سندھ کیلیے مختص پانی کے حصے میں مسلسل کٹوتی دہشت گردی ہے ماہرین آبپاشی اسٹیک ہولڈر
دریائے سندھ مٹی سے بھرچکا ہے،محمد علی شاہ،ایری گیشن سسٹم تباہ ہو رہا ہے, کانفرنس سے خطاب
سندھ کے سیاسی قوم پرست رہنمائوں، ماہرین آبپاشی و اسٹیک ہولڈرز نے مختلف معاہدوں کے باوجود سندھ کے حصے کے پانی میں مسلسل کٹوتی کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ غیر آئینی اقدامات پرجس طرح پرویزمشرف کیخلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
اسی طرح ماضی میں دریا اور ان کا پانی فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے، معاہدے کے تحت دستیاب پانی کی منصفانہ تقیسم کو یقینی بنانے کیلیے آبادگارحکام سے مطالبات کرنے کے بجائے،اپنا حق حاصل کرنے کیلیے عدالتوںکے دروزاے کھٹکھٹائیں، آبادگارلیزرٹیکنالوجی، ڈرپ اور اسپرنکل سسٹم کے ذریعے پانی کے استعمال کوکم کرکے زیادہ پیدا وارحاصل کرسکتے ہیں،ان خیالات کا اظہارمختلف سیاسی رہنمائوں اورماہرین نے ایکسپریس میڈیاگروپ کے سندھی روزنامے سندھ ایکسپریس کے تحت ''سندھ میں پانی کی کمی اور سیلاب سے بچائو'' سے متعلق مقامی ہوٹل میں کانفرنس سے خطاب میں کیا،کانفرنس میں سیاسی، قوم پرست رہنمائوں، ماہرین آبپاشی، آباد گار اوردیگر اسیٹک ہولڈرز کے نمائندوں نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔
پیپلز پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری تاج حیدر جو ان دنوں صدر زرداری کے احکامات کی روشنی میں سندھ میں پانی کے ایشوزکودیکھ رہے ہیں نے بین الاقوامی کمپنی سے کرائے جانے والے سروے کی روشنی میں اپنی پریذینٹیشن پیش کی اور اپنی تحقیقات کی روشنی میں بتایا کہ خیرپور سے لیکربدین تک دوسال سے مسلسل کام کیاجا رہا ہے کہ پانی کی نکاسی کی18 گذرگاہوں کو بحال کیا جائے، اورگذرگاہوں کے راستے میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انھیں قانون کے مطابق ختم کر کے انکروچرزکواس کا معاوضہ دیا جائے، یہ گذرگاہیں کہیں تومختلف شہروں کے درمیان میں سے گذرتی ہیں اورکہیں شہروں کے قریب سے جن کیلیے سروے کرنے والی کمپنی نے مشورہ دیاکہ ان گذرگاہوں، نالوں کوختم کرکے شہروں کے مقام پر ان گذرگاہوں کیلیے بائی پاس بنائے جائیں لیکن ان کی اس تجویز پر عملدرآمد میں بہت زیادہ پیسہ لگ جائے گا ہم نے مشورہ دیا کہ ان گذرگاہوں، نالوں کے راستوں سے انکروچمنٹ ہٹائی جائے۔
انھوں نے بتایا کہ ماضی میں میرپورخاص مین ڈرینج یعنی ایم ایم ڈی جس میں شوگر ملز اپنا پانی چھوڑرہی ہیں کی وجہ سے زیادہ تباہی آئی کیونکہ یہ ایم ایم ڈی، برساتی پانی کی قدیمی گذرگاہ پران ڈھورو تک پانی کی رسائی کے سامنے رکاوٹ بن گئی اس لیے اب یہاں مختلف مقامات پر سائفین تعمیرکیے جا رہے ہیں تاکہ آئندہ برساتوں کی صورت میں برساتی پانی پران ڈھورو تک پہنچ جائے، انھوں نے بتایا کہ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ شکور جھیل سے اوپر جہاں زیادہ پانی کے نالے گذر رہے ہیں وہاں ایک اور میٹھے پانی کی جھیل بناکر پورے علاقے سے پانی کا مسئلہ ہی ختم کردیا جائے،کانفرنس سے عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو نے خطاب کرتے ہوئے پنجاب میں کالا باغ ڈیم کی تعمیرکے حوالے سے پٹیشن دائرکی جا چکی ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا ہے کہ اس پیٹیشن پر سندھ نے کیا موقف اختیارکیا ہے یا پھر اس پیٹیشن پر سندھ نے فریق بننا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
اگرسندھ نے اس پٹیشن پرموقف اختیارکیا ہے تو پھر وہ عوام کے سامنے لایا جائے کیونکہ سندھ کے عوام کوشک ہے کہ کہیں یہ سارا فتنہ اپنے ہی کسی کی ستم ظریفی نہ ہوکیونکہ ہماری بربادی کے سارے کام ہمارے ہی لوگ کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ وہ اس بات پرقائم ہیں کہ سندھ کی بربادی کا دور لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوا جبکہ پانی کے معاملے پر تو ہمارے ساتھ نہ صرف فراڈ ہوا بلکہ دہشت گردی کی گئی جو جاری ہے، انھوں نے کہاکہ سندھ کا مسئلہ سندھ کے غدار وڈیروں کے باعث ہمارے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے، انھوں نے سندھ حکومت پر بھی کڑی تنقید کی اورکہا کہ حکومت اربوں روپے ڈکارنے کیلیے بنائی گئی ہے یہ پانی سے اپنا حصہ کھا رہے ہیں، سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادرمگسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ایک انصاف پسند اور اہل حکومت کی ضرورت ہے جو پانی کی کمی اور سیلابی کیفیت میں عوام کو ریلیف فراہم کرسکے ۔
انھوں نے کہاکہ محکمہ آبپاشی کے افسران اپنے دفاتر میں ملتے نہیں ہیں وہ بھلا کس طرح سندھ کے حصے کا پانی لے سکتے ہیں ، انھوں نے کہاکہ سندھ میں کراچی سے کشمور تک لاکھوں ایکڑ اراضی پر پائے جانے والے جنگلات کاٹ لیے گیے حکومت اندھی ہے اس کو عینک کی نہیں بلکہ دوربین کی ضرورت ہے، انھوں نے کہاکہ بجلی بنانے کے نام پر ڈیم بنانے کی بات کرکے ڈیموں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ہم چھ ہزارکے بجائے26 ہزار میگا واٹ بجلی بغیر ڈیم بنائے ونڈ، سولر سسٹم کے ذریعے بناسکتے ہیں، سندھ آباد گار بورڈ کے جنرل سیکریٹری محمود نواز شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں ایری گیشن سسٹم تباہ ہو رہا ہے اس کو بچانے کیلیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا فی الحال جتنا بھی پانی موجود ہے اس کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، انھوں نے کہا کہ اس وقت کوٹری بیراج کے ڈوان اسٹریم پانی چھوڑا گیا ہے لیکن مختلف علاقوں میں نہروں میں پانی نہیں ہے جبکہ مختلف علاقوں میں جہاں مختلف فصلیں لگانے پر پابندی تھی وہاں ایسی فصلیں لگائی جا رہی ہیں جن کے لیے زیادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
زرعی ایگریکلچرل کے رہنما اخوند غلام محمد صدیقی نے کہاکہ1992کا پانی کے معاہدہ آباد گاروں کے مشورے کے بغیر ہی سابق وزیر اعلی سندھ جام صادق نے کیا معاہدے کے بعد آبادگار تنظیموں کے رہنمائوں کو بلوا کر صرف ہمیں اطلاع دی کہ وہ اسلام آباد میں معاہدہ کر آئے ہیں۔ انھوں نے سیلاب کے دونوں میں تباہی سے بچنے کے لیے مختلف تجاویز بھی دیں، فشر فوک فورم کے چئیرمین محمد علی شاہ کاکہنا تھا کہ پانی چوری دراصل ایک دہشت گردی ہے دریا سندھ دنیا کا بائیس واں بڑا دریا ہے جو کل تک اپنی لہروں میں آنے والی سلٹ سے سمندرکو پیچھے دھکیل کررکھتا تھا لیکن آج خود سلٹ سے بھر گیا ہے، غلط پلاننگ کے باعث آج دریا تباہ اور ڈیلٹا مر رہا ہے جس کی وجہ سے بیس لاکھ افرادکوڈیلٹا سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔
عوامی جمہوری پارٹی کے سربراہ ابرار قاضی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر گلیشیر ختم ہو رہے ہیں تو پھر مستقبل میں بھارت کو بھی زیادہ پانی چاہیے ہوگا اور وہ سندھ سے ہی اپنا حصہ لے گا اس لیے ابھی سے ہی خود کو تیار رکھنا ہو گاکہ اس بڑی جنگ کے لیے تیار رکھنا ہوگا تو وہیں زیادہ پانی کے استعمال کو ترک کرکے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا، جسقم کے ساگر حنیف نے خطاب کرتے ہوئے کہا سندھ میں پانی کی کمی کا اصل ذمے دار پنجاب ہے۔ اس موقع پر سابق سیکریٹری آبپاشی ہاشم لغاری،آباد گار رہنماء میجر ریٹائرڈ عمر فاروق، میرپورخاص کے آباد گار رہنما غلام مصطفی لغاری، بدین سے آئے ہوئے طارق آرائیں اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
اسی طرح ماضی میں دریا اور ان کا پانی فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے، معاہدے کے تحت دستیاب پانی کی منصفانہ تقیسم کو یقینی بنانے کیلیے آبادگارحکام سے مطالبات کرنے کے بجائے،اپنا حق حاصل کرنے کیلیے عدالتوںکے دروزاے کھٹکھٹائیں، آبادگارلیزرٹیکنالوجی، ڈرپ اور اسپرنکل سسٹم کے ذریعے پانی کے استعمال کوکم کرکے زیادہ پیدا وارحاصل کرسکتے ہیں،ان خیالات کا اظہارمختلف سیاسی رہنمائوں اورماہرین نے ایکسپریس میڈیاگروپ کے سندھی روزنامے سندھ ایکسپریس کے تحت ''سندھ میں پانی کی کمی اور سیلاب سے بچائو'' سے متعلق مقامی ہوٹل میں کانفرنس سے خطاب میں کیا،کانفرنس میں سیاسی، قوم پرست رہنمائوں، ماہرین آبپاشی، آباد گار اوردیگر اسیٹک ہولڈرز کے نمائندوں نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔
پیپلز پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری تاج حیدر جو ان دنوں صدر زرداری کے احکامات کی روشنی میں سندھ میں پانی کے ایشوزکودیکھ رہے ہیں نے بین الاقوامی کمپنی سے کرائے جانے والے سروے کی روشنی میں اپنی پریذینٹیشن پیش کی اور اپنی تحقیقات کی روشنی میں بتایا کہ خیرپور سے لیکربدین تک دوسال سے مسلسل کام کیاجا رہا ہے کہ پانی کی نکاسی کی18 گذرگاہوں کو بحال کیا جائے، اورگذرگاہوں کے راستے میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انھیں قانون کے مطابق ختم کر کے انکروچرزکواس کا معاوضہ دیا جائے، یہ گذرگاہیں کہیں تومختلف شہروں کے درمیان میں سے گذرتی ہیں اورکہیں شہروں کے قریب سے جن کیلیے سروے کرنے والی کمپنی نے مشورہ دیاکہ ان گذرگاہوں، نالوں کوختم کرکے شہروں کے مقام پر ان گذرگاہوں کیلیے بائی پاس بنائے جائیں لیکن ان کی اس تجویز پر عملدرآمد میں بہت زیادہ پیسہ لگ جائے گا ہم نے مشورہ دیا کہ ان گذرگاہوں، نالوں کے راستوں سے انکروچمنٹ ہٹائی جائے۔
انھوں نے بتایا کہ ماضی میں میرپورخاص مین ڈرینج یعنی ایم ایم ڈی جس میں شوگر ملز اپنا پانی چھوڑرہی ہیں کی وجہ سے زیادہ تباہی آئی کیونکہ یہ ایم ایم ڈی، برساتی پانی کی قدیمی گذرگاہ پران ڈھورو تک پانی کی رسائی کے سامنے رکاوٹ بن گئی اس لیے اب یہاں مختلف مقامات پر سائفین تعمیرکیے جا رہے ہیں تاکہ آئندہ برساتوں کی صورت میں برساتی پانی پران ڈھورو تک پہنچ جائے، انھوں نے بتایا کہ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ شکور جھیل سے اوپر جہاں زیادہ پانی کے نالے گذر رہے ہیں وہاں ایک اور میٹھے پانی کی جھیل بناکر پورے علاقے سے پانی کا مسئلہ ہی ختم کردیا جائے،کانفرنس سے عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو نے خطاب کرتے ہوئے پنجاب میں کالا باغ ڈیم کی تعمیرکے حوالے سے پٹیشن دائرکی جا چکی ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا ہے کہ اس پیٹیشن پر سندھ نے کیا موقف اختیارکیا ہے یا پھر اس پیٹیشن پر سندھ نے فریق بننا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
اگرسندھ نے اس پٹیشن پرموقف اختیارکیا ہے تو پھر وہ عوام کے سامنے لایا جائے کیونکہ سندھ کے عوام کوشک ہے کہ کہیں یہ سارا فتنہ اپنے ہی کسی کی ستم ظریفی نہ ہوکیونکہ ہماری بربادی کے سارے کام ہمارے ہی لوگ کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ وہ اس بات پرقائم ہیں کہ سندھ کی بربادی کا دور لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوا جبکہ پانی کے معاملے پر تو ہمارے ساتھ نہ صرف فراڈ ہوا بلکہ دہشت گردی کی گئی جو جاری ہے، انھوں نے کہاکہ سندھ کا مسئلہ سندھ کے غدار وڈیروں کے باعث ہمارے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے، انھوں نے سندھ حکومت پر بھی کڑی تنقید کی اورکہا کہ حکومت اربوں روپے ڈکارنے کیلیے بنائی گئی ہے یہ پانی سے اپنا حصہ کھا رہے ہیں، سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادرمگسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ایک انصاف پسند اور اہل حکومت کی ضرورت ہے جو پانی کی کمی اور سیلابی کیفیت میں عوام کو ریلیف فراہم کرسکے ۔
انھوں نے کہاکہ محکمہ آبپاشی کے افسران اپنے دفاتر میں ملتے نہیں ہیں وہ بھلا کس طرح سندھ کے حصے کا پانی لے سکتے ہیں ، انھوں نے کہاکہ سندھ میں کراچی سے کشمور تک لاکھوں ایکڑ اراضی پر پائے جانے والے جنگلات کاٹ لیے گیے حکومت اندھی ہے اس کو عینک کی نہیں بلکہ دوربین کی ضرورت ہے، انھوں نے کہاکہ بجلی بنانے کے نام پر ڈیم بنانے کی بات کرکے ڈیموں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ہم چھ ہزارکے بجائے26 ہزار میگا واٹ بجلی بغیر ڈیم بنائے ونڈ، سولر سسٹم کے ذریعے بناسکتے ہیں، سندھ آباد گار بورڈ کے جنرل سیکریٹری محمود نواز شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں ایری گیشن سسٹم تباہ ہو رہا ہے اس کو بچانے کیلیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا فی الحال جتنا بھی پانی موجود ہے اس کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، انھوں نے کہا کہ اس وقت کوٹری بیراج کے ڈوان اسٹریم پانی چھوڑا گیا ہے لیکن مختلف علاقوں میں نہروں میں پانی نہیں ہے جبکہ مختلف علاقوں میں جہاں مختلف فصلیں لگانے پر پابندی تھی وہاں ایسی فصلیں لگائی جا رہی ہیں جن کے لیے زیادہ پانی چاہیے ہوتا ہے۔
زرعی ایگریکلچرل کے رہنما اخوند غلام محمد صدیقی نے کہاکہ1992کا پانی کے معاہدہ آباد گاروں کے مشورے کے بغیر ہی سابق وزیر اعلی سندھ جام صادق نے کیا معاہدے کے بعد آبادگار تنظیموں کے رہنمائوں کو بلوا کر صرف ہمیں اطلاع دی کہ وہ اسلام آباد میں معاہدہ کر آئے ہیں۔ انھوں نے سیلاب کے دونوں میں تباہی سے بچنے کے لیے مختلف تجاویز بھی دیں، فشر فوک فورم کے چئیرمین محمد علی شاہ کاکہنا تھا کہ پانی چوری دراصل ایک دہشت گردی ہے دریا سندھ دنیا کا بائیس واں بڑا دریا ہے جو کل تک اپنی لہروں میں آنے والی سلٹ سے سمندرکو پیچھے دھکیل کررکھتا تھا لیکن آج خود سلٹ سے بھر گیا ہے، غلط پلاننگ کے باعث آج دریا تباہ اور ڈیلٹا مر رہا ہے جس کی وجہ سے بیس لاکھ افرادکوڈیلٹا سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔
عوامی جمہوری پارٹی کے سربراہ ابرار قاضی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر گلیشیر ختم ہو رہے ہیں تو پھر مستقبل میں بھارت کو بھی زیادہ پانی چاہیے ہوگا اور وہ سندھ سے ہی اپنا حصہ لے گا اس لیے ابھی سے ہی خود کو تیار رکھنا ہو گاکہ اس بڑی جنگ کے لیے تیار رکھنا ہوگا تو وہیں زیادہ پانی کے استعمال کو ترک کرکے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا، جسقم کے ساگر حنیف نے خطاب کرتے ہوئے کہا سندھ میں پانی کی کمی کا اصل ذمے دار پنجاب ہے۔ اس موقع پر سابق سیکریٹری آبپاشی ہاشم لغاری،آباد گار رہنماء میجر ریٹائرڈ عمر فاروق، میرپورخاص کے آباد گار رہنما غلام مصطفی لغاری، بدین سے آئے ہوئے طارق آرائیں اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔