ایک بزرگ استاد سے اظہار عقیدت
صحافت شروع کی تواس زمانےمیں اس فن کی تعلیم و تدریس کا کوئی انتظام نہ تھا،پنجاب یونیورسٹی میں جرنلزم میں ڈپلوما کورس...
KARACHI/HYDERABAD:
صحافت شروع کی تو اس زمانے میں اس فن کی تعلیم و تدریس کا کوئی انتظام نہ تھا،پنجاب یونیورسٹی میں جرنلزم میں ڈپلوما کورس شروع ہوا لیکن یہ صحافت کی تدریس کا ایک ناکافی اور نا مکمل سلسلہ تھا، اگر کوئی ڈپلوما ہولڈر کسی مستند اخبار میں ملازمت کی درخواست دیتا تو اسے جواب ملتا کہ پہلے تو ہم آپ کی غلط سلط تعلیم کو آپ کے ذہن سے باہر نکالیں پھر آپ کو صحیح صحافت سکھائیں یہ مشکل کام ہے، اس لیے ملازمت سے معذرت۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب صحافت کی تعلیم اخبار کے دفتر میں دی جاتی تھی اور یہی دفتر کسی درسگاہ کا مرکز تھا۔
سینئر لوگ نئے آنے والوں کا خاص خیال رکھتے تھے اور ان کی کامیابی گویا اپنی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمے داری سمجھتے تھے۔ میں نے ایسے ہی مہربان بزرگوں کی نگرانی اور سرپرستی میں صحافت کا آغاز کیا۔ ہمارے بزرگوں نے اخبار کا دفتر ایک طرح سے جونیئر لوگوں کا گھر بنا دیا تھا اور دفتر آنا جانا ڈیوٹی نہیں ایک تفریح بن گیا تھا۔ سینئر لوگوں سے پیار و محبت اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ سب چلتا تھا۔ میں جب تھوڑا سا سینئر ہو گیا تو کسی اہم تقریب کی رپورٹنگ نیوز ایڈیٹر اپنے پاس بٹھا کر لکھواتا تھا، وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ دیکھتا بھی جاتا تھا اور جب غلطی ہو جاتی تو فوراً ڈانٹ پڑتی کہ یہ کیا لکھ رہے ہو ،کون سمجھے گا۔
ظہور عالم شہید نیوز ایڈیٹر تھے۔ نیوز کی ایسی پرکھ اور سمجھ رکھنے والے کم ہی پیدا ہوں گے۔ جب کوئی جملہ غلط لکھا جاتا تو وہ سخت رویہ اپنا لیتے اور اس کی تصحیح کر دیتے۔ اخبار نویس کی ایک بنیادی ضرورت اور لازمی صلاحیت اس کی نیوز سینس ہے۔ یہ سمجھ صرف اخبار کے دفتر میں کام کرنے سے ہی پیدا ہوتی ہے اور ایک اچھا استاد مسلسل اس کی نشاندہی کرتا ہے اور نوآموز صحافی اسے سمجھنے اور اپنے دل و دماغ میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے بغیر وہ نیوز سینس پیدا نہیں ہوتی جو صحافت کی بنیاد ہے بلکہ جس کا نام صحافت ہے۔
میں بڑوں اور اپنے سینئر کی بہت سی مثالیں دینا چاہتا ہوں مگر آج کی صحافت ان پرانی طرز کے مرحلوں سے گزر چکی ہے اور نہ جانے کہاں چلی گئی ہے۔ میں نے شروع دنوں میں ایک مضمون لکھا اور جب وہ اخبار کے ادارتی صفحے پر چھپ گیا جسے میں ان دنوں مرتب کرتا تھا تو ایڈیٹر کی رہنمائی موصول ہوئی کہ یہ ایک ایسا مضمون ہے جو آج بھی چھپ سکتا ہے اور سال بھر بعد بھی، یہ روزنامہ اخبار کا مضمون نہیں ہے، اس میں کوئی نیوز نہیں ہے اور نہ ہی یہ تازہ ترین موضوع ہے جو ان دنوں قارئین کے ذہنوں میں ہو، اس لیے یہ کسی اخبار میں اشاعت کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ بات ایسی ہی تھی لیکن آج میں دیکھتا ہوں اور ہر روز دیکھتا ہوں کہ لوگ دھڑا دھڑ مضامین بلکہ جواب مضمون ٹائپ کی تحریریں لکھ رہے ہیں اور انھیں کالم کا نام دے کر چھپوا بھی رہے ہیں، شاید اخبار کا پیٹ بھرنے کے لیے یہ سب چھاپا جا رہا ہے۔ ہماری آج کی صحافت اس پرانے اور صحیح معیار کو سامنے رکھ کر دیکھی جائے تو یہ صحافت نہیں ہے چند مضامین کا مجموعہ ہے جن پر آج کی تاریخ درج کر دی گئی ہے اور جس کی اشاعت کا کوئی مخصوص مقصد ہے۔
یہ باتیں مجھے اپنے ایک بزرگ بشیر شاہ صاحب کی یاد میں منعقد ایک تقریب کے سلسلے میں یاد آ رہی ہیں۔ شاہ صاحب انگریزی صحافت کے شہسوار تھے اور ہم اردو صحافت کے پیادے۔ ان کے ساتھ کسی اخبار کے دفتر میں کام کرنے کا موقع تو نہ مل سکا لیکن اخبار نویسوں کی محفلوں میں ان سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ان کی نصیحتیں سنتے رہے۔ شاہ صاحب محترم بے قابو زبان کے مالک تھے، تکلف ہمیشہ برطرف ہی رہتا تھا، پکے خاکسار تھے، اس لیے ان کا جذباتی ہونا ان کی سیاست کا حصہ بھی تھا۔ وہ ہم سے بہت سینئر تھے لیکن ان کی بے تکلفی اتنی عام تھی اور فراواں کہ ان کی مجلس میں چھوٹا بڑا کوئی نہیں ہوتا تھا۔
ایک نظریاتی جماعت سے تعلق کی وجہ سے ان کے مزاج میں کوئی قانون قاعدہ تھا۔ گپ شپ میں وہ کتنے ہی بے تکلف سہی لیکن نظریاتی پہلو میں وہ بہت مضبوط تھے اور اس وصف نے انھیں ایک خاص حیثیت دے دی تھی اور ان کا یہی وصف ہمارے لیے قابل تقلید اور ایک سبق ہوتا تھا۔ وہ اپنی خاکساریت کی تبلیغ تو نہیں کرتے تھے جب کہ میرا جہاں تک خیال ہے انھوں نے علامہ مشرقی صاحب پر کتاب بھی لکھی تھی لیکن اس نظریاتی اور جماعتی پختگی کے باوجود وہ ایک قطعاً بلا تعصب اور فراخدل انسان تھے اور انھیں مل کر کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ راحت ہوتی اور صحافت کے کئی نکتے بھی ذہن میں آتے تھے، کئی سبق بھی۔ ان کی بے تکلفی تھی کہ میں ان کے شعبہ صحافت سے الگ اردو زبان کا صحافی تھا مگر ان کے ساتھ ایک قریب کا خوشگوار تعلق تھا جو ان کے خوشگوار مزاج کے عین مطابق تھا۔
وہ صحافت سے ریٹائر ہو گئے تو ایک دن اسلام آباد میں سرراہے ملاقات ہو گئی،اس قدر پیار کے ساتھ ملے کہ یہ گرمجوشی اب تک یاد ہے، معلوم ہوا وہ ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہو گئے تھے غالباً وہاں گھر بنا لیا تھا۔ ریٹائر زندگی میں بھی خوش و خرم بلا تکلف وہی شبیر شاہ تھے جو سرگرم صحافت کے زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ دکھ کی بات ہے کہ ہم ان مہربان لوگوں سے محروم ہو گئے ہیں اور اب ان جیسا کوئی دکھائی بھی نہیں دیتا، ان کی روایات اور صحافتی آداب بھی پرانے زمانے کا قصہ بن گئے۔زندگی میں مزاح اور شیرینی کم اور تلخی بڑھ گئی ہے، مسائل نے پریشان کر دیا ہے اور ہم نے اپنے لیے الجھنیں بھی کچھ زیادہ پال لی ہیں جنہوں نے ہمارا مزاح ہی بدل دیا ہے، اب تو یہی عرض کر سکتے ہیں کہ وہ زمانہ چلا گیا ہے، ہمیں پیچھے چھوڑ کر پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے راولپنڈی کے ایک شاعر کا شعر ہے
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا
صحافت شروع کی تو اس زمانے میں اس فن کی تعلیم و تدریس کا کوئی انتظام نہ تھا،پنجاب یونیورسٹی میں جرنلزم میں ڈپلوما کورس شروع ہوا لیکن یہ صحافت کی تدریس کا ایک ناکافی اور نا مکمل سلسلہ تھا، اگر کوئی ڈپلوما ہولڈر کسی مستند اخبار میں ملازمت کی درخواست دیتا تو اسے جواب ملتا کہ پہلے تو ہم آپ کی غلط سلط تعلیم کو آپ کے ذہن سے باہر نکالیں پھر آپ کو صحیح صحافت سکھائیں یہ مشکل کام ہے، اس لیے ملازمت سے معذرت۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب صحافت کی تعلیم اخبار کے دفتر میں دی جاتی تھی اور یہی دفتر کسی درسگاہ کا مرکز تھا۔
سینئر لوگ نئے آنے والوں کا خاص خیال رکھتے تھے اور ان کی کامیابی گویا اپنی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمے داری سمجھتے تھے۔ میں نے ایسے ہی مہربان بزرگوں کی نگرانی اور سرپرستی میں صحافت کا آغاز کیا۔ ہمارے بزرگوں نے اخبار کا دفتر ایک طرح سے جونیئر لوگوں کا گھر بنا دیا تھا اور دفتر آنا جانا ڈیوٹی نہیں ایک تفریح بن گیا تھا۔ سینئر لوگوں سے پیار و محبت اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ سب چلتا تھا۔ میں جب تھوڑا سا سینئر ہو گیا تو کسی اہم تقریب کی رپورٹنگ نیوز ایڈیٹر اپنے پاس بٹھا کر لکھواتا تھا، وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ دیکھتا بھی جاتا تھا اور جب غلطی ہو جاتی تو فوراً ڈانٹ پڑتی کہ یہ کیا لکھ رہے ہو ،کون سمجھے گا۔
ظہور عالم شہید نیوز ایڈیٹر تھے۔ نیوز کی ایسی پرکھ اور سمجھ رکھنے والے کم ہی پیدا ہوں گے۔ جب کوئی جملہ غلط لکھا جاتا تو وہ سخت رویہ اپنا لیتے اور اس کی تصحیح کر دیتے۔ اخبار نویس کی ایک بنیادی ضرورت اور لازمی صلاحیت اس کی نیوز سینس ہے۔ یہ سمجھ صرف اخبار کے دفتر میں کام کرنے سے ہی پیدا ہوتی ہے اور ایک اچھا استاد مسلسل اس کی نشاندہی کرتا ہے اور نوآموز صحافی اسے سمجھنے اور اپنے دل و دماغ میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے بغیر وہ نیوز سینس پیدا نہیں ہوتی جو صحافت کی بنیاد ہے بلکہ جس کا نام صحافت ہے۔
میں بڑوں اور اپنے سینئر کی بہت سی مثالیں دینا چاہتا ہوں مگر آج کی صحافت ان پرانی طرز کے مرحلوں سے گزر چکی ہے اور نہ جانے کہاں چلی گئی ہے۔ میں نے شروع دنوں میں ایک مضمون لکھا اور جب وہ اخبار کے ادارتی صفحے پر چھپ گیا جسے میں ان دنوں مرتب کرتا تھا تو ایڈیٹر کی رہنمائی موصول ہوئی کہ یہ ایک ایسا مضمون ہے جو آج بھی چھپ سکتا ہے اور سال بھر بعد بھی، یہ روزنامہ اخبار کا مضمون نہیں ہے، اس میں کوئی نیوز نہیں ہے اور نہ ہی یہ تازہ ترین موضوع ہے جو ان دنوں قارئین کے ذہنوں میں ہو، اس لیے یہ کسی اخبار میں اشاعت کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ بات ایسی ہی تھی لیکن آج میں دیکھتا ہوں اور ہر روز دیکھتا ہوں کہ لوگ دھڑا دھڑ مضامین بلکہ جواب مضمون ٹائپ کی تحریریں لکھ رہے ہیں اور انھیں کالم کا نام دے کر چھپوا بھی رہے ہیں، شاید اخبار کا پیٹ بھرنے کے لیے یہ سب چھاپا جا رہا ہے۔ ہماری آج کی صحافت اس پرانے اور صحیح معیار کو سامنے رکھ کر دیکھی جائے تو یہ صحافت نہیں ہے چند مضامین کا مجموعہ ہے جن پر آج کی تاریخ درج کر دی گئی ہے اور جس کی اشاعت کا کوئی مخصوص مقصد ہے۔
یہ باتیں مجھے اپنے ایک بزرگ بشیر شاہ صاحب کی یاد میں منعقد ایک تقریب کے سلسلے میں یاد آ رہی ہیں۔ شاہ صاحب انگریزی صحافت کے شہسوار تھے اور ہم اردو صحافت کے پیادے۔ ان کے ساتھ کسی اخبار کے دفتر میں کام کرنے کا موقع تو نہ مل سکا لیکن اخبار نویسوں کی محفلوں میں ان سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ان کی نصیحتیں سنتے رہے۔ شاہ صاحب محترم بے قابو زبان کے مالک تھے، تکلف ہمیشہ برطرف ہی رہتا تھا، پکے خاکسار تھے، اس لیے ان کا جذباتی ہونا ان کی سیاست کا حصہ بھی تھا۔ وہ ہم سے بہت سینئر تھے لیکن ان کی بے تکلفی اتنی عام تھی اور فراواں کہ ان کی مجلس میں چھوٹا بڑا کوئی نہیں ہوتا تھا۔
ایک نظریاتی جماعت سے تعلق کی وجہ سے ان کے مزاج میں کوئی قانون قاعدہ تھا۔ گپ شپ میں وہ کتنے ہی بے تکلف سہی لیکن نظریاتی پہلو میں وہ بہت مضبوط تھے اور اس وصف نے انھیں ایک خاص حیثیت دے دی تھی اور ان کا یہی وصف ہمارے لیے قابل تقلید اور ایک سبق ہوتا تھا۔ وہ اپنی خاکساریت کی تبلیغ تو نہیں کرتے تھے جب کہ میرا جہاں تک خیال ہے انھوں نے علامہ مشرقی صاحب پر کتاب بھی لکھی تھی لیکن اس نظریاتی اور جماعتی پختگی کے باوجود وہ ایک قطعاً بلا تعصب اور فراخدل انسان تھے اور انھیں مل کر کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ راحت ہوتی اور صحافت کے کئی نکتے بھی ذہن میں آتے تھے، کئی سبق بھی۔ ان کی بے تکلفی تھی کہ میں ان کے شعبہ صحافت سے الگ اردو زبان کا صحافی تھا مگر ان کے ساتھ ایک قریب کا خوشگوار تعلق تھا جو ان کے خوشگوار مزاج کے عین مطابق تھا۔
وہ صحافت سے ریٹائر ہو گئے تو ایک دن اسلام آباد میں سرراہے ملاقات ہو گئی،اس قدر پیار کے ساتھ ملے کہ یہ گرمجوشی اب تک یاد ہے، معلوم ہوا وہ ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہو گئے تھے غالباً وہاں گھر بنا لیا تھا۔ ریٹائر زندگی میں بھی خوش و خرم بلا تکلف وہی شبیر شاہ تھے جو سرگرم صحافت کے زمانے میں ہوا کرتے تھے۔ دکھ کی بات ہے کہ ہم ان مہربان لوگوں سے محروم ہو گئے ہیں اور اب ان جیسا کوئی دکھائی بھی نہیں دیتا، ان کی روایات اور صحافتی آداب بھی پرانے زمانے کا قصہ بن گئے۔زندگی میں مزاح اور شیرینی کم اور تلخی بڑھ گئی ہے، مسائل نے پریشان کر دیا ہے اور ہم نے اپنے لیے الجھنیں بھی کچھ زیادہ پال لی ہیں جنہوں نے ہمارا مزاح ہی بدل دیا ہے، اب تو یہی عرض کر سکتے ہیں کہ وہ زمانہ چلا گیا ہے، ہمیں پیچھے چھوڑ کر پرانی یادیں تازہ کرنے کے لیے راولپنڈی کے ایک شاعر کا شعر ہے
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا