آمد رمضان اور مہنگائی کا طوفان

یوں تو تمام عبادات قرب الٰہی اور مالک حقیقی کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں لیکن ماہ صیام کے...

S_afarooqi@yahoo.com

KARACHI:
یوں تو تمام عبادات قرب الٰہی اور مالک حقیقی کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں لیکن ماہ صیام کے روزوں کی فضیلت کو ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے۔ سچ پوچھیے تو رمضان المبارک کی شان سب سے نرالی ہے اور اس کی برکتوں، رحمتوں ، نعمتوں اور سعادتوں کا کوئی شمار نہیں ہے۔

اللہ ربّ العزت اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ مبارک کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں جن کی اہمیت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ رمضان المبارک کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ پورے سال رمضان ہی رہے۔ اس مبارک مہینے کی فضیلت اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید کا نزول بھی اسی مبارک مہینے میں ہوا۔ قرآن حکیم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے (ترجمہ) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو سیدھی راہ دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔

روزہ ہر مسلمان کے لیے یکساں طور پر فرض ہے خواہ وہ روئے زمین کے کسی بھی ملک یا خطے میں آباد ہو۔ اس کے لیے انھیں اسی طریق کار اور ان ہی اوقات کی پابندی کرنا ہوگی۔ بلاشبہ مختلف مقامات کے سحری اور افطار کے اوقات ان کے جغرافیائی محل و قوع کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں لیکن نہ تو یہ مہینہ تبدیل ہوسکتا ہے اور نہ وہ احکامات تبدیل ہوسکتے ہیں جن کے مطابق سحری و افطار کے اوقات معین کیے جاتے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ''روزہ رمضان ایک عمومی اور اجتماعی شکل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے وہ رسوم کی دسترس سے محفوظ ہے۔'' بلاشبہ روزے کا مقصد تزکیہ اور ضبط نفس کے ذریعے مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کرنا ہے اور یہ مقصد انفرادی عمل کے ذریعے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے سال بھر میں ایک مہینہ فرض روزوں کے لیے مخصوص کردیے جانے کے پیچھے منشائے الٰہی یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک ساتھ روزے رکھیں۔

رمضان المبارک کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ تقویٰ اور پرہیزگاری کی اجتماعی فضا اور ماحول پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں بستیوں کی بستیوں اور آبادیوں پر خشیت الٰہی کی روح پرور کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور روزے داروں کے دلوں میں برائی سے نفرت اور نیکی سے رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ رمضان کے ایام میں بالعموم لوگوں میں گناہوں سے توبہ اور صدقہ وخیرات کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے،مساکین کوکپڑے پہنائے اور ناداروں اور ضرورت مندوں کی مدد کرے۔ اس اعتبار سے رمضان کا مبارک مہینہ خیرو ہمدردی کی علامت اور مظہر ہے اور اسلامی معاشرے میں مساوات کے فروغ کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔

اس کے علاوہ یہ مقدس مہینہ مسلمانوں میں ملی وحدت اور یکجہتی کے جذبے کو بھی فروغ دیتا ہے جس کی جانب علامہ اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے:


ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

اس ماہ مبارک میں ایک مال مست امیروکبیر مسلمان کو بھی روزہ رکھ کر اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ اس کے بھوکے اور فاقہ کش مسلمان بھائی پرکیا کیفیت گزرتی ہے۔ چناں چہ اس کیفیت کا احساس اسے ناداروں اور حاجت مندوں کی مدد پر اکساتا ہے اور یہ مدد وہ ذاتی نام و نمود کی خاطر نہیں بلکہ صرف اپنے رب کو راضی اور خوش کرنے کے مقصد سے کرتا ہے۔ اس طرح روزہ غرور اور تکبر کا خاتمہ کرکے باہمی اخوت اور بھائی چارے کے جذبے کے فروغ کا سبب بنتا ہے اور ایک صحت مند معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے۔

جس طرح موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ آنکھوں کو طراوت اور تسکین بخشتا ہے ٹھیک اسی طرح ہر سال رمضان المبارک کا موسم بہار اپنے دامن میں بے شمار فضیلتوں اور برکتوں کی سوغات لے کر آتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ روزہ رکھا کرو، اس کی مثل کوئی بھی عمل نہیں ہے۔ شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزے کو بے مثل اس اعتبار سے قرار دیا ہے کہ اس میں نفس امارہ کو مغلوب کرنے اور اس کی خواہشوں کو دبانے کی صفت بدرجہ غایت پائی جاتی ہے۔ روزوں کی یہ صفت عمومی ہے۔ رہی بات رمضان المبارک کے فرض روزوں کی تو ان کے فضائل اور جسمانی و روحانی فوائد کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔

چونکہ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے لہٰذا اس کے فوائد و برکات سے وہی مسلمان مستفیض ہوسکتے ہیں جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مکمل نیک نیتی اور خدا ترسی کے ساتھ خلوص دل سے کوشش کریں۔ ان میں امیروکبیر، آجر، مزدور اور کسان سمیت تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ ان تمام طبقات میں تاجر کا کردار رمضان شریف کے حوالے سے سب سے زیادہ قابل ذکر ہے کیونکہ تاجر ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔ ویسے بھی اسلام میں تجارت کو دیگر تمام پیشوں میں ایک خاص فضیلت و اہمیت حاصل ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پیشے کو تمام پیشوں سے افضل قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اسی پیشے کو اختیار فرمایا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک میں ایک مسلمان تاجر پر دہری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو ان آداب و قواعد تجارت کی سختی سے پابندی جن کا دین اسلام پر مسلمان تاجر سے خصوصی طو رپر تقاضا کرتا ہے۔ مثلاً مال کی خریدوفروخت میں نرمی کا برتاؤ، ذخیرہ اندوزی سے گریز، ملاوٹ سے مکمل اجتناب، ناجائز منافع خوری سے پرہیز، مال کا عیب نہ چھپانا، پورا ناپنا اور تولنا اور مال بیچنے کے لیے قسمیں کھانے سے احتراز، دوسرے ان تمام باتوں سے بچنا جو مسلمان کو روزے کے اجروثواب سے محروم کردیتی ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بے ہودہ باتیں کرنا، گالیاں بکنا، فضول قسم کی گفتگو کرنا، لڑنا جھگڑنا اور خلاف شرع کاموں میں مشغول رہنا۔

بحیثیت مسلمان ہر تاجر پر لازم ہے کہ وہ اسلام کے مقرر کردہ آداب تجارت کی سختی سے پابندی کرے تاکہ رزق حلال کمانے کا بنیادی مقصد حاصل ہوسکے۔ اگرچہ عام دنوں میں بھی ایمانداری سے تجارت کرنے کی تلقین و تاکید کی گئی ہے لیکن رمضان المبارک میں تو اس کا خاص خیال رکھنا اور اہتمام کرنا اس لیے بھی مزید اہمیت کا حامل ہے کہ اس مبارک مہینے میں دیگر عبادات کی طرح اس کا اجروثواب بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان تاجر رمضان کے مہینے میں احترام رمضان کی نیت سے اپنے مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی کے جذبے سے اپنے مال کی قیمتوں میں رضاکارانہ طور پر کمی یا خصوصی رعایت کردے اور برائے نام منافع کمانے پر اکتفا کرے تو اس تاجر کا یہ عمل صالح اس کو اجرعظیم کا مستحق بنادے گا۔

قرآن و حدیث میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان تاجروں کے لیے تجارت کے جو آداب مقرر فرمائے ہیں ناپ تول، ایفائے عہد، ملاوٹ سے گریز، ذخیرہ اندوزی سے اجتناب اور گرانی سے پرہیز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فرمایا کہ تاجروں کا حشر قیامت کے دن فاجروں کے ساتھ ہوگا سوائے ان کے جو حرام سے بچے، جھوٹی قسم نہ کھائی، ناپ تول میں کمی نہ کی اور جنہوں نے قیمت کے معاملے میں راست بازی کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرماتا ہے جو خریدوفروخت اور تقاضہ کرتے میں نرمی سے پیش آتا ہے۔ ایک سچے مسلمان تاجر کی اصل پہچان یہی ہے کہ وہ ہمیشہ ان آداب کی سختی سے پابندی اور پیروی کرتا رہے اور جو ایسا نہیں کرتا اس کی کمائی حرام ہوجاتی ہے اور وہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ جہنم کی آگ سے بھرتا ہے۔ رمضان المبارک میں ناجائز منافع خوری کرنے کا مرتکب تاجر نہ صرف اس مقدس مہینے کے فیوض و برکات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ اپنی آخرت بھی برباد کر بیٹھتا ہے۔

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں جس کا قیام ہی اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا، سارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں کے تاجر ہی نہیں بلکہ حکمراں بھی چیزوں کے نرخ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ یک بہ یک بڑھا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری نئی حکومت ہی کو لے لیجیے جس نے رمضان کے مقدس مہینے کی آمد سے قبل ہی ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں من مانا اضافہ کرکے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کردیا جس کے نتیجے میں چیزوں کی قیمتیں کہاں سے کہاں چلی گئیں۔ ایک طرف آمد رمضان ہے اور دوسری جانب مہنگائی کا زبردست طوفان ہے جس نے غریب اور متوسط طبقے کے ہوش اڑادیے ہیں۔
Load Next Story