ابھی ورنہ کبھی نہیں
عوام فیصلہ کرچکے ہیں کہ اب ان ظالموں کے لیے باہر نہیں نکلیں گے
ایسی باتیں پہلے کب سنی تھیں! ایسے منظر پہلے کب دیکھے تھے! پاکستان کے وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنا دیا گیا۔
افتتاحی تقریب میں وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ''تعلیم کے بغیر کوئی قوم، کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا'' انھوں نے مزید کہاکہ '' لوٹا تمام پیسہ ہم تعلیم پر خرچ کریںگے'' وزیراعظم ہاؤس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہاکہ ''برطانیہ کے وزیراعظم کا گھر دیکھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ غریب ملک پاکستان کا وزیراعظم محل نما عمارت میں کیوں رہے'' برطانیہ کے وزیراعظم کے گھر کا دروازہ سڑک پرکھلتا ہے اور ہمارا وزیر اعظم کئی حصاروں کو عبورکرکے ملتا ہے۔ ایک ایسے ملک کا وزیراعظم جہاں آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہو، جس ملک کے بچے گلیوں ، بازاروں میں رسوا ہوتے ہوں، انھیں اسکول جانا نصیب نہ ہوتا ہو۔
یہ غربت اور بچوں کا گلی کوچوں میں رسوا ہونا بہت لکھا جا چکا مگر آج وزیراعظم کے محل کو تعلیم گاہ بنانے کا ذکر کرتے ہوئے غربت اور بازاروں میں ''رلتے کھیلتے'' بچوں کا ذکر بھی ضروری تھا ۔ ظلمت کے نشان بہت ہیں ، قتل گاہیں بہت ہیں، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ''جرائم بہت ہیں، عدالتیں کم ہیں'' یہ فقرہ اچانک ہوگیا ''جرائم ہیں، عدالتیں کم ہیں'' ذرا غور کریں کس بیدردی، بربریت کے ساتھ ملک کو لوٹاگیا ہے اور لوٹ کا مال پورے ملک کی سڑکوں پر آسمانوں سے باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ جب ملک میں جگہ نہ رہی تو یہ لوٹ کا مال ملک سے باہر برطانیہ، امریکا، فرانس، کینیڈا اور دبئی وغیرہ کی سڑکوں پر نظر آنے لگا ۔ پاکستان کے بینکوں سے جی بھرگیا تو '' لوٹ کا پیسہ '' باہر کے بینکوں میں بھردیا ۔ غریب مرتے رہے، بغیر دوا دارو دھرتی کا بوجھ اتارتے رہے۔ کھیت لہراتے رہے اور غریب کسان، ہاری کے گھر اناج سے خالی رہے۔ اس سوہانِ روح منظر کو حبیب جالب نے جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں یوں قلم بند کیا تھا۔
جب شباب پر آ کر کھیت لہلہاتا ہے
کسی کے نین روتے ہیں، کون مسکراتا ہے
کس کی محنتوں کا پھل داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑیوں سے رونے کی کیوں صدائیں آتی ہیں
کاش تم کبھی سمجھو، کاش تم کبھی جانو، دس کروڑ انسانو!
1960 میں پاکستان کی آبادی مع بنگلہ دیش دس کروڑ تھی اور آج 58 سال بعد بغیر بنگلہ دیش ہم دو کروڑ ہیں۔ اس وقت بھی عہد حالات کی سنگین پر جو بات کرتا اسے سنگینیوں کے زور پر خاموش کرادیا جاتا تھا۔ غدار کہہ کہ جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اس وقت بھی لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور '' 20 گھرانے'' پورے ملک کی دولت پر قابض تھے ،آج یہ بیس گھرانے بیس لاکھ گھرانے بن چکے ہیں ۔ داشتائیں آج بھی اٹھلاتی پھرتی ہیں اور جھونپڑیوں سے رونے کی صدائیں آج بھی آتی ہیں۔
آج بھی ہاری، کسان، گنے کی فصل، اٹھائے رو رہا ہے، چیخ رہا ہے، سراپا احتجاج ہے اور شوگر ملوں والے (جو مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں شامل ہیں) ہنس رہے ہیں۔ آج ملک کس درجہ برے حال میں ہے ''20 لاکھ گھرانوں'' کو اس کی ذرا برابر پروا نہیں، ان ظالموں کا پاکستان20 لاکھ گھرانوں والا ہے بس یہ 20 لاکھ گھرانے آباد ہیں۔ شاد رہیں اور کروڑوں، عوام ''ناشاد'' رہیں، یہی ان ظالموں کی سوچ ہے۔ اس کی انھیں فکر ہے یہ کہتے ہیں Money!No problemsیہ پیسے کے بل پر سب کچھ خرید لیتے ہیں۔ ایمان، قانون، فتوے، سب کچھ بازار میں بکتے ہیں۔
آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ان حالات کو سدھارنے میں بڑا وقت لگے گا، بڑے مشکل مقام آئیںگے۔ پانامہ کی فہرست میں تقریباً 460 گھرانوں کے نام سے اور در اصل گھرانوں کی تعداد 200 لاکھ ہے۔ ابھی تو پانامے کے دو گھرانوں پر کام ہو رہا ہے ابھی پاناما کے 458 گھرانے باقی ہیں اور لوٹ مار کرنیوالے گھرانے پاناما سے باہر بھی ہیں ''یہ غم کا طوفان ڈگر ڈگر ہے، رات کا سفر ہے، رات لمبی سہی، مگر رات ہی تو ہے آخر کٹ جائے بس ''بجھے نہ دل''
یہ بڑا لمبا احتساب ہے۔ یہ 70 سال کا کچا چھٹا ہے کم از کم 70 کے حساب میں 7 سال تو لگیں گے۔بہت کچھ اس ملک میں ہوتا رہا ہے ، گورنر ہاؤس کی دیواروں پر دو ہتھوڑے ہی پڑے اور ظالموں کے پروردہ عدالت جا پہنچے ، وزیراعظم کے محل میں اب کوئی وزیراعظم نہیں رہے گا ۔ صدارتی محل کو بھی غریب لاوارث بچوں کا اسکول بنا دو ، جہاں بچے رہیں اور تعلیم بھی حاصل کریں صدر صاحب کو بھی 110 مرلے (250گز) کا مکان دے دو، یہ چھوٹی چھوٹی آبادیوں کو مت چھیڑو پہلے بڑے بڑے برج گرادو، ظلم وستم کے تمام نشان مٹادو۔ ابھی تو بہت زیادہ گند موجود ہے۔
مدینہ کی ریاست بنانے کے لیے پاکستان واقعی پاک ستان بنادو، پاکستان کے عوام نے بہت دکھ دیکھ لیے اب انھیں سکھ دے وہ اب راقم کے ساتھ کوئی ہاتھ نہ کرنا ورنہ بڑا غضب ہوجائے گا۔ صورتحال یوں ہوچکی ہے ''ابھی اور نہ کبھی نہیں'' لگتا ہے جیسے ظالموں کے دن گنے جاچکے، لگتا ہے جیسے ظالموں کو بھی اپنے اپنے انجام کا پتا چل گیا ہے ،یہ معصوم، بے گناہوں، مجبوروں، مقہوروں کی چیخیں چاروں طرف سے آرہی ہیں۔ یہ چیخیں اب نہیں رک سکیں گی۔
یہ شور اور بڑھے گا یہ اہل اقتدار سابقہ یا موجودہ یہ ان اہل اقتدار کے سنگی ساتھیوں کیا ان کا رہن سن ان کے خلاف دائر کھلی اور واضح ایف آئی آر نہیں ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کی رہائش گاہیں، یہ مہنگے آرائش و زیبائش کے پہناوے، یہ سب غریبوں کا حق مار کر حاصل کیا گیا ہے لہٰذا ان سب کا ''حساب کتاب'' کر ڈالو، اب عوام فیصلہ کرچکے اب ان ظالموں کے لیے باہر نہیں نکلیں گے ان ظالموں کی طاقت کھل کر سامنے آچکی ہیں ہے اب ظالموں کا یومِ حساب آچکا، آخر ایک دن یہ ہونا ہی تھا۔
افتتاحی تقریب میں وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ''تعلیم کے بغیر کوئی قوم، کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا'' انھوں نے مزید کہاکہ '' لوٹا تمام پیسہ ہم تعلیم پر خرچ کریںگے'' وزیراعظم ہاؤس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہاکہ ''برطانیہ کے وزیراعظم کا گھر دیکھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ غریب ملک پاکستان کا وزیراعظم محل نما عمارت میں کیوں رہے'' برطانیہ کے وزیراعظم کے گھر کا دروازہ سڑک پرکھلتا ہے اور ہمارا وزیر اعظم کئی حصاروں کو عبورکرکے ملتا ہے۔ ایک ایسے ملک کا وزیراعظم جہاں آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہو، جس ملک کے بچے گلیوں ، بازاروں میں رسوا ہوتے ہوں، انھیں اسکول جانا نصیب نہ ہوتا ہو۔
یہ غربت اور بچوں کا گلی کوچوں میں رسوا ہونا بہت لکھا جا چکا مگر آج وزیراعظم کے محل کو تعلیم گاہ بنانے کا ذکر کرتے ہوئے غربت اور بازاروں میں ''رلتے کھیلتے'' بچوں کا ذکر بھی ضروری تھا ۔ ظلمت کے نشان بہت ہیں ، قتل گاہیں بہت ہیں، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ''جرائم بہت ہیں، عدالتیں کم ہیں'' یہ فقرہ اچانک ہوگیا ''جرائم ہیں، عدالتیں کم ہیں'' ذرا غور کریں کس بیدردی، بربریت کے ساتھ ملک کو لوٹاگیا ہے اور لوٹ کا مال پورے ملک کی سڑکوں پر آسمانوں سے باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ جب ملک میں جگہ نہ رہی تو یہ لوٹ کا مال ملک سے باہر برطانیہ، امریکا، فرانس، کینیڈا اور دبئی وغیرہ کی سڑکوں پر نظر آنے لگا ۔ پاکستان کے بینکوں سے جی بھرگیا تو '' لوٹ کا پیسہ '' باہر کے بینکوں میں بھردیا ۔ غریب مرتے رہے، بغیر دوا دارو دھرتی کا بوجھ اتارتے رہے۔ کھیت لہراتے رہے اور غریب کسان، ہاری کے گھر اناج سے خالی رہے۔ اس سوہانِ روح منظر کو حبیب جالب نے جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں یوں قلم بند کیا تھا۔
جب شباب پر آ کر کھیت لہلہاتا ہے
کسی کے نین روتے ہیں، کون مسکراتا ہے
کس کی محنتوں کا پھل داشتائیں کھاتی ہیں
جھونپڑیوں سے رونے کی کیوں صدائیں آتی ہیں
کاش تم کبھی سمجھو، کاش تم کبھی جانو، دس کروڑ انسانو!
1960 میں پاکستان کی آبادی مع بنگلہ دیش دس کروڑ تھی اور آج 58 سال بعد بغیر بنگلہ دیش ہم دو کروڑ ہیں۔ اس وقت بھی عہد حالات کی سنگین پر جو بات کرتا اسے سنگینیوں کے زور پر خاموش کرادیا جاتا تھا۔ غدار کہہ کہ جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اس وقت بھی لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور '' 20 گھرانے'' پورے ملک کی دولت پر قابض تھے ،آج یہ بیس گھرانے بیس لاکھ گھرانے بن چکے ہیں ۔ داشتائیں آج بھی اٹھلاتی پھرتی ہیں اور جھونپڑیوں سے رونے کی صدائیں آج بھی آتی ہیں۔
آج بھی ہاری، کسان، گنے کی فصل، اٹھائے رو رہا ہے، چیخ رہا ہے، سراپا احتجاج ہے اور شوگر ملوں والے (جو مسلم لیگ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں شامل ہیں) ہنس رہے ہیں۔ آج ملک کس درجہ برے حال میں ہے ''20 لاکھ گھرانوں'' کو اس کی ذرا برابر پروا نہیں، ان ظالموں کا پاکستان20 لاکھ گھرانوں والا ہے بس یہ 20 لاکھ گھرانے آباد ہیں۔ شاد رہیں اور کروڑوں، عوام ''ناشاد'' رہیں، یہی ان ظالموں کی سوچ ہے۔ اس کی انھیں فکر ہے یہ کہتے ہیں Money!No problemsیہ پیسے کے بل پر سب کچھ خرید لیتے ہیں۔ ایمان، قانون، فتوے، سب کچھ بازار میں بکتے ہیں۔
آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ان حالات کو سدھارنے میں بڑا وقت لگے گا، بڑے مشکل مقام آئیںگے۔ پانامہ کی فہرست میں تقریباً 460 گھرانوں کے نام سے اور در اصل گھرانوں کی تعداد 200 لاکھ ہے۔ ابھی تو پانامے کے دو گھرانوں پر کام ہو رہا ہے ابھی پاناما کے 458 گھرانے باقی ہیں اور لوٹ مار کرنیوالے گھرانے پاناما سے باہر بھی ہیں ''یہ غم کا طوفان ڈگر ڈگر ہے، رات کا سفر ہے، رات لمبی سہی، مگر رات ہی تو ہے آخر کٹ جائے بس ''بجھے نہ دل''
یہ بڑا لمبا احتساب ہے۔ یہ 70 سال کا کچا چھٹا ہے کم از کم 70 کے حساب میں 7 سال تو لگیں گے۔بہت کچھ اس ملک میں ہوتا رہا ہے ، گورنر ہاؤس کی دیواروں پر دو ہتھوڑے ہی پڑے اور ظالموں کے پروردہ عدالت جا پہنچے ، وزیراعظم کے محل میں اب کوئی وزیراعظم نہیں رہے گا ۔ صدارتی محل کو بھی غریب لاوارث بچوں کا اسکول بنا دو ، جہاں بچے رہیں اور تعلیم بھی حاصل کریں صدر صاحب کو بھی 110 مرلے (250گز) کا مکان دے دو، یہ چھوٹی چھوٹی آبادیوں کو مت چھیڑو پہلے بڑے بڑے برج گرادو، ظلم وستم کے تمام نشان مٹادو۔ ابھی تو بہت زیادہ گند موجود ہے۔
مدینہ کی ریاست بنانے کے لیے پاکستان واقعی پاک ستان بنادو، پاکستان کے عوام نے بہت دکھ دیکھ لیے اب انھیں سکھ دے وہ اب راقم کے ساتھ کوئی ہاتھ نہ کرنا ورنہ بڑا غضب ہوجائے گا۔ صورتحال یوں ہوچکی ہے ''ابھی اور نہ کبھی نہیں'' لگتا ہے جیسے ظالموں کے دن گنے جاچکے، لگتا ہے جیسے ظالموں کو بھی اپنے اپنے انجام کا پتا چل گیا ہے ،یہ معصوم، بے گناہوں، مجبوروں، مقہوروں کی چیخیں چاروں طرف سے آرہی ہیں۔ یہ چیخیں اب نہیں رک سکیں گی۔
یہ شور اور بڑھے گا یہ اہل اقتدار سابقہ یا موجودہ یہ ان اہل اقتدار کے سنگی ساتھیوں کیا ان کا رہن سن ان کے خلاف دائر کھلی اور واضح ایف آئی آر نہیں ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کی رہائش گاہیں، یہ مہنگے آرائش و زیبائش کے پہناوے، یہ سب غریبوں کا حق مار کر حاصل کیا گیا ہے لہٰذا ان سب کا ''حساب کتاب'' کر ڈالو، اب عوام فیصلہ کرچکے اب ان ظالموں کے لیے باہر نہیں نکلیں گے ان ظالموں کی طاقت کھل کر سامنے آچکی ہیں ہے اب ظالموں کا یومِ حساب آچکا، آخر ایک دن یہ ہونا ہی تھا۔