورنٹ میں ظفر خان اور تحسین جاوید کے دیرینہ ساتھی اے۔زی انٹرٹینمنٹ کے نگران اظہر قاسمی بھی تھے جو ڈیلس اور ہوسٹن میں پاکستانی اور ہندوستانی فنکاروں کے ساتھ موسیقی کے پروگرامز کرتے ہیں یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ گلوکار تحسین جاوید نے پہلی بار میرا لکھا ہوا جنگل (کمرشل گیت) جس کے بول تھے آج کل ڈنٹونک کا بول بالا ہے گایا تھا اور اس کو اس کے بعد بڑی شہرت ملی تھی۔
پھر اس کا پہلا سپرہٹ کیسٹ بھی میرا ہی لکھا ہوا تھا جس کی موسیقی محبوب اشرف نے دی تھی، مجھے تحسین جاوید کی طرف سے یہ ڈنر دیا گیا تھا اور کھانے کے دوران ہم صرف کراچی کی سنہری یادیں تازہ کرتے رہے ۔ ڈیلس سے واپسی سے دو دن پہلے ڈیلس گروپ آف انٹرنیشنل کی طرف سے ڈرامہ پروڈیوسر ڈائریکٹر فرقان حیدر اور رائٹر و صحافی اویس نصیرکے تعاون سے ڈیلس کے اردو گھر رچرڈسن میں میرے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی صدارت مشہور دانشور پروفیسر حبیب صدیقی نے کی اور مہمان اعزازی کے طور پر یونس اعجاز اور نیلوفر عباسی نے شرکت کی اور اس تقریب میں ڈیلس شہر کی اردو دوست شخصیات ، ماہر معاشیات رشید صدیقی، سراج بٹ، اختر نواز، افضال قریشی، رضوان عزیز، مقصود احمد، ونود کمار، جاوید سموئیل، ظفر اے خان ڈیلی امن کراچی کے صحافی دوست رشید اظفر اور پاکستان کے ایک سابق اٹارنی جنرل عین الدین بھی شامل تھے ۔
میرے بارے میں نیلوفر عباسی، فرقان حیدر اور اویس نصیر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور فلمی دنیا سے میری وابستگی کا خوبصورت الفاظ میں تذکرہ کیا۔ تقریب کے آخر میں، میں نے لاہور کی فلمی دنیا کی کچھ یادیں شیئر کرتے ہوئے اپنا کچھ تازہ کلام بھی سنایا اور اس طرح میں ایک خوبصورت شام کی یادیں اور بہت سے دوستوں کی محبت کی خوشبو دل میں بسائے بیس دن بعد ڈیلس سے واپس نیوجرسی آگیا۔
ہوسٹن اور ڈیلس میں کثیر تعداد میں خوبصورت مسجدیں بھی ہیں اور یہاں پاکستانی کمیونٹی اپنے تہوار بھی یہاں کے تہواروں کے ساتھ ساتھ بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے۔ ہوسٹن اور ڈیلس میں بڑے پیمانے پر مشاعروں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے اور ان مشاعروں میں امریکی ریاستوں کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان کے شاعروں اور شاعرات کو بھی مدعوکیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ سارے سال جاری رہتا ہے۔
جب کہ موسیقی کے پروگراموں کی تعداد بھی ان دو شہروں میں زیادہ ہوتی ہے ان پروگراموں میں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ہندوستانی کمیونٹی بھی تعاون کرتی ہے۔اور دونوں ملکوں کے نامور فنکار یہاں گاہے گاہے آتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں مجھے ڈیلس جانے کا اتفاق ہوا تھا میں پہلی بار وہاں اپنی بیٹی اور داماد سے ملنے گیا تھا۔ ڈیلس میں کراچی کے ایک دیرینہ دوست جن کی ایک پروڈکٹ کے لیے کراچی میں میں نے ایک کمرشل فلم بھی بنائی تھی ان سے بھی ملاقات ہوئی یہ ظفر اے خان ہیں ڈیلس کی ایک نمایاں شخصیت ہیں، یہاں سے شایع ہونے والے ایک انگریزی رسالے Style of Dallas کے چیف ایڈیٹر ہیں اور ڈیلس کی پاکستان کمیونٹی کے تجارتی حلقوں میں اپنا بڑا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
میں نے ڈیلس شہر کی مشہور جگہوں اور تجارتی مراکز کی آگاہی انھی کی وساطت سے حاصل کی تھی۔ شام کی چائے ہم دونوں نے المرکز شاپنگ سینٹر کے ریسٹورنٹ میں پی تھی اسی دوران ظفر خان نے بتایا کہ المرکز سے چند قدم پر اپنے وقت کی مشہور ماڈل اور اداکارہ انیتا ایوب کی بہن امبر ایوب کا بوتیک بھی ہے، چائے سے فارغ ہو کر ہم دونوںاس بوتیک میں گئے، میں نے اس دور کا تذکرہ کیا جب میں کراچی میں فلمی صحافی تھا اور انیتا ایوب اور امبر ایوب دونوں بہنوں کے بھی بطور ماڈلز بڑے چرچے تھے جب کہ انیتا ایوب نے تو دو تین فلموں میں بھی کام کیا تھا اور ان فلموں کے نام تھے ''چلتی کا نام گاڑی'' اور ''گینگسٹر'' وغیرہ۔
امبر ایوب ہم سے اور ہم امبر ایوب سے مل کر بڑے خوش ہوئے کافی دیر تک کراچی کی باتیں ہوتی رہیں پھر اس نے بتایا کہ وہ آج شام کچھ جلدی بوتیک بند کرکے گھر جائے گی کیونکہ وحید مراد کی بیٹی عالیہ پاکستان سے آئی ہوئی ہے لیجنڈ ہیرو وحید مراد اور سلمیٰ مراد کے ساتھ ان دونوں بہنوں کے بڑے پرانے اور گہرے مراسم چلے آرہے ہیں بلکہ خاندانی تعلقات رہے ہیں امبر ایوب سے یہ ایک بڑی خوشگوار اور یادگار ملاقات رہی تھی اس شام میں نے بھی جلدی جانا تھا کہ رات کو پاکستانی ٹیلی ویژن کی لیجنڈ فنکارہ اور ہمارے دیرینہ دوست قمر علی عباسی مرحوم کی بیگم نیلوفر عباسی کے گھر رات کو ڈنر تھا اور بڑی محبت سے انھوں نے ہمیں مدعوکیا تھا۔
نیلوفر عباسی بلکہ نیلوفر بھابھی سے ہمارے اس زمانے کے مراسم ہیں جب میں ریڈیو پاکستان کراچی میں بزم طلبا کے پروگرام سے وابستہ تھا اور نیلوفر عباسی اس وقت نیلوفر علیم کے نام سے ریڈیو کی نامور صداکارہ تھیں پھر وہ قمر علی عباسی کی شریک حیات ہوگئی تھیں اور ہمیں بھی انھیں بھابھی کہنے کا موقع مل گیا تھا۔جب میں اپنی بیگم کے ساتھ ڈیلس کے علاقے مرفی میں ان کے گھر پہنچا تو وہاں اپنے دیرینہ دو دوستوں کراچی اسٹیج کے مشہور پروڈیوسر ڈائریکٹر فرقان حیدر اور ریڈیو پاکستان کراچی کے رائٹر اور صحافی اویس نصیر کے ساتھ ڈیلس کے مقامی شاعر یونس اعجاز بھی موجود تھے، نیلوفر بھابھی نے یہ ایک سر پرائز دیا تھا، پرانے دوستوں کا ملنا کسی سوغات سے کم نہیں ہوتا ان دونوں دوستوں سے تقریباً پچیس تیس سال بعد میری ملاقات ہوئی تھی۔
نیلوفر بھابھی کا گھر بڑا شاندار تھا اور اس کے لیے فرنیچر پاکستان سے منگوایا گیا تھا ان کے صاحبزادے پہلے اپنے والد قمر علی عباسی جب حیات تھے تو نیویارک ہی میں رہتے تھے مگر والد کے انتقال کے بعد وہ نیویارک چھوڑ کر والدہ سمیت ڈیلس میں آبسے تھے۔ وجاہت علی نے بہت اچھے کالم بھی لکھے ہیں، اب دو بیٹوں کے باپ ہیں۔
ڈنر کے دوران قمر علی عباسی کی بہت سی باتیں اور یادیں ہم کافی دیر تک شیئر کرتے رہے پھر کھانے کے بعد وجاہت علی عباسی اور فرقان حیدر کے اصرار پر کچھ شعر و شاعری کا سلسلہ بھی چل نکلا اس طرح ایک چھوٹی سی شعری نشست بھی ہوگئی جس کی خوبصورت نظامت کے فرائض وجاہت علی عباسی نے ادا کیے اور اس دوران مقامی شاعر یونس اعجاز اور میں نے اپنے اشعار سنائے اس طرح یہ دعوت بھی شعری نشست کے ساتھ ایک یادگار دعوت کے زمرے میں آگئی تھی۔
دوسرے دن پھر ظفر خان کا فون آگیا۔ وہ بولے کرکٹ کے کھیل سے دلچسپی ہے؟ میں نے کہا کیوں ۔ بچپن سے جوانی تک خوب کرکٹ کھیلی ہے پھر شاعری شروع کی تو کرکٹ پس منظر میں چلی گئی تھی۔ یہ سن کر ظفر صاحب نے کہا تو بس پھر آپ تیار رہیں میں آپکو لینے آرہا ہوں۔ میں نے کہا لیکن ایک بات یاد رہے کہ ہم شام سے پہلے جہاں بھی جائیں فارغ ہوجائیں وہ اس لیے کہ آج شام کو میرا دیرینہ دوست اور میرے ابتدائی گیتوں کا سنگر تحسین جاوید ہوسٹن سے بائی کار صرف مجھے ملنے آرہا ہے۔
آج شام کی چائے اور کھانا اس کے ساتھ ہی ہے۔ یہ سن کر ظفر خان نے کہا ارے واہ! تحسین جاوید تو ہمارا بھی بہت اچھا دوست ہے وہ ڈیلس میں آئے دن اکثر میوزیکل شوز میں آتا رہتا ہے۔ کچھ دیر بعد ظفر خان کے ساتھ ہم ڈیلس کے کرکٹ سے متعلق ایک کو چنگ سینٹر کے آفس میں موجود تھے یہ ان ڈور خوبصورت کوچنگ سینٹر گزشتہ سال ہی قائم کیا گیا ہے۔ اس کا نام (Cric Zone) کرک زون رکھا گیا ہے۔
ڈیلس میں اس کی شاندار پیمانے پر افتتاحی تقریب ہوئی تھی اس کے روح رواں سینئر کرکٹر نبیل ہیں اور پچھلے دنوں انھی کی دعوت پر کرکٹ کے نامور کھلاڑی ثقلین مشتاق اور عمران اکمل ڈیلس آئے تھے۔ انھی کے مشوروں سے ڈیلس کی ایک کرکٹ ٹیم تشکیل دی جاچکی ہے جو جلد ہی بڑے پیمانے پر ڈیلس میں کرکٹ میچز کا انعقاد کرے گی پھر شام سے پہلے ہم ڈیلس کے اس ریسٹورنٹ میں موجود تھے جہاں گلوکار تحسین جاوید کے ساتھ چائے کی چسکیوں کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کی جا رہی تھیں۔
اس ریسٹورنٹ میں ظفر خان اور تحسین جاوید کے دیرینہ ساتھی اے۔زی انٹرٹینمنٹ کے نگران اظہر قاسمی بھی تھے جو ڈیلس اور ہوسٹن میں پاکستانی اور ہندوستانی فنکاروں کے ساتھ موسیقی کے پروگرامز کرتے ہیں یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ گلوکار تحسین جاوید نے پہلی بار میرا لکھا ہوا جنگل (کمرشل گیت) جس کے بول تھے آج کل ڈنٹونک کا بول بالا ہے گایا تھا اور اس کو اس کے بعد بڑی شہرت ملی تھی۔
پھر اس کا پہلا سپرہٹ کیسٹ بھی میرا ہی لکھا ہوا تھا جس کی موسیقی محبوب اشرف نے دی تھی، مجھے تحسین جاوید کی طرف سے یہ ڈنر دیا گیا تھا اور کھانے کے دوران ہم صرف کراچی کی سنہری یادیں تازہ کرتے رہے ۔ ڈیلس سے واپسی سے دو دن پہلے ڈیلس گروپ آف انٹرنیشنل کی طرف سے ڈرامہ پروڈیوسر ڈائریکٹر فرقان حیدر اور رائٹر و صحافی اویس نصیرکے تعاون سے ڈیلس کے اردو گھر رچرڈسن میں میرے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی صدارت مشہور دانشور پروفیسر حبیب صدیقی نے کی اور مہمان اعزازی کے طور پر یونس اعجاز اور نیلوفر عباسی نے شرکت کی اور اس تقریب میں ڈیلس شہر کی اردو دوست شخصیات ، ماہر معاشیات رشید صدیقی، سراج بٹ، اختر نواز، افضال قریشی، رضوان عزیز، مقصود احمد، ونود کمار، جاوید سموئیل، ظفر اے خان ڈیلی امن کراچی کے صحافی دوست رشید اظفر اور پاکستان کے ایک سابق اٹارنی جنرل عین الدین بھی شامل تھے ۔
میرے بارے میں نیلوفر عباسی، فرقان حیدر اور اویس نصیر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور فلمی دنیا سے میری وابستگی کا خوبصورت الفاظ میں تذکرہ کیا۔ تقریب کے آخر میں، میں نے لاہور کی فلمی دنیا کی کچھ یادیں شیئر کرتے ہوئے اپنا کچھ تازہ کلام بھی سنایا اور اس طرح میں ایک خوبصورت شام کی یادیں اور بہت سے دوستوں کی محبت کی خوشبو دل میں بسائے بیس دن بعد ڈیلس سے واپس نیوجرسی آگیا۔