چوہدری مختار گائیں اورعمران خان
صرف لائیو اسٹاک سیکٹر کو اگر حکومتی سپورٹ مل جائے تو لاکھوں نہیں کروڑوں خاندانوں کو باعزت روزگار مل جائے گا
RAWALPINDI:
پچھلے دس برس میں جس بری طرح مرکز اور صوبوں میں حکومتی فرائض سرانجام دیے گئے،اس کی مثال نہیں ملتی۔چادردیکھ کر پیر پھیلانا تو دور کی بات، معاشی بدانتظامی کو پروان چڑھایا گیا اور صرف پروپیگنڈے کے زور پر سرکاری معاملات چلانے کی کوشش کی گئی۔
یہ انتہائی منظم جرم پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ جزئیات میں جائے بغیر عرض کروںگاکہ عمران خان کو جس صورتحال میں وزیراعظم کا منصب ملا، وہ غیرمعمولی صورتحال ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹواس منصب پرآئے تھے۔انھیں بھی مشکلات کاایک بہت بڑا بوجھ تحفہ میں ملاتھا۔
وہ کس حدتک مسائل کو حل کرپائے یہ ایک دوسری بحث ہے یعنی 71ء سے لے کر 2018ء تک،کسی بھی سیاسی جماعت کواتنے گمبھیر مسائل پیش رو حکومتوں کی جانب سے ورثے میں نہیں ملے، جتنا بوجھ عمران خان پرآچکاہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہماری دو سیاسی جماعتوں نے دس برس کے لگاتاراقتدارمیں اس درجے دولت جمع کرلی ہے کہ وہ اس مال کافائدہ اُٹھاکرحکومت کوہرسطح پر منجمد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ غیرمعمولی صورتحال ہے۔ اس کااحساس خواص کو تو ہے مگرعام سطح پر اس بھیانک کھیل کا ادراک نہ ہونے کے برابرہے۔
غور سے دیکھیے۔ خان کے ہراقدام کومتنازع بنایا جا رہاہے۔ چندمہینے پہلے کی ایک تقریرکاحوالہ دیناضروری سمجھتاہوں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریرمیں معاشی ترقی کے لیے گائے بھینسوں کاذکرکیا۔ اس بات پرایک لایعنی بحث شروع کردی گئی۔ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان نے ایک غیرذمہ دارانہ بات کی ہے۔ بھلا لائیو اسٹاک سے غریب آدمی کا مقدر کیسے بہترہوگا۔مذاق اور ٹھٹھہ اُڑایاگیا۔وزیراعظم کی ذات پربھی بھرپوروارکیے گئے۔
گزشتہ روز،عمران خان نے دوبارہ کہا کہ یہی بات بل گیٹس نے بھی کی ہے۔اس کو تو کسی نے بھی اس بے رحمانہ تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ یہ نکتہ جوہری طورپردرست ہے۔ چلیے، تھوڑی دیرکے لیے ایک مثال پرغورکیجئے۔جس میں لائیو اسٹاک میں لوگوں کامعاشی مقدربدل دیا۔جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں کی قسمت جاگی اورامریکا کے سوبرس میں مقیم ایک پاکستانی نے فیصلہ کیاکہ وہ اپنے پسماندہ علاقے کوبہترکریگا۔یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ اسکومثال کے طورپر پیش کیاجاتارہاہے۔
چوہدری مختارنیوجرسی میں رہنے والے تھے۔ پاکستان سے امریکا منتقل ہوتے وقت انھوں نے ہرمشکل کا سامنا کیا۔مالی بدحالی اورہمارے سیاسی سماج میں ترقی کے تمام راستے بند دیکھ کروہ چالیس برس پہلے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔یہ ان کابہت بڑامسئلہ تھا۔امریکا میں محنت کرتے کرتے انھیں حددرجہ آسانیاں ملیں۔ پاکستانی لحاظ سے وہ ارب پتی ہوگئے۔جب پینسٹھ برس کے ہوئے تو ایک تکلیف کی وجہ سے اسپتال جاناپڑا۔طبی معائنہ پرمعلوم ہواکہ انھیںپتے کاکینسرہے اوران کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔
چوہدری نے اسپتال آنے کے بعد ایسے حالات کا جائزہ لیا۔ اولاد مستحکم ہوچکی تھی۔ روپے پیسے کی کوئی تنگی نہیں تھی۔زندگی میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔چوہدری نے اس وقت فیصلہ کیاکہ وہ اپنے ملک کے غریب ترین طبقے کے لیے آسانیاں پیدا کریگا۔ مستحق لوگوں کی زندگی بہتر بنائیگا۔انھیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دیگا۔ مگروقت کم تھا۔ کینسر پورے جسم میں پھیل چکا تھا۔ چوہدری نے لوگوں سے مشورہ کیامگرکوئی بات بھی اسے متاثرنہ کرسکی۔
اتفاق سے اس کے چندزرعی فارم ساؤتھ افریقہ میں بھی تھے۔وہ اس زرعی زمین کوبیچنے کے لیے جنوبی افریقہ گیا۔وہاں گاؤں کے ایک پکی عمرکے شخص سے اپنے اچھے خیالات کا ذکر کیا۔ گاؤں کاسرپنج ہنسناشروع ہوگیا۔ کہاکہ اگرتمہارے ملک میں غریب ہیں توسب سے جلدی ان کی معاشی حالت درست کرنے کاایک ہی طریقہ ہے کہ انھیں گائیں خرید کردو۔ دودھ فروخت کریںگے اور جانوروں کی تعداد بڑھنے سے ان کے کافی مسائل حل ہونے شروع ہوجائیں گے۔
چوہدری کویہ مشورہ بے حد بہترین لگا۔اس کے پاس ایک آسٹریلیاکاشخص ملازمت کرتا تھا۔پیشے کے لحاظ سے جانوروں کاڈاکٹرتھا۔چوہدری نے جب اس سے تبادلہ خیال کیاتواس ڈاکٹرنے بھی سرپنج کی بات کودرست کہا۔ مختارصاحب نے اب اسکوعملی جامہ پہنانے کافیصلہ کر لیا۔جنوبی پنجاب میں اپنے گاؤں میں آئے۔ وہاں بیس کے قریب خاندانوں کی فہرست بنالی۔ انھیں کہا کہ اگروہ ان کے حالات درست کرنے کے لیے انھیں دودھ دینے والی گائیں دیں توکیاوہ سب یہ مشکل کام کرلیں گے۔ اتفاق رائے پیداہونے کے بعدوہ امریکا گئے۔ لائیو اسٹاک کے ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا۔اسے بیس گائیں، پاکستان بھیجنے کے پیسے دیے۔ہاں ایک بات کا مختار صاحب نے اضافہ کیا۔تمام گائیں وہ خریدیں جوحاملہ تھیں۔یعنی چندماہ بعد،وہ نسل بڑھاسکتی تھیں۔
چوہدری ٹھیک ایک ماہ بعد لاہورآگیا۔گائیں بھی بحری جہازکے ذریعے پاکستان پہنچ گئیں۔اس کارروائی کے بعد تمام گائیں ان بیس خاندانوں کے حوالے کردی گئیں جوپہلے سے منتخب کرلیے گئے تھے۔چوہدری نے ایک مقامی ویٹنری ڈاکٹرکی ہدایات بھی حاصل کرلیں۔ان بیس خاندانوں سے فوراً دودھ فروخت کرناشروع کردیا۔چارے کی قیمت نکال کر ان لوگوں کودس سے بیس ہزارماہانہ ملنے شروع ہوگئے۔ چندماہ بعد،حاملہ جانوروں نے بچے دیے۔یعنی ان بیس جانوروں کے بیس بچے ہوگئے۔ہرشخص اب دوجانوروں کا مالک بن گیا۔چوہدری نے انھیں تجربے کی بنیاد پر کہا کہ جوبھی بچے پیداہوئے ہیں،انھیں فروخت نہیں کرنا بلکہ انھیں تواناکرکے ان سے بھی دودھ لیناہے۔ایک نکتہ بتانا بھول گیا۔امریکن ایسٹ کوپیسے دیتے وقت کہا گیاتھاکہ حاملہ گائے،میں بھی مادہ بچہ ہو۔یوں جنوبی پنجاب کے ان غریب لوگوں کے پاس صرف چند ماہ میں ایک کے بجائے دوگائیں ہوگئیں۔
چوہدری مختارنے بیس کے بعد چندگائیں مزید منگوائیں۔ان کواپنے گاؤں کے اردگرد دیہات میں غربت کی بنیادپرتقسیم کردیا۔چوہدری نے مجھے خودبتایاکہ اگراس نے زندگی میں کوئی کام کیاہے توصرف یہ ہے۔صرف تیس سال میں دوسو کے قریب انتہائی غریب خاندان مالی طورپربہترہوگئے۔انھوں نے اپنے گھرپکے کرلیے۔ اپنے بچوں کوتعلیم دلانا شروی کردی ۔ بتیس سال قبل چوہدری صاحب اپنی فیملی کے ساتھ مجھے ملنے آئے تواس نایاب عرصے کوتفصیل سے بیان کیا۔ان کے چہرے پرحددرجہ خوشی تھی۔کہہ رہے تھے کہ لائیواسٹاک کے درست استعمال سے ہمارے ملک میں معاشی انقلاب برپاہوسکتا ہے۔ اگر یہی کام حکومتی سطح پرکیاجائے توکروڑوں لوگوں کوروزگار مہیاہوسکتاہے۔
ایسے لگ رہاتھاکہ چوہدری نے اپنی زندگی کا مقصد پالیا ہے۔یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔وہ امریکا گیا اور پھر واپس نہ آسکا۔ دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میں بھی مختارکی باتیں مکمل طورپربھول گیا۔مگریقین فرمائیے۔ عمران خان نے جب لائیو اسٹاک کی بات کی۔گائیں بھینسوں کے ذریعے غریب لوگوں کے معاملات بہتر کرنے کامشورہ دیاتوفوراًمجھے مختارصاحب کی باتیں اوروہ یادآگئے۔عمران خان وہی بات کررہاہے جوچندبرس پہلے مختارنے مجھے کہی تھی ۔اوریہی بات بل گیٹس نے بھی کی ہے۔
لائیواسٹاک سیکٹرپاکستان کی کسی بھی انڈسٹری سے بڑھ کرملک کی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہے۔یہ زرعی شعبہ کا56فیصدہے اورملک کی جی ڈی پی کاگیارہ فیصد ہے۔ ہماری43فیصدآبادی کسی نہ کسی طریقے سے اس شعبہ سے منسلک ہے۔تین کروڑکے لگ بھگ لوگ اس شعبہ سے مالی فائدہ اُٹھارہے ہیں۔اس سے منسلک درجنوں ایسے کاروبارہیں جوکسی بھی شخص یاملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ہم لوگ گوشت کی مانگ پوری نہیں کر سکتے۔ گوشت میں غیرملکی ایکسپورٹ میں اتنا کام ہوسکتاہے کہ ملک کی تقدیربدل سکتی ہے۔
صرف لائیو اسٹاک سیکٹر کو اگر حکومتی سپورٹ مل جائے توہماری درآمدمیں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں خاندانوں کوباعزت روزگارمل سکتا ہے۔خوشحالی آسکتی ہے۔عالمی محرکات اورمقامی تجربات کوپرکھیے توپوری دنیا میں لائیواسٹاک سیکٹرکی بہتری سے کئی ممالک میں حددرجہ لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوئے ہیں۔مگر پاکستان میں اس معاملہ کومکمل سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم کی صائب بات کامذاق اُرایا جا رہا ہے۔کسی بھی بنیادی تحقیق کے بغیر اس پرتنقیدکے نشتر چلائے جارہے ہیں۔اس پرجائزتنقیدضرورہونی چاہیے۔ مگرتنقیدکواصلاح کے لیے استعمال کیاجائے تومعاملے کو دلیل کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔جوتجربہ پوری دنیامیں کامیاب ہوا وہ ہمارے ملک میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے۔ عمران خان کی،گائیں بھینسوں کی تجویزسنجیدگی کی متقاضی ہے، اس پر عملدرآمد سے کروڑوں لوگوں کی تقدیربدل جائے گی۔
پچھلے دس برس میں جس بری طرح مرکز اور صوبوں میں حکومتی فرائض سرانجام دیے گئے،اس کی مثال نہیں ملتی۔چادردیکھ کر پیر پھیلانا تو دور کی بات، معاشی بدانتظامی کو پروان چڑھایا گیا اور صرف پروپیگنڈے کے زور پر سرکاری معاملات چلانے کی کوشش کی گئی۔
یہ انتہائی منظم جرم پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ جزئیات میں جائے بغیر عرض کروںگاکہ عمران خان کو جس صورتحال میں وزیراعظم کا منصب ملا، وہ غیرمعمولی صورتحال ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد بھٹواس منصب پرآئے تھے۔انھیں بھی مشکلات کاایک بہت بڑا بوجھ تحفہ میں ملاتھا۔
وہ کس حدتک مسائل کو حل کرپائے یہ ایک دوسری بحث ہے یعنی 71ء سے لے کر 2018ء تک،کسی بھی سیاسی جماعت کواتنے گمبھیر مسائل پیش رو حکومتوں کی جانب سے ورثے میں نہیں ملے، جتنا بوجھ عمران خان پرآچکاہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہماری دو سیاسی جماعتوں نے دس برس کے لگاتاراقتدارمیں اس درجے دولت جمع کرلی ہے کہ وہ اس مال کافائدہ اُٹھاکرحکومت کوہرسطح پر منجمد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ غیرمعمولی صورتحال ہے۔ اس کااحساس خواص کو تو ہے مگرعام سطح پر اس بھیانک کھیل کا ادراک نہ ہونے کے برابرہے۔
غور سے دیکھیے۔ خان کے ہراقدام کومتنازع بنایا جا رہاہے۔ چندمہینے پہلے کی ایک تقریرکاحوالہ دیناضروری سمجھتاہوں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریرمیں معاشی ترقی کے لیے گائے بھینسوں کاذکرکیا۔ اس بات پرایک لایعنی بحث شروع کردی گئی۔ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان نے ایک غیرذمہ دارانہ بات کی ہے۔ بھلا لائیو اسٹاک سے غریب آدمی کا مقدر کیسے بہترہوگا۔مذاق اور ٹھٹھہ اُڑایاگیا۔وزیراعظم کی ذات پربھی بھرپوروارکیے گئے۔
گزشتہ روز،عمران خان نے دوبارہ کہا کہ یہی بات بل گیٹس نے بھی کی ہے۔اس کو تو کسی نے بھی اس بے رحمانہ تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ یہ نکتہ جوہری طورپردرست ہے۔ چلیے، تھوڑی دیرکے لیے ایک مثال پرغورکیجئے۔جس میں لائیو اسٹاک میں لوگوں کامعاشی مقدربدل دیا۔جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں کی قسمت جاگی اورامریکا کے سوبرس میں مقیم ایک پاکستانی نے فیصلہ کیاکہ وہ اپنے پسماندہ علاقے کوبہترکریگا۔یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ اسکومثال کے طورپر پیش کیاجاتارہاہے۔
چوہدری مختارنیوجرسی میں رہنے والے تھے۔ پاکستان سے امریکا منتقل ہوتے وقت انھوں نے ہرمشکل کا سامنا کیا۔مالی بدحالی اورہمارے سیاسی سماج میں ترقی کے تمام راستے بند دیکھ کروہ چالیس برس پہلے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔یہ ان کابہت بڑامسئلہ تھا۔امریکا میں محنت کرتے کرتے انھیں حددرجہ آسانیاں ملیں۔ پاکستانی لحاظ سے وہ ارب پتی ہوگئے۔جب پینسٹھ برس کے ہوئے تو ایک تکلیف کی وجہ سے اسپتال جاناپڑا۔طبی معائنہ پرمعلوم ہواکہ انھیںپتے کاکینسرہے اوران کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔
چوہدری نے اسپتال آنے کے بعد ایسے حالات کا جائزہ لیا۔ اولاد مستحکم ہوچکی تھی۔ روپے پیسے کی کوئی تنگی نہیں تھی۔زندگی میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔چوہدری نے اس وقت فیصلہ کیاکہ وہ اپنے ملک کے غریب ترین طبقے کے لیے آسانیاں پیدا کریگا۔ مستحق لوگوں کی زندگی بہتر بنائیگا۔انھیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں مدد دیگا۔ مگروقت کم تھا۔ کینسر پورے جسم میں پھیل چکا تھا۔ چوہدری نے لوگوں سے مشورہ کیامگرکوئی بات بھی اسے متاثرنہ کرسکی۔
اتفاق سے اس کے چندزرعی فارم ساؤتھ افریقہ میں بھی تھے۔وہ اس زرعی زمین کوبیچنے کے لیے جنوبی افریقہ گیا۔وہاں گاؤں کے ایک پکی عمرکے شخص سے اپنے اچھے خیالات کا ذکر کیا۔ گاؤں کاسرپنج ہنسناشروع ہوگیا۔ کہاکہ اگرتمہارے ملک میں غریب ہیں توسب سے جلدی ان کی معاشی حالت درست کرنے کاایک ہی طریقہ ہے کہ انھیں گائیں خرید کردو۔ دودھ فروخت کریںگے اور جانوروں کی تعداد بڑھنے سے ان کے کافی مسائل حل ہونے شروع ہوجائیں گے۔
چوہدری کویہ مشورہ بے حد بہترین لگا۔اس کے پاس ایک آسٹریلیاکاشخص ملازمت کرتا تھا۔پیشے کے لحاظ سے جانوروں کاڈاکٹرتھا۔چوہدری نے جب اس سے تبادلہ خیال کیاتواس ڈاکٹرنے بھی سرپنج کی بات کودرست کہا۔ مختارصاحب نے اب اسکوعملی جامہ پہنانے کافیصلہ کر لیا۔جنوبی پنجاب میں اپنے گاؤں میں آئے۔ وہاں بیس کے قریب خاندانوں کی فہرست بنالی۔ انھیں کہا کہ اگروہ ان کے حالات درست کرنے کے لیے انھیں دودھ دینے والی گائیں دیں توکیاوہ سب یہ مشکل کام کرلیں گے۔ اتفاق رائے پیداہونے کے بعدوہ امریکا گئے۔ لائیو اسٹاک کے ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا۔اسے بیس گائیں، پاکستان بھیجنے کے پیسے دیے۔ہاں ایک بات کا مختار صاحب نے اضافہ کیا۔تمام گائیں وہ خریدیں جوحاملہ تھیں۔یعنی چندماہ بعد،وہ نسل بڑھاسکتی تھیں۔
چوہدری ٹھیک ایک ماہ بعد لاہورآگیا۔گائیں بھی بحری جہازکے ذریعے پاکستان پہنچ گئیں۔اس کارروائی کے بعد تمام گائیں ان بیس خاندانوں کے حوالے کردی گئیں جوپہلے سے منتخب کرلیے گئے تھے۔چوہدری نے ایک مقامی ویٹنری ڈاکٹرکی ہدایات بھی حاصل کرلیں۔ان بیس خاندانوں سے فوراً دودھ فروخت کرناشروع کردیا۔چارے کی قیمت نکال کر ان لوگوں کودس سے بیس ہزارماہانہ ملنے شروع ہوگئے۔ چندماہ بعد،حاملہ جانوروں نے بچے دیے۔یعنی ان بیس جانوروں کے بیس بچے ہوگئے۔ہرشخص اب دوجانوروں کا مالک بن گیا۔چوہدری نے انھیں تجربے کی بنیاد پر کہا کہ جوبھی بچے پیداہوئے ہیں،انھیں فروخت نہیں کرنا بلکہ انھیں تواناکرکے ان سے بھی دودھ لیناہے۔ایک نکتہ بتانا بھول گیا۔امریکن ایسٹ کوپیسے دیتے وقت کہا گیاتھاکہ حاملہ گائے،میں بھی مادہ بچہ ہو۔یوں جنوبی پنجاب کے ان غریب لوگوں کے پاس صرف چند ماہ میں ایک کے بجائے دوگائیں ہوگئیں۔
چوہدری مختارنے بیس کے بعد چندگائیں مزید منگوائیں۔ان کواپنے گاؤں کے اردگرد دیہات میں غربت کی بنیادپرتقسیم کردیا۔چوہدری نے مجھے خودبتایاکہ اگراس نے زندگی میں کوئی کام کیاہے توصرف یہ ہے۔صرف تیس سال میں دوسو کے قریب انتہائی غریب خاندان مالی طورپربہترہوگئے۔انھوں نے اپنے گھرپکے کرلیے۔ اپنے بچوں کوتعلیم دلانا شروی کردی ۔ بتیس سال قبل چوہدری صاحب اپنی فیملی کے ساتھ مجھے ملنے آئے تواس نایاب عرصے کوتفصیل سے بیان کیا۔ان کے چہرے پرحددرجہ خوشی تھی۔کہہ رہے تھے کہ لائیواسٹاک کے درست استعمال سے ہمارے ملک میں معاشی انقلاب برپاہوسکتا ہے۔ اگر یہی کام حکومتی سطح پرکیاجائے توکروڑوں لوگوں کوروزگار مہیاہوسکتاہے۔
ایسے لگ رہاتھاکہ چوہدری نے اپنی زندگی کا مقصد پالیا ہے۔یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔وہ امریکا گیا اور پھر واپس نہ آسکا۔ دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میں بھی مختارکی باتیں مکمل طورپربھول گیا۔مگریقین فرمائیے۔ عمران خان نے جب لائیو اسٹاک کی بات کی۔گائیں بھینسوں کے ذریعے غریب لوگوں کے معاملات بہتر کرنے کامشورہ دیاتوفوراًمجھے مختارصاحب کی باتیں اوروہ یادآگئے۔عمران خان وہی بات کررہاہے جوچندبرس پہلے مختارنے مجھے کہی تھی ۔اوریہی بات بل گیٹس نے بھی کی ہے۔
لائیواسٹاک سیکٹرپاکستان کی کسی بھی انڈسٹری سے بڑھ کرملک کی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہے۔یہ زرعی شعبہ کا56فیصدہے اورملک کی جی ڈی پی کاگیارہ فیصد ہے۔ ہماری43فیصدآبادی کسی نہ کسی طریقے سے اس شعبہ سے منسلک ہے۔تین کروڑکے لگ بھگ لوگ اس شعبہ سے مالی فائدہ اُٹھارہے ہیں۔اس سے منسلک درجنوں ایسے کاروبارہیں جوکسی بھی شخص یاملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ہم لوگ گوشت کی مانگ پوری نہیں کر سکتے۔ گوشت میں غیرملکی ایکسپورٹ میں اتنا کام ہوسکتاہے کہ ملک کی تقدیربدل سکتی ہے۔
صرف لائیو اسٹاک سیکٹر کو اگر حکومتی سپورٹ مل جائے توہماری درآمدمیں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں خاندانوں کوباعزت روزگارمل سکتا ہے۔خوشحالی آسکتی ہے۔عالمی محرکات اورمقامی تجربات کوپرکھیے توپوری دنیا میں لائیواسٹاک سیکٹرکی بہتری سے کئی ممالک میں حددرجہ لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوئے ہیں۔مگر پاکستان میں اس معاملہ کومکمل سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم کی صائب بات کامذاق اُرایا جا رہا ہے۔کسی بھی بنیادی تحقیق کے بغیر اس پرتنقیدکے نشتر چلائے جارہے ہیں۔اس پرجائزتنقیدضرورہونی چاہیے۔ مگرتنقیدکواصلاح کے لیے استعمال کیاجائے تومعاملے کو دلیل کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔جوتجربہ پوری دنیامیں کامیاب ہوا وہ ہمارے ملک میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے۔ عمران خان کی،گائیں بھینسوں کی تجویزسنجیدگی کی متقاضی ہے، اس پر عملدرآمد سے کروڑوں لوگوں کی تقدیربدل جائے گی۔