مقبوضہ کشمیر لہو لہان
کشمیر انشا اﷲ جلد آزاد ہوگا اور ہم سب کی زندگی میں سری نگر پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا
مقبوضہ کشمیر ایک مرتبہ پھر بھارتی حکمرانوں کے ظلم و تشدد کا بدترین نشانہ بنا ہوا ہے۔ قابض بھارتی فوجیوں نے ریاستی دہشت گردی کی انتہا کرتے ہوئے اپنی تازہ ترین انسان سوز کارروائیوں کے دوران ضلع پلواما میں گیارہ حریت پسند نوجوانوں کو شہید کردیا۔
دوسری جانب سرچ آپریشن کے دوران ظالم بھارتی فوجیوں نے تین کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جس پر احتجاج کے لیے نکلنے والے نہتے شہریوں پر بھی فائرنگ کی گئی اور پیلٹ چھرے اور آنسو گیس کے شیل برسائے گئے جس سے مزید 8 افراد شہید ہوگئے۔
ادھر راکشس ذہنیت کے حامل بھارتی آرمی چیف جنرل بین راوت نے نہایت سفاکی کے ساتھ کہاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کوگولی سے جواب دیا جائے گا ۔ بھارتی سینا کے سربراہ کا یہ بیان جس سنگ دلی، سفاکیت اور بے رحمی کا آئینہ دار ہے، اس کے بعد اس حقیقت میں شبے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ بھارت مقبوضہ وادی پر اپنے جبروتسلط کا کوئی اخلاقی، آئینی اور انسانی جواز نہیں رکھتا، دراصل بھارت ہر قیمت پر مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانا اورکچلنا چاہتا ہے، خواہ اس کے لیے اسے بے دریغ طاقت ، غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی ذرایع استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑیں۔ نا قابل تردید زمینی حقائق یہ ہیں کہ بھارت گزشتہ 7 عشروں سے کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے.
اس طویل عرصے کے دوران بھارت کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت کو کچلنے اور ان کی نسلوں کو غلام بنانے کے لیے لاکھوں افراد کو تہ تیغ، زخمی، لاپتا، معذور اورگرفتارکرچکا ہے، اس کے علاوہ کشمیری خواتین کے اغوا اور آبرو ریزی کی انسانیت سوز وارداتوں کا توکوئی شمار ہی نہیں ہے، لیکن ان تمام غیر انسانی ہتھکنڈوں کے باوجود بھارت آج تک اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پایا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مقبوضہ کشمیرکے حریت پسندوں کا لازوال عزم اور بے مثال حوصلہ ہے جس نے انھیں بھارت کی برہنہ جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا ہے ،جوں جوں بھارت کا ظلم و ستم بڑھ رہا ہے توں توں کشمیریوں کا جذبہ حریت زور پکڑ رہا ہے اور ان کی تحریک آزادی برق رفتاری کے ساتھ اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آزادی کے متوالے کشمیریوں کی حریت پسندی کا عالم یہ ہے کہ بقول اقبال:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم کو طاقت کے بل پر زیادہ دیر دبایا نہیں جاسکتا ۔ بڑی سے بڑی جابر ریاست کو بھی اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے والی قوم کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی پڑتے ہیں ، کشمیر اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسرائیل اپنی انتہائی قوت اور عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے باوجود صدی میں بھی نہتے فلسطینیوںکی مزاحمت کو ختم نہیں کرسکا۔ اسی طرح بھارت بھی پون صدی سے ظلم و جبر کر ہر حربہ اختیار کرنے کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے میں ناکام رہا ہے آج کشمیریوں کی چوتھی نسل اپنی جد وجہد آزادی کا علم بلند کیے ہوئے بھارتی جبر کے آگے سینہ سپر ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد غاصب بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کرکے اور دھوکا دہی کے ذریعے ناجائز قبضہ کرلیا۔ برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کے تحت ہندوستان کی تقریباً 500 ریاستوں اور رج واڑوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں خود کو ضم کرلیں۔
کشمیر پر اس وقت اقلیتی ڈوگروں کا راج تھا جنھوں نے کشمیر پر کشمیریوں کی مرضی کے بغیر قبضہ کیا تھا۔ انھوں نے معاہدہ امر تسر میں کشمیریوں کی رائے کی پرواہ کیے بغیر انگریزوں کی ملی بھگت سے ریاست کی حکمرانی حاصل کی تھی۔ ڈوگروں نے بھی ظلم و جبر کے ذریعے کشمیریوں پر اپنا ناجائز تسلط جاری رکھا۔ جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو کشمیریوں پر مشتمل ریاست کے باشندوں کی غالب اکثریت کی مرضی کو دیکھ کر آخری ڈگر راجہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق کرنے لگا تو بھارت نے عیاری کرکے کشمیر کا تسلط اس سے حاصل کرلیا اور پھر وہاں فوج بھیج کر اپنا قبضہ پکا کرلیا۔
یہیں سے کشمیر کے جھگڑے کی بنیاد پڑی لیکن جب اہل کشمیر بھارت کے اس ناجائز قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو بھارت اپنی مرضی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے لے گیا اور یوں اس نے اقوام عالم کے سامنے، اہل کشمیر کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرلیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ بھارت اپنے اس وعدے سے مکرگیا اور تب سے لے کر آج تک وہ نہ صرف کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دینے سے انکار کررہاہے بلکہ اس حق کے مطالبے کے جواب میں انھیں مسلسل جبر و تشدد کا نشانہ بنارہا ہے۔
دنیا کے باشعور انسانیت نواز اور انصاف پسند لوگ بھارت کے اس رویے کو انسانیت سوز قرار دے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خود بھارت کے انصاف پسند حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھارت کے اس رویے کی مذمت کر رہے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مارکنڈے کائجو نے حال ہی میں اپنے طنزیہ ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ آرمی چیف مبارکباد وصول کریں کتنے بہادر ہیں بھارتی آرمی جنرل کے ان کے فوجیوں نے پلواما میں جلیاں والا باغ اور ویت نام جیسا قتل عام کیا ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ انسانی حقوق کے چیمپئن مقبوضہ کشمیر میں نہتے حریت پسندوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کہ منہ میں گویا زبان ہی نہیں ہے۔ در اصل مصلحت پسند عالمی قوتوں کی یہی خاموش حمایت بھارت کو شہ دے رہی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی مواخذے اور احتساب کے خوف سے بے پرواہ ہوکر کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور فلسطین میں بہنے والے خون پر صدائے احتجاج محض اس لیے بلند نہیں کی جارہی کہ مرنے والے مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ امتیازی سلوک انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک برا شگون ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ معصوم کشمیریوں پر بھارتی فورسزکی ریاست دہشت گردی انتہائی قابل مذمت ہے۔ غیر مسلح بہادر فریڈم فائٹرزکو گولیوں سے دبایا نہیں جاسکتا۔ ادھر قومی اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور کرلی ہے۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے مذمتی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ''جنت نظیر کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔'' جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔ یہ ہم سب کا ایمان ہے۔ کشمیر انشا اﷲ جلد آزاد ہوگا۔ ہم سب کی زندگی میں سری نگر پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔
دوسری جانب سرچ آپریشن کے دوران ظالم بھارتی فوجیوں نے تین کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جس پر احتجاج کے لیے نکلنے والے نہتے شہریوں پر بھی فائرنگ کی گئی اور پیلٹ چھرے اور آنسو گیس کے شیل برسائے گئے جس سے مزید 8 افراد شہید ہوگئے۔
ادھر راکشس ذہنیت کے حامل بھارتی آرمی چیف جنرل بین راوت نے نہایت سفاکی کے ساتھ کہاہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کوگولی سے جواب دیا جائے گا ۔ بھارتی سینا کے سربراہ کا یہ بیان جس سنگ دلی، سفاکیت اور بے رحمی کا آئینہ دار ہے، اس کے بعد اس حقیقت میں شبے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ بھارت مقبوضہ وادی پر اپنے جبروتسلط کا کوئی اخلاقی، آئینی اور انسانی جواز نہیں رکھتا، دراصل بھارت ہر قیمت پر مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو دبانا اورکچلنا چاہتا ہے، خواہ اس کے لیے اسے بے دریغ طاقت ، غیر قانونی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی ذرایع استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑیں۔ نا قابل تردید زمینی حقائق یہ ہیں کہ بھارت گزشتہ 7 عشروں سے کشمیری مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے.
اس طویل عرصے کے دوران بھارت کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت کو کچلنے اور ان کی نسلوں کو غلام بنانے کے لیے لاکھوں افراد کو تہ تیغ، زخمی، لاپتا، معذور اورگرفتارکرچکا ہے، اس کے علاوہ کشمیری خواتین کے اغوا اور آبرو ریزی کی انسانیت سوز وارداتوں کا توکوئی شمار ہی نہیں ہے، لیکن ان تمام غیر انسانی ہتھکنڈوں کے باوجود بھارت آج تک اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پایا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مقبوضہ کشمیرکے حریت پسندوں کا لازوال عزم اور بے مثال حوصلہ ہے جس نے انھیں بھارت کی برہنہ جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا ہے ،جوں جوں بھارت کا ظلم و ستم بڑھ رہا ہے توں توں کشمیریوں کا جذبہ حریت زور پکڑ رہا ہے اور ان کی تحریک آزادی برق رفتاری کے ساتھ اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آزادی کے متوالے کشمیریوں کی حریت پسندی کا عالم یہ ہے کہ بقول اقبال:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم کو طاقت کے بل پر زیادہ دیر دبایا نہیں جاسکتا ۔ بڑی سے بڑی جابر ریاست کو بھی اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے والی قوم کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی پڑتے ہیں ، کشمیر اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسرائیل اپنی انتہائی قوت اور عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے باوجود صدی میں بھی نہتے فلسطینیوںکی مزاحمت کو ختم نہیں کرسکا۔ اسی طرح بھارت بھی پون صدی سے ظلم و جبر کر ہر حربہ اختیار کرنے کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلنے میں ناکام رہا ہے آج کشمیریوں کی چوتھی نسل اپنی جد وجہد آزادی کا علم بلند کیے ہوئے بھارتی جبر کے آگے سینہ سپر ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد غاصب بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کرکے اور دھوکا دہی کے ذریعے ناجائز قبضہ کرلیا۔ برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کے تحت ہندوستان کی تقریباً 500 ریاستوں اور رج واڑوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان اور بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں خود کو ضم کرلیں۔
کشمیر پر اس وقت اقلیتی ڈوگروں کا راج تھا جنھوں نے کشمیر پر کشمیریوں کی مرضی کے بغیر قبضہ کیا تھا۔ انھوں نے معاہدہ امر تسر میں کشمیریوں کی رائے کی پرواہ کیے بغیر انگریزوں کی ملی بھگت سے ریاست کی حکمرانی حاصل کی تھی۔ ڈوگروں نے بھی ظلم و جبر کے ذریعے کشمیریوں پر اپنا ناجائز تسلط جاری رکھا۔ جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو کشمیریوں پر مشتمل ریاست کے باشندوں کی غالب اکثریت کی مرضی کو دیکھ کر آخری ڈگر راجہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کا الحاق کرنے لگا تو بھارت نے عیاری کرکے کشمیر کا تسلط اس سے حاصل کرلیا اور پھر وہاں فوج بھیج کر اپنا قبضہ پکا کرلیا۔
یہیں سے کشمیر کے جھگڑے کی بنیاد پڑی لیکن جب اہل کشمیر بھارت کے اس ناجائز قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو بھارت اپنی مرضی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے لے گیا اور یوں اس نے اقوام عالم کے سامنے، اہل کشمیر کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرلیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ بھارت اپنے اس وعدے سے مکرگیا اور تب سے لے کر آج تک وہ نہ صرف کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دینے سے انکار کررہاہے بلکہ اس حق کے مطالبے کے جواب میں انھیں مسلسل جبر و تشدد کا نشانہ بنارہا ہے۔
دنیا کے باشعور انسانیت نواز اور انصاف پسند لوگ بھارت کے اس رویے کو انسانیت سوز قرار دے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ خود بھارت کے انصاف پسند حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھارت کے اس رویے کی مذمت کر رہے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مارکنڈے کائجو نے حال ہی میں اپنے طنزیہ ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ آرمی چیف مبارکباد وصول کریں کتنے بہادر ہیں بھارتی آرمی جنرل کے ان کے فوجیوں نے پلواما میں جلیاں والا باغ اور ویت نام جیسا قتل عام کیا ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ انسانی حقوق کے چیمپئن مقبوضہ کشمیر میں نہتے حریت پسندوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کہ منہ میں گویا زبان ہی نہیں ہے۔ در اصل مصلحت پسند عالمی قوتوں کی یہی خاموش حمایت بھارت کو شہ دے رہی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی مواخذے اور احتساب کے خوف سے بے پرواہ ہوکر کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور فلسطین میں بہنے والے خون پر صدائے احتجاج محض اس لیے بلند نہیں کی جارہی کہ مرنے والے مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ امتیازی سلوک انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک برا شگون ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ معصوم کشمیریوں پر بھارتی فورسزکی ریاست دہشت گردی انتہائی قابل مذمت ہے۔ غیر مسلح بہادر فریڈم فائٹرزکو گولیوں سے دبایا نہیں جاسکتا۔ ادھر قومی اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور کرلی ہے۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے مذمتی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہاکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ''جنت نظیر کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔'' جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔ یہ ہم سب کا ایمان ہے۔ کشمیر انشا اﷲ جلد آزاد ہوگا۔ ہم سب کی زندگی میں سری نگر پر سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔