یہ ہے چین
بیجنگ میں اس بار پورے شہر میں کوئی ایک شخص بھی بھیک مانگتا نظر نہیں آیا
40 سال پہلے پاکستان ہم سے زیادہ ترقی یافتہ تھا لیکن صرف ایک لیڈر آنجہانی ڈینگ ژیاؤ پنگ نے جسے ماڈرن چین کا بانی کہا جاتا ہے، اپنے ویژن سے ہماری تقدیر بدل دی اور ہمارا ملک اکنامک سپر پاور بن گیا۔
یہ الفاظ چائنا ڈاٹ نیٹ کے پریذیڈنٹ مسٹر وانگ کے تھے۔ وہ ہمیں اپنے اکنامک میڈیا گروپ کے بارے میں بریفنگ دے رہے تھے۔ ہم سی پی این ای کے 10 رکنی وفد کی صورت میں چائنا اکنامک نیٹ اور پاور چائنا کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کے لیے 5 روزہ دورہ چین کے پہلے مرحلے پر بیجنگ پہنچے تھے۔
پیر 10 دسمبر کی صبح پی آئی اے کے طیارے کی لینڈنگ کے بعد ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے تو درجہ حرارت منفی 12 تھا۔ تیز دھوپ اور ٹھنڈی ہواؤں کا حسین امتزاج تبدیل شدہ چینی دارالحکومت کا نظارہ کرا رہا تھا۔ ایئرپورٹ سے نکلے تو یاد آیا کہ 14 سال پہلے جب دورہ چین کا موقع ملا تھا تو سڑکوں پر سائیکلوں اور کاروں کی تعداد تقریباً ایک جیسی ہوتی تھی۔ تب حالت یہ تھی کہ جتنی بڑی سڑک گاڑیوں کے لیے مختص تھی اتنی ہی کشادہ سڑک سائیکلوں کے لیے بھی موجود تھی۔ اب دیکھا تو سائیکلوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
ایک چھوٹی سی گلی جتنا راستہ سائیکل والوں کے لیے رکھا گیا تھا اور باقی سڑک پر دنیا کے ہر ماڈل کی مہنگی ترین کاریں فراٹے بھر رہی تھیں۔ کاروں کی اتنی تعداد کے باوجود کہیں ٹریفک جام نہیں ہوا تو بڑی حیرت ہوئی۔ کہیں کہیں زیادہ گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک کی رفتار آہستہ ضرور تھی مگر قافلہ چلتا رہا۔حیرت ہو رہی تھی کہ 14 سال میں بیجنگ کی سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں ہزاروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے لیکن ٹریفک کا بہاؤ پہلے سے بھی بہتر ہے، ایسا کیوں؟ معلوم ہوا کہ بیجنگ شہر کے ارد گرد 6 رنگ روڈ بنا دیے گئے ہیں اور ساتواں تیاری کے مراحل میں ہے۔ جس شہر کے ارد گرد 7 رنگ روڈ ہوں وہاں ٹریفک کو اسی طرح رواں دواں ہونا چاہیے۔
مسٹر وانگ سے بات شروع ہوئی تھی تو یاد آیا کہ ہمارے میزبانوں میں ایک وانگ پاور چائنا سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ تعارف کے دوران کسی ایک اور وانگ کا نام بھی سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ وانگ چین میں مقبول ترین نام ہے۔ چائنا اکنامک ڈاٹ نیٹ کی بریفنگ کے دوران ہمیں ایک صندوق دکھایا گیا جس میں ٹی وی کوریج کے تمام تر آلات موجود تھے۔ میڈیا گروپ کے ایڈیٹر ان چیف مسٹر سوئی کی ٹیم نے بتایا کہ اس صندوق کے بعد لائیو کوریج کے لیے کسی ڈی ایس این جی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ بھاری بھرکم کیمروں کی جگہ موبائل فون کے ساتھ لگے ہوئے منی کیمرے نے لے لی ہے۔ اونچائی سے کوریج کرنے کے لیے کرینوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ آج ایک ڈرون کافی ہے۔ اسمارٹ فون نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔
چائنا اکنامک میڈیا جس کے اخبار کی اشاعت 9 لاکھ روزانہ کے قریب بتائی گئی نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے چین کے دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ ایک ایک راستے، پہاڑ حتیٰ کہ مکان تک پر فوکس کر لیا ہے۔ پینورامک کوریج سے ایسے ایسے مقامات تک جا پہنچا ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ میڈیا گروپ نہ صرف اپنے قارئین اورناظرین کی توقعات پر پورا اترتا ہے بلکہ حکومت کی مدد بھی کرتا ہے۔ یہ میڈیا گروپ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے قدرتی آفات کے دوران بھی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کسی دور دراز پہاڑی علاقے میں کوئی حادثہ ہو یا قدرتی آفت آ جائے تو اس کی ٹیم ہیڈ آفس سے امدادی کارکنوں کو اس جگہ پہنچنے میں مدد دیتی ہے جہاں سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو۔
چین میں یہ حقیقت جان کر حیرت ہوتی ہے کہ حکومت کے پاس ایک ایک فرد کے بارے میں معلومات ہیں۔ کوئی کس حال میں زندگی گزار رہا ہے، کون خط غربت سے نیچے ہے۔ کس کے پاس کتنے مالی وسائل ہیں، ان کی حکومت سب جانتی ہے۔ بیروزگاروں کو وظیفہ بھی ملنا شروع ہو چکا ہے، مختلف صوبوں اور شہروں میں معاوضے کی شرح مختلف ہے، لیکن ملتا سب کو ہے۔ بیجنگ میں پرانے شاپنگ مالز کی جگہ نئے شاپنگ مالز نے لے لی ہے۔ چینی عوام کی قوت خرید میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ برانڈڈ اشیاء یورپ سے مہنگی ہیں۔ بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں ترقیاتی کام جاری ہیں۔ انفرااسٹرکچر بہتر ہو رہا ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ خوب سے خوب تر ہو رہاہے۔
بیجنگ میں دو بھرپور دن گزارنے کے بعد ہماری اگلی منزل چین کا جدید ترین شہر شینجن تھا۔ اس شہر جدید جانے کے لیے فلائٹ میں سوار ہوئے تو اس بات کا افسوس ہو رہا تھا کہ دوسری بار چین آنے کے باوجود شنگھائی جانے کا موقع نہیں مل پایا۔ میزبانوں نے تسلی دی کہ شینجن بہت پسند آئے گا۔ تین گھنٹے کی فلائٹ کے بعد ہانگ کانگ کی سرحد پر واقع اس شہر کے ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہوئے آسمان سے باتیں کرتی ہوئیں عمارتوں اور نیلے سمندر پر نظر پڑی تو دل خوش ہو گیا۔ ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر آئے تو درجہ حرارت آٹھ ڈگری تھا۔ بیجنگ سے روانہ ہوئے تو وہاں درجہ حرارت منفی آٹھ تھا۔
ہمارے کراچی کے دوستوں نے سکھ کا سانس لیا۔ ان کے لیے سردی اب بھی کافی تھی مگر بیجنگ کی جان لیوا سردی سے جان چھوٹ چکی تھی۔ کشادہ سڑکوں، بلند و بانگ عمارتوں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے اس شہر کو دیکھ کر محسوس ہوا جیسے قدیم یورپ کے وسط میں ایک جدید شہر تعمیر کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس شہر میں پاور چائنا ہماری میزبان تھی۔ پاور چائنا کے وانگ بیجنگ سے ہمارے ساتھ آئے۔ پہلے دن ایک پہاڑی پر واقع ٹیولپ پارک میں ڈینگ ژیاؤ پنگ کے قد آدم مجسمے کے دیدار کے لیے لے جایا گیا۔ اونچائی سے شہر انتہائی خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔
بیجنگ میں سبزہ جتنا کم ہے اس شہر میں اتنا ہی زیادہ ہے۔ بنجر پہاڑوں تک پورے پورے درخت لگائے گئے ہیں۔ان درختوں کے ارد گرد اسٹینڈ لگا کر انھیں سہارا دیا گیا ہے۔ شینجن میں رواں سال ترقی کی 40 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ ہم نے پوچھا سالگرہ کس تاریخ کو منائی جائے گی تو جواب ملا خوشحالی ہو تو ہر دن سالگرہ کا دن ہوتا ہے۔ خوشحالی چونکہ چین کے بیشتر علاقوں میں نظر آتی ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا ہر دن سالگرہ کا دن ہے۔ بیجنگ میں ایک اور تبدیلی کا ذکر کرنا بھول گیا۔ 14 سال پہلے وہاں کہیں کہیں گداگر بھی دکھائی دیتے تھے لیکن اس بار پورے شہر میں کوئی ایک شخص بھی بھیک مانگتا نظر نہیں آیا۔
(جاری ہے)
یہ الفاظ چائنا ڈاٹ نیٹ کے پریذیڈنٹ مسٹر وانگ کے تھے۔ وہ ہمیں اپنے اکنامک میڈیا گروپ کے بارے میں بریفنگ دے رہے تھے۔ ہم سی پی این ای کے 10 رکنی وفد کی صورت میں چائنا اکنامک نیٹ اور پاور چائنا کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کے لیے 5 روزہ دورہ چین کے پہلے مرحلے پر بیجنگ پہنچے تھے۔
پیر 10 دسمبر کی صبح پی آئی اے کے طیارے کی لینڈنگ کے بعد ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے تو درجہ حرارت منفی 12 تھا۔ تیز دھوپ اور ٹھنڈی ہواؤں کا حسین امتزاج تبدیل شدہ چینی دارالحکومت کا نظارہ کرا رہا تھا۔ ایئرپورٹ سے نکلے تو یاد آیا کہ 14 سال پہلے جب دورہ چین کا موقع ملا تھا تو سڑکوں پر سائیکلوں اور کاروں کی تعداد تقریباً ایک جیسی ہوتی تھی۔ تب حالت یہ تھی کہ جتنی بڑی سڑک گاڑیوں کے لیے مختص تھی اتنی ہی کشادہ سڑک سائیکلوں کے لیے بھی موجود تھی۔ اب دیکھا تو سائیکلوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
ایک چھوٹی سی گلی جتنا راستہ سائیکل والوں کے لیے رکھا گیا تھا اور باقی سڑک پر دنیا کے ہر ماڈل کی مہنگی ترین کاریں فراٹے بھر رہی تھیں۔ کاروں کی اتنی تعداد کے باوجود کہیں ٹریفک جام نہیں ہوا تو بڑی حیرت ہوئی۔ کہیں کہیں زیادہ گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک کی رفتار آہستہ ضرور تھی مگر قافلہ چلتا رہا۔حیرت ہو رہی تھی کہ 14 سال میں بیجنگ کی سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں ہزاروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے لیکن ٹریفک کا بہاؤ پہلے سے بھی بہتر ہے، ایسا کیوں؟ معلوم ہوا کہ بیجنگ شہر کے ارد گرد 6 رنگ روڈ بنا دیے گئے ہیں اور ساتواں تیاری کے مراحل میں ہے۔ جس شہر کے ارد گرد 7 رنگ روڈ ہوں وہاں ٹریفک کو اسی طرح رواں دواں ہونا چاہیے۔
مسٹر وانگ سے بات شروع ہوئی تھی تو یاد آیا کہ ہمارے میزبانوں میں ایک وانگ پاور چائنا سے بھی تعلق رکھتے تھے۔ تعارف کے دوران کسی ایک اور وانگ کا نام بھی سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ وانگ چین میں مقبول ترین نام ہے۔ چائنا اکنامک ڈاٹ نیٹ کی بریفنگ کے دوران ہمیں ایک صندوق دکھایا گیا جس میں ٹی وی کوریج کے تمام تر آلات موجود تھے۔ میڈیا گروپ کے ایڈیٹر ان چیف مسٹر سوئی کی ٹیم نے بتایا کہ اس صندوق کے بعد لائیو کوریج کے لیے کسی ڈی ایس این جی کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ بھاری بھرکم کیمروں کی جگہ موبائل فون کے ساتھ لگے ہوئے منی کیمرے نے لے لی ہے۔ اونچائی سے کوریج کرنے کے لیے کرینوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ آج ایک ڈرون کافی ہے۔ اسمارٹ فون نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔
چائنا اکنامک میڈیا جس کے اخبار کی اشاعت 9 لاکھ روزانہ کے قریب بتائی گئی نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے چین کے دور دراز علاقوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ ایک ایک راستے، پہاڑ حتیٰ کہ مکان تک پر فوکس کر لیا ہے۔ پینورامک کوریج سے ایسے ایسے مقامات تک جا پہنچا ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ میڈیا گروپ نہ صرف اپنے قارئین اورناظرین کی توقعات پر پورا اترتا ہے بلکہ حکومت کی مدد بھی کرتا ہے۔ یہ میڈیا گروپ جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے قدرتی آفات کے دوران بھی مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کسی دور دراز پہاڑی علاقے میں کوئی حادثہ ہو یا قدرتی آفت آ جائے تو اس کی ٹیم ہیڈ آفس سے امدادی کارکنوں کو اس جگہ پہنچنے میں مدد دیتی ہے جہاں سب سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو۔
چین میں یہ حقیقت جان کر حیرت ہوتی ہے کہ حکومت کے پاس ایک ایک فرد کے بارے میں معلومات ہیں۔ کوئی کس حال میں زندگی گزار رہا ہے، کون خط غربت سے نیچے ہے۔ کس کے پاس کتنے مالی وسائل ہیں، ان کی حکومت سب جانتی ہے۔ بیروزگاروں کو وظیفہ بھی ملنا شروع ہو چکا ہے، مختلف صوبوں اور شہروں میں معاوضے کی شرح مختلف ہے، لیکن ملتا سب کو ہے۔ بیجنگ میں پرانے شاپنگ مالز کی جگہ نئے شاپنگ مالز نے لے لی ہے۔ چینی عوام کی قوت خرید میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ برانڈڈ اشیاء یورپ سے مہنگی ہیں۔ بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں ترقیاتی کام جاری ہیں۔ انفرااسٹرکچر بہتر ہو رہا ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ خوب سے خوب تر ہو رہاہے۔
بیجنگ میں دو بھرپور دن گزارنے کے بعد ہماری اگلی منزل چین کا جدید ترین شہر شینجن تھا۔ اس شہر جدید جانے کے لیے فلائٹ میں سوار ہوئے تو اس بات کا افسوس ہو رہا تھا کہ دوسری بار چین آنے کے باوجود شنگھائی جانے کا موقع نہیں مل پایا۔ میزبانوں نے تسلی دی کہ شینجن بہت پسند آئے گا۔ تین گھنٹے کی فلائٹ کے بعد ہانگ کانگ کی سرحد پر واقع اس شہر کے ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہوئے آسمان سے باتیں کرتی ہوئیں عمارتوں اور نیلے سمندر پر نظر پڑی تو دل خوش ہو گیا۔ ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر آئے تو درجہ حرارت آٹھ ڈگری تھا۔ بیجنگ سے روانہ ہوئے تو وہاں درجہ حرارت منفی آٹھ تھا۔
ہمارے کراچی کے دوستوں نے سکھ کا سانس لیا۔ ان کے لیے سردی اب بھی کافی تھی مگر بیجنگ کی جان لیوا سردی سے جان چھوٹ چکی تھی۔ کشادہ سڑکوں، بلند و بانگ عمارتوں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے اس شہر کو دیکھ کر محسوس ہوا جیسے قدیم یورپ کے وسط میں ایک جدید شہر تعمیر کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس شہر میں پاور چائنا ہماری میزبان تھی۔ پاور چائنا کے وانگ بیجنگ سے ہمارے ساتھ آئے۔ پہلے دن ایک پہاڑی پر واقع ٹیولپ پارک میں ڈینگ ژیاؤ پنگ کے قد آدم مجسمے کے دیدار کے لیے لے جایا گیا۔ اونچائی سے شہر انتہائی خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔
بیجنگ میں سبزہ جتنا کم ہے اس شہر میں اتنا ہی زیادہ ہے۔ بنجر پہاڑوں تک پورے پورے درخت لگائے گئے ہیں۔ان درختوں کے ارد گرد اسٹینڈ لگا کر انھیں سہارا دیا گیا ہے۔ شینجن میں رواں سال ترقی کی 40 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ ہم نے پوچھا سالگرہ کس تاریخ کو منائی جائے گی تو جواب ملا خوشحالی ہو تو ہر دن سالگرہ کا دن ہوتا ہے۔ خوشحالی چونکہ چین کے بیشتر علاقوں میں نظر آتی ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا ہر دن سالگرہ کا دن ہے۔ بیجنگ میں ایک اور تبدیلی کا ذکر کرنا بھول گیا۔ 14 سال پہلے وہاں کہیں کہیں گداگر بھی دکھائی دیتے تھے لیکن اس بار پورے شہر میں کوئی ایک شخص بھی بھیک مانگتا نظر نہیں آیا۔
(جاری ہے)