خیبر پختونخوا سے ڈھائی ارب روپے کی غلط کٹوتی کا انکشاف
صوبے کوشک تھاتومعاملہ اسوقت اٹھایاجاتا،اب یہ ماضی کا حصہ ہے،کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی،وفاق کا ادائیگی سے انکار
مرکز کی جانب سے خیبرپختونخوا سے 15سال قبل بجلی بلوں اور بقایاجات کی وصولی کے لیے ڈھائی ارب روپے کی غلط کٹوتی کا انکشاف ہوا ہے جس کے بارے میں صوبائی حکومت نے طویل تحقیق کے بعد کیس مرکز کو ارسال کرتے ہوئے صوبہ سے غلط طور پر کاٹے گئے ڈھائی ارب روپے واپس مانگ لیے ہیں تاہم مرکز کی جانب سے مذکورہ رقم کی ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے اس معاملہ کو ماضی کا حصہ قراردے دیا گیا ہے ۔
صوبائی محکمہ خزانہ کے ریکارڈ کے مطابق مرکزی حکومت نے واپڈا کے مطالبہ پر خیبرپختونخوا سے 1997-98ء میںبجلی بلوں کی عدم ادائیگی اور بقایاجات کی وصولی کے لیے صوبائی حکومت کے حصہ سے ازخود ڈھائی ارب روپے کی کٹوتی کرتے ہوئے یہ رقم واپڈا کو دے دی تھی تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے اس وقت بھی مذکورہ کٹوتی کو غلط قراردیتے ہوئے اس پر احتجاج کیا گیا تھا اور مرکز سے مطالبہ کیاگیا تھا کہ مذکورہ رقم صوبہ سے نہ کاٹی جائے کیونکہ اس میں کئی متنازعہ اور زائد بل شامل ہیں تاہم صوبائی حکومت کے مذکورہ موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔
تاہم صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں باقاعدہ تحقیقات کرنے اور معاملہ کو مرکز اور واپڈا کے ساتھ اٹھانے کی ہدایت کی تھی جس کے تحت پندرہ سالوں کے بعد یہ کیس مرکزی حکومت کو پیش کردیا گیا جس میں ریکارڈ کے ذریعے یہ ثابت کیا گیاہے کہ صوبہ سے مذکورہ ڈھائی ارب روپے کی کٹوتی غلط طور پر کی گئی تھی اس لیے یہ ڈھائی ارب روپے صوبہ کو واپس کیے جائیں تاہم مرکزنے صوبہ کا یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ پندرہ سال پرانا کیس ہے جو اب ماضی کا حصہ ہے اس لیے اس پر اب کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔
مرکز کی جانب سے صوبہ پر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر یہ رقم صوبہ سے غلط طریقہ سے کاٹی گئی ہے اوراس وقت کی صوبائی حکومت کو اس سلسلے می کوئی شک تھا تو یہ معاملہ اسی وقت مرکزکے ساتھ اٹھایا جاتا تاکہ اس کی واپڈا کو ادائیگی نہ ہوتی اور یہ رقم صوبائی حکومت کو واپس مل جاتی تاہم چونکہ اس وقت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا اور اب پندرہ سال گزر گئے ہیں اس لیے اب یہ معاملہ نہ صرف پرانا ہوچکا ہے بلکہ کئی حکومتیں بھی گزر چکی ہی اس لیے ایسے معاملات کو اب زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔
صوبائی حکومت کے متعلقہ ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ یہ سارا معاملہ صوبائی حکومت کے سامنے پیش کردیاگیا ہے جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ یہ رقم چونکہ صوبہ سے غلط طریقہ سے کاٹی گئی تھی اس لیے یہ صوبہ کو واپس ہونی چاہیے جس کے لیے صوبائی حکومت کو ہر فورم پر آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ اس سلسلے میں صوبہ کے متعلقہ محکموں کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ذرائع نے بتایا کہ چونکہ یہ رقم پندرہ سال قبل صوبہ سے غلط طور پر کاٹی گئی تھی اس لیے اب مرکز کو بمعہ منافع یا ڈالر کی قیمت کے تناسب اس رقم کی صوبہ کو واپسی کرنی چاہیے جو کئی گنا زیادہ ہوگی۔
صوبائی محکمہ خزانہ کے ریکارڈ کے مطابق مرکزی حکومت نے واپڈا کے مطالبہ پر خیبرپختونخوا سے 1997-98ء میںبجلی بلوں کی عدم ادائیگی اور بقایاجات کی وصولی کے لیے صوبائی حکومت کے حصہ سے ازخود ڈھائی ارب روپے کی کٹوتی کرتے ہوئے یہ رقم واپڈا کو دے دی تھی تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے اس وقت بھی مذکورہ کٹوتی کو غلط قراردیتے ہوئے اس پر احتجاج کیا گیا تھا اور مرکز سے مطالبہ کیاگیا تھا کہ مذکورہ رقم صوبہ سے نہ کاٹی جائے کیونکہ اس میں کئی متنازعہ اور زائد بل شامل ہیں تاہم صوبائی حکومت کے مذکورہ موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔
تاہم صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں باقاعدہ تحقیقات کرنے اور معاملہ کو مرکز اور واپڈا کے ساتھ اٹھانے کی ہدایت کی تھی جس کے تحت پندرہ سالوں کے بعد یہ کیس مرکزی حکومت کو پیش کردیا گیا جس میں ریکارڈ کے ذریعے یہ ثابت کیا گیاہے کہ صوبہ سے مذکورہ ڈھائی ارب روپے کی کٹوتی غلط طور پر کی گئی تھی اس لیے یہ ڈھائی ارب روپے صوبہ کو واپس کیے جائیں تاہم مرکزنے صوبہ کا یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ پندرہ سال پرانا کیس ہے جو اب ماضی کا حصہ ہے اس لیے اس پر اب کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔
مرکز کی جانب سے صوبہ پر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر یہ رقم صوبہ سے غلط طریقہ سے کاٹی گئی ہے اوراس وقت کی صوبائی حکومت کو اس سلسلے می کوئی شک تھا تو یہ معاملہ اسی وقت مرکزکے ساتھ اٹھایا جاتا تاکہ اس کی واپڈا کو ادائیگی نہ ہوتی اور یہ رقم صوبائی حکومت کو واپس مل جاتی تاہم چونکہ اس وقت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا اور اب پندرہ سال گزر گئے ہیں اس لیے اب یہ معاملہ نہ صرف پرانا ہوچکا ہے بلکہ کئی حکومتیں بھی گزر چکی ہی اس لیے ایسے معاملات کو اب زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔
صوبائی حکومت کے متعلقہ ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ یہ سارا معاملہ صوبائی حکومت کے سامنے پیش کردیاگیا ہے جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ یہ رقم چونکہ صوبہ سے غلط طریقہ سے کاٹی گئی تھی اس لیے یہ صوبہ کو واپس ہونی چاہیے جس کے لیے صوبائی حکومت کو ہر فورم پر آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ اس سلسلے میں صوبہ کے متعلقہ محکموں کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ذرائع نے بتایا کہ چونکہ یہ رقم پندرہ سال قبل صوبہ سے غلط طور پر کاٹی گئی تھی اس لیے اب مرکز کو بمعہ منافع یا ڈالر کی قیمت کے تناسب اس رقم کی صوبہ کو واپسی کرنی چاہیے جو کئی گنا زیادہ ہوگی۔