فلاحی ریاست کا قیام
وزیر تعلیم نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں خواندگی کی شرح میں 2 فیصد کمی ہوئی ہے
کراچی پریس کلب کے سامنے پورٹ قاسم کے مزدوروں کو دھرنا دیتے ہوئے تین ماہ ہو چکے ۔ وہ تنخواہوں کی ادائیگی اور ملازمتوں کے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ مزدور روزانہ 30 میل کا سفرکرکے کراچی پریس کلب پہنچتے ہیں ۔ یہ لوگ روز جلسہ کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے خاندانوں کو فاقہ کشی سے بچایا جائے ۔ گزشتہ دنوں جب وزیر اعظم عمران خان کراچی آئے اورگورنر ہاؤس میں مقیم تھے تو ان مزدوروں نے گورنر ہاؤس جانے کی کوشش کی مگر پولیس کے چاق وچوبند دستوں نے فوراً آنسوگیس کے گولے پھینکنے شروع کردیے اور سپاہیوں نے لاٹھیاں چلائیں ۔
سرد اور تیز رفتاری سے پانی کی بارش کرنیوالی مشین کو حرکت میں لایا گیا ۔کچھ مزدورگرفتار ہوئے اور باقی تھک ہارکرکیمپ میں آگئے اور دستیاب پانی سے آنکھوں کی جلن کو دھونے لگے ۔کراچی دسمبرکی سردی کی لپیٹ میں ہے۔ مزدور موسم کی پرواہ کیے بغیر روزگار بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ شہر میں گزشتہ ہفتے سی این جی کی سپلائی معطل رہی ۔کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سی این جی کی بندش سے محدود تعداد کی بسیں اور منی بسیں سڑکوں سے لاپتہ ہوگئیں۔
غریب آدمی کے پاس رکشے میں سفر کرنے، اوبر اورکریم کی ٹیکسیوں کی خدمات حاصل کرنے کی سکت نہیں تھی، یوں صبح اور شام کو بس اسٹاپوں پر لوگوں کا ہجوم رہا۔ لوگ بسوں کی چھتوں پر سفرکرنے پر مجبور ہوئے۔ عورتیں بسوں کی چھتوں پر سفر نہیں کر سکتیں۔ وہ بسوں اور منی بسوں کے دروازوں پر لٹکی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے سرگرداں رہیں۔ وفاقی حکومت کے سو دنوں میں مہنگائی میں 30 سے 40 فیصد تک اضافہ ہوا ۔ مقامی اشیاء میں درآمد کی جانیوالی اشیاء کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ۔ دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کو حکومت نے قیمتوں میں اضافے کی اجازت دیدی ۔
اب وزیر خزانہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ جنوری میں ایک نیا منی بجٹ آئیگا، پاکستان میں ہمیشہ بجٹ میں ٹیکس لگتے ہیں، اسد عمر نے یہ بھی فرمایا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہوگئے تو نیا پیکیج آئیگا ۔ آئی ایم ایف ہمیشہ سے بجلی، تیل، گیس، کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں زر تلافی دینے کے خلاف ہے، یوں مزید مہنگائی بڑھے گی وزیر خزانہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ سعودی عرب سے سود پر ملنے والے قرضے سے معیشت کو استحکام ملا ہے مگر متوسط اور نچلے طبقے کی معیشت مزیدکمزور ہوچکی ہے۔
وزیر تعلیم نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں خواندگی کی شرح میں 2 فیصد کمی ہوئی ہے اور یہ شرح اب 58 فیصد پر رکی ہے۔گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں طالبات کے اسکول چھوڑنے کی شرح 78 فیصد ہے یعنی صرف 22 فیصد طلبہ میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں پھر یہ رپورٹ بھی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے کہ صنفی امتیاز کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پسماندہ ترین تین ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان کا صنفی امتیازکے انڈکس میں 148 واں نمبر ہے۔ صرف شمائلی علاقے میں ہی طالبات کے اسکول چھوڑنے کی شرح خطرناک نہیں ہے بلکہ بلوچستان جنوبی پنجاب میں بھی طالبات کے اسکول نہ جانے کی شرح بھی ایسی ہے۔ وسطیٰ پنجاب اور سندھ کے شہروں میں بھی اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کل آبادی کا نصف ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارگزشتہ دو برسوں سے چاروں صوبوں میں علاج کی سہولتوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ پہلے سال سے معزز چیف جسٹس پنجاب کے اسپتالوں کے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں، جب انھوں نے خیبر پختونخواہ کے سرکاری اسپتالوں پر توجہ دی تو وہاں بھی حالات ملک کے دیگر علاقوں کی طرح نظر آئے۔ ملک میں بیروزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق صرف ناخواندہ افراد کے پاس روزگار نہیں ہے بلکہ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیروزگار ہیں جن میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کے علاوہ انجنیئرنگ، بزنس ایڈ منسٹریشن اور آئی ٹی کے شعبے میں ڈگری یافتہ نوجوانوں کے لیے نوکری کی گنجائش نہیں ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے لیے دیسی مرغیوں اور انڈوں کی پیداوار میں اضافے اور بھینس کے کٹے کی نسل بڑھانے کی اسکیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اسکیم میاں شہباز شریف کے دور سے رائج ہے مگر ماہرین اقتصادیات اس اسکیم کو محدود اثرات کی اسکیم قرار دے رہے ہیں۔ ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بے زمین کسانوں کو زمینوں کا مالک بنانے کے ساتھ زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے دنیا بھر میں نافذ ہونیوالے جدید طریقوں کی مدد سے زرعی شعبے کے حالات بہترکیے جاسکتے ہیں۔
زرعی شعبہ پانی کی کمی کا شکار ہے مگر دو سو سالہ نہری نظام میں پانی کے ضایع ہونے کی شرح خاصی زیادہ ہے ۔ پنجاب کی سرحد سے متصل بھارت کے زیرانتظام اور سندھ کی سرحد سے متصل راجستھان میں پانی کی کمی کو دورکرنے اور زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لیے کامیاب تجربے ہوئے ہیں ۔ پاکستان پانی کی کمی کو بھارت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کے بجائے بھارتی تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ ملک میں بیروزگاری بڑھنے کی وجہ صنعتی شعبے کا پھیلاؤ نہ ہونا ہے۔
اس وقت بھی اسٹیل ملز بند پڑی ہوئی ہے۔ حکومت عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر ملزکے ملازمین کو تنخواہ ادا کرتی ہے ۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے ہمیشہ پاکستان اسٹیل کو نجی شعبے کے حوالے کرنے مخالفت کی مگر حکومت نے مل کو چلانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اسٹیل ملزکو اپ گریڈ کرنے کے لیے روس کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس مل سے اتنی اسٹیل تیار ہو سکتی ہے جو ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ اس کی مصنوعات برآمد بھی ہوسکتی ہیں۔ سرمایہ کار نئے صنعتی اداروں کے قائم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ پاکستانی صنعتکار بنگلہ دیش اور افریقی ممالک میں صنعتیں لگانے کو ترجیح دیتا ہے، کچھ صنعتکاروں نے تو بھارت میں سرمایہ کاری کی ہے۔
ملک میں امن وامان کی صورتحال بد ترین طرز حکومت اورکرپشن کے خلاف مہم میں سرمایہ کاروں کو صنعتیں لگانے سے روک رہی ہے۔ تاجروں اور فنکاروں کی انجمنوں کی رپورٹنگ کرنیوالے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ نیب کے بڑھتے ہوئے اختیارات سے بھی سرمایہ کار خوفزدہ ہیں۔ انھیں یہ خوف ہے کہ کسی کارخانے کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر ان سے منی ٹریل مانگی جاسکتی ہے ۔ سابقہ حکومت نے ملک میں سی این جی کی کمی کو دورکرنے کے لیے قطر سے این ایل جی درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ ملک میں بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ میں کمی ہوئی تھی مگر تحریک انصاف کے دانا دماغوں نے سستی شہرت حاصل کرنے اور مسلم لیگ ن کو بد نام کرنے کے لیے اس معاہدے کے خلاف پروپیگنڈا کیا پھر اسی سال سی این جی گیس درآمد نہیں ہوئی، یوں موسم سرما میں سی این جی کی قلت پیدا ہوئی۔
صرف کراچی میں صنعتی علاقے میں گیس کی سپلائی کئی دنوں تک معطل رہی ۔ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ سے ملاقات میں انھیں ہدایت دی کہ فلاحی ریاست کے قیام کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔ عمران خان کا یہ خیال ایک عام آدمی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک بہترین تصور ہے مگر اس تصور کو عملی شکل دینے کے لیے ریاست کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلوں کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو پورٹ قاسم کے مزدوروں سمیت ہر مزدورکوتحفظ پہنچانے کے لیے اقدامات کا آغازکرنا چاہیے۔ فلاحی ریاست کے قیام کے لیے غربت و افلاس کا خاتمہ ضروری ہے۔ غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنیوالے افراد کی شرح صفر تک پہنچانے کے لیے مکمل طور پر صنعتی ریاست میں تبدیل کرنا ضروری ہے۔ مکمل صنعتی معاشرے کے لیے خواندگی کی شرح نو فیصد ہونا لازمی شرط ہے۔ ابھی تک حکومت مدرسوں میں جدید تعلیمی نظام نافذ کرنے کے بارے میں کچھ نہ کرسکی۔
صرف پورے ملک میں یکساں نصاب نافذ کرنے کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ یکساں نصاب سے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹے صوبوں کی زبانیں تاریخ اور ثقافت فراموش ہوجاتی ہیں ۔ وفاق کو صرف نصاب کو جدید بنانے کے لیے مشاورتی کردار ادا کرنا چاہیے اور صوبوں کے ساتھ مل کر ایسی حکمت عملی تیار ہونی چاہیے کہ 5 سال کی عمر تک پہنچنے والا ہر بچہ اسکول میں داخل ہوجائے، اقتصادی ترقی کے لیے آبادی پر قابو پانا ضروری ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تو بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرناک اثرات کا نوٹس لیا ہے مگر تحریک انصاف کی وفاق اور صوبوں میں قائم حکومتیں ابھی تک اس بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دائیں بازوکے رجعت پسند تحریک انصاف کے فیصلہ ساز اداروں میں موجود ہیں جو آبادی کو روکنے کو مذہبی نقطہ نظر کو اہمیت دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے وزارتوں کے اخراجات میں 10 فیصدکمی کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر تنخواہوں اور سول ریٹائر ملازمین کی پنشن میں کمی کی گئی تو معاشی بد حالی بڑھے گی ۔
موجودہ حکومت نے 5 برسوں میں 50 لاکھ گھر تعمیرکرنے کا اعلان کیا ۔ ملک کی معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ اتنے گھر تعمیر ہوسکیں، اگر حکومت ہر شخص کے گھرکے بنیادی حق کو تسلیم کرے اور یہ قانون نافذ کیا جائے کہ ایک شخص ایک پلاٹ گھرکا مالک ہوگا تو پھر یہ شعبہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال نہیں ہوگا اور قیمتیں گرجائینگی اور ہر شخص کو سستا گھر مل سکے گا۔ محض چند شیلٹر ہاؤس بناکر لاہور اور پشاورکی فٹ پاتھوں پر سردی میں ہونیوالوں پر لحاف ڈال کر فلاحی ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ موجودہ حکومت تو اتنی کمزور ہے کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات کو معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مشاورتی کمیٹی میں شامل کیا مگر رجعت پسندوں کے دباؤ پر فیصلہ منسوخ کرنا پڑا ۔ فلاحی ریاست بنانے کے لیے ریاست کے ڈھانچے کو دوبارہ ترتیب دینا ضروری ہے۔ نعروں سے فلاحی ریاست قائم نہیں ہوسکتی ۔ سائنسی بنیادیوں پر مکمل صنعتی معاشرے کے قیام سے ہی فلاحی ریاست کا قیام ممکن ہے۔
سرد اور تیز رفتاری سے پانی کی بارش کرنیوالی مشین کو حرکت میں لایا گیا ۔کچھ مزدورگرفتار ہوئے اور باقی تھک ہارکرکیمپ میں آگئے اور دستیاب پانی سے آنکھوں کی جلن کو دھونے لگے ۔کراچی دسمبرکی سردی کی لپیٹ میں ہے۔ مزدور موسم کی پرواہ کیے بغیر روزگار بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ شہر میں گزشتہ ہفتے سی این جی کی سپلائی معطل رہی ۔کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سی این جی کی بندش سے محدود تعداد کی بسیں اور منی بسیں سڑکوں سے لاپتہ ہوگئیں۔
غریب آدمی کے پاس رکشے میں سفر کرنے، اوبر اورکریم کی ٹیکسیوں کی خدمات حاصل کرنے کی سکت نہیں تھی، یوں صبح اور شام کو بس اسٹاپوں پر لوگوں کا ہجوم رہا۔ لوگ بسوں کی چھتوں پر سفرکرنے پر مجبور ہوئے۔ عورتیں بسوں کی چھتوں پر سفر نہیں کر سکتیں۔ وہ بسوں اور منی بسوں کے دروازوں پر لٹکی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے سرگرداں رہیں۔ وفاقی حکومت کے سو دنوں میں مہنگائی میں 30 سے 40 فیصد تک اضافہ ہوا ۔ مقامی اشیاء میں درآمد کی جانیوالی اشیاء کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ۔ دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کو حکومت نے قیمتوں میں اضافے کی اجازت دیدی ۔
اب وزیر خزانہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ جنوری میں ایک نیا منی بجٹ آئیگا، پاکستان میں ہمیشہ بجٹ میں ٹیکس لگتے ہیں، اسد عمر نے یہ بھی فرمایا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہوگئے تو نیا پیکیج آئیگا ۔ آئی ایم ایف ہمیشہ سے بجلی، تیل، گیس، کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں زر تلافی دینے کے خلاف ہے، یوں مزید مہنگائی بڑھے گی وزیر خزانہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ سعودی عرب سے سود پر ملنے والے قرضے سے معیشت کو استحکام ملا ہے مگر متوسط اور نچلے طبقے کی معیشت مزیدکمزور ہوچکی ہے۔
وزیر تعلیم نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں خواندگی کی شرح میں 2 فیصد کمی ہوئی ہے اور یہ شرح اب 58 فیصد پر رکی ہے۔گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں طالبات کے اسکول چھوڑنے کی شرح 78 فیصد ہے یعنی صرف 22 فیصد طلبہ میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں پھر یہ رپورٹ بھی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے کہ صنفی امتیاز کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پسماندہ ترین تین ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان کا صنفی امتیازکے انڈکس میں 148 واں نمبر ہے۔ صرف شمائلی علاقے میں ہی طالبات کے اسکول چھوڑنے کی شرح خطرناک نہیں ہے بلکہ بلوچستان جنوبی پنجاب میں بھی طالبات کے اسکول نہ جانے کی شرح بھی ایسی ہے۔ وسطیٰ پنجاب اور سندھ کے شہروں میں بھی اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کل آبادی کا نصف ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارگزشتہ دو برسوں سے چاروں صوبوں میں علاج کی سہولتوں پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ۔ پہلے سال سے معزز چیف جسٹس پنجاب کے اسپتالوں کے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں، جب انھوں نے خیبر پختونخواہ کے سرکاری اسپتالوں پر توجہ دی تو وہاں بھی حالات ملک کے دیگر علاقوں کی طرح نظر آئے۔ ملک میں بیروزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق صرف ناخواندہ افراد کے پاس روزگار نہیں ہے بلکہ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیروزگار ہیں جن میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کے علاوہ انجنیئرنگ، بزنس ایڈ منسٹریشن اور آئی ٹی کے شعبے میں ڈگری یافتہ نوجوانوں کے لیے نوکری کی گنجائش نہیں ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے لیے دیسی مرغیوں اور انڈوں کی پیداوار میں اضافے اور بھینس کے کٹے کی نسل بڑھانے کی اسکیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اسکیم میاں شہباز شریف کے دور سے رائج ہے مگر ماہرین اقتصادیات اس اسکیم کو محدود اثرات کی اسکیم قرار دے رہے ہیں۔ ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بے زمین کسانوں کو زمینوں کا مالک بنانے کے ساتھ زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے دنیا بھر میں نافذ ہونیوالے جدید طریقوں کی مدد سے زرعی شعبے کے حالات بہترکیے جاسکتے ہیں۔
زرعی شعبہ پانی کی کمی کا شکار ہے مگر دو سو سالہ نہری نظام میں پانی کے ضایع ہونے کی شرح خاصی زیادہ ہے ۔ پنجاب کی سرحد سے متصل بھارت کے زیرانتظام اور سندھ کی سرحد سے متصل راجستھان میں پانی کی کمی کو دورکرنے اور زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لیے کامیاب تجربے ہوئے ہیں ۔ پاکستان پانی کی کمی کو بھارت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کے بجائے بھارتی تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ ملک میں بیروزگاری بڑھنے کی وجہ صنعتی شعبے کا پھیلاؤ نہ ہونا ہے۔
اس وقت بھی اسٹیل ملز بند پڑی ہوئی ہے۔ حکومت عوامی دباؤ سے مجبور ہوکر ملزکے ملازمین کو تنخواہ ادا کرتی ہے ۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے ہمیشہ پاکستان اسٹیل کو نجی شعبے کے حوالے کرنے مخالفت کی مگر حکومت نے مل کو چلانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اسٹیل ملزکو اپ گریڈ کرنے کے لیے روس کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس مل سے اتنی اسٹیل تیار ہو سکتی ہے جو ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ اس کی مصنوعات برآمد بھی ہوسکتی ہیں۔ سرمایہ کار نئے صنعتی اداروں کے قائم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ پاکستانی صنعتکار بنگلہ دیش اور افریقی ممالک میں صنعتیں لگانے کو ترجیح دیتا ہے، کچھ صنعتکاروں نے تو بھارت میں سرمایہ کاری کی ہے۔
ملک میں امن وامان کی صورتحال بد ترین طرز حکومت اورکرپشن کے خلاف مہم میں سرمایہ کاروں کو صنعتیں لگانے سے روک رہی ہے۔ تاجروں اور فنکاروں کی انجمنوں کی رپورٹنگ کرنیوالے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ نیب کے بڑھتے ہوئے اختیارات سے بھی سرمایہ کار خوفزدہ ہیں۔ انھیں یہ خوف ہے کہ کسی کارخانے کے قیام کے لیے سرمایہ کاری کرنے پر ان سے منی ٹریل مانگی جاسکتی ہے ۔ سابقہ حکومت نے ملک میں سی این جی کی کمی کو دورکرنے کے لیے قطر سے این ایل جی درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ ملک میں بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ میں کمی ہوئی تھی مگر تحریک انصاف کے دانا دماغوں نے سستی شہرت حاصل کرنے اور مسلم لیگ ن کو بد نام کرنے کے لیے اس معاہدے کے خلاف پروپیگنڈا کیا پھر اسی سال سی این جی گیس درآمد نہیں ہوئی، یوں موسم سرما میں سی این جی کی قلت پیدا ہوئی۔
صرف کراچی میں صنعتی علاقے میں گیس کی سپلائی کئی دنوں تک معطل رہی ۔ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ سے ملاقات میں انھیں ہدایت دی کہ فلاحی ریاست کے قیام کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔ عمران خان کا یہ خیال ایک عام آدمی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک بہترین تصور ہے مگر اس تصور کو عملی شکل دینے کے لیے ریاست کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلوں کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو پورٹ قاسم کے مزدوروں سمیت ہر مزدورکوتحفظ پہنچانے کے لیے اقدامات کا آغازکرنا چاہیے۔ فلاحی ریاست کے قیام کے لیے غربت و افلاس کا خاتمہ ضروری ہے۔ غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنیوالے افراد کی شرح صفر تک پہنچانے کے لیے مکمل طور پر صنعتی ریاست میں تبدیل کرنا ضروری ہے۔ مکمل صنعتی معاشرے کے لیے خواندگی کی شرح نو فیصد ہونا لازمی شرط ہے۔ ابھی تک حکومت مدرسوں میں جدید تعلیمی نظام نافذ کرنے کے بارے میں کچھ نہ کرسکی۔
صرف پورے ملک میں یکساں نصاب نافذ کرنے کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ یکساں نصاب سے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹے صوبوں کی زبانیں تاریخ اور ثقافت فراموش ہوجاتی ہیں ۔ وفاق کو صرف نصاب کو جدید بنانے کے لیے مشاورتی کردار ادا کرنا چاہیے اور صوبوں کے ساتھ مل کر ایسی حکمت عملی تیار ہونی چاہیے کہ 5 سال کی عمر تک پہنچنے والا ہر بچہ اسکول میں داخل ہوجائے، اقتصادی ترقی کے لیے آبادی پر قابو پانا ضروری ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے تو بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرناک اثرات کا نوٹس لیا ہے مگر تحریک انصاف کی وفاق اور صوبوں میں قائم حکومتیں ابھی تک اس بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دائیں بازوکے رجعت پسند تحریک انصاف کے فیصلہ ساز اداروں میں موجود ہیں جو آبادی کو روکنے کو مذہبی نقطہ نظر کو اہمیت دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے وزارتوں کے اخراجات میں 10 فیصدکمی کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر تنخواہوں اور سول ریٹائر ملازمین کی پنشن میں کمی کی گئی تو معاشی بد حالی بڑھے گی ۔
موجودہ حکومت نے 5 برسوں میں 50 لاکھ گھر تعمیرکرنے کا اعلان کیا ۔ ملک کی معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ اتنے گھر تعمیر ہوسکیں، اگر حکومت ہر شخص کے گھرکے بنیادی حق کو تسلیم کرے اور یہ قانون نافذ کیا جائے کہ ایک شخص ایک پلاٹ گھرکا مالک ہوگا تو پھر یہ شعبہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال نہیں ہوگا اور قیمتیں گرجائینگی اور ہر شخص کو سستا گھر مل سکے گا۔ محض چند شیلٹر ہاؤس بناکر لاہور اور پشاورکی فٹ پاتھوں پر سردی میں ہونیوالوں پر لحاف ڈال کر فلاحی ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔ موجودہ حکومت تو اتنی کمزور ہے کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات کو معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مشاورتی کمیٹی میں شامل کیا مگر رجعت پسندوں کے دباؤ پر فیصلہ منسوخ کرنا پڑا ۔ فلاحی ریاست بنانے کے لیے ریاست کے ڈھانچے کو دوبارہ ترتیب دینا ضروری ہے۔ نعروں سے فلاحی ریاست قائم نہیں ہوسکتی ۔ سائنسی بنیادیوں پر مکمل صنعتی معاشرے کے قیام سے ہی فلاحی ریاست کا قیام ممکن ہے۔