حکومت کے فیصلے چند مشورے
حکومتی سطح پر ایک تھنک ٹینک اور کیمشن بنایا جائے جو کراچی میں تجاوزات آپریشن کی کارروائیوں پر رپورٹ پیش کرے
پاکستانی عوام کے مسائل کے حل کرنے کے لیے موجودہ حکومت اورخاص کر اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے کافی عرصے سے منظر عام پر آرہے ہیں۔ بعض فیصلے تو واقعی فوری نوعیت کے اور بڑی بڑی قوتوں کے خلاف بھی آئے تاہم راقم کا خیال ہے کہ اس ضمن میں کچھ حکمت عملی ایسی بنائی جا سکتی ہے کہ عوام کو ان فیصلوں کا اور بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔
مثلاً نجی اسکولوں کی جون اورجولائی کی فیسوں کے بارے میں فیصلہ آیا کہ اسکول یہ فیس قطعی نہ لیں۔ یہ بات تودرست ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسکول کی انتظامیہ ان مہنیوں میں اپنے اساتذہ کو تنخواہ کی ادائیگی کرے گی؟
ظاہر ہے کہ نہیں کرے گی کیونکہ اس سے ان کا مالی نقصان ہوگا ، یوں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد جو نجی اسکولوں میں پہلے ہی نہایت کم تنخواہ پر تدریسی فرائض انجام دے رہی ہے ، مزید مالی مشکلات کا شکارہوجائے گی، اس طرح اچھے اساتذہ بھی اس پیشے کو خیر بادکہنے پر مجبورہونگے اوراساتذہ کی کار کردگی بھی متاثر ہوگی ۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ جس اسکول کی انتظامیہ اساتذہ کی تنخواہوں پر حاصل شدہ فیسوں کا جس قدرحصہ خرچ کرتی ہے ، اسی قدر فیس جون اورجولائی کی چھٹیوں میں وصول کرنے کا قانون ہوناچاہیے نیز یہ فیسیں بھی ان ہی ماہ یعنی جون اور جولائی میں واجب الادا ہو، یہ عجیب ظلم ہے کہ جون ، جولائی کی فیسیں جنوری اورفروری میں لے لی جاتی ہیں ،جس سے اسکول کی انتظامیہ تو اس رقم پر انٹرسٹ کما لیتی ہے مگر والدین پر یکمشت بڑا بوجھ ہر سال ڈال دیا جاتا ہے اور جو والدین اس وقت فیس ادا کرنے سے قاصر ہوں اور بعد میں یعنی اگلے ماہ دیں تو ان سے لیٹ فیس کی مد میں فائن لیا جاتا ہے۔ فائن بھی دس فیصد تک لیا جاتا ہے، اس پر بھی عدالت کو نوٹس لینا چاہیے۔
مزید توجہ طلب بات یہ ہے قیمتی کتابوں اورکاپیوں وغیرہ کا بوجھ طلبہ کے والدین پر ہے، یہاں یہ مالی بوجھ اس طرح کم کیا جاسکتا ہے کہ نجی اسکولوں سے ان کی ہی پرنٹ کی گئی کاپیاں اور رجسٹر خریدنے کی پابندی ختم کی جائے۔ ہمارے ایک دوست کے بچے جس اسکول میں پڑھتے ہیں وہاں کی ماہانہ فیس چھ ہزار ہے اور ہر سال جب بچے اگلی جماعتوں میں جاتے ہیں تو انھیں صرف ایک بچے کی کاپیاں اسکول سے تین ہزار روپے کے قریب ادا کرکے خریدنی پڑتی ہے۔
یہی کاپیاں اگر وہ بازار سے خرید لیں تو آدھی قیمت میں مل جائیں۔ نیز اسکولوں میں عموماً مڈٹرم یا سال میں دو بار امتحان لیے جاتے ہیں یعنی کل نصاب کو دو حصے میں کرکے پڑھایا بھی جاتا ہے اوراس کا امتحان بھی لیا جاتا ہے جب کہ ایک بچہ پورے سال ایک ہی کاپی استعمال کرتا ہے یوں وہ موٹی موٹی وزنی کاپیوں کا بوجھ پورے سال اٹھاتا ہے جس سے بیگ کا وزن اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ بچوں میں اب سروائیکل کی بیماری عام ہوگئی ہے ۔
راقم کی تجویز ہے کہ بچوں کو اتنے ہی صفحات کی کاپیاں دی جائیں جتنا کہ اس نے ایک مڈ ٹرم یا ششماہی امتحان میں کام کرنا ہے، اس طرح نئے مڈ ٹرم میں بچہ پچھلے ٹرم کی کاپیوں کا بوجھ اٹھانے سے بچ جائے گا ۔ یہ کتنی احمقانہ بات ہے کہ بچے سے تعلیم کا وہ بوجھ بھی فائنل ٹرم میں اٹھوایا جا تا ہے کہ جس کو نہ بچے نے دہرانا ہے اور نہ ہی اس کا امتحان دوبارہ ہونا ہے۔ اسی طرح اگر بچے کے اہم مضامین مثلاً ریاضی، سائنس وغیرہ کو چھوڑکر دیگر مضامین کو اسی طرح سال کے دو حصوں (مڈ ٹرم اور فائنل ٹرم ) میں تقسیم کردیا جائے تو بچوں کے وزنی بستے بہت حد تک ہلکے ہوسکتے ہیں اور ہمارے بچے سروائیکل جیسی بیماری سے بچ سکتے ہیں۔
شہری مسائل کے حوالے سے دیکھیں تو سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والی کارروائیاں بھی بسا اوقات مسائل کم نہیں کررہی ۔ مثلاً حدود سے آگے نکلنے والی املاک وغیرہ کو تو مسمار کیا ہی جا رہا ہے مگر ایسے شیلٹرز بھی مسمار کردیے گئے جو عوام کی سہولت کے لیے خاص طور پر بنائے گئے تھے، بینکوں وغیرہ میں جہاں عمارت یا آفس کے باہرعوام گرمی اوردھوپ میں قطار بناکرکھڑے ہوتے تھے، انھیں گرمی اور دھوپ سے بچانے کے لیے اوپر بنائے گئے سایہ دار شلٹر بھی گرا دیے گئے۔
اب بزرگ شہری اورخواتین بھی اپنی پنشن لینے یا بل وغیرہ جمع کرانے کے لیے اس سایہ دار شلٹرسے محروم ہوگئے ۔ شلٹرز اگر لگے بھی رہیں تواس سے مسئلہ درپیش نہیں ہوتا،اصل مسئلہ تو حدود سے آگے جگہ گھیرنا ہے جس سے راستے بھی تنگ ہوجاتے ہیں اور پیدل چلنے والوں کے لیے تو مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں چنانچہ بے حد ضروری ہے کہ اوپر قائم شلٹرزکو نہ گرایا جائے بلکہ آگے بڑھی ہوئی تجاوزات کو نہ صرف ختم کیا جائے بلکہ اصول کے مطابق حکومت یہاں فٹ پاتھ قائم کرے جو اس کی ذمے داری ہے۔
فٹ پاتھ قائم نہ کرنے کے سبب اس سارے ایکشن کا کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گا کیونکہ نظر بچتے ہی اور ذرا سا وقت گزرتے ہی دوبارہ سے ان جگہوں پر تجاوزات قائم ہوجائیں گی اور ایسے مناظر کہیں کہیں نظر آنا بھی شروع ہو گئے ہیں ۔ لہذا اس کا واحد حل فٹ پاتھ کی باقاعدہ تعمیر ہے۔ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کا حق ہوتا ہے اورجدید ممالک میں تو یہ شہرکا لازمی حصہ ہوتے ہیں اور حکومت تو یہ خواہش بھی رکھتی ہے لہذا اس پر فوری عمل ضروری ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ کراچی جیسے شہر میں ابھی تک خود حکومتی محکمے کار پار کنگ کے لیے فٹ پاتھ کا استعمال کررہے ہیں۔ یہ کار پارکنگ ٹھیکے پر دی جارہی ہیں،کسی ٹی وی چینل پر ایک سرکاری افسر یہ تسلیم کر رہے تھے کہ حکومت کا محکمہ تو ٹھیکیدارکو ایک لائن یا قطار بنانے کا ٹھیکہ دیتا ہے مگر بعد میں ٹھیکیدارکئی کئی قطار میں گاڑیاں پارک کراتا ہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ بے شرمی کی حد ہے کہ کیمرے کے سامنے یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ حکومتی ادارے خود فٹ پاتھ پر پارکنگ کی اجازت دے رہے ہیں اور قانون کی خلاف ورزی معلوم ہونے کے باوجود ڈھٹائی یہ ہے کہ ان ٹھیکداروں کے خلاف حدود سے زائد جگہ استعمال کرنے پر بھی خاموش ہیں جب کہ شہرمیں تجاوزات کے نام پر ہزاروں لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کردیا گیا۔
راقم کا مشورہ ہے کہ حکومتی سطح پر ایک تھنک ٹینک اورکیمشن بنایا جائے جو اب تک کی مذکورہ بالا کارروائیوں پر اپنی رپورٹ بھی پیش کرے اور عوام سے تجاویز حاصل کرکے شہر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تجاویز بھی فراہم کرکے جس کی روشنی میں شہریوں کے لیے منصوبہ بندی کی جائے اور ایک منظم طریقے سے مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھا جائے۔ محض یوں راتوں رات احکامات جاری کرنے اور ان پر عمل کرنے سے بہت سے نئے مسائل بھی جنم لیتے ہیں ، لہذا یہ ضروری ہے کہ ایک تھینک ٹینک قائم کیا جائے اور عوامی رائے، مشورے بھی لیے جائیں اور پھر عمل درآمد کیا جائے۔
مثلاً نجی اسکولوں کی جون اورجولائی کی فیسوں کے بارے میں فیصلہ آیا کہ اسکول یہ فیس قطعی نہ لیں۔ یہ بات تودرست ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسکول کی انتظامیہ ان مہنیوں میں اپنے اساتذہ کو تنخواہ کی ادائیگی کرے گی؟
ظاہر ہے کہ نہیں کرے گی کیونکہ اس سے ان کا مالی نقصان ہوگا ، یوں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد جو نجی اسکولوں میں پہلے ہی نہایت کم تنخواہ پر تدریسی فرائض انجام دے رہی ہے ، مزید مالی مشکلات کا شکارہوجائے گی، اس طرح اچھے اساتذہ بھی اس پیشے کو خیر بادکہنے پر مجبورہونگے اوراساتذہ کی کار کردگی بھی متاثر ہوگی ۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ جس اسکول کی انتظامیہ اساتذہ کی تنخواہوں پر حاصل شدہ فیسوں کا جس قدرحصہ خرچ کرتی ہے ، اسی قدر فیس جون اورجولائی کی چھٹیوں میں وصول کرنے کا قانون ہوناچاہیے نیز یہ فیسیں بھی ان ہی ماہ یعنی جون اور جولائی میں واجب الادا ہو، یہ عجیب ظلم ہے کہ جون ، جولائی کی فیسیں جنوری اورفروری میں لے لی جاتی ہیں ،جس سے اسکول کی انتظامیہ تو اس رقم پر انٹرسٹ کما لیتی ہے مگر والدین پر یکمشت بڑا بوجھ ہر سال ڈال دیا جاتا ہے اور جو والدین اس وقت فیس ادا کرنے سے قاصر ہوں اور بعد میں یعنی اگلے ماہ دیں تو ان سے لیٹ فیس کی مد میں فائن لیا جاتا ہے۔ فائن بھی دس فیصد تک لیا جاتا ہے، اس پر بھی عدالت کو نوٹس لینا چاہیے۔
مزید توجہ طلب بات یہ ہے قیمتی کتابوں اورکاپیوں وغیرہ کا بوجھ طلبہ کے والدین پر ہے، یہاں یہ مالی بوجھ اس طرح کم کیا جاسکتا ہے کہ نجی اسکولوں سے ان کی ہی پرنٹ کی گئی کاپیاں اور رجسٹر خریدنے کی پابندی ختم کی جائے۔ ہمارے ایک دوست کے بچے جس اسکول میں پڑھتے ہیں وہاں کی ماہانہ فیس چھ ہزار ہے اور ہر سال جب بچے اگلی جماعتوں میں جاتے ہیں تو انھیں صرف ایک بچے کی کاپیاں اسکول سے تین ہزار روپے کے قریب ادا کرکے خریدنی پڑتی ہے۔
یہی کاپیاں اگر وہ بازار سے خرید لیں تو آدھی قیمت میں مل جائیں۔ نیز اسکولوں میں عموماً مڈٹرم یا سال میں دو بار امتحان لیے جاتے ہیں یعنی کل نصاب کو دو حصے میں کرکے پڑھایا بھی جاتا ہے اوراس کا امتحان بھی لیا جاتا ہے جب کہ ایک بچہ پورے سال ایک ہی کاپی استعمال کرتا ہے یوں وہ موٹی موٹی وزنی کاپیوں کا بوجھ پورے سال اٹھاتا ہے جس سے بیگ کا وزن اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ بچوں میں اب سروائیکل کی بیماری عام ہوگئی ہے ۔
راقم کی تجویز ہے کہ بچوں کو اتنے ہی صفحات کی کاپیاں دی جائیں جتنا کہ اس نے ایک مڈ ٹرم یا ششماہی امتحان میں کام کرنا ہے، اس طرح نئے مڈ ٹرم میں بچہ پچھلے ٹرم کی کاپیوں کا بوجھ اٹھانے سے بچ جائے گا ۔ یہ کتنی احمقانہ بات ہے کہ بچے سے تعلیم کا وہ بوجھ بھی فائنل ٹرم میں اٹھوایا جا تا ہے کہ جس کو نہ بچے نے دہرانا ہے اور نہ ہی اس کا امتحان دوبارہ ہونا ہے۔ اسی طرح اگر بچے کے اہم مضامین مثلاً ریاضی، سائنس وغیرہ کو چھوڑکر دیگر مضامین کو اسی طرح سال کے دو حصوں (مڈ ٹرم اور فائنل ٹرم ) میں تقسیم کردیا جائے تو بچوں کے وزنی بستے بہت حد تک ہلکے ہوسکتے ہیں اور ہمارے بچے سروائیکل جیسی بیماری سے بچ سکتے ہیں۔
شہری مسائل کے حوالے سے دیکھیں تو سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والی کارروائیاں بھی بسا اوقات مسائل کم نہیں کررہی ۔ مثلاً حدود سے آگے نکلنے والی املاک وغیرہ کو تو مسمار کیا ہی جا رہا ہے مگر ایسے شیلٹرز بھی مسمار کردیے گئے جو عوام کی سہولت کے لیے خاص طور پر بنائے گئے تھے، بینکوں وغیرہ میں جہاں عمارت یا آفس کے باہرعوام گرمی اوردھوپ میں قطار بناکرکھڑے ہوتے تھے، انھیں گرمی اور دھوپ سے بچانے کے لیے اوپر بنائے گئے سایہ دار شلٹر بھی گرا دیے گئے۔
اب بزرگ شہری اورخواتین بھی اپنی پنشن لینے یا بل وغیرہ جمع کرانے کے لیے اس سایہ دار شلٹرسے محروم ہوگئے ۔ شلٹرز اگر لگے بھی رہیں تواس سے مسئلہ درپیش نہیں ہوتا،اصل مسئلہ تو حدود سے آگے جگہ گھیرنا ہے جس سے راستے بھی تنگ ہوجاتے ہیں اور پیدل چلنے والوں کے لیے تو مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں چنانچہ بے حد ضروری ہے کہ اوپر قائم شلٹرزکو نہ گرایا جائے بلکہ آگے بڑھی ہوئی تجاوزات کو نہ صرف ختم کیا جائے بلکہ اصول کے مطابق حکومت یہاں فٹ پاتھ قائم کرے جو اس کی ذمے داری ہے۔
فٹ پاتھ قائم نہ کرنے کے سبب اس سارے ایکشن کا کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گا کیونکہ نظر بچتے ہی اور ذرا سا وقت گزرتے ہی دوبارہ سے ان جگہوں پر تجاوزات قائم ہوجائیں گی اور ایسے مناظر کہیں کہیں نظر آنا بھی شروع ہو گئے ہیں ۔ لہذا اس کا واحد حل فٹ پاتھ کی باقاعدہ تعمیر ہے۔ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کا حق ہوتا ہے اورجدید ممالک میں تو یہ شہرکا لازمی حصہ ہوتے ہیں اور حکومت تو یہ خواہش بھی رکھتی ہے لہذا اس پر فوری عمل ضروری ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ کراچی جیسے شہر میں ابھی تک خود حکومتی محکمے کار پار کنگ کے لیے فٹ پاتھ کا استعمال کررہے ہیں۔ یہ کار پارکنگ ٹھیکے پر دی جارہی ہیں،کسی ٹی وی چینل پر ایک سرکاری افسر یہ تسلیم کر رہے تھے کہ حکومت کا محکمہ تو ٹھیکیدارکو ایک لائن یا قطار بنانے کا ٹھیکہ دیتا ہے مگر بعد میں ٹھیکیدارکئی کئی قطار میں گاڑیاں پارک کراتا ہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ بے شرمی کی حد ہے کہ کیمرے کے سامنے یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ حکومتی ادارے خود فٹ پاتھ پر پارکنگ کی اجازت دے رہے ہیں اور قانون کی خلاف ورزی معلوم ہونے کے باوجود ڈھٹائی یہ ہے کہ ان ٹھیکداروں کے خلاف حدود سے زائد جگہ استعمال کرنے پر بھی خاموش ہیں جب کہ شہرمیں تجاوزات کے نام پر ہزاروں لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کردیا گیا۔
راقم کا مشورہ ہے کہ حکومتی سطح پر ایک تھنک ٹینک اورکیمشن بنایا جائے جو اب تک کی مذکورہ بالا کارروائیوں پر اپنی رپورٹ بھی پیش کرے اور عوام سے تجاویز حاصل کرکے شہر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تجاویز بھی فراہم کرکے جس کی روشنی میں شہریوں کے لیے منصوبہ بندی کی جائے اور ایک منظم طریقے سے مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھا جائے۔ محض یوں راتوں رات احکامات جاری کرنے اور ان پر عمل کرنے سے بہت سے نئے مسائل بھی جنم لیتے ہیں ، لہذا یہ ضروری ہے کہ ایک تھینک ٹینک قائم کیا جائے اور عوامی رائے، مشورے بھی لیے جائیں اور پھر عمل درآمد کیا جائے۔