کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کے فکری مسائل

کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کے کچھ فکری مسائل بھی ہیں جو کافی توجہ طلب ہیں

salmanabidpk@gmail.com

کیا واقعی کرپشن ،بدعنوانی کے خلاف احتسابی عمل سے ملک کا سیاسی اورجمہوری نظام ناکام ہوگا اورملک اس کے نتیجے میں داخلی عدم استحکام سمیت معاشی بدحالی کا شکار ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جو یہاں بہت سے اہل دانش یا سیاسی اکابرین کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے اور اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر دلیل دی جاتی ہے کہ ہمیں مفاہمت کی سیاست درکار ہے اور ماضی کی غلطیوں سے نکل کر ہمیں آگے بڑھنا چاہیے ۔ یہ عجیب منطق ہے کہ احتساب کا عمل سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرتا ہے ۔یہ دلیل عمومی طور پر ان لوگوں کی جانب سے سامنے آتی ہے جو یا تو احتساب کے عمل سے گزر رہے ہیں یا ان کو ڈر ہے کہ وہ بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ اس کام کے لیے ان کے حامی اہل دانش بھی کافی پیش پیش اور سرگرم نظر آتے ہیں ۔

بنیادی طور پر پاکستان میں اہل دانش، سیاست اور اقتدار یا طاقت کی سیاست پر حاوی طبقہ اس بنیادی نکتہ پر زور دیتا تھا کہ پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔مگر اگر ہم پاکستان کے بنیادی مسائل کا جائزہ لیں تو اس میں ایک بڑا مسئلہ کرپشن اور بدعنوانی کے تناظر میں غالب نظر آتا ہے ۔ مسئلہ محض یہاں پر کرپشن یا بدعنوانی کا نہیں بلکہ اس تناظر میں ریاستی ، حکومتی نظام ، اداروں اور مافیا کے درمیان اس مضبوط گٹھ جوڑکا معاملہ ہے جو ریاستی ، حکومتی وسائل اور اختیار کو بنیاد بنا کر ذاتی مفادات کو تقویت دیتے ہیں۔ سیاست ،جمہوریت ، انصاف اور شفافیت کا کرپشن یا بدعنوانی کا باہمی گٹھ جوڑ واقعی سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے ۔

لیکن ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب ہمارے سیاسی، قانونی نظام میں کرپشن یا احتساب ایک قومی مسئلہ کے طور پر ابھرا ہے ۔سیاسی حکومت، ریاستی نظام ، عدلیہ ، نیب، ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے کافی حد تک فعالیت کا کردار بھی ادا کررہے ہیں ۔اگرچہ اس میں شفافیت کے حوالے سے ابھی بھی کافی مسائل ہیں لیکن اس کے باوجود یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاملات بہتر انداز میں آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ماضی کے مقابلے میں احتساب کا عمل زیادہ مضبوط نظر آتا ہے ۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے ہمارا ریاستی و حکومتی نظام اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے افراد کے سہارے کھڑا ہوتا ہے ۔ افراد میں بھی ہم ایسے فرد کا چناؤ کرتے ہیں جو قانون سے زیادہ حکمران طبقات کے مفادات کو تحفظ دے ۔یہاں سیاسی بنیادوں پر کرپشن کو تحفظ دینے، سمجھوتے یا ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جن کا مقصد ادارہ جاتی عمل کو کمزور کرنا ہوتا ہے ۔کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کا خاتمہ ایک مضبوط ادارہ جاتی عمل اور اس کے داخلی شفافیت پر مبنی نظام یا خود مختاری سے جڑا ہوتا ہے ۔ جب سیاسی مداخلتوں کے ساتھ انتظامی یا ادارہ جاتی نظام کو چلایا جائے گا تو اس سے بہتری اور شفافیت کے امکانات اور زیادہ محدود ہوجاتے ہیں۔ اس طرزکے نظام کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری اوپر سے سرایت کرکے نیچے تک آتی ہے اور ہر سطح پر اس کی شکلیں قومی بگاڑ کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہیں اور یہ ہی شفافیت پر مبنی نظام میں بڑی رکاوٹ ہے ۔

عمومی طور پر جب ہم ملک کے مختلف شعبہ جات یا طاقت ور طبقات کی کرپشن اور بدعنوانی کی کہانیاں سنتے ہیں یا جو اس تناظر میں عدالتوں میں انکشافات ہوتے ہیں تو یہ سب کچھ سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتا بلکہ ریاستی، حکومتی نظام اور مافیا کے درمیان گٹھ جوڑ کی بنیاد پر یہ سب کچھ ہم کو دیکھنے کو ملتا ہے ۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار اور ہماری عدلیہ کو واقعی داد دینی ہوگی کہ کس طرح سے پچھلے کچھ عرصہ سے طاقت ور طبقات کی کرپشن، بدعنوانی اور مافیا پر مبنی حکمرانی میں طاقت ور طبقات کو بے نقاب کیا ہے ۔جو مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں وہ اس نکتہ کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ کیسے اس ملک میں سیاست ، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے نام پر مافیا پر مبنی حکمرانی ہے ۔ یہ مسئلہ محض اہل سیاست ، سیاست دانوں کا ہی نہیں بلکہ اس میں معاشرے کے تمام طاقت ور طبقات جن میں کچھ سیاست دان، بیوروکریسی اور کاروباری طبقہ شامل ہیں ۔


کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کے کچھ فکری مسائل بھی ہیں جو کافی توجہ طلب ہیں ۔ اول جب بھی ملک میں کرپشن ، بدعنوانی کا خاتمہ یا بلا تفریق احتساب کی بات ہو تو سب سے پہلے اس دلیل کو سامنے لایا جاتا ہے کہ ملک سیاسی اورمعاشی عدم استحکام کا شکار ہوگا اوراس سے ملک میں سیاست ، جمہوریت اورحکومت کو خطرات لاحق ہونگے ۔ دوئم کرپشن اور بدعنوانی آج کے سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں اوراس کو قبول کیے بغیر ہم سیاسی اور معاشی طور پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ سوئم ملک کے سیاسی او رمعاشی استحکام کے لیے ہمیں مفاہمت کی طرف بڑھنا ہوگا اور احتساب کے بجائے عام معافی کا اعلان کرنا ہوگا ۔چہارم جب بھی کسی کی کرپشن اور بدعنوانی کی بات ہوتی ہے تو وہ فوری طور پر اپنی صفائی دینے کے بجائے دوسروں کو بھی کرپٹ ثابت کرتا ہے یا احتساب کے عمل کو طاقتور اداروں کے گٹھ جوڑ یا سیاسی انتقام سمجھ کر اس کی ہر سطح پر مخالفت کی جاتی ہے۔ احتساب شفاف اور بلا امتیاز ہونا چاہیے تاکہ مخالفوں کو اس پر انگلی نہ اٹھانا پڑے۔

بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ سیاست ، جمہوریت اورکرپشن کو کیسے ایک ساتھ جوڑ کر کوئی مضبوط سیاسی نظام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے ۔اگر مسئلہ واقعی سیاسی ،سماجی ، معاشی نظام سے کرپشن کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہے تو اس میں حکمران یا بالادست طبقات کے لیے کیا رکاوٹ ہے ۔ اگر اس تناظر میں کوئی موثر قانون سازی، پالیسی درکار ہے تو اس کے لیے بھی کسی نے کسی بھی حکمران طبقہ کو نہیں روکا، آج بھی جب نیب پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو اس کی اصلاح کے لیے کیونکر قانون سازی سے گریز کیاجاتا ہے ۔مسئلہ قانون سازی کا نہیں بلکہ ایک ایسی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے فقدان کا ہے جو شفافیت میں رکاوٹ بنتی ہے ۔جب سیاست محض دولت اور اختیارات سمیٹنے کا نام بن کر رہ جائے یا سیاست اور جمہوریت کو کارپوریٹ یعنی مالی منافع کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو یہ ہی کچھ خرابیاں اور بداعمالیاں ہونگی جو ہمیں اس وقت اپنی قومی سیاست پر غالب نظر آتی ہے۔

سیاست اور جمہوریت کے اصولوں میں ایک بڑی بنیاد اس کی اخلاقی ساکھ ہوتی ہے ۔ اس اخلاقی ساکھ کی بڑی کنجی شفافیت پر مبنی نظام بھی ہوتا ہے ۔لیکن ہماری سیاست میں سے اخلاقیات کا پہلو بہت پیچھے چلا گیا ہے ۔یہ محض سیاسی نعرے بن گئے ہیں اور جو سیاسی نظام بنایا گیا ہے اس کی بنیاد اصول، فکر ، سوچ اور نظریہ پر مبنی نہیں بلکہ ان کو سیاست میں اہل سیاست ایک بڑی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ سیاست اور سیاست دان جمہوریت میں ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرتے ہیں ،لیکن جب ہم اپنے ان رول ماڈل کی کرپشن اورلوٹ مار کی کہانیاں سنتے ہیں تو لوگوں میں سیاست اورجمہوریت کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں ابھرتا ۔ یہ برا تاثر جہاں جمہوریت اور سیاست کو کمزور کرتا ہے وہیں لوگوں میں اس نظام سے لاتعلقی کو بھی بڑھاتا ہے ۔یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ جتنے اچھے سیاسی اورمعاشی اصول یا پالیسیاں ترتیب دے لیں ،لیکن اگر اس میں کرپشن اور بدنیتی کا پہلو ہوگا تو کچھ بھی مثبت انداز میں حاصل نہیں ہوگا اور معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں۔

اس وقت اچھی بات یہ ہے کہ پورے ملک کا سیاسی ماحول کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کے خلاف ایک بے لاگ احتساب کی حمایت میں نظر آتا ہے ۔ حکومت ،عدلیہ اور نیب سمیت کئی ادارے اس کی حمایت میںکھڑے اور فعال نظر آتے ہیں ۔ اب اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے افراد اوربالخصوص رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے جن میں میڈیا، اہل دانش، استاد، علمائے کرام ، شاعر، ادیب ، دانشور، صاف ستھری سیاست کے حامل افراد، سول سوسائٹی اور بالخصوص نوجوان طبقہ اس بحث کو اور زیادہ شدت سے بیدار کرے کہ ملک میں احتساب ہو ،لیکن یہ احتساب منصفانہ ، شفاف اور بے لاگ یا بلاتفریق ہو۔یہ جو دلیل دی جاتی ہے کہ احتساب صرف سیاسی مخالفین کا ہی کیوں ۔حکومت میں شامل لوگ کیوں اس دائرہ کار میں نہیں آتے ۔

اس کے لیے بھی رائے عامہ کے اداروں اورافراد کو ریاست اورحکومتی اداروں پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی میں شدت پیدا کرنا ہوگی کہ و ہ لوگ جو حکومت کی چھتری کے نیچے سیاسی پناہ لیے ہوئے ہیں ان کو بھی اس احتساب کے دائرہ کار میںلاکر کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کا خاتمہ یا اسے لگام دیا جائے ،کیونکہ منصفانہ معاشرہ اور شفاف جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام کرپشن کی حمایت کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }