سقوط ڈھاکا
یہ شیخ مجیب ہی تھے جب پاکستان کا وجود میں نہیں آیا تھا تو وہ پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے تھے۔
پچھلے اتوارکو 16 دسمبر تھا ، دل نے چاہا مگر شکست دل نے مہلت نہ دی کہ میں اپنا آنکھوںدیکھا حال بیان کر سکوں۔ سقوط ڈھاکا یوں کہیے کہ جیسے میرے گھرکی داستان ہو، میری عمر اس وقت سات سال کے لگ بھگ تھی۔
اپنی جلا وطنی سے پہلے میرے والد حمود الرحمن کمیشن میں بطور نائب صدر آل پاکستان عوامی لیگ شامل ہوئے اور ساتھ ہی ڈھاکا میں موجود ہونے کی روداد سنانے کے لیے بھی پیش ہوئے۔ عوامی لیگ سے ان کا تعلق حسین شہید سہروردی کے زمانے سے تھا۔ جب سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو میرے والد نے مولانا بھاشانی اور دوسرے کئی رہنمائوں کی امریکا نواز پالیسیوں سے ناراض ہوکرNAP کی بنیاد ڈالی، جس کا پہلا اجلاس ڈھاکا میں ہوا۔
1967 میں، شیخ مجیب کے بے حد اصرار پر اور اس وعدے پرکہ وہ ون یونٹ کے خاتمے کے لیے بھرپور ساتھ دیں گے، میرے والد قاضی فیض محمد آل پاکستان عوامی لیگ کے سینئر نائب صدر، ماسٹر خان گل اور مشرقی پاکستان سے نائب صدر تاج دین بنے۔ پھر چھ نکات کے نام سے پارٹی کا منشور طے پایا ۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے قوم پرست تو NAP میں رہے۔ سندھ کے قوم پرست جن کے پاس اپنا حلقہ بھی نہ تھا جوکہ صرف مڈل کلاس شاگردوں اور ان کے گروہ میں اپنا اثرو رسوخ رکھتے تھے۔
سندھ اور پنجاب کے باقی حصے ذوالفقار علی بھٹوکے مداح تھے۔ سرد جنگ کا زمانہ تھا، مشرقی پاکستان اکثریت تھی اور مغربی پاکستان اقلیت، مگر دارالحکومت اور تمام اداروں پر مشرقی پاکستان کا غلبہ تھا اور مشرقی پاکستان میں اکثریتی غلبہ پنجاب کا تھا۔ ہندوستان و پاکستان کی دشمنی ان دنوں عروج پر تھی۔ وہ سوویت یونین کے ساتھ تھے اور ہم امریکا کے حامی۔ وہ قدرے غیر جانبدار تھے مگر ہم نہیں۔ شیخ مجیب اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی غیر جانبدار ہو، مگرکہیں نہ کہیں وہ سوویت یونین کے حامی تھے اور بنگالی قوم پرست بھی۔
یہ کہنا کہ ان کو اگرتلہ سازش کیس نے مشہورکیا تو شاید یہ درست نہ ہوگا، یہ ایک طویل داستان ہے۔ میں نے شیخ مجیب کی سوانح حیات بھی پڑھی ہے۔ وہ ایک پاکستانی تھے اور پاکستان میں رہتے ہوئے بنگالیوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے۔جب حسین شہید سہروردی متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ تھے، یہ اس مسلم لیگ کے کا رکن تھے۔ مسلم لیگ میں دو واضح قوتیں تھیں، ایک یو پی کے مسلم لیڈران اور دوسرے بنگال کے۔ پاکستان بننے کے بعد یو پی سے آئی ہوئی قیادت نے اقتدار پر قبضے جمائے۔
شیخ مجیب اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ''ریڈکلف کمیشن اس بات پر آمادہ ہو چکا تھا کہ کلکتہ پاکستان کو دے دیا جائے اور لاہور ہندوستان کو'' اور اس بات کے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔ ہماری یوپی کی قیادت اس بات کے سخت خلاف تھی کہ کلکتہ پاکستان میں شامل کیا جائے کیونکہ اس طرح بنگال مسلم لیگ کی قیادت پاکستان میں ان پر بھاری پڑ جاتی۔ شہید سہروردی کا اثر رسوخ بڑھ جاتا اور اس طرح سندھ کی کمزور مسلم لیگ کراچی کے دارالحکومت ہونے پر ان کے سامنے ٹھہر نہ پاتی ۔
1951 کے ریاستی انتخابات میں مسلم لیگ مشرقی پاکستان سے رخصت ہو گئی اور اس خلاء کو فضل الحق اور سہروردی نے پر کیا۔ سندھ میں جی ایم سید روٹھ کر گھر بیٹھ گئے اور ایوب کھوڑو کو مسلم لیگ نے رخصت کر دیا اور پھر ہماری اسٹیبلشمنٹ سامنے آئی اور ساتھ ہی امریکی مفاد ات۔ جس طرح آج پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں بالکل اسی طرح اس زمانے میں پاک امریکا دوستی کے نعرے لگتے تھے۔
یہ شیخ مجیب ہی تھے جب پاکستان کا وجود میں نہیں آیا تھا تو وہ پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے تھے کہ ''بن کے رہے گا پاکستان'' اور یہی شیخ مجیب تھے جو 1965 کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے جب کہ دوسری طرف مقابلے میں جنرل ایوب تھے۔
بنگال کا ہم سے جدا ہونا کوئی آزادی کی تحریک نہ تھی جیسے کہ کشمیر کی یا پھر فلسطین کی تحریک ہے، نہ ہی شیخ مجیب نے اپنی جدوجہد سے ایسا کوئی پیغام دیا تھا، بس علیحدگی کی ایک کسک تھی اور یہ کسک کسی کے اندر بھی ہو سکتی ہے، چاہے وہ پاکستان ہو یامتحدہ بنگال۔ جب ہم نے آدھا ملک گنوایا، بہت سی قربانیاں دیں تب کہیں جا کر 1973ء میں ہمیں ملک کا پہلا آئین ملا۔
ہندوستان نے آزاد ہوتے ہی اپنی آئینی راہوں کا تعین کیا، مگر ہم سرد جنگ کے مہرے بنے اپنے ملک کے آئین کی تشکیل نہ کر سکے، اگریہ وفاقی پاکستان ہمیں پہلے مل جاتا یا ہم قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکی پیروی کرتے تو شاید آج ہندوستان اور چائنا کی طرح ہم نئی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہوتے۔
شیخ مجیب ایک بھرپور وفاقی پاکستان کے طلبگار تھے۔ ان کے پاس جمہوریت کی یہ حقیقت تھی کہ اگر وہ وفاقی نہیں تو جمہوریت آدھی۔ خیر ان کوجانا تھا وہ تو چلے گئے مگر ہم نے اس غلطی سے ایک سبق ضرور سیکھا کہ 1973 میں پاکستان کو آئین دے کر ایک بھرپور وفاقی پاکستان بنایا اوراٹھارویں ترمیم نے اس کو مزید مضبوط کیا۔
1970کے انتخابات میں بھٹو اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر ایک بھی امیدوار مشرقی پاکستان سے نامزد نہ کر سکے جب کہ شیخ مجیب اس حوالے سے بہتر رہے کہ پنجاب سے عوامی لیگ کے امیدوار عاصمہ جہانگیر کے والد ملک جیلانی تھے اور سندھ، نواب شاہ سے واحد امیدوار میرے والد قاضی فیض محمد تھے جو کہ عوامی لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنے کے لیے امیدوار بنے اور ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے امیدوار حاکم علی زرداری تھے۔
بھٹو صاحب ہمارے گھر آئے کیونکہ وہ میرے والد کے قریبی دوست بھی تھے، ان کا اصرار تھا کہ قاضی فیض محمد، شیخ مجیب کو چھوڑ کر ان کی پارٹی میں شریک ہوں اور انھوں نے حاکم علی زرداری کے دستبردار ہونے کا عندیہ بھی دیا، لیکن میرے والد نے بھٹوکو یہ باورکروایا کہ ان کے پاس پاکستان میں رہتی ہوئی چھوٹی قوموں کے لیے کچھ بھی نہیں اور اگر اس وقت وہ شیخ مجیب کو چھوڑ دیں گے تو سندھیوں کی کوئی لاج نہ بچے گی۔
عوامی لیگ کا چھ نکاتی پروگرام ایک ڈھکوسلہ تھا۔ 1970 کے الیکشن میں شیخ مجیب بطور امیدوار وزیراعظم انتخابات لڑ رہے تھے اور ہم بطور بنگالی ان کو اقتدار دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ فتح ملک جو اب بھی حیات ہیں، شیخ ایاز اور میرے والد اس زمانے میں جب مشرقی پاکستان میں ظلم ڈھائے جا رہے تھے ، راولپنڈی گئے اور مخصوص رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کو سمجھا نے کی کوشش بھی کی کہ صرف پاکستان کے دارالحکومت کو ڈھاکا شفٹ کیا جائے پھر تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ تو شاید راضی ہو بھی جاتی لیکن شیخ مجیب پر ان زمانوں میں سوویت یونین کے حامی ہونے کا بھی الزام بھی لگ چکا تھا جوکہ امریکا کو شدید ناپسند تھا اور اس طرح ایک محب وطن پاکستانی پر غداری کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ بھٹو نے اس طبل کو خوب بجایا لیکن وہ شاید اس بات سے ناواقف تھے کہ یہی حالات پاکستان میں ان کے خلاف بھی پیدا کیے جائیں گے اور یوں پاکستان کی بھرپور سول قیادت ہم نے کھو دی۔
میرے والد نے 1971 کے تین ماہ ڈھاکا میں ہی گزارے۔ وہ ان تمام ملاقاتوں میں موجود رہے جب یحییٰ خان اور بھٹو، شیخ مجیب سے ملنے ڈھاکا آئے۔میرے والد تب بھی موجود تھے جب ولی خان اورNAP کی قیادت، شیخ مجیب سے ملنے آئی بلکہ انھوں نے ان میٹینگزکی معاونت بھی کی، مگر مذاکرات ناکام رہے۔ 24 March 1971 کی وہ شام جب آخری بار میرے والد شیخ مجیب کے دھان منڈی کے گھر میں ان سے ملے۔
شیخ مجیب نے کہا ''کل یہاں پر بھیانک خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے، حالات خراب ہونے والے ہیں، اگر آپ اگر جلدی پاکستان نکل جائیں تو بہتر ہو گا یا پھر میں آپ کے لیے کسی دوست کے پاس ٹھہرنے کا بندوبست کروں'' میرے والد نے کہا کہ ''لیکن یہ سب کیا ہو رہا ہے'' شیخ مجیب نے کہا کہ ''ہم نے بنگالی قوم کے لیے آزاد وطن کا اعلان کر دیا ہے''۔ میرے والد نے کہا کہ ''مگر قمر الزمان اور تاج دین کہاں ہیں'' شیخ مجیب نے کہا کہ ''وہ سب بارڈرکراس کر گئے ہیں'' میرے والد نے کہا ''لیکن تم یہاں کیا کر رہے ہو تم کیوں نہیں روپوش ہو جاتے'' شیخ مجیب نے کہا کہ ''میں لیڈر ہوں اور میں گرفتار ہونا پسند کروں گا۔''
میرے والد اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ''میں نے جب آخری بار شیخ مجیب سے ملتے ہوئے ان کا بوسہ لیا تو انھوں نے بھی میرا بوسہ لیا، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میری آنکھیں بھی نم تھیں۔''
اپنی جلا وطنی سے پہلے میرے والد حمود الرحمن کمیشن میں بطور نائب صدر آل پاکستان عوامی لیگ شامل ہوئے اور ساتھ ہی ڈھاکا میں موجود ہونے کی روداد سنانے کے لیے بھی پیش ہوئے۔ عوامی لیگ سے ان کا تعلق حسین شہید سہروردی کے زمانے سے تھا۔ جب سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو میرے والد نے مولانا بھاشانی اور دوسرے کئی رہنمائوں کی امریکا نواز پالیسیوں سے ناراض ہوکرNAP کی بنیاد ڈالی، جس کا پہلا اجلاس ڈھاکا میں ہوا۔
1967 میں، شیخ مجیب کے بے حد اصرار پر اور اس وعدے پرکہ وہ ون یونٹ کے خاتمے کے لیے بھرپور ساتھ دیں گے، میرے والد قاضی فیض محمد آل پاکستان عوامی لیگ کے سینئر نائب صدر، ماسٹر خان گل اور مشرقی پاکستان سے نائب صدر تاج دین بنے۔ پھر چھ نکات کے نام سے پارٹی کا منشور طے پایا ۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے قوم پرست تو NAP میں رہے۔ سندھ کے قوم پرست جن کے پاس اپنا حلقہ بھی نہ تھا جوکہ صرف مڈل کلاس شاگردوں اور ان کے گروہ میں اپنا اثرو رسوخ رکھتے تھے۔
سندھ اور پنجاب کے باقی حصے ذوالفقار علی بھٹوکے مداح تھے۔ سرد جنگ کا زمانہ تھا، مشرقی پاکستان اکثریت تھی اور مغربی پاکستان اقلیت، مگر دارالحکومت اور تمام اداروں پر مشرقی پاکستان کا غلبہ تھا اور مشرقی پاکستان میں اکثریتی غلبہ پنجاب کا تھا۔ ہندوستان و پاکستان کی دشمنی ان دنوں عروج پر تھی۔ وہ سوویت یونین کے ساتھ تھے اور ہم امریکا کے حامی۔ وہ قدرے غیر جانبدار تھے مگر ہم نہیں۔ شیخ مجیب اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی غیر جانبدار ہو، مگرکہیں نہ کہیں وہ سوویت یونین کے حامی تھے اور بنگالی قوم پرست بھی۔
یہ کہنا کہ ان کو اگرتلہ سازش کیس نے مشہورکیا تو شاید یہ درست نہ ہوگا، یہ ایک طویل داستان ہے۔ میں نے شیخ مجیب کی سوانح حیات بھی پڑھی ہے۔ وہ ایک پاکستانی تھے اور پاکستان میں رہتے ہوئے بنگالیوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے۔جب حسین شہید سہروردی متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ تھے، یہ اس مسلم لیگ کے کا رکن تھے۔ مسلم لیگ میں دو واضح قوتیں تھیں، ایک یو پی کے مسلم لیڈران اور دوسرے بنگال کے۔ پاکستان بننے کے بعد یو پی سے آئی ہوئی قیادت نے اقتدار پر قبضے جمائے۔
شیخ مجیب اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ''ریڈکلف کمیشن اس بات پر آمادہ ہو چکا تھا کہ کلکتہ پاکستان کو دے دیا جائے اور لاہور ہندوستان کو'' اور اس بات کے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔ ہماری یوپی کی قیادت اس بات کے سخت خلاف تھی کہ کلکتہ پاکستان میں شامل کیا جائے کیونکہ اس طرح بنگال مسلم لیگ کی قیادت پاکستان میں ان پر بھاری پڑ جاتی۔ شہید سہروردی کا اثر رسوخ بڑھ جاتا اور اس طرح سندھ کی کمزور مسلم لیگ کراچی کے دارالحکومت ہونے پر ان کے سامنے ٹھہر نہ پاتی ۔
1951 کے ریاستی انتخابات میں مسلم لیگ مشرقی پاکستان سے رخصت ہو گئی اور اس خلاء کو فضل الحق اور سہروردی نے پر کیا۔ سندھ میں جی ایم سید روٹھ کر گھر بیٹھ گئے اور ایوب کھوڑو کو مسلم لیگ نے رخصت کر دیا اور پھر ہماری اسٹیبلشمنٹ سامنے آئی اور ساتھ ہی امریکی مفاد ات۔ جس طرح آج پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں بالکل اسی طرح اس زمانے میں پاک امریکا دوستی کے نعرے لگتے تھے۔
یہ شیخ مجیب ہی تھے جب پاکستان کا وجود میں نہیں آیا تھا تو وہ پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے تھے کہ ''بن کے رہے گا پاکستان'' اور یہی شیخ مجیب تھے جو 1965 کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے جب کہ دوسری طرف مقابلے میں جنرل ایوب تھے۔
بنگال کا ہم سے جدا ہونا کوئی آزادی کی تحریک نہ تھی جیسے کہ کشمیر کی یا پھر فلسطین کی تحریک ہے، نہ ہی شیخ مجیب نے اپنی جدوجہد سے ایسا کوئی پیغام دیا تھا، بس علیحدگی کی ایک کسک تھی اور یہ کسک کسی کے اندر بھی ہو سکتی ہے، چاہے وہ پاکستان ہو یامتحدہ بنگال۔ جب ہم نے آدھا ملک گنوایا، بہت سی قربانیاں دیں تب کہیں جا کر 1973ء میں ہمیں ملک کا پہلا آئین ملا۔
ہندوستان نے آزاد ہوتے ہی اپنی آئینی راہوں کا تعین کیا، مگر ہم سرد جنگ کے مہرے بنے اپنے ملک کے آئین کی تشکیل نہ کر سکے، اگریہ وفاقی پاکستان ہمیں پہلے مل جاتا یا ہم قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکی پیروی کرتے تو شاید آج ہندوستان اور چائنا کی طرح ہم نئی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہوتے۔
شیخ مجیب ایک بھرپور وفاقی پاکستان کے طلبگار تھے۔ ان کے پاس جمہوریت کی یہ حقیقت تھی کہ اگر وہ وفاقی نہیں تو جمہوریت آدھی۔ خیر ان کوجانا تھا وہ تو چلے گئے مگر ہم نے اس غلطی سے ایک سبق ضرور سیکھا کہ 1973 میں پاکستان کو آئین دے کر ایک بھرپور وفاقی پاکستان بنایا اوراٹھارویں ترمیم نے اس کو مزید مضبوط کیا۔
1970کے انتخابات میں بھٹو اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر ایک بھی امیدوار مشرقی پاکستان سے نامزد نہ کر سکے جب کہ شیخ مجیب اس حوالے سے بہتر رہے کہ پنجاب سے عوامی لیگ کے امیدوار عاصمہ جہانگیر کے والد ملک جیلانی تھے اور سندھ، نواب شاہ سے واحد امیدوار میرے والد قاضی فیض محمد تھے جو کہ عوامی لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات لڑنے کے لیے امیدوار بنے اور ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے امیدوار حاکم علی زرداری تھے۔
بھٹو صاحب ہمارے گھر آئے کیونکہ وہ میرے والد کے قریبی دوست بھی تھے، ان کا اصرار تھا کہ قاضی فیض محمد، شیخ مجیب کو چھوڑ کر ان کی پارٹی میں شریک ہوں اور انھوں نے حاکم علی زرداری کے دستبردار ہونے کا عندیہ بھی دیا، لیکن میرے والد نے بھٹوکو یہ باورکروایا کہ ان کے پاس پاکستان میں رہتی ہوئی چھوٹی قوموں کے لیے کچھ بھی نہیں اور اگر اس وقت وہ شیخ مجیب کو چھوڑ دیں گے تو سندھیوں کی کوئی لاج نہ بچے گی۔
عوامی لیگ کا چھ نکاتی پروگرام ایک ڈھکوسلہ تھا۔ 1970 کے الیکشن میں شیخ مجیب بطور امیدوار وزیراعظم انتخابات لڑ رہے تھے اور ہم بطور بنگالی ان کو اقتدار دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ فتح ملک جو اب بھی حیات ہیں، شیخ ایاز اور میرے والد اس زمانے میں جب مشرقی پاکستان میں ظلم ڈھائے جا رہے تھے ، راولپنڈی گئے اور مخصوص رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کو سمجھا نے کی کوشش بھی کی کہ صرف پاکستان کے دارالحکومت کو ڈھاکا شفٹ کیا جائے پھر تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ تو شاید راضی ہو بھی جاتی لیکن شیخ مجیب پر ان زمانوں میں سوویت یونین کے حامی ہونے کا بھی الزام بھی لگ چکا تھا جوکہ امریکا کو شدید ناپسند تھا اور اس طرح ایک محب وطن پاکستانی پر غداری کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ بھٹو نے اس طبل کو خوب بجایا لیکن وہ شاید اس بات سے ناواقف تھے کہ یہی حالات پاکستان میں ان کے خلاف بھی پیدا کیے جائیں گے اور یوں پاکستان کی بھرپور سول قیادت ہم نے کھو دی۔
میرے والد نے 1971 کے تین ماہ ڈھاکا میں ہی گزارے۔ وہ ان تمام ملاقاتوں میں موجود رہے جب یحییٰ خان اور بھٹو، شیخ مجیب سے ملنے ڈھاکا آئے۔میرے والد تب بھی موجود تھے جب ولی خان اورNAP کی قیادت، شیخ مجیب سے ملنے آئی بلکہ انھوں نے ان میٹینگزکی معاونت بھی کی، مگر مذاکرات ناکام رہے۔ 24 March 1971 کی وہ شام جب آخری بار میرے والد شیخ مجیب کے دھان منڈی کے گھر میں ان سے ملے۔
شیخ مجیب نے کہا ''کل یہاں پر بھیانک خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے، حالات خراب ہونے والے ہیں، اگر آپ اگر جلدی پاکستان نکل جائیں تو بہتر ہو گا یا پھر میں آپ کے لیے کسی دوست کے پاس ٹھہرنے کا بندوبست کروں'' میرے والد نے کہا کہ ''لیکن یہ سب کیا ہو رہا ہے'' شیخ مجیب نے کہا کہ ''ہم نے بنگالی قوم کے لیے آزاد وطن کا اعلان کر دیا ہے''۔ میرے والد نے کہا کہ ''مگر قمر الزمان اور تاج دین کہاں ہیں'' شیخ مجیب نے کہا کہ ''وہ سب بارڈرکراس کر گئے ہیں'' میرے والد نے کہا ''لیکن تم یہاں کیا کر رہے ہو تم کیوں نہیں روپوش ہو جاتے'' شیخ مجیب نے کہا کہ ''میں لیڈر ہوں اور میں گرفتار ہونا پسند کروں گا۔''
میرے والد اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ''میں نے جب آخری بار شیخ مجیب سے ملتے ہوئے ان کا بوسہ لیا تو انھوں نے بھی میرا بوسہ لیا، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میری آنکھیں بھی نم تھیں۔''